0
Friday 5 Sep 2014 14:27

اسرائیلی ڈرون کیجانب سے ایرانی حدود کی خلاف ورزی اور پس پردہ حقائق

اسرائیلی ڈرون کیجانب سے ایرانی حدود کی خلاف ورزی اور پس پردہ حقائق
تحریر: حمزہ عالمی

گذشتہ ہفتے اتوار کی شام اسرائیل کا ایک ڈرون طیارہ ایرانی حدود میں داخل ہوا اور نطنز میں واقع جوہری تنصیبات کی جانب پرواز کرنے لگا۔ البتہ اسے ایرانی حدود میں داخل ہوئے زیادہ مدت نہیں گزری تھی کہ سپاہ پاسداران کے ہاتھوں سرنگوں کر دیا گیا۔ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران نے اپنے ایک بیانئے میں اعلان کیا ہے کہ ایک اسرائیلی ڈرون کا ایرانی حدود میں سراغ لگانے کے بعد زمین سے فضا میں مار کرنے والے میزائل کے ذریعے اسے نشانہ بنایا گیا، جس کے نتیجے میں وہ منہدم ہوگیا۔ بیانئے کے مطابق مار گرایا جانے والا اسرائیلی ڈرون اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے لیس تھا اور اس کا مقصد نطنز میں واقع ایران کی جوہری تنصیبات کی جاسوسی کرنا تھا۔ لیکن اسے نطنز کی حدود میں داخل ہونے سے قبل ہی ڈیٹکٹ اور مار گرایا گیا۔ 
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے جاری ہونے والے بیانئے میں مزید کہا گیا ہے کہ صہیونی رژیم کی جانب سے اس شیطانی اقدام نے ایک بار پھر اس کی مجرمانہ ذہنیت کو آشکار کر دیا ہے اور اس خبیث اور جنگ طلب رژیم کی غیر انسانی اور مجرمانہ اقدامات سے بھری تاریخ میں ایک جرم کا مزید اضافہ کر دیا ہے۔ بیانئے میں اس نکتے پر تاکید کی گئی ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی دوسری سکیورٹی فورسز کے ہمراہ ایرانی قوم اور سرزمین کے ہمہ جہت دفاع کیلئے مکمل طور پر آمادہ اور ہوشیار ہے اور اسرائیل کی جانب سے اس جارحانہ اقدام کا مناسب جواب دینے کا حق محفوظ رکھتی ہے۔ موصولہ رپورٹس کے مطابق ایرانی حدود میں داخل ہونے والا یہ اسرائیلی ڈرون خلیج فارس میں موجود امریکی طیارہ بردار بحری جہاز سے اڑا تھا اور خطے کے ایک عرب ملک کے تعاون سے ایرانی حدود میں داخل ہوا۔ یہ اقدام ایک طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت انجام پایا، جسے امریکی حمایت بھی حاصل تھی۔ سیاسی ماہرین کی نظر میں یہ اقدام امریکہ کی جانب سے غزہ کے مظلوم فلسطینی عوام کے خلاف اسرائیلی جارحیت کی بھرپور حمایت اور ایران کے ساتھ جوہری تنازعات کے بارے میں انجام پانے والے جنیوا معاہدے سے مربوط ہوسکتا ہے۔ اسرائیل کے اس اقدام کے پس پردہ انتہائی اہم عوامل کارفرما ہیں، جن میں سے بعض کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ 
 
جیسا کہ بیان ہوا، اس اسرائیلی جاسوسی اقدام میں امریکہ کا ملوث ہونا ایک واضح امر ہے۔ یہ امریکی حمایت اس حتمی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے جس کے تحت امریکہ اسرائیل کے ہر مجرمانہ اور غیر انسانی اقدام کی مکمل حمایت کرتا آیا ہے اور اس کا واضح نمونہ حال ہی میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت اور بربریت کے دوران دیکھا گیا ہے۔ وائٹ ہاوس کے ڈیموکریٹ حکام نے غزہ کی پٹی پر اسرائیل کی حالیہ بربریت کی مکمل حمایت کا اعلان کیا اور اس طرح غاصب اسرائیلی حکام کو ایسے غیر انسانی اقدامات انجام دینے پر مزید شہ دی ہے۔ امریکی حمایت اور حوصلہ افزائی کے نتیجے میں اسرائیلی حکام اس قدر بے باک ہوگئے ہیں کہ اب خطے میں موجود بدامنی اور بحرانوں کی آڑ میں اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف جارحانہ اقدامات کا سوچنے لگے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں میں اسرائیلی حکام نے امریکہ کو ایران کی جوہری تنصیبات پر حملہ کرنے کیلئے بہت زیادہ اکسایا ہے اور حتی بعض اوقات یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ خود ہی ایران کی ایٹمی تنصیبات کو نشانہ بناسکتے ہیں۔ لیکن ہر بار ایران کی جانب سے قاطعانہ اور دلیرانہ ردعمل کے باعث وائٹ ہاوس اسرائیل کی اس فتنہ گری پر توجہ نہیں دیتا تھا۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس بار اسرائیل کو اپنا ایک جاسوس طیارہ ایران کی حدود میں داخل کرنے کی جرات کیسے ہوئی۔؟
 
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اس اسرائیلی اقدام کی بنیادی وجہ بھی وہی حالیہ غزہ جنگ کے دوران امریکہ کی بے محابا حمایت کی وجہ سے اسرائیل کے اندر پیدا ہونے والی جھوٹی خود اعتمادی اور بے باکی ہے۔ امریکی حکام نے غزہ کی حالیہ جنگ کے دوران اسرائیل کی غاصب صہیونی رژیم کی اندھا دھند حمایت کرکے ایک بار پھر "خطے میں اپنے اس پاگل کتے" کی رسی کھولی ہے۔ وہ نہیں جانتے کہ اس کام کا نقصان آخرکار خود انہیں ہی ہوگا۔ ایرانی حدود میں داخل ہونے والا بغیر پائلٹ کے اسرائیلی جاسوس طیارہ خلیج فارس میں موجود امریکی جنگی کشتی سے اڑا تھا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکی جنگی کشتیوں میں انجام پانے والا ہر اقدام امریکی مسلح افواج کے چیف کمانڈر یعنی امریکی صدر براک اوباما کے دستور سے انجام پاتا ہے۔ 
 
امریکہ اور اسرائیل کا یہ مشترکہ اقدام 1988ء میں امریکی جنگی کشتی Venesis کی جانب سے ایرانی مسافر بردار ایئربس طیارے کو میزائل حملے کا نشانہ بنانے کے واقعے سے بہت ملتا جلتا ہے جو امریکی صدر ریگن کے دور میں وقوع پذیر ہوا تھا۔ فرق صرف اتنا ہے کہ اس بار امریکیوں نے براہ راست طور پر میزائل فائر نہیں کیا بلکہ اپنی جنگی کشتی کے عرشے کو ایرانی حدود کی خلاف ورزی کی غرض سے اسرائیلی ڈرون کی پرواز کیلئے مہیا کیا ہے۔ اسی طرح ان دونوں واقعات میں ایک عظیم شباہت بھی پائی جاتی ہے۔ وہ یہ کہ جب بھی امریکی حکام نے چاہا وہ ڈیموکریٹس ہوں یا ریپبلیکنز، مناسب موقع پایا ہے، اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف غیر قانونی اور جارحانہ اقدامات سے گریز نہیں کیا۔ 
 
غزہ کی جنگ اور ایرانی حدود کی خلاف ورزی جیسے واقعات نے امریکی حکومت کا اصلی چہرہ کھول دیا ہے، ایرانی اور خطے کی عوام نے امریکی ڈیموکریٹس حکام کے منافقانہ رویوں کو اچھی طرح بھانپ لیا ہے۔ مشہور یہی ہے کہ ڈیموکریٹس ہمیشہ نرم جنگ کے ذریعے اور ریپبلیکنز فوجی طاقت کے ذریعے ایران کا مقابلہ کرتے رہے ہیں، لیکن غزہ کے خلاف اسرائیل کی حالیہ جارحیت اور اسرائیلی ڈرون کی جانب سے اسلامی جمہوریہ ایران کی فضائی حدود کی خلاف ورزی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ ڈیموکریٹ امریکی صدر براک اوباما نے اناڑی پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے فوجی ہتھکنڈے بھی استعمال کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ 
 
امریکہ کی جانب سے ایرانی حدود میں اسرائیلی ڈرون داخل کرنے کی حمایت بلکہ تعاون امریکی صدر براک اوباما اور ان کے حامیوں کیلئے بڑی مشکلات کا باعث بن سکتا ہے۔ اس امریکی اقدام سے ایک خطرناک پیغام یہ بھی ملتا ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جاری اپنے جوہری مذاکرات میں مخلص نہیں بلکہ ان مذاکرات کی آڑ میں ایران کی جوہری تنصیبات کو نقصان پہنچانے کا مناسب موقع تلاش کر رہے ہیں۔ لہذا وائٹ ہاوس میں بیٹھے ڈیموکریٹ امریکی حکام ایران کے ساتھ حتمی معاہدے کے حصول پر مبنی اپنے دعووں میں سچے نہیں۔ وہ ایران کے ساتھ جوہری مذاکرات کو بند گلی کی جانب دھکیلنے کے بہانے ڈھونڈ رہے ہیں۔ ایرانی وزیر خارجہ محمد ظریف کی سربراہی میں ایران کی مذاکراتی ٹیم گذشتہ کئی ماہ سے مسلسل اور انتھک کوششوں میں مصروف ہے اور مغربی طاقتوں کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات کو نتیجہ خیز بنانے کی بھرپور تگ و دو میں لگی ہوئی ہے۔ اسی طرح ایران نے جنیوا میں ہوئے ابتدائی معاہدے کی تمام شقوں پر بھی پوری طرح عملدرآمد کیا ہے، جس کی تائید بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی آئی اے ای اے نے بھی کر دی ہے۔ آئی اے ای اے نے حال ہی میں اپنی جاری کردہ رپورٹ میں کہا ہے:
"ایران نے گذشتہ سال انجام پانے والے جنیوا معاہدے کی تمام شقوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے اس معاہدے کی پاسداری کی ہے۔"  
 
ایران کی جانب سے اس بھرپور تعاون اور خلوص نیت کے مقابلے میں امریکی حکام نے کیا کیا ہے؟ امریکی مذاکراتی ٹیم کی سربراہ Wendy Sherman ایران کے ساتھ انجام پانے والی مذاکراتی تشستوں کی پوری تفصیلات اسرائیلی حکام تک پہنچاتی رہی ہیں اور اسرائیل کی جانب سے پیش کئے جانے والے ناجائز مطالبات کو بھی مذاکرات میں پیش کرتی رہی ہیں۔ اسرائیل کی جانب سے ایران کی فضائی حدود کی حالیہ خلاف ورزی میں امریکی تعاون سے ظاہر ہوتا ہے کہ وائٹ ہاوس ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات کے ذریعے بعض ایسے اہداف کے حصول کیلئے کوشاں ہیں، جن کا جوہری تنازعات کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ امریکہ کا بنیادی اور اصلی ہدف درحقیقت امریکی صدر براک اوباما کی زبانی بیان ہوچکا ہے۔ امریکی صدر واضح طور پر کہ چکے ہیں کہ ہمارا مقصد "ایران کے جوہری تنصیبات کو مکمل طور پر بند کرنا ہے۔" اسرائیلی ڈرون کی جانب سے ایرانی حدود کی خلاف ورزی ظاہر کرتی ہے کہ یہ ہدف ابھی تک امریکی خارجہ پالیسیوں کا حصہ ہے اور وائٹ ہاوس ایران کے ساتھ جاری جوہری مذاکرات میں کسی مستقل معاہدے تک نہیں پہنچنا چاہتا۔ امریکہ ان مذاکرات کو صرف خطے میں غاصب صہیونی رژیم کے مجرمانہ اقدامات کی ڈھال کے طور پر ہی استعمال کرنا چاہتا ہے۔ 
 
بعض تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی جاسوس طیارے کی جانب سے ایرانی حدود کی خلاف ورزی میں خطے کا ایک ملک بھی ملوث ہے۔ اگر یہ بات سچ ثابت ہوجاتی ہے تو یقیناً یہ اقدام ایک ایسا مجرمانہ اقدام ہوگا جس کے خلاف بین الاقوامی قانونی اداروں سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ خطے کے ایسے ممالک خود بھی ایران کے ممکنہ ردعمل کی شدت سے بخوبی آگاہ ہیں لیکن وہ ایران کے برادرانہ رویوں سے سوء استفادہ کرنے کی کوشش میں ہیں۔ یہ ممالک خطے میں امریکہ اور اسرائیل کی جانب سے اسلامی مزاحمتی بلاک کے خلاف جاری شیطانی اقدامات میں بھی ان سے تعاون کر رہے ہیں۔ کیا انہیں اس بات کا پورا یقین ہے کہ ایران کی جانب سے ممکنہ ردعمل یا اپنے اندر اٹھنے والی اسلامی بیداری کی تحریک کا مقابلہ کرنے کیلئے امریکہ اور اسرائیل حتماً ان کی مدد کرے گا۔؟
 
سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی کی جانب سے گرایا جانے والا اسرائیلی ڈرون طیارہ انتہائی جدید قسم کی ٹیکنالوجی سے آراستہ تھا۔ یہ ڈرون طیارہ جس کا نام "ہرمس" (Hermes) بتایا جاتا ہے 800 کلومیٹر کے دائرے تک آپریشنز انجام دینے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایک بار ایندھن بھرنے کے بعد 1600 کلومیٹر کے فاصلے تک پرواز کر سکتا ہے۔ ایسے جاسوس طیارے کو ٹریس کرکے مار گرانا عام جنگی طیارے کو مار گرانے سے بہت زیادہ فرق رکھتا ہے۔ اس کے علاوہ مذکورہ اسرائیلی ڈرون ریڈار سے بچنے یا اسٹیلتھ ٹیکنالوجی سے بھی لیس تھا۔ لہذا اسے مار گرائے جانا سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ایران کی بھرپور فوجی صلاحیتوں کو ظاہر کرتا ہے۔ ایران کو یہ کامیابی ایک ایسے وقت نصیب ہوئی ہے، جب اس کے دشمنوں کی طرف سے یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ ایران کی دفاعی صلاحتیں انتہائی محدود ہیں اور وہ اپنی فضائی حدود کا دفاع کرنے پر قادر نہیں، جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ 2012ء میں اسرائیلی دفاعی نظام حزب اللہ لبنان کی جانب سے اسرائیل کے مرکز تک بھیجے جانے والے ڈرون طیاروں کو ٹریس نہیں کر پایا۔ حزب اللہ لبنان کی جانب سے بھیجا گیا بغیر پائلٹ کے جاسوس طیارہ اسرائیلی سرزمین میں سینکڑوں کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے اور ڈیمونا جوہری تنصیبات جیسے حساس علاقوں کی تصاویر اور ویڈیو بنانے کے بعد صحیح سلامت لبنان واپس لوٹنے میں کامیاب رہا۔ اپنی فضائی حدود کے دفاع میں اسی ناکامی کے سبب اسرائیلی فضائی دفاع کے سربراہ ڈارن گاویش کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے اور اس کی جگہ شاکار شوکت کو نیا سربراہ بنا دیا گیا۔ 
 
اس بارے میں ایک اور اہم نکتہ مغربی میڈیا کی جانب سے شروع کیا گیا شور شرابہ ہے۔ وہ یہ پروپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ اسرائیل کا یہ ڈرون طیارہ ایرانی فضائی دفاع سے بچتے ہوئے نطنز میں واقع جوہری تنصیبات کے قریب پہنچ چکا تھا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ مغربی میڈیا کا یہ پروپیگنڈہ اصل مسئلے سے توجہ ہٹانے کیلئے ہے۔ وہ اس مسئلے میں اسرائیل اور امریکہ کو ہونے والی بڑی ناکامی پر پردے ڈالنا چاہتے ہیں۔ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب کوئی ملک اپنے سکیورٹی مسائل کی وجہ سے شفاف انداز میں نہیں دے سکتا۔ اگر ایران کے فضائی دفاعی نظام نے اسرائیلی ڈرون کو کچھ حد تک ایرانی سرزمین کے اندر آنے کی اجازت دے بھی دی تو اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ وہ اسے ٹریس نہیں کر پایا بلکہ ہوسکتا ہے کہ یہ اجازت طے شدہ منصوبہ بندی کے تحت دی گئی ہو، جس کے کئی مقاصد ہوسکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 408208
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش