2
Sunday 1 Jul 2018 18:51
سوچی سمجھی سکیم کے تحت فورتھ شیڈول میں شامل افراد کو اہل قرار دیا گیا ہے

پاکستان کی تکفیری کالعدم جماعتیں عالمی دہشتگرد تنظیموں سے رابطے میں ہیں، سید راشد رضوی

یہی رویہ رہا تو منظور پشتین کیطرح اور بھی بہت سارے لوگ کھڑے ہو جائینگے، کس کس کا منہ بند کرینگے
پاکستان کی تکفیری کالعدم جماعتیں عالمی دہشتگرد تنظیموں سے رابطے میں ہیں، سید راشد رضوی
سید راشد عباس رضوی ایڈووکیٹ پاسبان عزا پاکستان کے صدر ہیں۔ یہ تنظیم کراچی کی سطح پہ عزاداری کے اجتماعات کے انعقاد کے سلسلے میں خدمات سرانجام دیتی ہے۔ بنیادی طور پر حیدرآباد سے تعلق رکھتے ہیں۔ انکی پیدائش اور ابتدائی تعلیم حیدر آباد سے ہے۔ انہوں نے سندھ یونیورسٹی سے ایم بی اے کیا ہے۔ یہ براہ راست کسی سیاسی یا قومی جماعت سے تعلق نہیں رکھتے، تاہم پاکستان میں تکفیری گروہوں کی سرگرمیوں کے سامنے بند باندھنے کیلئے قانونی اور اخلاقی جنگ میں مصروف ہیں۔ حالیہ انتخابات میں قومی و صوبائی اسمبلی سندھ این اے 254 اور پی ایس 125 سے بیک وقت حصہ لے رہے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے تکفیری گروہوں سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی سے تعلق رکھنے والے دہشتگردوں کی انتخابی سرگرمیوں پہ عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹایا ہے۔ علاوہ ازیں وہ کالعدم جماعتیں جو نام بدل کر دوبارہ اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں، انکی سرگرمیوں کیخلاف بھی آواز بلند کئے ہوئے ہیں۔ انکی درخواست پہ عدالت کیجانب سے راہ حق پارٹی (سپاہ صحابہ) کو کلین چٹ دینے کے معاملے پہ اسلام ٹائمز نے ان سے ایک تفصیلی نشست کا اہتمام کیا۔ جسکا احوال انٹرویو کیصورت پیش خدمت ہے۔ اس انٹرویو میں سید راشد رضوی نے ملک میں تکفیری گروہوں کی سرگرمیاں اور ہمارے عدالتی و قانونی نظام میں پائے جانیوالے سقم پہ تفصیل سے بات کی ہے۔(ادارہ)

اسلام ٹائمز: آپ تکفیری گروہوں کیخلاف عدالت تک گئے، بنیادی طور پر یہ تکفیر ازم ہے کیا۔؟
سید راشد رضوی:
تکفیر ازم ایک سوچ ہے، ایک نظریہ ہے، جس میں اپنے سوا دوسروں پہ کفر کے فتوے عائد کرکے انہیں دائرہ اسلام سے جبری طور پر خارج قرار دیا جا رہا ہے۔ یہ کفر کے فتوے شیعہ کے خلاف بھی ہیں اور سنیوں کے خلاف بھی۔ میں اس سوچ و نظریئے کا مخالف ہوں۔ پاکستان کی بیشتر آبادی اس نظریئے کی مخالف ہے۔ دین اسلام میں جبر نہیں ہے۔ ہر انسان کو آزادی کے ساتھ اپنی مذہبی رسومات کی ادائیگی کا حق حاصل ہے۔ کسی کو یہ حق حاصل نہیں کہ وہ جبر، بندوق یا قتل و غارت گری کے ذریعے اپنا عقیدہ دوسروں پہ مسلط کرے، مکالمہ ہوسکتا ہے۔ تکفیر شدت پسندی ہے، مذہبی انتہاء پسندی ہے، یہ نہ صرف عالم اسلام بلکہ پاکستان کیلئے بھی زہر قاتل ہے۔ مذہبی جنونیت ہی تکفیر کا روپ دھارتی ہے۔ تکفیریت کسی بھی فرقہ، مسلک، قوم یا زبان سے منسلک نہیں بلکہ کسی بھی فرقہ، مسلک میں ہوسکتی ہے۔ موجودہ وقت میں اگر تکفیری نمائندہ گروہوں کا ذکر کروں تو وہ لشکر جھنگوی ہے، سپاہ صحابہ ہے۔ اگر منظر عام پہ آنے والے نئے چہروں کو دیکھیں تو تحریک لبیک یارسول اللہ کا خادم حسین رضوی ہے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ میں ان کے عقیدے کو غلط نہیں کہہ رہا، ان کی اس سوچ کو غلط کہہ رہا ہوں۔ اگر سپاہ صحابہ کا عقیدہ دیوبندی ہے، تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ دیوبندی عقیدہ ہی تکفیریت ہے یا وہ غلط ہے، ایسا نہیں ہے۔ اس فرقہ میں بہت اچھے لوگ بھی ہیں، بہت نمایاں لوگ بھی ہیں۔ اسی طرح اہلسنت میں بھی بیشتر افراد کا عقیدہ اور سوچ بہترین ہے۔ بنیادی طور پہ ان دونوں عقیدوں میں مسئلہ نہیں ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ ان مسالک میں کوئی بھی ایسا گروہ اٹھ کر کھڑا ہو جاتا ہے اور اپنا خود ساختہ ایک ایسا نظریہ پیش کرکے دوسروں کی تکفیر و تحریف شروع کر دیتا ہے۔ وہ عقیدے کا پردہ اوڑھ کر اپنا ہی ایجنڈا مسلط کرتے ہیں۔ لوگوں کو اکساتے ہیں، دوسروں پہ کفر کے فتوے عائد کرکے قتل و غارت گری، بدامنی، شدت پسندی کے ذریعے پورے معاشرے کا امن و سکون تہہ بالا کرتے ہیں۔ یہی سوچ، یہی لوگ اسلام اور پاکستان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچانے کا باعث ہیں اور اسی سے عالم اسلام کا اتحاد، اتحاد بین المسلمین کو بھی ناقابل
تلافی نقصان پہنچ رہا ہے۔ تکفیری گروہوں کے زیر اہتمام کفر ریلیوں، جلسوں، جلوسوں میں کفر کے نعرے لگائے گئے، جس سے وحدت کو شدید نقصان پہنچا۔ فرقہ واریت کی آگ بھڑکی۔ اس کے خلاف جب آواز اٹھی تو کئی جماعتوں کو کالعدم قرار دیا گیا۔


اسلام ٹائمز: کس بنیاد پہ آپ نے ان گروہوں کو انتخابات میں حصہ لینے سے روکنے کی درخواست کی اور عدالت کیجانب سے کس دلیل کی بنیاد پہ آپکی درخواست خارج ہوئی۔؟
سید راشد رضوی:
نیشنل ایکشن پلان کے تحت ان گروہوں کی سرگرمیوں پہ پابندی عائد کی گئی اور اسی پلان میں یہ بھی لکھا ہوا ہے کہ ان تکفیری کالعدم گروہوں کو نام بدل کر بھی کام کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ تاہم ہو یہ رہا ہے کہ سپاہ صحابہ سے نام بدل کر اہلسنت والجماعت اور اس کے بعد راہ حق پارٹی کے نام سے سرگرم ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ کس قانون کے تحت انہیں یہ اجازت حاصل ہے۔؟ جب قانون بنایا جائے اور اس پہ عملدرآمد نہ ہو تو پھر ملک میں امن کیسے قائم ہوگا۔ چنانچہ اسی قانون عملدرآمد کی درخواست کے ساتھ ہم کورٹ میں گئے کہ نام بدل کر کام کرنے والی کالعدم جماعتوں کی سرگرمیوں پہ پابندی عائد کی جائے اور انہیں حالیہ انتخابات میں شرکت سے روکا جائے۔ ہم نے چھ پوانٹس پہ بات کی تھی۔ پہلی بات تو یہ کہ جو لوگ فورتھ شیڈول میں شامل ہیں اور انہیں عوامی اجتماعات میں جانے کی اجازت نہیں تو وہ کیسے انتخابات میں حصہ لے سکتے ہیں۔

نیشنل ایکشن پلان میں جب کالعدم جماعتیں نام بدل کر کام نہ کرنے کی پابند ہیں تو یہ گروہ نام بدل کر کیسے کام کر رہے ہیں۔ سپریم کورٹ کے مطابق بیان حلفی کاغذات نامزدگی کا لازمی حصہ ہے۔ ہم نے بیان حلفی میں سے دو پوانٹس پہ بات کی۔ بیان حلفی میں جھوٹ لکھنے سے امیدوار امین و صادق نہیں رہتا اور نااہل قرار پاتا ہے۔ اس بیان حلفی میں اورنگزیب فاروقی کو پوائنٹ آوٹ کیا۔ سب کو پتہ ہے کہ مشہور زمانہ دہشتگرد ہے، شیڈول فور میں شامل ہے۔ اس کے بیان حلفی میں ایک کالم ہے، جس میں تین سال کے کیسز کی تفصیل دینا ہوتی ہے۔ اورنگزیب فاروقی نے اپنے بیان حلفی میں لکھا کہ تین سال میں اس پہ کوئی کیس نہیں ہے۔ جج صاحب کو ہم نے شہید خرم ذکی کی ایف آئی آر بھی دکھائی اور بیان حلفی بھی ان کے سامنے رکھا کہ یہ کیس ہے، جس میں یہ دہشتگرد نامزد ہے اور یہ بیان حلفی ہے اس کا، جس میں اس نے جھوٹ بولا ہے۔ اس کے علاوہ بیان حلفی میں گذشتہ تین سالوں کے بیرونی ممالک کا سفر بھی ظاہر کرنا پڑتا ہے۔ اورنگزیب فاروقی نے اس میں جھوٹ بولا ہوا تھا۔

ہم نے ثبوت بھی پیش کئے کہ دو سال پہلے یہ سعودی عرب گئے تھے۔ عمرے پہ جانا سعادت ہے لیکن اس کو چھپانا درست نہیں۔ ہم نے عمرے پہ نہیں بلکہ اس سفر کو چھپانے پہ اعتراض کیا۔ اس کو چھپانے کا مقصد بنیادی طور پر وہ اثاثے اور وہ ذرائع آمدن چھپانا ہوتا ہے کہ جس کے ذریعے یہ سفر کیا گیا۔ ہم نے اس کے بھی ثبوت پیش کئے۔ یہ بڑا ہائی پروفائل کیس تھا، تمام لوگ موجود تھے۔ تمام دلیلوں کے باوجود جج صاحب نے کوئی کمنٹس دیئے بغیر فقط اتنا ہی کہا کہ دلیل کمزور ہے، لہذا میں پٹیشن خارج کرتا ہوں۔ اب ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی چارہ نہیں کہ ہم اپیل میں جائیں۔ یہ ایک ناسمجھ میں آنے والا فیصلہ ہے، کیونکہ بیان حلفی سپریم کورٹ کے حکم پہ رکھا گیا ہے اور اگر بیان حلفی ہی جھوٹا ثابت ہو جائے تو پھر بیان حلفی کی وقعت ہی ختم ہوگئی۔ ہمیں یہ سمجھ آئی کہ مولانا لدھیانوی کو جھنگ سے کلیئر کر دیا گیا، انہیں فورتھ شیدول سے نکال دیا گیا۔ مسرور جھنگوی کو کلین چٹ دی گئی۔ معاویہ اعظم کو بھی کلیئر کر دیا گیا، اورنگزیب فاروقی کو کلیئر کیا گیا، یہ سب لوگ شیڈول فور میں شامل دہشتگرد ہیں۔ ہمیں سمجھ یہی آتی
ہے کہ پشاور سے کراچی تک ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت یہ کام ہو رہا ہے اور دہشتگردوں کو کلیئر کرکے انہیں انتخابات میں اتارا جا رہا ہے۔


اسلام ٹائمز: تکفیری گروہوں، کالعدم جماعتوں کی سرگرمیاں روکنے کیلئے کونسے اقدامات ناگزیر ہیں۔؟
سید راشد رضوی:
جب تک کالعدم جماعتوں پہ حقیقی پابندی نہیں ہوگی، اس وقت تک ملک میں پائیدار امن ممکن نہیں ہے۔ آپ اپنے کاغذوں میں، فہرستوں میں ان پہ پابندی عائد کریں۔ کالعدم جماعتوں کے سرغنوں کے نام فورتھ شیڈول میں شامل کرلیں، لیکن جب تک اس کا حقیقی معنوں میں اطلاق نہیں ہوتا تو اس وقت یہ سب بے فائدہ و بے سود ہے۔ اگر الیکشن کمیشن انہی کالعدم جماعتوں کو، پابندی زدہ لوگوں کو الیکشن لڑنے کی اجازت دیتا ہے تو پھر یہ سب ڈھونگ، دھوکے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ دہشتگردی کا اس وقت تک خاتمہ قطعاً ممکن نہیں کہ جب تک دہشتگردوں کے ساتھ نرمی برت کر یا نظریہ ضرورت کے تحت انہیں سپیس دی جائے تو اس وقت تک بدامنی کا خاتمہ ممکن نہیں۔ پاکستان میں جتنی بھی کالعدم جماعتیں کام کر رہی ہیں، ان سب کے بین الاقوامی دہشتگرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات ہیں۔ چاہے وہ داعش ہو، القاعدہ ہو یا کوئی اور۔ انہی کی سرگرمیوں کی وجہ سے پاکستان کا عام شہری خود کو غیر محفوظ سمجھتا ہے اور یہاں تک کہ پاکستان بھی غیر محفوظ تصور ہوتا ہے، کیونکہ عوام کے جان و مال کا تحفظ اس وقت تک ممکن نہیں کہ جب تک ان دہشتگرد تنظیموں کے اوپر حقیقی پابندی نہیں لگائی جاتی اور ان کی کمک و سہولیات کی تمام راہیں مسدود نہیں کی جاتیں۔

اسلام ٹائمز: کالعدم جماعت الدعوۃ کی ملی مسلم لیگ پہ تو پابندی قائم ہے، پھر سپاہ صحابہ کو راہ حق پارٹی کے نام سے انتخابات لڑنے کی اجازت کیسے ملی۔؟
سید راشد رضوی:
کالعدم جماعت الدعوۃ پہ عالمی سطح پہ پابندی ہے۔ اس نے نام بدل کر اپنے آپ کو ملی مسلم لیگ کے نام سے رجسڑڈ کرایا، تاہم اسے اجازت نہیں دی گئی، الیکشن لڑنے کی۔ اہلسنت والجماعت کو راہ حق پارٹی کے نام سے الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی گئی۔ بنیادی طور پر یہ دہرا معیار ہے کہ جہاں ایک کالعدم جماعت پابندی کی زد میں ہے اور دوسری سے پابندی ہٹا لی گئی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جماعت الدعوۃ پاکستان کے اندر کسی بھی قسم کی دہشتگردی یا فرقہ وارانہ کارروائیوں میں ملوث نہیں ہے، تاہم یہ بھی حقیقت ہے کہ جب کوئی بھی ایسی جماعت ریاستی سرپرستی میں سرگرم ہو اور بیرونی دراندازی میں اس کا نام آرہا ہو تو دنیا نے اپنی آنکھیں کوئی بند تو نہیں کی ہوتیں اور اس کا نقصان تو ہماری داخلی پالیسی کو لامحالہ اٹھانا پڑے گا۔ اگر مقبوضہ کشمیر میں جماعت الدعوۃ کو دراندازی کیلئے بھیجا جائے تو حریت پسند جو کہ آزادی کی لڑائی لڑ رہے ہیں، ان کے اندر جب بیرونی گروہ انجیکٹ ہوں تو وہ حریت پسند تو مظلوم سے ظالم قرار پائیں گے۔

یہ ایک غلط حکمت عملی ہے کہ کوئی ایسا گروہ کھڑا کیا جائے اور اسے یہ ٹاسک سونپا جائے کہ تم نے داخلی نہیں بلکہ خارجی معاملات دیکھنے ہیں۔ وہاں جا کر لڑنا ہے، حریت پسندوں کی مدد کرنی ہے۔ میرے خیال میں کشمیر کی آزادی کی لڑائی کی مدد کرنے کے اور بہت سے طریقے ہیں۔ ان کی اخلاقی مدد کی جائے۔ ان کی آواز کو دنیا میں اٹھایا جائے۔ یہ ہرگز نہ کیا جائے کہ یہاں سے دہشتگرد تیار کرکے وہاں بھیجے جائیں۔ یہ تو انتہائی غلط حکمت عملی ہے۔ دہشتگردی ملک کے اندر ہو یا کوئی ایسا گروہ ریاستی چھتر چھایا میں پلے کہ جس پہ خارجی دہشتگردی کا الزام ہو، دونوں ہی صورتوں میں نقصان پاکستان کو ہوگا۔ دونوں ہی صورتوں میں پاکستان مختلف عالمی پابندیوں کی زد میں آئیگا۔ اندرونی دہشتگردی کو سپورٹ کریں گے تو شہری غیر محفوظ ہوں گے اور
بیرونی دہشتگردی سے بین الاقوامی پابندیاں عائد ہوگی۔ معاشی بدحالی آئیگی اور اس کا شکار بھی عام شہری نے ہی ہونا ہے۔


اسلام ٹائمز: آپکے خیال میں پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل کئے جانیکے محرکات میں ان گروہوں کی سرگرمیاں بھی شامل ہیں اور اسکے اثرات کیا ہونگے۔؟
سید راشد رضوی:
ایف اے ٹی ایف نے انہی وجوہات اور انہی الزامات کے باعث پاکستان کو گرے لسٹ میں شامل رکھا ہے۔ ہمارے پاس تین مہینے کا وقت تھا، اپنے آپ کو اس لسٹ سے باہر نکلوانے کیلئے، تاہم ہماری جانب سے ایسے اقدامات نہیں کئے گئے، جو عالمی برادری کیلئے قابل اطمینان ہوں۔ گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے ہماری دلچسپی آج بھی نہیں ہے، یہی عدم دلچسپی ظاہر کرتی ہے کہ ہم پاکستان سے مخلص نہیں ہیں۔ پاکستان کے پالیسی ساز ادارے اگر مخلص ہوتے تو اس گرے لسٹ سے پاکستان کو باہر نکلنے کیلئے ضروری اقدامات کا تعین کرکے اس پہ عملدرآمد ضرور کرتے۔ تمام ایسے گروہوں کو کہ جو اندرونی دہشتگردی میں ملوث ہوں یا بیرونی دہشتگردی میں ملوث ہوں، ان تمام کی سرگرمیاں حقیقی طور پر بند کرانی چاہیئے تھی۔ تاہم کام اس کے بالکل الٹ ہوا۔ ان گروہوں، ان افراد سے پابندیاں ہٹا کر، ان کے نام فورتھ شیڈول سے خارج کرکے، انہیں کلین چٹ دیکر انہیں الیکشن لڑنے کی اجازت دیدی۔

اب پوری دنیا کو کیا پیغام جا رہا ہے۔ کیا یہ سامان پیدا کیا جا رہا ہے کہ گرے لسٹ سے تین ماہ کے بعد ستمبر میں پاکستان کا نام بلیک لسٹ میں چلا جائے۔ بلیک لسٹ میں جانے کے بعد جو پابندیاں لگیں تو ملک کو ایک نئے معاشی بحران کے حوالے کر دیا جائے۔ چنانچہ یہ کسی بھی صورت قابل اطمینان بات نہیں بلکہ ہر صاحب شعور پاکستانی کیلئے باعث تشویش ہے۔ یہ تین مہینے بھی ہمارے پاس ایک موقع ہے، اپنے اقدامات سے، حکمت عملی اور پالیسی سے ایسے اقدامات کریں کہ جو پائیدار امن کا باعث بھی ہوں اور عالمی برادری کیلئے بھی باعث اطمینان۔ چیمبر آف کامرس اور ٹریڈ یونینز کو بھی نوٹس لینا چاہیے، انہیں بھی کالعدم جماعتوں کے آن بورڈ آنے اور انہیں کلین چٹ دینے کے خلاف سڑکوں پہ آنا چاہیئے اور گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے درکار اقدامات کا مطالبہ کرنا چاہیئے حکومت سے۔ پاکستان کیلئے، معاشی طور پر بہتر پاکستان کیلئے حکومت کو ان دہشتگرد گروہوں، کالعدم گروہوں کے خلاف مناسب کارروائی کرنی ہوگی۔


اسلام ٹائمز: آخر ریاست ان تکفیری دہشتگرد گروہوں کے نمائندوں کو پارلیمنٹ میں لاکر کن مقاصد کا حصول چاہتی ہے۔؟
سید راشد رضوی:
کچھ عرصہ پہلے پیغام پاکستان نامی کانفرنس کا ایک بیانیہ ہوا۔ جس میں کالعدم جماعتوں کو ان ریاستی اداروں نے ایک ساتھ بٹھایا تھا۔ جب ان کو بٹھایا تھا تو ان سے کہا گیا تھا کہ آپ یہ کفر کے فتوے لگانے بند کریں تو اس کے بدلے میں ہم آپ کو اسمبلیوں اور پارلیمنٹ تک جانے کیلئے محفوظ راستہ دیں گے۔ آپ نے جو کچھ بھی کرنا ہے، وہ آپ آئین اور قانون سازی کے ذریعے کریں۔ یہ انتہائی خطرناک ہے کہ جو مجمع عام میں سڑکوں کے اوپر کفر کے نعرے لگا رہا ہے، لوگوں کو شدت پسندی پہ اکسا رہا ہے، اسے محفوظ راستہ دیں۔ یعنی ایک غلط کام روکنے کیلئے دوسرا غلط اقدام اٹھایا جائے۔ چور کو ساہو کار بنانے والا طریقہ ہے یہ۔ لوگوں پہ بم دھماکے کرنے والے کو، دہشتگردی کرنے والے کو پارلیمنٹ میں جانے کا راستہ دیں، وہاں حکومتی سرپرستی میں یہ کریں۔ درگاہوں پہ، سکولوں پہ، اے پی ایس کے کرنے والوں کو، کوئٹہ میں سنچریاں مارنے پہ خوشی کا اظہار کرنے والوں کو انتخاب میں اترنے کی اجازت دیں۔ یہ لوگ، یہ مائنڈ سیٹ جب پارلیمنٹ میں پہنچے گا تو یہ کیسی قانون سازی کرے گا۔ یعنی انتہاء پسندی، جبر کے نظام کو آئینی و قانونی تحفظ دینے
کے مترادف ہے۔ مجرم کو سزا دینی چاہیئے، نہ کہ اسے تحفظ اور حکومت دینے کی کوشش کرنی چاہیئے۔ پیغام پاکستان کے نام پر انہیں کہا جائے کہ نعرے نہ لگاو بلکہ اپنے ایجنڈے کو قانونی طریقے سے پایہ تکمیل تک پہنچاو۔ ہمیں یہ فیصلہ کرنا ہے کہ کیا قانون سازی کا حق ایسے افراد کے ہاتھوں میں دینا چاہیئے۔ جب یہ حکومت میں ہوں تو کیا نچلی سطح پہ ہونے والی دہشتگردی کو ان کی تائید، حمایت اور سپورٹ حاصل نہیں ہوگی۔ دہشتگردی ختم نہیں ہوگی بلکہ بڑھے گی۔


اسلام ٹائمز: پورا پاکستان ہی دہشتگردی کا شکار ہے، پھر شیعہ نسل کشی جیسی ٹرم کیوں استعمال ہو رہی ہے۔؟
سید راشد رضوی:
پاکستان میں جو اسی ہزار پاکستانی مارے گئے ہیں، اس میں شیعہ بھی ہیں اور سنی بھی ہیں۔ درگاہوں پہ ہونے والوں حملوں میں بری امام، داتا صاحب، عبداللہ شاہ غازی، شاہ نورانی، عوامی مقامات، پارکس، سکولز میں جو واقعات ہوئے ہیں۔ ان میں شیعہ بھی نشانہ بنے اور سنی بھی۔ تکفیری مائنڈ سیٹ دونوں کا دشمن ہے۔ یہ بات الگ ہے کہ شیعہ اجتماعات کو بھی نشانہ بنایا گیا ہے اور زیادہ بنایا گیا ہے، تاہم وہ زیادہ نمایاں اس لئے ہوتے ہیں کہ وہاں سکیورٹی کے انتظامات ہوتے ہیں۔ عام دنوں میں ہونے والے واقعات اور محرم یا خاص مواقع پہ ہونے والے واقعات کی حساسیت میں فرق ہوتا ہے۔ مسلک کی بنیاد پہ جہاں بھی نام میں علی آیا، حسن آیا، حسین آیا، عباس آیا، تو اسے قتل کر دیا گیا۔ ڈاکٹرز،انجنیئرز ، آفیشلز نشانہ بن گئے۔

شیعہ نسل کشی کی ٹرم بھی اس وجہ سے معروف ہوئی کیونکہ شناختی کارڈز دیکھ کر نشانہ بنایا گیا۔ خاص طور پر ان کے اجتماعات کو نشانہ بنایا گیا۔ دیگر مسالک کو شناختی کارڈز چیک کرکے نہیں مارا گیا۔ یہ بات بھی اہم ہے کہ ان واقعات کے نتیجے میں نہ ہی کسی شیعہ نے کسی سنی کو اور نہ کسی سنی نے کسی شیعہ کو نشانہ بنایا۔ یعنی فرقہ واریت کی جس آگ میں ملک کو جھونکنے کی کوشش کی گئی، الحمد اللہ وہ ناکامی سے دوچار ہوئی۔ پاکستان کے شیعہ سنی یہ بات اچھی سمجھتے ہیں کہ یہ کوئی فرقہ واریت نہیں بلکہ دہشتگردی ہے۔ جس کا نشانہ سبھی پاکستانی وقفے وقفے سے بن رہے ہیں۔ یہ تکفیری گروہ ہیں، جو کہ نہ شیعہ کو چھوڑتے ہیں، نہ سنی کو، نہ عیسائی کو، نہ احمدی کو اور نہ ہی آغا خانیوں کو۔ فرقہ واریت مسئلہ نہیں بلکہ تکفیرازم مسئلہ ہے، جو کہ محفوظ اور شاد پاکستان کی راہ میں حائل ہے۔


اسلام ٹائمز: مسنگ پرسنز کی تحریک بھی چلی، کس حد تک کامیابی ملی۔؟
سید راشد رضوی:
جبری گمشدگیوں کے معاملے پہ میں گذشتہ دو سال سے ایک تحریک چلا رہا ہوں۔ یہ تحریک پریس کلب سے شروع کی، جو کہ پارلیمنٹ تک پہنچی۔ رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، علی رضا عابدی اور کئی ایم این اے، ایم پی ایز نے اس پہ آواز بلند کی۔ اس تحریک میں جیل بھرو تحریک بھی ہوئی۔ بھوک ہڑتالیں بھی ہوئیں۔ سڑکوں پہ احتجاج بھی ہوئے۔ نہ صرف یہ کہ بلکہ سپریم کورٹ رجسٹری کے سامنے بھی احتجاج ہوا، چیف جسٹس سے بھی ملاقات ہوئی۔ ہم اس نتیجے پہ پہنچے کہ جو ریاستی ادارے ہیں، ان سے جواب طلبی کیلئے ہر کوئی ڈرتا ہے۔ ہم نے اس تحریک کے نتیجے میں بیس سے زائد افراد کو آزاد کرایا۔ اس تحریک میں ہیومن رائٹس پاکستان بھی ہمارے ساتھ کھڑی ہوئی۔ سول سوسائٹی نے بھی ساتھ دیا۔ طاقت پیدا ہوئی۔ نہ صرف شیعہ بلکہ دیگر مسالک، اقلیتوں کیلئے بھی ہم نے آواز اٹھائی۔ شروع سے آج تک ہمارا مطالبہ یہی ہے کہ پاکستان کے اندر آرٹیکل دس کا نفاذ ہونا چاہیے۔ یہ آرٹیکل کہتا ہے کہ جو بھی مجرم ہے، اسے چوبیس گھنٹوں کے اندر عدالت میں پیش کریں، چاہے وہ کوئی بھی ہے۔

کراچی میں رینجرز کو اگر اضافی اختیارات بھی دیئے گئے تو بھی وہ پابند ہیں کہ چوبیس
گھنٹے میں وہ گرفتار شخص کو جج کے سامنے پیش کریں، گم نہیں کرسکتے۔ آئین و دستور کا نفاذ ہی مضبوط و مستحکم پاکستان کی علامت ہے۔ اگر ریاستی ادارے ہی آئین و دستور کی خلاف ورزی کریں تو عوام سے کیسے یہ توقع کرسکتے ہیں کہ وہ اس کی پابندی کریں۔ سب سے پہلے تو وردی والوں نے آئین و قانون کی پابندی کرکے اپنے آپ کو رول ماڈل کے طور پر پیش کرنا ہے، مگر افسوس۔ دیکھا یہ گیا ہے کہ عرصہ دو سال، تین سال، پانچ سال سے لوگوں کو غائب کیا ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ان کے گھر والوں کو بھی نہیں پتہ کہ ان کے پیارے زندہ بھی ہیں یا مار دیئے گئے۔ بہرحال سپریم کورٹ آف پاکستان نے اس پہ سوموٹو لیا ہے اور ایک سپیشل سیل بنایا ہے۔ امید کرتے ہیں کہ کوئی بہتر نتائج برآمد ہوں گے۔ ابھی تک کی جدوجہد میں یہ دیکھا گیا ہے کہ نیچے سے اوپر تک سب لوگ ڈرتے ہیں۔ حکومتیں بھی ڈرتی ہیں۔ اس حساس مسئلے پہ کسی سیاسی جماعت نے بات نہیں کی، یہ سیاسی جماعتیں بھی لاپتہ افراد کے بارے میں بات کرکے خود کو خراب نہیں کرنا چاہتیں۔ یہ بھی فری ہینڈ چاہتی ہیں اور ان اداروں سے تعلقات میں بگاڑ نہیں چاہتیں۔

لاپتہ افراد کی فیملیز خود کو بے یارومددگار تصور کرتی ہیں، تاہم اس تحریک میں ہمیں مظلوم افراد کی مدد ملی، ہیومن رائٹس کے اداروں نے ہمارا ساتھ دیا۔ عالمی نشریاتی اداروں نے اس پہ بات کی ہے۔ کسی نے کوئی بھی جرم کیا ہے، اسے عدالت میں پیش کریں، اسے بنیادی حقوق تو فراہم کریں۔ یہ کسی صورت قابل قبول نہیں کہ اغوا کرکے غیر قانونی تشدد گاہوں میں انہیں ڈال دیا جائے، ان پہ غیر انسانی تشدد کیا جائے، پھر دوسال کے بعد یہ کہہ کر اسے چھوڑ دیا جائے کہ آپ تو بے گناہ تھے۔ اس عرصے میں جو کچھ ان گھر والوں پہ گزری، معاشرے میں انہیں جس کیفیت سے گزرنا پڑا، اس کا حساب اور جواب کون دیگا۔ جبری گمشدگیوں کی نہ قانون اجازت دیتا ہے اور نہ آئین دیتا ہے۔ اگر یہی رویہ رہا تو اس کا نتیجہ کیا برآمد ہوگا۔ جیسے منظور پشتین کھڑا ہوگیا ہے۔ ایسے اور بھی اٹھ کھڑے ہوں گے، ان کے اندر کا لاوا بھی باہر آجائیگا،
کس کس کا منہ بند کرینگے۔

اسلام ٹائمز: قومی و صوبائی اسمبلی سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں، آپکے منشور میں کیا خاص بات ہے۔؟
سید راشد رضوی:
میں قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کیلئے انتخاب میں حصہ لے رہا ہوں، میں نے اپنا جو منشور پیش کیا ہے، وہ دوسروں سے بہت مختلف ہے، بہت الگ ہے۔ میں نے منشور میں لکھا ہے کہ تکفیریت کا خاتمہ، تکفیریت کے خاتمے سے مراد اس جبر کا خاتمہ کہ کسی پہ آپ اپنا نظریہ بندوق کے زور پہ مسلط کریں۔ دوسرے نمبر پہ میں نے جبری گمشدگیوں کے خاتمے کی بات کی ہے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی کے منشور میں یہ چیز شامل ہو۔ دونوں کا تعلق براہ راست انسانی حقوق سے ہے۔ میں نے منشور میں عوامی مسائل بھی رکھے ہیں۔ جیسے پانی، کراچی میں پانی بڑا مسئلہ ہے۔ گرچہ پانی کی کمی نہیں، مگر پانی روکا جا رہا ہے۔ تاہم واسا کی ملی بھگت سے یہ پانی بیچا جا رہا ہے۔ ڈیم بنائے جائیں، گرین بلٹس بنائے جائیں۔ درختوں کی کٹائی کی وجہ سے ایک سال تک بارش ہی نہیں ہو رہی۔ بیروزگاری کا خاتمہ ہے۔ نوکریاں یہاں بیچی جاتی ہیں۔ سندھ حکومت روزگار کے معاملے میں انتہائی کرپٹ ہے۔ کوٹہ سسٹم غیر منصفانہ ہے، جو کہ مختلف کمیونیٹز کے مابین نفرت بو رہا ہے۔ سندھ میں کوٹے کی بنیاد پہ اہل افراد کا راستہ روکا جاتا ہے اور نااہل افراد کو نوازا جاتا ہے۔ یہ نظام ختم کرنا ہوگا۔ یہ میرے منشور کا حصہ ہے۔ نئی قیادت میں ڈیفنس سے جبران ناصر الیکشن لڑ رہا ہے۔ میڈیا کی نظریں سماجی کارکنوں پہ ہیں۔ نئی نسل سے جو اچھی قیادت سامنے آرہی ہے، میڈیا کو انہیں سپورٹ کرنا چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 734930
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش