0
Thursday 2 Aug 2012 20:05

بھارتی ریاست آسام میں 5 ہزار مسلمانوں کی ہلاکت کا خدشہ

بھارتی ریاست آسام میں 5 ہزار مسلمانوں کی ہلاکت کا خدشہ
بھارت کی ریاست آسام میں مقامی انتہاء پسند مسلح ہندو اور عیسائی قبائل کے ہاتھوں محض 57 مسلمانوں کی ہلاکتوں کی سرکاری طور پر تصدیق کی جا رہی ہے، جبکہ لاکھوں افراد کے بے گھر ہونے کا اعتراف کیا جا رہا ہے، تاہم مقامی افراد کے مطابق ان حالیہ بدترین فسادات میں 5 ہزار افراد کے جاں بحق ہونے کا اندیشہ ہے، ان میں ان لوگوں کا بھی شمار کیا جا رہا ہے جو گذشتہ 22 جولائی سے لاپتہ ہیں، یہی نہیں بلکہ مختلف اضلاع میں 25 سے زائد مسجدیں شہید کر دی گئی ہیں اور انتہاء پسند مسلح ہندو اور عیسائی قبائل کے ہاتھوں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلا دیئے گئے ہیں، ان مسلم کش فسادات میں بے گھر ہونے والے ہزاروں افراد 3 سو سے زائد ریلیف کیمپوں میں رمضان المبارک گزار رہے ہیں۔

کیمپوں میں کئی ایسے افراد ہیں جن کے اہل خانہ یا تو لاپتہ ہیں یا پھر ان کی آنکھوں کے سامنے انہیں قتل کر دیا گیا، آسام کے ڈھبری ضلع میں واقع کیمپ میں ڈھبری ضلع کانگریس خواتین شعبہ کی صدر شبانہ اختر نے اسلام ٹائمز کے نمائندے کو بتایا کہ آسام کے مختلف اضلاع میں مسلمانوں کو مکمل طور پر تباہ و برباد کر دیا گیا ہے، یہاں کی 25 سے زائد مساجد کو شہید کر دیا گیا ہے، اور پانچ ہزار کے قریب مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہے، سرکاری اعداد و شمار کے متعلق انہوں نے کہا کہ یہ رپورٹیں حقیقت سے کوسوں دور ہیں، ابھی لاتعداد افراد ایسے ہیں جن کے بارے میں کوئی اطلاع نہیں ہے۔

شبانہ اختر کا کہنا ہے کہ ہر روز لاشیں بر آمد ہو رہی ہیں، لیکن جہاں لوگ مارے گئے ہیں وہاں ابھی کوئی جا ہی نہیں رہا، ابھی بھی مسلمانوں کے گھروں کو بلڈوزر سے تباہ کیا جا رہا ہے اور انتہاء پسندوں کی جانب سے یہ دھمکی دی جا رہی ہے کہ مسلمانوں کو واپس اپنی سرزمین پر داخل نہیں ہونے دیا جائے گا۔ آسام کے ایک مقامی اسکول کیمپ میں مختلف گاوں کے تقریباً 5 ہزار مسلمان پناہ گزیں ہیں، یہاں اس کیمپ میں پناہ لینے والے عزیز علی کا کہنا ہے کہ ہمارے گاوں کے تقریباً 150 لوگ غائب ہیں، پولیس کی وردی پہن کر آتے ہیں اور ہمیں مار کر چلے جاتے ہیں، لیکن موقع پر موجود ہماری حفاظت پر مامور نئی دہلی سے آئے ہوئے فوجی کچھ بھی نہیں بولتے۔ انہوں نے بتایا کہ یہاں مقامی پولیس نے بھی نہتے مسلمانوں پر گولیاں برسائیں ہیں۔

گوری پور کیمپ گوسائی گاوں کے مکین محمد علی علماء کرام اور میڈیا سے وابستہ وفد کو دیکھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے، انہوں نے کہا کہ میری آنکھوں کے سامنے میرے تین بھائیوں محمد علی حسین (55 سالہ)، محمد اکبر علی (40 سالہ) اور محمد عصمت علی (31 سالہ) کو گولیوں سے  بھون دیا گیا، اور ان سب مظالم کے ہوتے ہوئے بھی کسی نے مسلمانوں کا ساتھ نہیں دیا، انہوں نے کہا کہ مقامی انتہاء پسند مسلح ہندو اور عیسائی قبائل پولیس اور آرمی کے لباس میں ملبوس ہو کر آئے اور مسلمانوں کا قتل عام شروع کر دیا۔ محمد علی کا مزید کہنا تھا کہ میری آنکھوں کے سامنے ہزاروں افراد کا قتل کیا گیا۔

ضلع ڈھبری کے ایک اسکول میں 11 ہزار مسلمان پناہ گزیں ہیں، جن کے اہل خانہ کا کوئی پتہ نہیں، لہذا ان کا کہنا ہے کہ ہندو انتہاء پسندوں نے ان کے گھر والوں کو قتل کر دیا ہے، بھارت کے ایک عالم دین کا کہنا ہے کہ آسام میں بڑی تعداد میں مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ہے، جن کی حقیقی تصویر ابھی سامنے نہیں آئی ہے، اس کے علاوہ بھی کئی متاثرہ مسلمانوں نے اپنی آپ بیتی سنائی، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کی ریاست میں کس طرح سے مسلمانوں کو تباہ و برباد کیا گیا ہے، نوجوانوں کو موت کی ابدی نیند سلا دیا گیا، مسلمانوں کی املاک و جائیداد نذرآتش کر دی گئیں اور نام نہاد جمہوریت اور سیکولرازم کا راگ الاپنے والے بھارت نے گجرات سانحہ کی یاد تازہ کر دی ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 184315
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش