0
Friday 23 May 2014 17:13

ضیاءالحق کی بوئی ہوئی فرقہ واریت کی فصلیں ہماری موجودہ نسیلں کاٹ رہی ہیں، میر صادق عمرانی

ضیاءالحق کی بوئی ہوئی فرقہ واریت کی فصلیں ہماری موجودہ نسیلں کاٹ رہی ہیں، میر صادق عمرانی

میر صادق عمرانی پیپلزپارٹی بلوچستان کے سابقہ صدر ہیں۔ آپ 15 مئی 1955ء کو بلوچستان کے علاقے نصیرآباد میں پیدا ہوئے۔ آپ نے اپنی ابتدائی تعلیم گورنمنٹ ہائی اسکول نصیرآباد سے حاصل کی۔ بعدازاں ماسٹرز کی ڈگری بلوچستان یونیورسٹی سے حاصل کی۔ آپ گذشتہ دور حکومت میں پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر اور صوبائی وزیر سی اینڈ ڈبلیو بھی رہے ہیں۔ گذشتہ دور حکومت میں صوبے میں سرگرم ڈیتھ اسکواڈز کیخلاف اسمبلی فلور پر مذمت بیان کے جرم میں آپکو ریاستی اداروں کی جانب سے وزارت سے ہٹا دیا گیا اور آپکے بھائی کو بھی اکیس دنوں کیلئے اغواء کیا گیا۔ جسکے خلاف آپ نے شدید احتجاج کیا۔ میر صادق عمرانی سے پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کی کارکردگی، بلوچستان کے موجودہ مسائل اور ملک میں جاری دہشتگردی کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: سابقہ حکومت کے دور میں بلوچستان میں انتہائی بدامنی اور کرپشن دیکھنے میں آئی، اسکی وجہ کیا تھی۔؟
صادق عمرانی: صوبہ بلوچستان تو پہلے ہی سے محرومیوں کا شکار تھا، لیکن مشرف کی گھناؤنے پالیسیوں اور نواب بگٹی کی شہادت کے بعد حالات مزید خراب ہو گئے۔ پیپلز پارٹی کے گذشتہ دور حکومت بھی صوبے کے حالات تسلسل سے خراب رہے لیکن ان خراب حالات میں زیادہ تر کردار ریاستی ایجنسیوں کا تھا۔ ریاست اور بلوچوں کے درمیان جاری تشدد سے صوبے کو بےپناہ نقصان پہنچا ہے۔ سابقہ حکومت میں مساجد، امام بارگاہوں، علماء، سیاسی اکابرین، پولیس اور عام شہری سمیت ہر طبقہ فکر کے افراد کو نشانہ بنایا گیا، جو مرکز کی غلط پالیسیوں کا ہی نتیجہ تھا۔

اسلام ٹائمز: کیا خفیہ اداروں پر الزامات لگانا، اپنی نااہلی پر پردہ ڈالنا نہیں۔؟
صادق عمرانی: اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ خراب حالات کی وجہ، حکومتی رٹ کا نہ ہونا ہے لیکن میں آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں۔ ایک مرتبہ ہم قلات سے آ رہے تھے۔ میرے ساتھ صوبائی وزیر داخلہ میر ظفراللہ اور یونس مُلا زئی صاحب بھی موجود تھے۔ جب ہم مستونگ سے گزر رہے تھے، تو میر ظفر اللہ نے مجھ سے کہا کہ ہوشیار رہنا۔ مستونگ کا علاقہ تھوڑا خطرناک ہے۔ اسی اثناء ایک گاڑی ہمارے قافلے کے سامنے پہنچ گئی۔ میر ظفر اللہ نے مجھ سے کہا کہ پہنچ گئے۔ ایک بندہ اُس گاڑی سے اترا اور ہمارے قریب آنے لگا۔ میں نے اس سے پوچھا کہ آپ کون ہو، جو اتنی تیزی سے ہمارے قافلے کے سامنے آ رہے ہو۔؟ تو وہ کہنے لگا کہ میرا نام میجر طارق ہے۔ میر ظفر اللہ صاحب مجھے جانتے ہیں۔ رات کی تاریکی کی وجہ سے میں نے میجر طارق کے گاڑی کے پیچھے ٹارچ ڈالی تو وہاں پر دو بندوں کے ہاتھ اور آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ تو میر ظفر اللہ کہنے لگے کہ یہی تو انکا ڈیتھ اسکواڈ ہے۔ خیر وہاں سے میجر چلے گئے۔ لیکن صبح کو خبر آئی کہ اسی علاقے میں دو لاشیں ملی ہیں۔ میں نے اسمبلی کے فلور پر یہ بات کہی۔ دو دن کے بعد ہمارے گھر پہ چھاپہ مار کر میرے بھائی کو اُٹھا کر لے گئے۔ اکیس دن کے بعد ڈاڈر کے قریب جنگل میں اسے چھوڑ دیا۔ جب میں نے حکام سے اس بارے میں پوچھا تو انکا کہنا تھا کہ یہ ہمارے ہاتھ سے نکل چکا ہے، لہذا یہاں پر سچ بولنا جُرم ہے۔

اسلام ٹائمز:‌ آپکے دور میں شیعہ ہزارہ قوم کے افراد کو چن چن کر مارا گیا، لیکن آپکی پارٹی ٹس سے مس نہ ہوئی۔؟
صادق عمرانی: انسانی جانوں کا بےدریغ ضیاع ملکی سالمیت کیلئے زہر قاتل ہے۔ تسلسل کیساتھ شیعہ ہزارہ قوم کا قتل کھلی دہشت گردی تھی۔ جس کی ہم نے اسمبلی فلور سمیت ہر پلیٹ فارم پر مذمت کی ہے۔ صوبائی دارالحکومت کوئٹہ میں بدامنی کے ذریعے قوم کو تقسیم در تقسیم کرنے کی سازشیں کی گئی۔ جس سے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدیں شدید خطرات سے دوچار ہو چکی ہیں۔ ہمیں اپنے رویوں میں مثبت تبدیلی لاتے ہوئے اور برداشت پیدا کرکے تمام سازشوں کو خالصتاً ملک کی بقاء و سلامتی کیلئے ناکام بنانا ہوگا۔ ملک بھر میں فرقہ واریت کے کانٹے سابق آمر ضیاءالحق کے دور میں بوئے گئے تھے کیونکہ وہ آمر اپنے غیر آئینی، غیر حقیقی اقتدار کو دوام بخشنے کیلئے فرقہ واریت و نسلی تعصبات کو ہوا دیکر ایک ایسے شجر کا بیج بو گیا، جس کی فصل ہماری آنیوالی نسلیں بھی کاٹیں گی۔

پاکستان پر جب بھی آمریت مسلط کی گئی تو نظریہ ضرورت کے علمبرداروں نے بھائی کو بھائی سے لڑا کا اپنے غیرآئینی اقتدار کو طول دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچستان کے روایتی امن کی بحالی کیلئے مثبت لائحہ عمل کیساتھ آگے بڑھا جائے اور بھائی کو بھائی لڑانے کی تمام سازشوں کو قومی یکجہتی کو مدنظر رکھتے ہوئے ناکام بنایا جائے۔ سابقہ دور سے قبل بھی ملک بھر میں دہشتگردی تھی، اور بدقسمتی سے پارٹی کی مرکزی قیادت اسے روکنے میں ناکام رہی لیکن حکومت کو اصل رکاوٹ ایجنسیوں کیجانب سے تھی۔

اسلام ٹائمز: اگر ریاستی ادارے آپکے کام میں رکاوٹ ڈالتے ہیں، تو آپ نے اس سلسلے میں عدلیہ سے کیوں رجوع نہیں کیا۔؟
صادق عمرانی: جناب میں آپ کو کیا بتاؤں، گذشتہ چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کا تعلق ہی بلوچستان سے تھا۔ اقتدار پر قابض ہونے کے بعد انہوں نے نواب اکبر بگٹی کے گھر فاتحہ تک پڑھنے نہیں گئے۔ اسکے برعکس صرف اپنے ذاتی مفادات اور ڈراموں میں مصروف رہے۔ اگر شروع دن سے افتخار چوہدری صاحب بلوچستان کے مسئلے پر ازخود نوٹس لیتے، تو شاید یہ حالات دیکھنے نہ پڑتے۔ بلوچستان میں عدلیہ اور ایجنسیوں سمیت ہر ادارے کی طرف سے زیادتیاں ہیں۔ اس صوبے میں جو لاوا پک رہا ہے، ایک دن یہ پھٹ جائے گا۔ لہذا یہاں پر عدلیہ سمیت تمام اداروں کو مخلص ہوکر اس ملک کیلئے اقدامات اُٹھانے ہونگے۔

اسلام ٹائمز: موجودہ نواز حکومت تو پرویز مشرف کیخلاف کیسز چلا رہی ہیں، تو کیا عدلیہ سابقہ آمر کو سزا دے پائے گی۔؟
صادق عمرانی: مشرف نے آئین توڑا، جمہوریت پر شب خون مارا اور محترمہ بےنظیر بھٹو، نواب محمد اکبر خان بگٹی کے قتل میں نامزد ملزم ہیں۔ ان کیساتھ کسی قسم کی رعایت دینے پر قوم سراپا احتجاج بن جائے گی۔ مشرف نے ملک کا آئین توڑا، جمہوریت پر شپ خون مارا، منتخب وزیراعظم کو بزور طاقت جیل کے اندر ڈالا اور جو شہید جمہوریت محترمہ بےنظیر بھٹو، شہید وطن نواب محمد اکبر خان بگٹی کے قتل میں نامزد ملزم ہیں۔ وہ کسی رعایت کے مستحق نہیں پوری قوم جانتی ہے کہ جو مشرف نے بویا اور آج انہیں بھی وہی کاٹنا پڑ رہا ہے۔ انہیں اگر کوئی رعایت دی گئی تو پوری قوم سراپا احتجاج بن جائے گی۔

اسلام ٹائمز: آپکے علاقے نصیر آباد میں واقع اوچ پاور پلانٹ کے بارے میں آپکے کیا تحفظات ہیں۔؟
صادق عمرانی: اوچ پاور پلانٹ پر انتظامیہ بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیاں کر رہی ہے۔ نصیرآباد کو بجلی اور یہاں کے لوگوں پر روزگار کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ مجبوراً آج نصیرآباد کے عوام اپنے حقوق کیلئے سراپا احتجاج ہیں۔ لوٹ مار کرنے اور عوامی حقوق پر کسی کو ڈاکہ ڈالنے ہرگز نہیں دینگے۔ اوچ پاور پلانٹ ڈیرہ مراد جمالی سے دو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ جب اوچ پاور پلانٹ کی بنیاد رکھی گئی تو اس وقت یہ معاہدہ ہوا تھا کہ ڈیرہ مرادجمالی کو مفت بجلی کی فراہمی اور 80 فیصد افراد نصیرآباد کے بھرتی ہونگے۔ مگر اوچ پاور پلانٹ انتظامیہ نہ صرف معاہدے کی خلاف ورزیاں کررہی ہے، بلکہ بین الاقوامی قوانین کو بھی پامال کیا جا رہا ہے۔ اوچ ون اور اب اوچ ٹو کے قیام کے فوائد ثمرات آج تک نصیرآباد، ڈیرہ مرادجمالی کے عوام کو نہیں مل سکے۔ اوچ پاور پلانٹ میں نصیرآباد اور ڈیرہ مراد جاملی کے عوام پر روزگار کے دروازے بند کر دیئے گئے ہیں۔ بجلی فراہمی کا منصوبہ بھی تعطل کا شکار ہے۔ زیادتیاں، ناانصافیاں اور عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کسی کو بھی اجازت نہیں دینگے۔ اوچ پاور انتظامیہ چند مخصوص افراد کے ہاتھوں یرغمال بن چکی ہے اور ان عناصر نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ جس پر ڈیرہ مرادجمالی اور نصیرآباد کے عوام سراپا احتجاج ہیں۔ انہوں نے کہاکہ اوچ ون اور اوچ ٹو میں معاہدے کے مطابق مقامی افراد کی بھرتی اور بجلی کی فوری فراہمی کا عمل شروع نہ کیا گیا تو پیپلز پارٹی عوام سے ملکر احتجاجی تحریک چلائے گی۔

اسلام ٹائمز: طالبان کیساتھ مذاکرات کو آپ کس طرح‌ دیکھتے ہے۔؟
صادق عمرانی: ملک میں مسلط کردہ آمروں کے ہاتھوں بوئے گئے کانٹے، آج قوم کی روح کو لہولہان کئے ہوئے ہیں۔ نظریہ ضرورت کے یہ علمبردار یہی ایجنڈا لے کر منتخب عوامی حکومتوں پر شب خون مارتے چلے آئے ہیں کہ بھائی کو بھائی سے لڑاؤ اور راج کرو۔ فرقہ واریت، گروہی و لسانی اختلافات کو ہوا دے کر ایک ایسی نہ رکنے والی آگ آمرانہ دور میں بھڑکائی گئی، جس سے ملک کی نظریاتی و جغرافیائی اکائیاں ناقابل تلافی نقصان سے دوچار ہوتی چلی گئیں۔ اپنی ذات کے حصار میں قید یہ عناصر خود تو جیتے جی زندہ درگور ہوگئے، مگر ان کی ناقابل معاف غلطیوں کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ ملک کی تمام سیاسی قوتیں بشمول عوام ایک جھنڈے تلے متحد رہتے ہوئے ان ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے اٹھ کھڑے ہوں کیونکہ ان گھمبیر حالات میں یہ کسی فرد واحد یا حکومت کا مسئلہ نہیں۔ بلکہ یہ قومی بقاء و استحکام پاکستان کا مسئلہ بن چکا ہے۔ مذاکرات کے سبھی دروازے بند کرلینا بھی حالات کے سدھار کے منافی ثابت ہو سکتا ہے۔ جو قوتیں اپنے غصب شدہ حقوق کی بحالی کیلئے برسرپیکار ہیں، انہیں ملک کی نظریاتی اکائیوں کو تسلیم کرتے ہوئے استحکام وطن کی جاری جدوجہد کو منزل سے ہمکنار کرنا ہوگا کیونکہ ایک مستحکم پاکستان ہی ہماری آنے والی نسلوں اور خود ہماری نجات کی ضمانت فراہم کر سکتا ہے۔ ورنہ سامراجی طاقتیں اس بڑھتے ہوئے انتشار کے باعث ہمیں صفحہ ہستی سے مٹا دینے کے درپے ہیں۔ فکری سوچ اور آپس کا اتحاد ہی قوم کو ان ناکردہ گناہوں سے نجات دلوا سکتا ہے۔

خبر کا کوڈ : 385459
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش