0
Wednesday 23 May 2018 12:05
سسیلین مافیا، گاڈ فادر اور غدار کہنے سے فرق نہیں پڑتا

پیغام دیا گیا کہ وزارت عظمٰی سے مستعفی ہو جاؤ یا طویل چھٹی لے کر باہر چلے جاؤ، نوازشریف

مجھے نکالے جانے کی سب سے بڑی وجہ پرویز مشرف کے خلاف غداری کیس ہے
پیغام دیا گیا کہ وزارت عظمٰی سے مستعفی ہو جاؤ یا طویل چھٹی لے کر باہر چلے جاؤ، نوازشریف
اسلام ٹائمز۔ شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس اختتامی مراحل میں داخل ہو گیا۔ سابق وزیرا عظم نواز شریف نے آخری 4 سوالات کے جوابات دے دیئے۔ احتساب عدالت کے جج محمد بشیر نے نیب ریفرنسز کی سماعت کی۔ نواز شریف نے بیان ریکارڈ کراتے ہوئے کہا مجھے دفاع میں کوئی گواہ پیش کرنے کی ضرورت نہیں، عدالت میں نیب اپنا مقدمہ ثابت کرنے میں ناکام رہا، آمریتوں نے پاکستان کے وجود پر گہرے زخم لگائے، پیغام دیا گیا کہ وزارت عظمٰی سے مستعفی ہو جاؤ یا طویل چھٹی لے کر باہر چلے جاؤ، میں نے مشرف کا کیس روکنے کے لئے کوئی دباؤ قبول نہیں کیا، میں نے کہا ایسی مصلحتوں سے جمہوریت کو کمزور نہیں کرسکتا، آئین اپنی جگہ، پارلیمنٹ قانون و انصاف اپنی جگہ، عوام کا مینڈیٹ اپنی جگہ ہے، لیکن ڈکٹیٹر کیخلاف کھڑا ہونا ایک طرف ہے، سینیٹ الیکشن میں ہمارے امیدواروں کو شیروں کے نشان کی بجائے بے چہرہ کر دیا گیا۔

سابق وزیراعظم نے اپنے بیان میں کہا میرے خلاف مقدمہ کیوں بنایا گیا قوم جانتی ہے، مقدمات کا کھیل کھیلنے والے بھی جانتے ہیں، مجھے بےدخل کرنے اور نااہل قرار دینے والے کچھ لوگوں کو تسکین مل گئی ہوگی، مجھے سیسلین مافیا، گارڈ فادر، وطن دشمن اور غدار کہنے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، میں پاکستان کا بیٹا ہوں اس مٹی کا ایک ایک ذرہ جان سے پیارا ہے، کسی سے حب الوطنی کا سرٹیفکیٹ لینا توہین سمجھتا ہوں۔ نواز شریف نے اپنے بیان میں کہا داخلہ اور خارجہ پالیسیوں کی باگ دوڑ منتخب نمائندوں کے ہاتھ میں ہونا چاہیئے، 20 سال قبل بھی وہی قصور تھا جو آج ہے، اس وقت بھی نہ پاناما کا وجود تھا نہ آج ہے، جمہوریت کا تختہ الٹنے والوں سے بھی سوال ہونا چاہیئے، قوم نے بھرپور ساتھ دیا، غداری مقدمہ میں وکلا سے مشاورت کی، وکلا نے مشورہ دیا مشرف کیخلاف نہ جائیں یہ مقدمہ ترک کر دیں، مشورہ نما دھمکیوں کا بھی سامنا کیا، آصف زرداری نے کہا کہ مشرف کے دوسرے مارشل لاء کی توثیق کر دیں، اسی میں مصلحت ہے۔

سابق وزیراعظم نے احتساب عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ 12 اکتوبر کو مشرف نامی جرنیل نے اقتدار پر قبضہ کیا، سب نے آگے بڑھ کر مشرف کا استقبال کیا، 8 سال بعد دوبارہ آئین توڑا اور ایمرجنسی کے نام پر مارشل لا لگایا، اعلٰی عدلیہ کے ججوں کو نظر بند کیا جس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی، نون لیگ نے واضح موقف اپنایا، 2013ء میں یہ عوام کے سامنے رکھا، آئین کے آرٹیکل 6 کے تحت مشرف کیخلاف غداری کا مقدمہ دائر کیا۔ احتساب عدالت میں ایون فیلڈ ریفرنس کی سماعت کے دوران نواز شریف کی جانب سے متفرق درخواست دائر کی گئی، جس میں انہوں نے باقی 5 سوالوں کا جواب دیگر دو ریفرنسز میں گواہان مکمل ہونے کے بعد ریکارڈ کرنے کی استدعا کی۔ نواز شریف کی درخواست پر نیب پراسیکیوٹر نے اعتراض کیا، جس پر عدالت نے درخواست مسترد کر دی۔

نواز شریف کا کہنا تھا کہ جنوری 2014ء میں پرویز مشرف عدالت کے لئے نکلا تو طے شدہ منصوبے کے تحت اسپتال پہنچ گیا اور پراسرار بیماری کا بہانہ بنا کر دور بیٹھا رہا، انصاف کے منصب پر بیٹھے جج مشرف کو ایک گھنٹے کے لئے بھی جیل نہ بھجوا سکے۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2014ء کے دھرنوں کا مقصد مجھے دباؤ میں لانا تھا، جو کچھ ہوا سب قوم کے سامنے ہے، اب یہ باتیں ڈھکا چھپا راز نہیں ہیں، امپائر کی انگلی اٹھنے والی ہے، کون تھا وہ امپائر، وہ جو کوئی بھی تھا اس کی پشت پناہی دھرنوں کو حاصل تھی۔ نواز شریف نے کہا کہ پی ٹی وی، پارلیمنٹ، وزیراعظم ہاؤس اور ایوان صدر فسادی عناصر سے کچھ محفوظ نہ رہا، مقصد تھا مجھے پی ایم ہاؤس سے نکال دیں اور پرویز مشرف کے خلاف کارروائی آگے نہ بڑھے۔  سابق وزیراعظم کا مزید کہنا تھا کہ منصوبہ سازوں کا خیال تھا کہ میں دباؤ میں آجاؤں گا، میرے راستے پر شرپسند عناصر بٹھا دیئے گئے، کہا گیا وزیراعظم کے گلے میں رسی ڈال کر گھسیٹتے ہوئے باہر لائیں گے۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ مجھ پر لشکر کشی کر کے پیغام دینا مقصود تھا کہ مشرف غداری کیس کو چلانا اتنا آسان نہیں اور طویل رخصت کا مطالبہ اس تاثر کی بنیاد پر تھا کہ نواز شریف کو راستے سے ہٹا دیا گیا، آمریتوں نے گہرے زخم لگائے ہیں۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ کاش آج یہاں لیاقت علی خان، ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کی روح کو طلب کرسکتے اور پوچھ سکتے کہ آپ کے ساتھ کیا ہوا اور انہیں آئینی مدت پوری کرنے کیوں نہیں دی گئی۔ نواز شریف نے مزید کہا کہ کاش آپ سینئر ججز کو بلا کر پوچھ سکتے کہ وہ کیوں ہر مارشل لاء کو خوش آمدید کہتے رہے، کاش آج آپ ایک زندہ جرنیل کو بلا کر پوچھ سکتے کہ اس نے آئین کے ساتھ کھلواڑ کیوں کیا۔ سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ نااہلی اور پارٹی صدارت سے ہٹانے کے اسباب و محرکات کو قوم بھی اچھی طرح جانتی ہے۔ نواز شریف نے کہا کہ منصب اور پارٹی صدارت سے ہٹانے اور عمر بھر کے لئے نااہل قرار دینا واحد حل سمجھ لیا گیا جب کہ گواہ میرے خلاف ادنٰی ثبوت بھی پیش نہ کرسکے، عملاً میرے مؤقف کی تائید ہوئی۔

سابق وزیراعظم نے کہا کہ پاناما میں عالمی لیڈرز کا نام بھی تھا، کتنے سربراہان کو معزول کیا گیا لیکن پاکستان میں یہ کارروائی جس شخص کے خلاف ہوئی اس کا نام نواز شریف ہے جس کا نام پاناما میں نہیں تھا۔ نواز شریف نے کہا کہ استغاثہ میرے خلاف کیس ثابت نہیں کر سکا، مجھے اپنے دفاع میں شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ سابق وزیراعظم نے کہا کہ میں مسلح افواج کو عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہوں، فوج کی کمزوری ملکی دفاع کی کمزوری ہوتی ہے، قابل فخر ہیں وہ بہادر سپوت جو سرحدوں پر فرائض انجام دے رہے ہیں، سرحدوں پر ڈٹے ہوئے سپوت ہمارے کل کے لئے اپنا آج قربان کر دیتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ میں نے قوم کے دفاع کو ناقابل تسخیر بنایا، ایٹمی دھماکے نہ کئے جاتے تو بھارت کی عسکری بالا دستی قائم ہو جاتی، اُس وقت کے آرمی چیف اور حکام کو ہدایت دی کہ 17 دن میں دھماکوں کی تیاری کریں جبکہ دھماکے نہ کرنے پر مجھے 5 ارب ڈالر کا لالچ دیا گیا لیکن میں نے وہی کیا جو پاکستان کے وقار اور مفاد میں تھا، پاکستان کی عزت اربوں کھربوں سے زیادہ عزیز تھی۔
خبر کا کوڈ : 726756
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش