0
Tuesday 27 Dec 2011 12:02

ایران ایٹمی قوت بنا تو خطرہ سعودی عرب یا کسی دوسرے سنی ملک کو نہیں استعماری قوتوں کو ہو گا، مولانا سمیع الحق

ایران ایٹمی قوت بنا تو خطرہ سعودی عرب یا کسی دوسرے سنی ملک کو نہیں استعماری قوتوں کو ہو گا، مولانا سمیع الحق
 جمعیت علماء اسلام س کے سربراہ مولانا سمیع الحق سیاست کے پرانے کھلاڑی ہیں، اکوڑہ خٹک مدرسے کے مہتمم اور طالبان کے سربراہ ملا عمر کے استاد ہونے کے ناطے انہیں طالبان کا سرپرست بھی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کی چھ مذہبی جماعتوں کے اتحاد (اب غیر فعال) متحدہ مجلس عمل کے بانیوں میں سے ہیں لیکن ایم ایم اے کی پالیسیوں سے اختلاف کرتے ہوئے اس اتحاد کو خیر باد کہہ گئے۔ مگر اب بھی وہ اپنے اثر و رسوخ کے باعث سیاسی اور مذہبی حلقوں میں قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ ان دنوں ماضی کی دفاع پاک افغان کونسل کو دفاع پاکستان کونسل کے نئے نام سے متحرک کئے ہوئے ہیں۔ وہ نیٹو فورسز کے پاکستانی فوجی جوانوں پر حملے کے بعد سے مذہبی جماعتوں کے کارکنوں کو امریکہ کے خلاف متحرک کئے ہوئے ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے اور حکومت پاکستان امریکہ کے ساتھ معاہدے ختم کر دے۔ 18 دسمبر کو مینار پاکستان پر بڑا اجتماع منعقد کر کے مولانا سمیع الحق نے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو سخت پیغام دیا ہے۔ وہ مزید اجتماعات بھی کرنا چاہتے ہیں۔ مینار پاکستان کے سائے میں ہونے والی کانفرنس کی کامیابی کے بعد اسلام ٹائمز نے دفاع پاکستان کونسل کے آئندہ کے لائحہ عمل اور بین الاقوامی سیاست کے تناظر میں اتحاد امت کے حوالے سے مولانا سمیع الحق سے انٹر ویو کیا ہے جو قارئین کی نظر کیا جا رہا ہے۔ 

اسلام ٹائمز:مینار پاکستان پر 18 دسمبر کو منعقد ہونے والی دفاع پاکستان کانفرنس کے مقاصد کے حصول کے حوالے سے آپ کس حد تک مطمئن ہیں۔؟

مولانا سمیع الحق:کانفرنس مقاصد کے حصول کا ذریعہ ہے، مقاصد ابھی دور ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل منتشر قوم کو جمع کرنا چاہتی ہے تاکہ جدوجہد کی جائے۔ ہمارے مقاصد دو ہیں۔ اس وقت امریکہ اور مغربی سامراج ہم پر مسلط ہے، پاکستان کی آزادی اور خودمختاری چھن چکی ہے، ہم مسائل میں پھنس چکے ہیں، سامراج کے شکنجے کو توڑنا چاہتے ہیں، جو کہ حکومت کے بس میں نہیں رہا۔ جبکہ پارلیمنٹ خود کو منوا نہیں سکی۔ پارلیمنٹ اور فوج حکومت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ اگر فوج اعلان کرتی کہ امریکی تابعداری کی پالیسیوں پر عمل نہیں کرنا، تو اس دلدل سے نکلا جا سکتا تھا لیکن کچھ بھی نہیں ہوا۔
فوج کوئی بھی ڈرون حملہ نہیں روک سکی۔ دیکھ لیں کہ امریکہ اور نیٹو نے ہمارے تعاون اور قربانیوں کا کیا صلہ دیا ہے۔؟ 24 نومبر کو سلالہ چیک پوسٹ پر حملہ کر کے نیٹو نے ہمارے فوجی جوانوں کو شہید کر دیا۔ اس لئے قوم کو متحد کرنا ضروری ہے، جسے کسی بھی اور پلیٹ فارم نے جمع نہیں کیا۔ لوگ تنگ تھے اور لاوا پک چکا تھا۔ دفاع پاکستان کونسل نے منزل کی طرف جانے والا راستہ دکھا دیا ہے۔ سامراجی عزائم سے لوگوں کو باخبر کیا ہے، پاکستان کی ایٹمی توانائی اور تنصیبات خطرے میں ہیں۔ ہماری دفاعی طاقت کو ختم کرنے کی سازشیں کی جا رہی ہیں۔ ان کا مقابلہ کرنا ہے، ابھی تک تو یہ مقصد ہے کہ قوم بیدار ہو جائے، یہ بعد کی بات ہے کہ ملک میں نظام کونسا آنا چاہیے کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام دنیا بھر اور پاکستان میں بھی ناکام ہو چکا ہے۔ یہاں صرف اللہ کا نظام کامیاب ہو گا۔ تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان تبدیلی کی بات کر رہے ہیں، مگر چہرے وہی ہیں تو پھر تبدیلی کہاں سے آئے گی۔

اسلام ٹائمز:آپ کا آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:ہم نے دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم سے امریکہ مخالف تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ 13 جنوری کو لیاقت باغ راولپنڈی میں بڑا جلسہ کریں گے، تاکہ اسلام آباد کے قریب حکومت کو وارننگ دی جا سکے کہ امریکہ کے ساتھ کئے گئے معاہدوں سے باہر نکلا جائے۔ کراچی کے جلسے کا پہلے 21 جنوری کی تاریخ کا اعلان کر چکے ہیں۔ لیکن راولپنڈی کے جلسے کے بعد انتظامات اور رابطہ عوام کے لئے دن کم ہیں، اس لئے فی الحال تاریخ تبدیل کی جا رہی ہے۔ اور جنوری کے آخری ہفتے کراچی میں جلسہ منعقد کیا جائے گا۔ پھر پشاور، ملتان، کوئٹہ اور دیگر شہروں میں بھی کانفرنسز منعقد کی جائیں گی، تاکہ قوم کو اتحاد کا پیغام دیا جا سکے۔ الحمدللہ لوگوں کی طرف سے response بہت اچھا ملا ہے۔ قوم میں احساس پیدا ہوا ہے، یہ قافلہ چل پڑا ہے، اپنی منزل کو حاصل کرے گا، اللہ حاسدین کی نظر بد سے بچائے۔ اس سے قوم میں جان پیدا ہوئی ہے۔

اسلام ٹائمز:آپ نے تمام قومی قیادت کو مینار پاکستان پر منعقد ہونے والی کانفرنس میں شرکت کی دعوت دی۔ مگر جمعیت علماء اسلام کے سربراہ مولانا فضل الرحمان اور اسلامی تحریک کے سربراہ علامہ ساجد علی نقوی کو آپ نے کیوں نہیں بلوایا۔؟
مولانا سمیع الحق:مولانا فضل الرحمان سمیت جو بھی حکومتی اتحادی ہیں، ان کو بھی ہم نے دعوت دی تھی۔ کہ امریکی تسلط سے باہر نکلیں۔ علامہ ساجد علی نقوی کو بھی میں نے بار بار دعوت دی، ان سے میں نے خود ٹیلی فون پر بات کی، مگر انہوں نے آئیں بائیں شائیں سے کام لیا۔ کہتے تھے کہ میں سوچوں گا، پھر بتاوں گا۔ یہ کوئی شیعہ سنی مسئلہ نہیں تھا، ہم نے سب کو بلوایا تھا اور دعوت دی، مگر اب میں تنگ آ گیا ہوں، جو نہیں آئے ان کو آئندہ کسی بھی کانفرنس میں دعوت دینا بند کر دیا ہے۔ مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے پاس تو وفود بھجوائے، مگر وہ نہیں آئے۔ انہیں احساس ہی نہیں کہ امریکی غلامی سے نکلا جائے، وہ تو انتخابی چکروں میں پڑے ہوئے ہیں۔ لیکن ملکی سالمیت ہی نہیں ہو گی تو وہ انتخابات کہاں لڑیں گے۔

اسلام ٹائمز:تاثر ہے کہ دفاع پاکستان کونسل انتہا پسند جماعتوں پر مشتمل اتحاد ہے، جو امریکہ مخالف جذبات کو استعمال کرتے ہوئے طالبان کا سافٹ امیج عوام کے سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:ایسی کوئی بات نہیں، تمام جماعتیں پاکستان کے دینی حلقوں کی نمائندگی کرتی ہیں، عوام آج بھی طالبان کی حکومت کو پسند کرتے ہیں، ہمیں اس کے لئے کام کرنے کی ضرورت نہیں۔

اسلام ٹائمز:کیا آپ طالبان کو ہدایت کریں گے کہ وہ پاکستان میں دہشتگردی اور خودکش حملوں سے باز آ جائیں۔؟
مولانا سمیع الحق:طالبان ہماری ہدایت پر عمل نہیں کرتے اور نہ ہی ہماری بات مانتے ہیں، امریکی پالیسیوں سے باہر نکلا جائے تو دہشتگردی خود بخود ختم ہو جائے گی اور خودکش حملے بھی بند ہو جائیں گے۔

اسلام ٹائمز:سپاہ صحابہ کالعدم تنظیم ہے، وزیر قانون پنجاب کہتے ہیں کہ دفاع پاکستان کونسل کی کانفرنس میں کالعدم تنظیم کے پرچم لہرانے پر خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹ پر مقدمہ درج ہو گا۔؟
مولانا سمیع الحق:ہم نے کالعدم سپاہ صحابہ نہیں، اہل سنت والجماعت کو دعوت دی تھی، جو کالعدم تنظیم نہیں ہے۔ مذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے والے حکمران کون ہوتے ہیں، پرچم لہرائے گئے تو کیا فرق پڑتا ہے۔ رانا ثناءاللہ خان کو کیا تکلیف ہے۔؟ اس کے پیٹ میں مروڑ کیوں اٹھ رہے ہیں۔؟ وہ کس کے نقش قدم پر چل رہے ہیں۔؟ امریکی اشاروں پر دینی قوتوں کو کالعدم قرار دیا گیا، تاکہ مسلمانوں کو اللہ کا نام لینے سے منع کیا جا سکے۔ مذہبی جماعتوں کو کالعدم قرار دینے والے سامراج کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔
اب وہ کہتے ہیں کہ مدرسے گرائیں گے، لیکن انہیں معلوم نہیں کہ مدرسے گرانے والے خود بکھر جائیں گے۔ فیلڈ مارشل ایوب خان اور جنرل پرویز مشرف مدرسے گرانے کی حسرت لے کر اقتدار سے رخصت ہو گئے مگر مدرسے اپنی جگہ پر موجود ہیں، اب بھی جو ایسا سوچنے کی کوشش کرے گا، وہ تباہ ہو جائے گا، اسے توفیق نہ ہو گی۔

اسلام ٹائمز:ایم ایم اے کو فعال کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ کیا آپ بھی شامل ہوں گے۔؟
مولانا سمیع الحق:ایم ایم اے سے میرا کوئی تعلق نہیں، ایم ایم اے شہید ہو چکی ہے، اس کا غسل و کفن اور تدفین بھی ہو چکی ہے۔ یہ صرف دو جماعتوں کا اتحاد تھا، تیسری جماعت ان کے ساتھ نہیں۔ جمعیت علماء پاکستان مولانا شاہ احمد نورانی کی وفات کے بعد عملاً ختم ہو چکی ہے۔ اس کے علیحدہ علیحدہ گروپ بن چکے ہیں۔ علامہ ساجد نقوی کے پاس انتخابی اور پارلیمانی قوت نہیں، پروفیسر ساجد میر کا ایم ایم اے نہیں، مسلم لیگ ن سے تعلق ہے۔ وہ تو ایم ایم اے کے اجلاسوں میں مسلم لیگ ن ہی کی نمائندگی کرتے تھے۔

اسلام ٹائمز:کیا محسوس کرتے ہیں کہ امت مسلمہ کے دوستانہ تعلقات اور اتحاد کیلئے ضروری ہے کہ سعودی عرب اور ایران کے تعلقات دوستانہ ہوں۔؟
مولانا سمیع الحق: ہم تو کوشش کرتے رہے ہیں کہ ایران افغانستان سے دوستی بنائے، جب افغانستان میں امریکہ قابض ہوا تو ایران پر زور دیا کہ افغانستان سے تعلقات بہتر نہیں کرو گے تو ٹھیک نہیں ہو گا۔ اس وقت احساس نہیں کیا گیا، لیکن اب ایران کی پالیسی تبدیل ہو گئی ہے۔ نیٹو اور امریکہ کے مقابلے میں ایران، طالبان کو برا نہیں سمجھتا۔ ہم نے کہا ہے کہ اختلافات دور کرو۔
سامراج سعودی عرب اور ایران کو لڑانا چاہتا ہے، اسی لئے لندن میں سعودی سفیر کے قتل کی سازش تیار کی گئی، امت مسلمہ کے اتحاد کے لئے ضروری ہے کہ دونوں اسلامی ممالک دوریاں ختم کریں، کھلے دل سے ایک دوسرے کو تسلیم کریں، باہمی اختلافات ختم کریں۔

اسلام ٹائمز:میمو سکینڈل کے مرکزی کردار منصور اعجاز کی سعودی عرب کے حکمرانوں سے صدر آصف علی زرداری کو اقتدار سے ہٹانے کے لئے آئی ایس آئی کی اجازت کا دعویٰ کس حد تک درست ہو سکتا ہے۔؟
مولانا سمیع الحق:سعودی عرب سے آئی ایس آئی کو حکومت ہٹانے کے لئے اجازت طلب کرنے کی کیا ضرورت ہے، آئی ایس آئی خودمختار ادارہ ہے، یہاں حکومت سعودی عرب کی مرضی سے بنتی ہے نہ ہٹانے کے لئے کسی قسم کی اجازت کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں حکومت جو بھی آئے، سعودی عرب کی commitment پاکستان اور عوام سے ہے، سعودی عرب ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔

اسلام ٹائمز:کیا امریکہ کے خدشات درست ہیں کہ ایران ایٹمی قوت بننے کی صورت میں دنیا کے لئے خطرہ ہو گا۔؟
مولانا سمیع الحق:ایران سے پہلے تو پاکستان ایٹمی قوت ہے، کیا دنیا اسے برداشت کر رہی ہے؟ روزانہ کوئی نہ کوئی سازش ہمارے ایٹمی پروگرام کے خلاف تیار کی جاتی ہے۔ ایران جب بھی ایٹمی قوت بنا اس سے خطرہ سعودی عرب یا کسی دوسرے سنی ملک کو نہیں، استعماری قوتوں کو ہو گا۔ ایران ایٹمی قوت بن گیا تو مسلم ممالک کی آزادی اور خودمختاری پر حملہ نہیں ہو گا، جیسے کہ عراق، افغانستان، فلسطین اور کشمیر میں ہوا ہے۔ استعمار کے مقابلے کے لئے ضروری ہے کہ مسلمانوں کا دفاع مضبوط ہو، تاکہ کسی کی آزادی سلب نہ کی جا سکے۔

اسلام ٹائمز:کیا ایٹمی ایران سے سعودی عرب سمیت دیگر سنی ممالک دباؤ میں آ سکتے ہیں۔؟
مولانا سمیع الحق:نہیں ایسی بات نہیں، ایران کے جارحانہ عزائم نہیں، پاکستان کے بعد ایران بھی ایٹمی قوت بن جاتا ہے تو امت مسلمہ کو فائدہ ہی ہو گا۔ اگر سعودی عرب کوئی خطرہ محسوس کرتا ہے تو اسے بھی ہمت کرنی چاہیے اور ایٹمی طاقت حاصل کر لے، اس سے غیروں سے دفاع کا موقع ملے گا اور امت مسلمہ کی تقویت کا باعث بنے گا۔
خبر کا کوڈ : 124612
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش