0
Sunday 16 Nov 2014 16:08

مسئلہ بلوچستان اور محمود خان اچکزئی کی خان آف قلات سے ملاقات

مسئلہ بلوچستان اور محمود خان اچکزئی کی خان آف قلات سے ملاقات
رپورٹ: این ایچ جعفری

1947ء میں پاکستان کے قیام سے لیکر آج تک بلوچستان میں جاری شورش کو ختم کرنے کیلئے مختلف جمہوری و آمرانہ حکومتوں نے اپنے اپنے دورِ حکومت میں ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں لانے کیلئے مختلف قسم کے طریقے اپنائے۔ کبھی وفاق نے ناراض بلوچوں‌ کو مختلف اقسام کے لالچ کے ذریعے منانے کی کوشش کی، کبھی ایک بلوچ قبیلے کو دوسرے بلوچ قبیلے کیخلاف استعمال کرنا چاہا۔ کئی مرتبہ مختلف سرداروں کے درمیان اختلافات کو ہوا دینے کی کوشش بھی کی گئی۔ جب پاکستان میں پہلی مرتبہ 1970ء کے بعد بھٹو رژیم نے جمہوریت کا نعرہ بلند کیا، تب بہت سے بلوچ اکابرین نے بھی خود کو 1973ء کے آئین میں حصہ دار بنانے کی کوشش کی۔ لیکن جب بھٹو حکومت کو معاشی و بین الاقوامی دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، تو 1976ء میں ایک جانب ذوالفقار علی بھٹو نے عرب دنیا کو متحد کرکے انکی قیادت و سربراہی کی کوشش کی، جبکہ دوسری جانب ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بلوچستان میں ناراض بلوچوں‌ کیخلاف ایک مرتبہ پھر آپریشن کا آغاز کیا گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے صوبے کا گورنر نواب اکبر خان بگٹی کو منتخب کروا کر اسے بلوچ مری قبیلے کیخلاف آپریشن کرنے کا حکم دیا۔ جس سے حالات مزید کشیدہ ہوگئے اور آج تک بگٹی اور مری قبیلے میں تلخیاں موجود ہیں۔ اسی دوران سردار عطاءاللہ مینگل کے بیٹے سمیت دیگر رہنماؤں کی بھی گرفتاری عمل میں لائی گئی۔ لیکن چند ہی عرصے بعد جنرل ضیاءالحق نے بھٹو صاحب کی حکومت کا خاتمہ کرکے آمرانہ حکومت کے قیام کا اعلان کیا۔ بعدازاں بھٹو کو ہمیشہ کیلئے سیاست سے الگ کرنے کیلئے جنرل ضیاءالحق نے مختلف قسم کے حربے اپنائے۔

جنرل ضیاءالحق نے عطاءاللہ مینگل صاحب سے ملاقات کے دوران خواہش ظاہر کی، کہ وہ بھٹو کیخلاف بلوچستان میں آپریشن کرنے اور انکے بیٹے کو قتل کرنے کے جھوٹے الزام میں ایف آئی آر کا اندراج کروائے۔ لیکن انہوں نے جنرل ضیاءالحق کے ہاتھوں استعمال ہونے کو گوارا نہ کیا۔ جسکے بعد جنرل ضیاءالحق نے احمد رضا قصوری کے والد محمد احمد خان قصوری کے قتل کا جھوٹا مقدمہ بناکر ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکا دیا۔ آگے چل کر جس نواب اکبر خان بگٹی کو بلوچستان کا اقتدار سونپا گیا تھا، بعدازاں مشرف دور میں اسے غدار قرار دیکر آپریشن میں ہلاک کردیا۔ جسکی لاش کا نام و نشان تک نہیں۔ 2008ء کے بعد جب آصف علی زرداری کی حکومت آئی تو انہوں نے ایک مرتبہ پھر بلوچستان میں جاری تمام آپریشن کو ختم کرنے کا حکم دیا۔ یہی نہیں بلکہ باقاعدہ سرکاری طور پر بلوچوں سے معافی مانگی گئی اور این ایف سی ایوارڈ سمیت بلوچستان پیکیج کے ذریعے صوبے کی ناراضگیاں ختم کرنے کی کوششیں بھی کی گئی لیکن پیپلز پارٹی کی گزشتہ حکومتیں اور ماضی کی تلخ یادیں بلوچوں کو اب بھی یاد تھی۔

2013ء کے عام انتخابات میں نواز شریف کی جماعت مسلم لیگ (ن) نے سیاسی پوائنٹ اسکورنگ کیلئے مسئلہ بلوچستان کیلئے آواز بلند کی اور انتخابات سے قبل شہباز شریف اور نواز شریف دونوں بھائیوں نے کئی بلوچ قوم پرست رہنماؤں سے ملاقاتیں بھی کیں۔ عوام سے ایک مرتبہ پھر وعدہ کیا گیا کہ انکی حکومت بلوچستان کیساتھ ہونے والی ناانصافیوں کا ازالہ کریگی۔ بلوچستان میں مخلوط حکومت اور ایک مڈل کلاس رہنماء ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو صوبے کی ذمہ داریاں سونپی گئی۔ جسکا مقصد ناراض بلوچوں کو قومی دھارے میں واپس لانا تھا۔ جس کیلئے اسلام آباد میں منعقدہ آل پارٹیز کانفرنس میں سول و ملڑی قیادت نے ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کو مسئلہ بلوچستان حل کرنے کا ٹاسک بھی دے دیا جبکہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے بھی ایک شرط رکھ لی، کہ جب تک صوبے میں لاپتہ افراد اور مسخ شدہ لاشوں کا معاملہ فوجی قیادت کیجانب سے حل نہیں ہوتا وہ ناراض بلوچوں کو مذاکرات کے ٹیبل پر لانے سے قاصر ہے۔ بلوچستان کے کورکمانڈر نے بھی اعلان کردیا کہ 2014ء شروع ہونے کے بعد ملنے والے کسی بھی مسخ شدہ لاش میں خفیہ اداروں کا کوئی ہاتھ نہیں لیکن بدقسمتی سے لاپتہ افراد کے معاملے پر فوجی قیادت خاموش نظر آتی ہے اور یہ معاملہ جوں کا توں ہے۔ جسکا بہانہ بناکر ڈاکٹر مالک صاحب نے ناراض بلوچوں سے اب تک شاید مذاکرات کا آغاز ہی نہیں کیا۔

گذشتہ دونوں برطانیہ میں پشتونخوامیپ کے چئیرمین محمود خان اچکزئی کو آکسفورڈ یونیورسٹی کیجانب سے دعوت دی گئی، جسکا مقصد بلوچستان کے اصل مسائل کے بارے میں گفتگو تھی۔ اسی دوران میاں محمد نواز شریف بھی برطانیہ میں سرکاری دورے پر پہنچ گئے۔ برطانیہ میں خود ساختہ جلا وطن بلوچ رہنماء خان آف قلات کے بیٹے میر سلیمان داؤد کو اب بھی بلوچستان میں اہم رہنماء مانا جاتا ہے۔ جن سے مذاکرات کرنے کیلئے بلوچستان اسمبلی میں گذشتہ مہینے قرارداد بھی متفقہ طور پر منظور کی گئی۔ ماہرین کیجانب سے خان آف قلات میر سلیمان داؤد اور چئیرمین پشتونخوامیپ محمود خان اچکزئی کے درمیان ہونے والے ملاقات کو بھی صوبائی اور وفاقی حکومت کی مشترکہ کوششیں قرار دی جا رہی ہے جبکہ بعض حلقوں میں یہ توقع ظاہر کی جا رہی ہیں کہ شاید جلد خان آف قلات بلوچستان میں اپنی خود ساختہ جلا وطنی کاٹ کر دوبارہ آجائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو 2006ء میں نواب بگٹی کے قتل کے بعد پاکستان سے جانے والے دیگر ناراض بلوچ رہنماؤں کو بھی مذاکرات کیلئے راضی کیا جاسکے گا، جوکہ مسئلہ بلوچستان کے حل کیلئے ایک سنگ میل ثابت ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 419805
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش