0
Tuesday 20 Dec 2011 01:09

مذہبی جماعتوں کی کانفرنس، عسکری قیادت کا پیغام

مذہبی جماعتوں کی کانفرنس، عسکری قیادت کا پیغام
تحریر:نذیر علی ناظر
 
مینار پاکستان لاہور میں منعقد ہونے والی دفاع پاکستان کانفرنس بلاشبہ دفاع پاکستان کونسل کی طرف سے ایک بڑا اجتماع تھا۔ جو عمران خان کے 30 اکتوبر کے جلسے سے بڑا تھا اور کیوں نہ ہوتا کیونکہ جماعت الدعوۃ کے کارکن اور دینی مدرسوں کے طلباء سب اس میں شامل تھے۔ کم و بیش 35 دیوبندی اور اہل حدیث جماعتوں کے کارکنوں کی شرکت اور پچاس سے ستر ہزار کارکنوں کی موجودگی کا دعویٰ کیا گیا۔ اس میں مبالغے کی گنجائش نہیں، لیکن تعداد سے بھی زیادہ اہم بات یہ ہے کہ پاکستان کے موجودہ حالات کے تناظر میں اس کانفرنس کو سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیے کہ لشکر طیبہ کا دوسرا نام جماعت الدعوۃ کس ایجنڈے پر کام کرتی ہے۔

میمو اسکینڈل اور نیٹو فورسز کے حملے نے حکومت کو کچھ اس طرح سے الجھایا ہے کہ بھارت کو تجارت کے لئے پسندیدہ ملک قرار دینے کے حوالے سے منصوبے اور مباحثے پیچھے رہ گئے۔ جب میمو اسکینڈل میڈیا میں جگہ بنانے لگا خصوصاً پاکستان کا ایک بڑا میڈیا گروپ اس پر بار بار اصرار کرتا دکھائی دینے لگا تو بھارت سے دوستانہ تعلقات کے حمایتیوں نے کہنا شروع کر دیا تھا کہ اب زرداری صاحب! بھول جائیں کہ وہ اپنے ہمسائے سے اچھے تعلقات پیدا کر لیں گے۔ 

انکا خیال درست ثابت ہوا کہ پاکستان کی طاقتور عسکری قیادت ابھی بھارت کے ساتھ تجارت کے حق میں نہیں۔ اسی لئے حکومت کو وفاقی کابینہ کے اجلاس میں بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دئیے گئے فیصلے کو واپس لینا پڑا اور وضاحت کی گئی کہ ابھی نارمل تعلقات پیدا کئے جائیں گے پھر بات آ گے بڑھے گی۔ وفود کے تبادلے ہونا شروع ہو گئے تھے۔ دونوں اطراف کے تاجر خوش نظر آ رہے تھے تو پھر کیا تھا میمو اسکینڈل آیا، نیٹو کے حملے پر بھی حکومت نے وہی کیا جو فوج نے کہا۔ اب میمو اسکینڈل پر عسکری قیادت کا وہی موقف ہے جو منصور اعجاز کا ہے تو حکومت سے تصادم یقینی ہے۔

ان حالات میں دیکھنا ہو گا کہ فائدہ کس کو ہوتا ہے۔ دفاع پاکستان کانفرنس کا بینر بتا رہا تھا کہ تمام فوجی علامات اس پر موجود ہیں۔ تو پیغام بھی انہیں کا ہے۔ ان جماعتوں نے نیٹو فورسز کے پاکستان پر حملے کی آڑ میں طالبان کا پاکستانی عوام میں سافٹ امیج بہتر کرنے کی کوشش کی۔ تاکہ امریکہ مخالف جذبات کو طالبان کے حق میں استعمال کیا جائے اور انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جائے۔ مگر پاکستانیوں کے حافظے اتنے بھی کمزور نہیں کہ وہ بھول جائیں کہ مساجد، امام بارگاہوں، اولیائے اللہ کے درباروں پر حملے کرنے والے کون ہیں اور کون ان کی پشت پناہی کرتا ہے۔؟ ملک کے باقی حصے بھی سب ہمارے اپنے ہیں مگر لاہور ہی کے عوام نہیں بھولے کہ داتا دربار پر حملے میں کتنے زائرین شہید ہوئے۔؟ وہ یہ بھی نہیں بھولے کہ شہادت حضرت علی علیہ السلام کے اکیس رمضان المبارک کے جلوس میں کربلا گامے شاہ کے سامنے اور بھاٹی چوک میں تین خودکش حملہ آوروں نے اڑتیس معصوم شہریوں کے خون کی ہولی کھیلی۔

دفاع پاکستان کانفرنس میں امریکہ، اسرا ئیل اور بھارت کے خلاف سخت لب و لہجہ اختیا ر کیا گیا کہ لگتا تھا کہ ابھی پھر جہاد شروع ہو جائے گا۔ جماعت الدعوۃ کے مرکزی رہنما مولانا عبدالرحمان مکی بادشاہی مسجد اور مزار اقبال سے چند قدم دور مینار پاکستان کے سائے میں خطاب کرتے ہوئے کہہ رہے تھے کہ کانفرنس میں شامل لوگ اللہ کے مجاہد ہیں۔ جو ووٹ کے ٹھپے لگانے والے نہیں، کلاشنکوف کے برسٹ چلانے والے ہیں۔ انہوں نے سلالہ چیک پوسٹ کے شہیدوں کے قاتلوں اور دریائے راوی کو خشک کرنے والے بھارت سے انتقام لینے کا اعلان کیا۔

دفاع پاکستان کونسل کے سربراہ مولانا سمیع الحق نے شرکاء کانفرنس سے اپنے ہاتھ پر بیعت لی کہ وہ ملکی سرحدات کے تحفظ کے لئے جذبہ جہاد لئے بھارت، اسرائیل، امریکہ اور نیٹو فورسز کو بھرپور جواب دیں گے۔ طالبان کے استاد کے طور پر شہرت رکھنے والے دارالعلوم اکوڑہ خٹک کے مولانا سمیع الحق نے 13 جنوری کو راولپنڈی اور 22 جنوری کو کراچی میں دفاع پاکستان کانفرنسز منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ ان کا دعوٰی ہے کہ پاکستان میں اسلامی انقلاب لانے کے لئے جدوجہد کی جائے گی۔

جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید نے لگی لپٹی بات کرنے کی بجائے سیدھے وزیراعظم سے امریکہ کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو ختم کرنے کی تاریخ کے اعلان کا مطالبہ کیا۔ کشمیری قیادت سید علی گیلانی اور میر واعظ عمر فاروق کو مخاطب کرتے ہوئے حافظ سعید نے جہادی قوتوں کی طرف سے کشمیریوں کی حمایت کا بھی اعادہ کیا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ بھارت کو پسندیدہ ملک قرار دلوانے کے لئے کسی بھی قسم کی قرارداد منظور کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی اور ایسا کر بھی دیا گیا تو پاکستان میں بھارتی سامان بیچنے والی منڈیوں کا گھیراؤ کیا جائے۔

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ اور تحریک اتحاد پاکستان کے سربراہ لیفٹینٹ جنرل (ر) حمید گل نے 16 دسمبر 1971ء کے سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار بھارت کو قراردیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی قوت جہاد اور ایٹمی صلاحیت ہے، جسے ختم کرنے کے لئے امریکہ، اسرائیل اور بھارت سازشوں کے جال بن رہے ہیں۔

دہشتگرد فرقہ پرست کالعدم سپاہ صحابہ کو دفاع پاکستان کانفرنس میں خاص اہمیت دی گئی۔ جماعت الدعوۃ کے بعد اس کالعدم تنظیم کے پرچم ہی نظر آتے تھے۔ جس طرف کسی رہنما یا سرکاری اہلکار نے توجہ نہیں کی۔ البتہ میڈیا نے اس کانفرنس کو وہ اہمیت نہ دی جو عمران خان کے جلسے کو دی گئی تھی۔ حالانکہ کہا جاتا ہے کہ مذہبی جماعتوں کی کانفرنس تحریک انصاف کے جلسے کے توڑ کے طور پر منعقد کی گئی۔ تاکہ مقتدر حلقوں کو پیغام دیا جا سکے کہ مذہبی قوتیں میاں نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے ساتھ ہیں۔ اس سے وہ نقصان جو عمران خان ممکنہ طور پر آئندہ انتخابات میں پہنچائے گا، اس کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔ اور اس کانفرنس میں شریک واحد بریلوی رہنما جمعیت علمائے پاکستان کے سربراہ ڈاکٹر ابوالخیر زبیر نے بھی کہہ دیا کہ کسی لبرل فورس کا نہیں سونامی صرف مذہبی جماعتوں کا آئے گا۔

اس کانفرنس میں مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ سابق وفاقی وزیر اعجازالحق کی شرکت تو سمجھ میں آتی ہے کہ پاکستان میں فرقہ واریت اور لسانیت کی بنیاد رکھنے کے ذمہ دار ان کے والد ضیاءالحق ہی تھے۔ مگر لبرل سیاست کے ماہر سابق وفاقی وزیر اطلاعات اور عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید کی اس کانفرنس میں شرکت خاصی مشکل دکھائی دیتی ہے۔ جس نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں طالبان اور مذہبی جماعتوں کے خلاف خوب پریس کانفرنسز کیں۔ اس جلسے میں انہوں نے بھارت میں فحش تصاویر سکینڈل کی حامل اداکارہ وینا ملک اور رحمان ملک کے درمیان تقابل کر کے کانفرنس کے جہادی ماحول کے ذائقے کو تبدیل کر دیا۔ 

انہوں نے جہادی رہنما جماعت الدعوۃ کے امیر حافظ سعید کی بیعت کا اعلان کر کے اپنی اگلی منزل کا بھی پتہ دے دیا کہ وہ مسلم لیگ ن کے ساتھ اتحاد بنانے کے لئے باقی مذہبی قوتوں کو ساتھ ملانے میں مذہبی حلقوں میں اپنا اثرو رسوخ بڑھائیں اور بہتر امیج بنائیں اور راولپنڈی میں ایم ایم اے اور مسلم لیگ ن کے امیدواروں سے جو شکست کھائی تھی اس سے آئندہ انتخابات میں بچا جاسکے۔ 

اس جلسے سے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناءاللہ خان کا وہ ایجنڈا بھی پایہ تکمیل کو پہنچے گا۔ جس کے تحت کالعدم سپاہ صحابہ (موجودہ نام اہل سنت والجماعت) کے سربراہ مولانا محمد احمد لدھیانوی کو سینیٹر
بنایا جانا مقصود ہے۔ تاکہ وہ کہہ سکیں کہ دفاع پاکستان کونسل کے ساتھ مسلم لیگ ن نے اتحاد کیا ہے۔ سپاہ صحابہ سے نہیں، لیکن یہ چیزیں چھپ نہیں سکیں گی اور سپاہ صحابہ کی دہشتگردی کا شکار رہنے والے بریلوی اور شیعہ مسلمان پھر مسلم لیگ ن کی بجائے کسی دوسری جمہوری قوت کو ووٹ دیں گے یا اپنا پلیٹ فارم تشکیل دیں گے۔ جس کے لئے زمینہ ہموار کیا جا رہا ہے۔
خبر کا کوڈ : 123621
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش