1
0
Monday 16 Jun 2014 15:14

عراق، حقیقی انقلاب کی طرف گامزن

عراق، حقیقی انقلاب کی طرف گامزن
تحریر: ثاقب اکبر

’’اے عراقیو! اٹھ کھڑے ہو اور رضاکارانہ طور پر اپنی خدمات پیش کر دو۔ اس سرزمین پر داعش کے لیے کوئی جگہ نہیں، ہم پوری طاقت سے دشمن کو کچل کر رکھ دیں گے۔ عراق کا مستقبل آپ کے ہاتھ میں ہے۔ عراق میں سنی اور شیعہ کے مابین کوئی فرق نہیں۔‘‘ یہ عراق کے منتخب وزیراعظم نوری المالکی کی آواز ہے، جو عراقی ٹیلی ویژن پر جمعہ (14 جون 2014) کی دوپہر کو نشر کی گئی۔

امریکہ کی بنائی گئی فوج سے جو توقع تھی وہ اس نے پوری کر دی۔ اب عراق حقیقی انقلابی اور عوامی فوج کی تشکیل کی جانب بڑھ رہا ہے۔ امریکی جنرل پٹریاس نے سابق سفاک عراقی ڈکٹیٹر کی بعث پارٹی کے 70 ہزار افراد کو تربیت دے کر جو فوج تشکیل دی تھی، اس کی قیادت نے عراق کے دوسرے بڑے شہر موصل کو جس طرح سے داعش کے درندوں کے حوالے کیا، ان سے عراقی حکومت پر سارے حقائق روشن ہوگئے۔ جب جرنیل ہتھیار ڈال دیتے ہیں تو سپاہی یا اسیر ہو جاتے ہیں یا گاجر مولی کی طرح کاٹ دیئے جاتے ہیں۔ داعش سے دوسری صورت حال ہی کی توقع کی جاسکتی تھی۔ بچے کھچے سپاہیوں کا کہنا ہے کہ ہم اپنی ہائی کمان سے مدد طلب کرتے رہے لیکن ہمیں مدد فراہم نہ کی گئی۔

اس وقت سیاسی اور مذہبی راہنماؤں کی اپیل پر عراقی سنی شیعہ عوام باہر نکل آئے ہیں اور دہشت گردوں کے چنگل سے اپنے ملک کا چپہ چپہ چھڑانے اور محفوظ رکھنے کے لیے ہر طرح کی قربانیاں دینے کے لیے کمربستہ ہوچکے ہیں۔ اس وقت تک 15 لاکھ سے زیادہ عراقی عوام رضا کارانہ طور پر دہشت گردوں کے خلاف جنگ آزمائی کے لیے اپنا نام لکھوا چکے ہیں، جبکہ ذمے دار حکام کا یہ کہنا ہے کہ مختلف شہروں میں بڑی تعداد میں عوام، رضاکارانہ طور پر اپنا نام لکھوانے کے لیے قطاروں میں لگے ہوئے ہیں اور توقع کی جا رہی ہے یہ تعداد 15 لاکھ سے بڑھ کر 25 لاکھ ہو جائے گی۔ اس کے لیے حکومت نے بڑے پیمانے پر اقدامات شروع کر دیئے ہیں۔

دوسری طرف مختلف شہروں کے عوام نے مالی امداد کے لیے بھی عطیات جمع کرنے شروع کر دیئے ہیں۔ شیعہ سنی عوام بڑی تعداد میں عطیات تکفیری داعشیوں اور بعثیوں کے خلاف امداد کے طور پر جمع کروا رہے ہیں۔ یہ رقم اب تک سینکڑوں ارب دینار تک جا پہنچی ہے۔ عراق کی قومی سلامتی کے مشیر نے کہا ہے کہ عراقی وزیراعظم نے دہشت گردوں کے خلاف عوامی رضاکار فورس تشکیل دینے کے احکامات جاری کر دیئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عراق کی قومی سلامتی کے مشیر’’فالح الفیاض‘‘ نے کہا ہے کہ عراقی وزیراعظم نوری مالکی نے دہشت گرد گروہ داعش سے مقابلے کے لیے باقاعدہ عوامی رضاکار فورس تشکیل دینے کا حکم جاری کیا ہے۔

ایک طرف شیعہ راہنما آیت اللہ العظمٰی سید علی سیستانی نے جہاد دفاعی کا حکم جاری کیا ہے، جسے واجب کفائی قرار دیا جا رہا ہے اور دوسری طرف معروف اہل سنت عالم دین مفتی امینی نے کہا ہے کہ داعش کے اس گروہ کا اہل سنت والجماعت سے کوئی واسطہ نہیں۔ انھوں نے کہا کہ جب بھی فوج کہے گی، ہم عمامہ اتار کر فوجی کی وردی پہن کر ان دشمنان ملک و ملت سے جہاد کریں گے۔ یاد رہے کہ پہلے ہی 11 اہل سنت علماء کو موصل میں داعش دہشت گرد اپنی بیعت نہ کرنے پر سفاکانہ طریقے سے قتل کرچکے ہیں، جن میں موصل کی سنی جامع مسجد کے امام بھی شامل ہیں۔

آج یہ بات عراقی قیادت پر واضح ہوگئی ہے کہ 1979ء میں انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی کے ساتھ ہی امام خمینیؒ نے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی (Islamic Revolutionry Gaurds Force) کیوں قائم کی تھی۔ امام خمینی جانتے تھے کہ فوج تو شاہی حکومت نے اپنے مقاصد کے لیے قائم کر رکھی تھی اور یہ وہی فوج تھی جس نے شاہ کے حکم پر کئی دہائیاں عوام پر ستم ڈھائے تھے۔ یہ فوج کامل تصفیہ کے بغیر ایک اسلامی انقلابی حکومت کے نہ فقط کسی کام کی نہیں بلکہ اس کے لیے الٹا خطرے کا سبب ہوسکتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی ہی نے ایران کی اسلامی حکومت کا تحفظ کیا ہے اور ساتھ ساتھ فوج کو بھی تعمیر نو کی گئی اور اسے نئے خطوط پر استوار کیا گیا۔ ظالم اور خونی جرنیلوں کو کیفر کردار تک پہنچایا گیا، وگرنہ یہ فوج 8 سالہ جنگ کو بہت پہلے ہی ہار چکی ہوتی۔
 
اس جنگ کے دوران ایک روز انقلاب اسلامی کی رضا کار فوج کے جوانوں کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے بی بی سی نے کہا تھا ’’سپاہ پاسداران اپنی تربیت کی کمی کو اپنے جذبۂ شہادت سے پورا کر رہے ہیں۔‘‘ آج عراق بھی اسی منظر سے گزر رہا ہے۔ عراق کی تشکیل نو ہو رہی ہے۔ امریکہ کی بنائی ہوئی فوج کی جگہ عوامی رضا کار میدان میں آچکے ہیں۔ یہی رضا کار اب داعش کے درندوں سے مقابلے کے لیے روانہ کیے جا رہے ہیں۔ فوج کے اندر چھپے ہوئے بعثی عناصر پر نظر رکھی جا رہی ہے۔ گویا پورا عراق ایک بھرپور انقلابی صورت حال سے دوچار ہے اور وہ دن دور نہیں جب ایک طاقتور انقلابی اور مستحکم حکومت عراق میں ظہور پذیر ہوگی جسے پورے عراق کے تمام مذہبی اور علاقائی گروہوں کی حمایت حاصل ہوگی۔

افسوس کا مقام یہ ہے کہ علاقے کی خاندانی حکومتیں جہاں ایک طرف داعش کو دہشت گرد گروہ قرار دے رہی ہیں، وہیں پر عراق کی داخلی صورت حال کو شیعہ سنی تناظر میں پیش کر رہی ہیں۔ اردن کے دہشت گرد گروہوں نے بھی داعش کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔ اگر ان ہمسایہ ممالک نے حقائق کو تسلیم کرتے ہوئے دہشت گرد گروہوں سے اپنی حقیقی لاتعلقی کا اظہار نہ کیا تو اس کے نتائج خود انھیں بھی جلد بھگتنا پڑیں گے۔

شام میں داعش سمیت تمام گروہ تین برس تک اپنی قسمت آزمائی کرچکے ہیں۔ وہاں تو انھیں واضح طور پر امریکہ، برطانیہ اور فرانس سمیت ترکی، سعودی عرب، قطر، متحدہ عرب امارات، اردن اور اسرائیل کی حمایت حاصل تھی لیکن وہاں آخر کار انھیں پے در پے شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ اب تکفیری دہشت گرد عراق میں جمع ہو رہے ہیں۔ انھیں عراق میں شام سے زیادہ عبرت ناک انجام کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ اچھا ہوگیا کہ شام کے فوری بعد اب یہ تمام گروہ عراق میں اکٹھے ہو رہے ہیں اور عراق کی ابھرتی ہوئی عوامی مزاحمت ان کے مقابلے کے لیے آگے بڑھ رہی ہے۔ ایک ہی مرتبہ اس سرزمین پر ان کا صفایا ہوجانے کے بعد عرب خطے میں ایک نئی طاقتور عوامی اسلامی ریاست ابھرے گی، جو نئی عرب بہار کا سرچشمہ بن جائے گی۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ شام اور عراق کی صورت حال خاصی مختلف ہے۔ شام کی حکومت کو امریکہ اور اس کے حواری قانونی نہیں سمجھتے تھے لیکن عراقی حکومت کے خلاف وہ یہ بات نہیں کہہ سکتے کیونکہ عراق میں خود امریکہ کی موجودگی میں ایک آئین منظور ہوا اور پھر اس آئین کے تحت حکومتوں کی تشکیل کا عمل شروع ہوا۔ اس وقت بھی عراق میں ایک منتخب جمہوری حکومت ہے اور نوری المالکی اس جمہوری حکومت کے منتخب وزیراعظم ہیں۔ عراق میں صدر بھی آئینی طور پر منتخب ہے اور اس کا تعلق عراقی کرد علاقے سے ہے۔ نوری المالکی کی حکومت میں شیعہ، سنی اور کرد سبھی شریک اور حصہ دار ہیں۔ نوری المالکی کی گذشتہ حکومت میں بھی ان کے اتحاد میں شیعہ و سنی دونوں شریک رہے ہیں۔

عراق کی حکومت ایک لحاظ سے ایران کی حکومت سے بھی مختلف ہے، کیونکہ وہاں جو نظام ولایت فقیہ رائج ہے عراق میں اس سے مختلف نظام قائم ہے، لیکن اس کی خصوصیت یہ ہے کہ اسے بھی وہاں کی مذہبی قیادت کی حمایت حاصل ہے اور مذہبی قائدین جہاں مناسب سمجھتے ہیں راہنمائی، ہدایت اور اصلاح کی ذمہ داری بھی انجام دیتے ہیں اور حکومت بھی جانتی ہے کہ اس مذہبی قیادت کو عوام میں بے پناہ اثر و رسوخ حاصل ہے۔ حکومت اور مذہبی قیادت کے مابین یہی تعلقات آج نئی قوت کے ساتھ عراق میں سامنے آ رہے ہیں۔ ایران کی مذہبی قیادت کے عراقی مذہبی قیادت سے بڑے اچھے تعلقات ہیں اور ایرانی مذہبی قیادت عراقی امور میں مداخلت کا راستہ اختیار کرنے کے بجائے عراق کی مذہبی قیادت پر ہمیشہ اعتماد کرتی ہے اور اس کی تقویت کا باعث بنتی ہے۔

ایرانی حکومت بھی اپنی مذہبی قیادت کے طرز عمل کو اپنے لیے لائحہ عمل سمجھتے ہوئے عراقی امور کے حوالے سے کردار ادا کرتی چلی آرہی ہے۔ موجودہ حالات میں ایران کے صدر روحانی کا بیان اسی دانشمندانہ حکمت عملی کا ثبوت ہے جب کہ امریکہ اپنے ہمیشہ کے طرز عمل کی طرح اپنے مفادات کے مطابق اپنی پالیسی تشکیل دینے کے درپے ہے۔ امریکہ نے ایک طیارہ بردار بحری بیڑا 15 جون 2014ء کو خلیج فارس کی طرف روانہ کر دیا ہے۔ اس بحری بیڑے کا نام یو ایس ایس جارج ایچ ڈبلیو بش ہے۔ اس پر درجنوں لڑاکا طیارے موجود ہیں۔ امریکی وزیر دفاع کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ان جہازوں کی علاقے میں موجودگی سے عراق میں موجود شہریوں اور ان کے مفادات کی حفاظت کے لیے صدر اوباما کو مختلف اقدامات کے لیے راستوں کے انتخاب میں مدد ملے گی۔ عراق کے موجودہ حالات میں امریکی پالیسی کے تین نکات قابل غور ہیں:

i۔ امریکہ کی کوشش یہ ہے کہ وہ عراق کے داخلی مسائل کو شیعہ سنی جنگ کے طور پر ظاہر کرے نہ کہ دہشت گردی کے خلاف عراقی حکومت اور عوام کی جنگ، حالانکہ امریکہ خود داعش کو ایک دہشت گرد گروہ قرار دیتا ہے۔

ii۔ امریکی صدر کے مطابق اگر امریکی مفادات کو خطرہ ہوا تو امریکہ اس مسئلے میں اپنا کردار ادا کرے گا۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ حقوق انسانی اور جمہوریت کے تمام امریکی دعوے کھوکھلے ہیں۔ پوری دنیا میں اس کا اصل مسئلہ امریکی مفادات کا ہے۔ اس سلسلے میں چاہے افغانستان ہو، شام ہو، لیبیا ہو، مصر ہو، یمن ہو یا عراق ہو امریکہ کے پیش نظر اپنے مفادات کے علاوہ کچھ نہیں۔

iii۔ اب تک کے امریکی بیانات کے مطابق امریکہ اپنی زمینی فوج عراق کے مسئلے میں استعمال نہیں کرے گا۔ شاید اس کی بنیادی وجہ امریکہ کے داخلی حالات کے علاوہ علاقے میں حاصل کیے گئے اس کے دیگر تجربات بھی ہیں۔ خود عراق میں بھی عوام اور منتخب حکومت نے امریکہ کو کچھ ہی سال پہلے عراق سے بوریا بستر سمیٹنے پر مجبور کر دیا تھا۔ لہٰذا امریکہ جانتا ہے کہ بری فوج کا استعمال عراق کے موجودہ حالات میں اس کے لیے مناسب نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ عراق کے حالات کو سنبھلنے میں اتنی دیر نہیں لگے گی جتنی شام کے حالات کو سنبھلنے میں لگی ہے۔ اسی طرح عراق میں دہشت گردوں کی شکست کے ہمہ گیر مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔ عراق میں حکومت زیادہ اعتماد اور استحکام سے اپنا کردار ادا کرسکے گی اور علاقے کی رجعت پسند حکومتوں کی عراق میں مداخلت کا قلع قمع کیا جاسکے گا۔ عراق کی ایک باوقار مستحکم حکومت خطے کے دیگر ممالک کے عوام کی بیداری کے لیے بھی بہت مفید ثابت ہوگی۔
خبر کا کوڈ : 392433
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
اچھا تبصرہ ہے جناب
ہماری پیشکش