1
0
Saturday 30 Aug 2014 01:49

شاہراہ دستور پر اسلامی اتحاد کا مظاہرہ

شاہراہ دستور پر اسلامی اتحاد کا مظاہرہ
تحریر: سید میثم ہمدانی
mhamadani@ymail.com


پاکستان اسلام کے نام پر وجود میں آیا اور اس بات کی ضمانت دی گئی کہ تمام ادیان اور مذاہب اپنی مذہبی رسومات اور آداب کو آزادی کے ساتھ انجام دے سکتے ہیں، لیکن ابھی ملک کی بنیادیں مضبوط بھی نہ ہوئی تھیں، وہ لوگ جنہوں نے قائداعظم کو نعوذ باللہ کافر اعظم کے لقب سے نوازا تھا، وہ ملک کے استحکام کو تکفیریت اور تفرقہ گرائی کے ذریعے غیر مستحکم کرنے کی سازشیں کرنے لگیں۔ یہ کام اس وقت اپنے عروج کو پہنچا جب روس کے خلاف جہاد کیلئے افغانستان میں بین الاقوامی لشکر بذریعہ پاکستان پہنچنا شروع ہوئے اور اس سارے کام کی ذمہ داری ایک مخصوص فکر رکھنے والے گروہ کے حوالے کی گئی۔ عالمی طور پر ایران کے اندر اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد مسلمانوں کو آپس میں دست و گریبان کرنے کی سازشیں زور پکڑنا شروع ہوگئیں۔ انہی حالات میں امام خمینی نے مسلمانوں کے درمیان وحدت کو بنیادی ضرورت قرار دیا اور شہید علامہ عارف حسین الحسینی پاکستان میں داعی وحدت اسلامی قرار پائے۔ شہید حسینی نے تمام مسلمانوں کو امام خمینی کے یکجہتی اور اتحاد کا پیغام پہنچایا۔ افغان جہاد کا عروج طالبان کے تولد کے ساتھ اپنے زوال کی طرف گامزن ہوا اور پاکستان میں جہاد پلٹ طاقتیں پوری قدرت کے ساتھ مسلمان دشمنوں کی سازشوں کو عملی جامہ پہنانے میں مصروف عمل ہوئیں۔ تحریک طالبان پاکستان، سپاہ صحابہ، لشکر جھنگوی، پنجابی طالبان اور نہ جانے کتنے مکروہ چہرے رانا ثناءاللہ جیسے اپنے سیاسی آقاووں کے زیر نگرانی ملک میں مسلمانوں کے درمیان خانہ جنگی کیلئے پوری طرح کوشش کرتے رہے۔ ملت تشیع نے ملک میں اپنا خون تو دیا لیکن اسلامی اتحاد کو خدشہ دار نہیں ہونے دیا گیا۔ ملت کے ذمہ دار ہمیشہ ہی مسلمانوں کے درمیان یکجہتی اور اتحاد کے لئے کوشاں رہے ہیں۔

اسلامی اتحاد اور ہماہنگی کیلئے کی جانے والی مختلف کوششوں کے نتیجہ میں پاکستان میں مختلف ادارے بھی تشکیل پائے، جن میں سرفہرست ملی یکجہتی کونسل کا قیام تھا، لیکن ہمیشہ جس بات کی کمی رہی وہ یہ تھی ملک کی اکثریت بریلوی مکتب فکر کو خاص اہمیت نہیں دی گئی بلکہ دیوبندی گروہ ہی زیادہ اہمیت کے محور قرار پائے۔ جب پاکستانی قوم نے بے پناہ مشکلات کے باوجود اس بات کا احساس کیا کہ اب اس ملک کی نظریاتی سرحدیں بھی محفوظ نہیں ہیں اور ملک پر ایسے حکمران مسلط ہوگئے ہیں جو ملک دشمن قوتوں کی حمایت کر رہے ہیں، تو عوام کے درمیان بے چینی پیدا ہونا شروع ہوئی اور یہی بات اس چیز کا سبب بنی کہ لوگ ظالم نظام کے خلاف سڑکوں پر نکل آئیں۔ بڑے بڑے معاشرتی ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اگر کسی جگہ ہزاروں لوگ کسی نظام سے اپنی ناراضگی کا اظہار کرنے کیلئے سڑکوں پر آتے ہیں تو ایک بڑی تعداد میں خاموش اکثریت ان کی حامی ہوتی ہے۔ 

آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ آج کی اس مصروف دنیا میں جب کسی کے پاس کسی دوسرے فرد کے لئے اپنی زندگی میں چند لمحات کا نکالنا مشکل ہے اور عوام اپنی روزمرہ زندگی کو گذارنے کیلئے صبح و شام محنت کرتے ہیں تو کس طرح ممکن ہے کہ لاکھوں لوگ غیر معینہ مدت کیلئے اپنے گھروں، اپنے کام کاج کو چھوڑ کر ایک ایسے ہدف کو حاصل کرنے کیلئے کہ جس کے حصول کا یقین بھی نہ ہو اور اس میں خطرات کا بھی خدشہ ہو، کس طرح اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر گھروں سے باہر نکل آئیں۔ یہ قوت جو لوگوں اس اقدام پر آمادہ کرے سوائے اس کے کچھ نہیں ہے کہ لوگ ظالم نظام سے تنگ آچکے ہوں اور اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے مر مٹنے پر تیار ہوں۔ ایک فاسد حکومت نے ان کے لئے جینا دوبھر کر دیا ہو اور وہ اپنے آپ کو بنیادی حقوق سے محروم سمجھتے ہوں۔ یہ احساس محرومیت ہے جو قوم کو گھروں سے باہر نکال کر سڑکوں پر ڈیرے ڈالنے پر آمادہ کر دیتا ہے۔

پاکستان کی تاریخ میں بہت سے احتجاج ہوئے ہیں، بہت سے لانگ مارچ ہوئے ہیں لیکن جس لانگ مارچ کا آج کل پاکستان کے عوام مشاہدہ کر رہے ہیں وہ ماقبل کی تمام تحریکوں سے مختلف ہے۔ کوئٹہ میں کئی سو شہیدوں کا خون اس وقت رنگ لایا جب اس خون کی حرارت نے ملک بھر میں شہداء کی وارث ملت کو ظالم کے خلاف آواز بلند کرنے کا موقعہ فراہم کیا اور یہ پرامن لیکن موثر احتجاج پوری قوم کیلئے نمونہ عمل بن گیا۔ اس تحریک نے لوگوں کے دلوں میں امید کے چراغ جلائے اور قوم کے درمیان اس احساس کو بیدار کیا کہ ہاں عوام کی طاقت کے بل بوتے پر زمانہ حاضر کے رئیسانی جیسے فرعونوں کو شکست دی جاسکتی ہے اور یہ احساس بالاخر قوم کو ظالم نظام کے مدمقابل لے آیا۔

گذشتہ برس جب اسلام آباد میں زرداری صاحب کی حکومت تھی تو تحریک منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک نے لانگ مارچ کا اعلان کیا، لیکن سیاسی تسلیوں اور وعدہ وعیدوں کے بعد لوگ اپنے گھروں کے لوٹ گئے، اگرچہ ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب کے بقول اس مارچ کی مکمل تیاری نہیں کی گئی تھی۔ لیکن اس سال 10 اگست یوم شہداء کے بعد جس انقلاب مارچ کا آغاز کیا گیا، وہ مکمل طور پہلی تحریکوں سے یکسر مختلف تھا۔

یہاں اس مارچ کے صرف ایک پہلو کی طرف توجہ مرکوز کروانا چاہتا ہوں اور وہ یہ ہے کہ جہاں اس انقلابی حرکت کے اور مختلف ثمرات ہیں، وہاں سب سے اہم فائدہ ملک و ملت کے دشمن کی فرقہ کی بنیاد پر تقسیم کی سازش کا مقابلہ ہے، جس کی خاطر دشمن نے بہت محنت کی اور یہ سازش گذشتہ سال کے عاشور کے دن اپنے عروج کو پہنچی، جب عزادری امام حسین علیہ السلام کو قوم کے درمیان اختلاف کا بہانہ بنانے کی کوشش کی گئی اور عملاً ملت تشیع کو ملک میں تنھا کر دیا گیا۔ عاشورہ کے حادثے کے چند دن بعد تک پوری قوم کا میڈیا ٹرائل کیا گیا اور ملک میں عزاداری پر پابندی لگانے کی منحوس فکر پروان چڑھنا شروع ہوئی۔ پاکستان کے اطراف و اکناف سے شیعہ سنی اختلاف اور شیعہ سنی داخلی جنگ کی خبریں سنائی دینا شروع ہوئیں، ایسے میں پاکستان کے فطری مدافع اتحاد جس میں سنی شیعہ حقیقی نمایندے موجود تھے، اس سازش کو ختم کرنے کیلئے فعال ہوئے اور بالآخر سال جاری کے 10 اگست یوم شہداء کے بعد شروع ہونے والی انقلابی تحریک نے اس منحوس فکر کو ملک سے نکال پھینکا۔

انقلاب مارچ کا کوئی فائدہ ہو یا نہ ہو لیکن مجلس وحدت مسلمین کے اس مارچ میں شرکت کے فیصلے نے ملک و قوم کو اس عظیم نعمت سے ہمکنار کیا ہے اور دشمن کی سال ہا سال سے جاری اختلاف اور تفرقہ افکنی کی سازشوں کو ناکام بنا دیا۔ پاکستانی قوم کو تاریک فرقہ انگیزی کے دور سے گذرنے کے بعد بالآخر یہ موقع بھی نصیب ہوا کہ وہ اسلام  آباد کی شاہراہ دستور پر اسلامی اتحاد کے حقیقی مظاہرے کا مشاہدہ کرے۔ اس بارے میں نقل شدہ اخباری رپورٹوں کا سہارا نہیں لوں گا بلکہ چند ایک ایسے واقعات جن کو خود اپنی آنکھ سے دیکھنے کا موقع ملا اپنے قارئین کیلئے بیان کروں گا۔ اگر اس بات کی طرف اشارہ نہ بھی کیا جائے کہ انقلاب مارچ شروع ہونے سے قبل اس حقیقی شیعہ سنی اتحاد کے رہبروں کے درمیان کتنی ملاقاتیں ہوئیں اور یہ آپسی محبت و آشتی کے کتنے رشتے ناتوں کا سبب بنیں، شاہراہ دستور اس بات کے اثبات کیلئے کہ انقلاب مارچ پاکستان میں اسلامی اتحاد کے نئے باب کو رقم کرنے میں کامیاب ہوا ہے کافی ہے۔

مجھے یاد ہے کہ جب گوجرانوالہ کے کسی نواحی علاقہ میں اپنے نجی کام کے سلسلے میں گیا ہوا تھا تو ایک شخص نے جسکا دور دور بھی کسی تنظیم اور تنظیمی کاموں سے واسطہ نہیں تھا، نے مجھ سے کہا کہ "شاہ جی طاہر القادری کے ساتھ ملنے کا فیصلہ بہت زبردست تھا، ہم ہر روز اس بازار سے گذرتے ہیں یہاں تو اب حالت یہ تھی کہ کسی شیعہ کو دیکھ کر لوگ راستہ تبدیل کر لیتے تھے لیکن اب وہ ہمیں اپنا اتحادی سمجھتے ہیں اور دیکھتے ہی سلام کرتے ہیں۔"
ایک دن مجھے انقلاب مارچ میں شریک ہونے کا موقعہ ملا، مغربین کا وقت تھا، ہم چند دوست نماز پڑھنا چاہ رہے تھے، وضو کرنے لگے تو وہیں موجود اہلسنت دوستوں نے وضو کے پانی کا اہتمام کیا، قبلہ حجت الاسلام و المسلمین راجہ محسن صاحب نے امامت کے فرائض انجام دیئے اور ہم نے باجماعت نماز پڑھی۔ اس دوران دھرنے میں موجود اہلسنت برادران نے نماز کی حفاظت کا کام اپنے ذمہ لیا اور جو لوگ ایک جگہ سے دوسری جگہ جانا چاہتے تھے ان سے کہا جاتا تھا کہ یہاں نماز ہو رہی ہے، آپ دوسرے راستے سے چلے جائیں۔ یہ حالات دیکھ کر میرے ذہن میں آیا کہ آج اس ملک کا دشمن اپنے مقاصد میں ناکام ہوگیا ہے۔ انقلاب مارچ اپنے اہداف میں کامیاب ہوگیا۔ 

آپ خود بتائیں آیا یہ ملک میں انقلاب سے کم ہے کہ اہلسنت کی سب سے بڑی تنظیم کا اتنا بڑا اجتماع ہو، جو اگر لاکھوں میں نہیں تو ہزاروں میں تو سب ہی قبول کرتے ہیں اور اس میں راولپنڈی/اسلام آباد کا ایک شہری حضرت عباس علیہ السلام کے علم کی شبیہ کو لے کر اجتماع کے وسط میں موجود ہو اور نہ صرف یہ کہ لوگوں کو اس بات پر اعتراض نہ ہو بلکہ میں نے خود اپنی آنکھوں سے دیکھا کہ عام لوگ علم کو سلام کر رہے ہوں۔ ایک شیعہ عالم دین جب عوام کے درمیان سے گذر رہا ہو تو لوگ نعرہ حیدری کے ساتھ اس کا استقبال کریں۔ جس ملک کی حالت تکفیری نعروں اور تکفیری تفکر کے پرچار کی وجہ سے یہاں تک پہنچ جائے کہ اس ملک کی فوج میں نعرہ حیدری جو ایک رائج شعار تھا ممنوع جانا جائے، وہاں سنی اتحاد کونسل کا صدر اپنی تقریر کو نعرہ حیدری سے آغاز کرے تو آیا یہ ملک میں تبدیلی کی علامت نہیں ہے۔؟

شاہراہ دستور پر انقلاب مارچ میں حقیقی اسلامی اتحاد کا مظاہرہ ہوا، خصوصاً اس وقت جب میں نے ڈاکٹر طاہر القادری کی ایک انقلابی بیٹی کو یہ تقریر کرتے سنا کہ اے لوگو! یاد رکھو کہ اگر حضرت زینب سلام اللہ علیھا میدان کربلا میں نہ ہوتیں تو امام حسین علیہ السلام کی قربانی اسی میدان میں باقی رہ جاتی، ہم زینبی (س) مشن کو لے کر نکلے ہیں اور اگر اس راہ میں آپ کو بھوک کا احساس ہو تو حضرت علی اکبر علیہ السلام کی بھوک کو یاد کرنا اور اگر پیاس کا احساس ہو تو حضرت علی اصغر علیہ السلام کی پیاس کو یاد کرنا اور اگر اپنے شہدائ کی یاد ستائے تو حضرت زینب سلام اللہ علیھا کو یاد کرنا اور اگر اس راہ میں قربانی دینے کا موقع آئے تو حضرت امام حسین علیہ السلام کو یاد کرنا۔ اسی جلسہ میں جب علم حضرت عباس علیہ السلام اسٹیج کے سامنے قرار پایا تو  پاکستان عوامی تحریک کے ایک معروف لیڈر نے لوگوں سے مخاطب ہو کر کہا کہ ہم عباس علمدار علیہ السلام جیسے باوفا کے ماننے والے ہیں اور ہمیشہ اپنے مقصد کے ساتھ وفادار رہیں گے۔ انقلاب مارچ نواز شریف کی حکومت کو گرانے میں کامیاب ہو یا نہ ہو، پاکستان میں تکفیریت اور تفرقہ گرائی کی منحوس فکر کو گرانے میں کامیاب ہوچکا ہے۔
خبر کا کوڈ : 407375
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Alhamdo lillah e rabbil aalameen
Mashallah
ہماری پیشکش