0
Sunday 14 Sep 2014 00:11

امریکہ کی سربراہی میں داعش کیخلاف تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد کی قانونی حیثیت

امریکہ کی سربراہی میں داعش کیخلاف تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد کی قانونی حیثیت
تحریر: ڈاکٹر نادر ساعد

حال ہی میں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے عراق اور شام خاص طور پر تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے بارے میں ایک قرارداد منظور کی ہے، جس میں داعش اور النصرہ فرنٹ جیسے دہشت گرد گروہوں کی جانب سے درپیش خطرات سے نمٹنے کیلئے بین الاقوامی سطح پر تعاون اور مدد پر زور دیا گیا ہے۔ لیکن اس قرارداد میں ان دہشت گرد گروہوں کے خلاف کسی قسم کے فوجی، سکیورٹی یا عملی اقدام کو صرف اس ملک کی حد تک محدود کیا گیا ہے جہاں یہ گروہ سرگرم عمل ہیں اور ان گروہوں کے خلاف بین الاقوامی سطح پر فوجی کارروائی کی اجازت نہیں دی گئی۔ لہذا شام یا عراق میں امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے داعش مخالف فوجی اتحاد کی جانب سے انجام پانے والا کوئی بھی اقدام اس وقت تک قانونی یا جائز قرار نہیں دیا جاسکتا، جب تک متعلقہ ملک کی حکومت ایسے اقدام کی رسمی طور پر درخواست پیش نہیں کر دیتی۔ اس طرح اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون کی جانب سے کئے گئے دعوے کے برخلاف شام میں داعش کے خلاف بین الاقوامی سطح پر کسی قسم کی فوجی کارروائی جدید بین الاقوامی قانون کی رو سے طاقت کے استعمال کی منظوری پر مبنی قانونی بنیادوں پر استوار ہوگی۔ 
 
اس ضمن میں جب تک شام کی حکومت بین الاقوامی فوجی اتحاد کو داعش کے خلاف فوجی کارروائی کی اجازت نہیں دیتی، صرف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل ہی ایسے فوجی اقدام کا قانونی جواز فراہم کرسکتی ہے، لیکن اب تک سلامتی کونسل کی جانب سے ایسی اجازت فراہم نہیں کی گئی۔ عراق میں داعش کے خلاف انجام پانے والے فوجی حملے عراقی حکومت کی اجازت سے انجام پا رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اگرچہ ان حملوں کو ناکارآمد اور غیر مفید کہا گیا ہے، لیکن کسی نے انہیں غیر قانونی قرار نہیں دیا۔ البتہ بین الاقوامی فوجی اتحاد کی جانب سے داعش کی نابودی کے بہانے شام میں فوجی کارروائی کے غیر قانونی ہونے سے اس تکفیری گروہ کے دہشت گرد ہونے پر کوئی فرق نہیں پڑتا۔ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کی جانب سے انجام پانے والے مجرمانہ اقدامات اور اس گروہ کی جانب سے عراق، شام اور خطے کو درپیش خطرات میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں پایا جاتا، لیکن ان خطروں کا مقابلہ کرنے کیلئے ان قواعد و ضوابط کی پابندی ضروری ہے جو اس مقصد کی خاطر بنائے گئے ہیں۔ دوسرے الفاظ میں طاقت کے استعمال کا حق ایسے خطروں سے مقابلہ کرنے کیلئے ایجاد کیا گیا ہے جو بین الاقوامی امن کیلئے شدید اور سنجیدہ خطرہ محسوب ہوتے ہوں۔ 
 
لہذا صرف ایک خطرے کی موجودگی کا بہانہ بنا کر غیر قانونی اور خود سرانہ انداز میں ایک ایسی سرزمین پر فوجی کارروائی انجام نہیں دی جاسکتی، جہاں ایک خود مختار حکومت اور حاکم موجود ہو۔ اقوام متحدہ کے منشور سمیت بین الاقوامی قانون کے مطابق کسی بھی ملک کیلئے اپنی حدود سے باہر کسی دوسرے ملک کے اندر فوجی کارروائی انجام دینا ممنوع ہے، مگر یہ کہ دوسرا ملک ایسی فوجی کارروائی کی باضابطہ درخواست کرے یا اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل اس کی اجازت دے یا یہ فوجی کارروائی قانونی دفاع کے زمرے میں آتی ہو۔ اگرچہ امریکی حکام نے عراق میں داعش کی جانب سے اپنے شہریوں کی جان و مال خطرے میں پڑ جانے کا دعویٰ کیا ہے اور عراق میں داعش کے ٹھکانوں پر اپنے ہوائی حملوں کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن اس دعوے کا بین الاقوامی قانون پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ البتہ شام حکومت نے بین الاقوامی فوجی اتحاد کی جانب سے تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف انجام پانے والے ہر ایسے فوجی اقدام کی حمایت کا اعلان کیا ہے جو اس کے ساتھ مکمل ہم آہنگی اور اسے اعتماد میں لینے کے بعد انجام پائے۔
 
ایسی صورت میں شام حکومت کی اجازت کے ہوتے ہوئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے منظوری لینے کی ضرورت بھی پیش نہیں آئے گی۔ البتہ سلامتی کونسل بھی فی الحال ایسی پوزیشن میں نہیں کہ داعش کے خلاف بین الاقوامی سطح پر طاقت کے استعمال کی منظوری دے سکے۔ جیسا کہ گذشتہ چند ماہ کے دوران داعش کی جانب سے انتہائی درجہ غیر انسانی جرائم اور اقدامات انجام پانے کے باوجود سلامتی کونسل نے صرف اس حد تک قرارداد منظور کی ہے کہ داعش سے وابستہ دہشت گردوں کی آمدورفت اور ان کے مالی وسائل پر پابندی لگا دی جائے اور انہیں شام اور عراق میں محصور کر دیا جائے۔ جولائی 2014ء میں سلامتی کونسل میں منظور کی گئی قرارداد نمبر 2170 میں واضح طور پر اس امر پر تاکید کی گئی ہے کہ اس قرارداد کا مطلب داعش کے خلاف بین الاقوامی سطح پر فوجی کارروائی کی اجازت نہ سمجھا جائے۔ 

لہذا امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے بین الاقوامی محاذ کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری گروہ داعش کے خلاف کسی قسم کی فوجی کارروائی صرف دو صورتوں میں قانونی اور جائز قرار دی جاسکتی ہے، ایک اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی منظوری کے بعد اور دوسرا شام حکومت کی جانب سے رسمی درخواست کی صورت میں۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل بان کی مون نے ڈیلی الحیات کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے کہ تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کیلئے سلامتی کونسل سے منظوری لینا ضروری نہیں۔ ان کا یہ بیان صرف اس صورت میں صحیح ثابت ہوسکتا ہے جب شام حکومت اس فوجی کارروائی کی اجازت دے دے۔ بان کی مون نے شام حکومت کو ایک خود مختار حکومت قرار دیا اور شام کے صدر بشار الاسد کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس ملک میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی اور تسلسل حکومت کی جانب سے اختیار کردہ پالیسیوں پر منحصر ہوگا۔
 
انہوں نے کہا: "شام کا بحران گذشتہ چار برس سے جاری ہے۔ صدر (بشار الاسد) کو چاہئے کہ وہ شدت پسندی کے خاتمے کو اپنی پہلی ترجیح قرار دیں، تاکہ اس طرح اپنے ملک و قوم کی تعمیرنو اور اس میں اتحاد و یگانگت کو ممکن بنا سکیں۔ داعش کا گروہ اور دوسرے گروہ شام میں گذشتہ چار برس کے دوران پیدا شدہ بحران کا نتیجہ ہیں۔ بشار الاسد اس بحران کو ختم کرکے اور سیاسی مذاکرات کو آغاز کرکے شام میں شدت پسندی کے خاتمے میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔" 
 
جیسا کہ بیان ہوچکا کہ سلامتی کونسل کی جانب سے داعش کے خلاف قرارداد کی منظوری کے باوجود اس قرارداد سے داعش کے خلاف فوجی کارروائی کا قانونی جواز اخذ نہیں کیا جاسکتا۔ لہذا داعش کے خلاف فوجی کارروائی صرف اس صورت میں قانونی ہوگی جب شام حکومت اس کی اجازت دے گی۔ دوسری طرف امریکہ کے بعض گنے چنے اتحادی ممالک کے علاوہ دوسرے ممالک امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے بین الاقوامی فوجی اتحاد میں شریک نہیں ہوئے۔ بلکہ اس فوجی اتحاد کی جانب سے اپنے اصلی مقصد یعنی داعش کی نابودی سے ہٹ کر بعض دوسرے اقدامات انجام دینے کے خطرے کا احساس کرتے ہوئے بعض حکومتوں نے اس اتحاد سے دوری اختیار کرنا شروع کر دی ہے۔ دوسرے الفاظ میں امریکہ کی جانب سے داعش مخالف بین الاقوامی اتحاد کی صورت میں اعلان کئے گئے منصوبے کے حقیقی اہداف کے بارے میں شدید شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں۔ خطے کے بعض ممالک جیسے ایران اور سلامتی کونسل کے بعض مستقل اراکین جیسے روس بھی انہیں ممالک میں شمار ہوتے ہیں۔ امریکہ کی سربراہی میں تشکیل پانے والے فوجی اتحاد کے اہداف کے بارے میں پائے جانے والے شکوک و شبہات اور امریکی حکام کی جانب سے اختیار کی جانے والی دوغلی پالیسیاں جن کے تحت ایک طرف شام میں سرگرم دہشت گروہ جیسے داعش اور النصرہ فرنٹ کی کھل کر مالی اور فوجی حمایت کی گئی اور دوسری طرف داعش کو نابود کرنے کیلئے فوجی اتحاد بنائے جا رہے ہیں، نے اس اتحاد کو شدید کمزور اور انتشار کا شکار کر دیا ہے۔ 
 
روس کے وزیر خارجہ پہلے سے امریکہ کی جانب سے اس بین الاقوامی اتحاد کے پس پردہ خفیہ اہداف اور داعش کو نابود کرنے کے ہدف سے ممکنہ انحراف کے بارے میں خبردار کرچکے ہیں۔ روس نے اعلان کیا ہے کہ امریکہ کی جانب سے شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد گروہ داعش کے خلاف ممکنہ فوجی کارروائی سے اس کا اصلی ہدف شام پر فوجی چڑھائی کا بہانہ فراہم کرنا ہے اور اس طرح خطے میں عدم استحکام پھیلا کر شام میں دہشت گرد گروہوں کی مدد کے ذریعے سیاسی اہداف کی حصولی میں ناکامی کا بدلہ لینا ہے۔ اسلامی جمہوریہ ایران بھی سمجھتا ہے کہ تکفیری دہشت گروہ داعش کا وجود خود امریکی پالیسیوں اور مالی و فوجی امداد کا نتیجہ ہے، لہذا امریکہ کی سربراہی میں بننے والے بین الاقوامی اتحاد میں شمولیت کے امکان کو صراحت سے مسترد کرچکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ روس، ایران اور خطے کی اکثر حکومتوں نے داعش کے خلاف امریکہ کی سربراہی میں بننے والے اتحاد کی حمایت نہیں کی۔ اسی طرح یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس تشکیل پانے والے بین الاقوامی اتحاد میں اب تک سلامتی کونسل کی قرارداد نمبر 2170 میں ذکر شدہ دوسرے دہشت گرد گروہوں جیسے النصرہ فرنٹ سے مقابلہ کرنے کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے۔
خبر کا کوڈ : 409598
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش