0
Sunday 15 Sep 2013 08:09

اسلام اور انسانی اقدار

اسلام اور انسانی اقدار
تحریر: جاوید عباس رضوی

تاریخ عالم میں بےشمار ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن سے انسان کو عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیئے، انسان زندگی کے ان نشیب و فراز میں جو چیز حقیقت واقعیت و ابدیت کی آئینہ دار رہی ہے وہ عدالتِ انسانی ہے، جس حکومت نے یا جس اقتدار نے تاریخ کے دھارے میں ان قدروں سے کھیلنا چاہا یا ان کو ہلکا سمجھا، ان کی مدت اختیار و تسلط میں کمی واقع ہوگئی اور ان کا خاتمہ تاریخ نے دہرایا، یہ تلخ حقیقت گذرے ہوئے زمانوں اور لوگوں کے لئے بھی اسی حیثیت کی آئینہ دار رہی اور اگلے اور آنے والے انسانوں میں بھی اس کی ماہیت میں کوئی تغیر پیدا نہیں ہو سکتا، آج بھی اگر کوئی برسر اقتدار متکبر انسانی قدروں سے کھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے تو حکومت و تسلط کا خاتمہ یقینی ہے۔ قابل توجہ ہے کہ لوگوں کی عام ناآگہی اور سرمستی، عیش و لغو، غفلت و لاپرواہی جب حد سے گزر جاتی ہے تو ظالم اور احمق حکمران ان کے اوپر مسلط ہو جاتے ہیں، بنی اسرائیل کے طویل تاریخی نشیب و فراز میں ایسے متعدد عبرت ناک واقعات گذرے ہیں، جن میں انسانی قدروں سے دوری، عدالت انسانی کی پائمالی، آپسی تضاد، خدا فرموشی اور انبیاء خدا سے سرکشی کے باعث اُن پر ظالم حکمران مسلط ہوئے، انہیں جب موقعہ دیا گیا تھا تاکہ وہ اپنی صفوں میں اصلاح کریں اور ترقی کی راہوں کا سفر کریں، اس موقعہ کو انہوں نے تضاد و جدال، غیر شعوری و غیر انسانی امور، عیش و استحصال کے لئے غنیمت جانا، لیکن ان کی آنکھ تب کھلی اور تب ہوش آ گیا جب ان کے اوپر سخت ترین حکام نے تسلط جما لیا تھا اور ان کے سر جھکے ہوئے تھے مگر اب سر اٹھانے کی ہمت تھی نہ موقعہ۔

ظلم تو ظلم ہے حد سے بڑھ جائے تو خود ہی مٹ جاتا ہے، جس وقت ظالموں کی داستان ظلم و تشدد حد سے بڑھ گئیں حکومتیں، بادشاہتیں اور تسلط خود بخود نیست و نابود ہوگیا، ان بادشاہوں کی ہی ماتحت اور فرمانبردار قومیں ان کے خلاف ہو گئیں، ان ہی کے ہاتھوں وہ ذلیل اور خوار زندگی بسر کرنے پر مجبور ہو گئے، کسی بھی ملک اور کسی بھی تہذیبی خطے کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو حقیقت ابدی کا ہی ساز رفتہ و آئندہ، نشیب و فراز کو طرح دیتا ہوا نظر آئے گا، مصری تہذیب، یونانی تہذیب، ہندی تہذیب، فارسی تہذیب، رومی تہذیب جیسی قدیم تہذیبوں کے حدود اثر میں پنپنے والے معاشروں کے عروج و زوال کے پیچھے بھی یہی حقیقت کار فرما تھی حتیٰ کہ جدید تہذیبوں مثلاً کمیونسٹ تہذیب بھی اس حقیقت ابدی کے سہارے کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اسلامی تہذیب میں بھی انسانی اقدار کی یہی فطری ابدیت کارفرما رہی، ان تمام تہذیبوں میں ایک چیز جو مشترک دکھائی دیتی ہے وہ عدالت انسانی کی یہی رمز ہے، جو انسان غیرت و فطرت کے سینہ میں تب تک سربستہ رہتی ہے جب تک خود انسان کو اپنی موجودگی کا احساس نہیں ہوتا۔ دنیا میں کون سا اقتدار ایسا تھا جو مذکورہ بالا تہذیبوں کی آڑ میں یا ان کی بنیاد پر یا اُن کے نام پر وجود میں نہیں آیا، لیکن عدالت انسانی کے تقاضوں کو روند کر، فتنہ و ظلم کو پھیلا کر، تشدد و بربریت کو پروان چڑھا کر اور انسانی اقدار کی دھجیاں اڑا کر۔ اسلامی تہذیب جو زندگی کے ہر شعبہ میں اسی فطرت انسانیت کی ہمہ گیر علمبردار ہے کی بنیاد پر بھی جہاں کہیں اور جب بھی کوئی حکومت تشکیل دی گئی۔ تاریخ نے دیکھا کہ عدالت انسانی کی قدروں کو جب تک محفوظ رکھا گیا، استقلال و استحکام، آزادی و کامیابی نے اس کے قدم چومے لیکن جب انسانی قدروں کو صاحبان اقتدار نے پائمال کیا تو زوال و ذلت، رسوائی و تحقیر اسکا مقدر بن گئی۔

اقتدار نے حضرت یحییٰ (ص) کو بے گناہ قتل کیا تو اس کے بدلے مختصر مدت کے بعد ہی کایا پلٹ گئی اور ہزاروں لوگوں کا خون بہہ گیا، بنی اسرائیل کی شرارتوں کے نتیجہ میں جب جالوت نے تسلط جمالیا تو عدالت انسانی سے تجاوز کا نتیجہ یہ ہوا کہ طالوت کے ذریعے کایا پلٹ دی گئی، فلسطین کی سرزمین نے ایسے کتنے ہی واقعات کی الٹ پلٹ دیکھی ہے، مصر و شام کی سرزمین پر یہ نشیب و فراز گذر رہے ہیں، عراق و یمن و لیبیا کی فضاء نے ظلم و انصاف کی معرکہ آرائی کا نظارہ کیا ہے، ایران کی سرزمین نے دیکھ لیا کہ انسان قدروں کی پائمالی جب ان حدود سے متجاوز کرگئی تو اٹھارہ سالہ شہنشاہیت نسیت و تابود ہو گئی، برصغیر کے مختلف حصول میں پانچ سوسالہ تاریخ ان نشیب و فراز سے بھری پڑی ہے، عالم اسلام میں موجودہ اسلامی بیداری کی لہر اسی ظلمت و نور کی ایک تمثیل ہے۔

حکومت و اقتدار کی مہلتوں، فرصتوں اور موقعیتوں میں اختیار کا استحصال جب بھی کیا گیا اور فسق و فجور، لوٹ کھسوٹ اور عیاشی کو نصب العین بنایا گیا انجام ذلت و رسوائی کے بغیر کچھ نہ تھا، اس طرح ایسے صاحبان اقتدار نہ صرف دنیا میں بلکہ آخرت میں بھی ہمیشہ کیلئے گرفتار ذلت و عذاب ہو گئے، ایک وقت تھا کہ امریکہ کے لوگ دبائے ہوئے تھے، مظلوم تھے اور حکومت برطانیہ قریباً نصف دنیا پر حکمران تھی حتیٰ کہ امریکہ بھی اس کی کالونی بنا ہوا تھا، لیکن چند صدیوں میں کایا پلٹ گئی اور آج امریکہ متکبر قوت بن کر ابھر چکا ہے، استکباریت کے نتیجہ میں اس کا لازمی حشر بھی وہی ہوگا اور عنقریب امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا غرور بھی خاک میں ملتا ہوا دنیا ضرور دیکھے گی۔ دنیائے اسلام میں آج خدا کے نام پر، اسلام کے نام پر، توحید و رسالت کے نام پر، قرآن کے نام پر، ضمام اقتدار سنبھالنے والوں کو ان واقعات سے عبرت و نصیحت حاصل کرنی چاہیئے، مکاری و چالبازی و چالاکی سے عوام کو اور اپنے آپکو تو دھوکا دیا جاسکتا ہے لیکن الہیٰ اصول اور انسانی اقدار کی  فطرت کو بدلا نہیں جا سکتا، قرآنی احکامات سے ہرگز کھیلا نہیں جاسکتا ہے۔

اقوام متحدہ کے چارٹر کی تمہید میں اگرچہ لکھا ہے کہ ’’ہم اقوام متحدہ کے لوگوں نے مصمم ارادہ کیا ہے کہ آنے والی نسلوں کو جنگ کی لعنت سے بچائیں گے جو ہماری زندگی میں بنی نوع انسان پر دو مرتبہ بے انتہا مصیبتیں لا چکی ہے، انسانوں کے بنیادی حقوق پر دوبارہ ایمان لائیں گے اور انسانی اقدار کی عزت اور قدرومنزلت کریں گے، مرد اور عورت کے حقوق برابر ہوں گے، اور چھوٹی بڑی قوموں کے حقوق و اقدار برابر ہوں گے، ایسے حالات پیدا کریں گے کہ عہد ناموں اور بین الاقوامی آئین کی عائد کردہ ذمہ داریوں کو نبھایا جائے، آزادی کی ایک وسیع فضا میں اجتماعی ترقی کی رفتار بڑھے اور زندگی کا معیار بلند ہو‘‘ لیکن دنیا کی موجودہ صورتحال کو دیکھ کر، مصر میں عوام پر فوجی مظالم کو دیکھ کر اور شام میں امریکی ناپاک سازشیں دیکھ کر کہا جا سکتا ہے کہ فی الواقع  اقوام متحدہ اپنے تمام بنیادی مقاصد کی تعمیر و تکمیل میں ناکام نظر آ رہا ہے۔

ظلم کا خاتمہ، عدل و انصاف کا بول بالا:
ہر انسانی معاشرہ میں ظلم و ستم، تشدد و بربریت سب سے بڑا زخم ہے، بشریت ہمیشہ مختلف مسائل میں اپنے حقوق تک پہنچنے سے محروم رہی ہے اور کبھی بھی عالم بشریت میں مادی اور معنوی نعمتیں عدل و انصاف کے مطابق تقسیم نہیں ہوئی ہیں، ہمیشہ شکم سیر لوگوں کے ساتھ ایک گروہ بھوکا رہا ہے، ہمیشہ بڑے بڑے محلوں کے آس پاس بہت سے لوگ راستوں اور فٹ پاتھ پر زندگی بسر کرتے رہے ہیں، رنگ و نصب و نسل کا ہمیشہ امتیاز رہا ہے، ہمیشہ اور ہر جگہ غریب اور کمزوروں کے حقوق، طاقتوروں اور مکاروں کے ذریعہ پائمال ہوتے رہے ہیں، جب کہ انسان کی ہمیشہ سے یہ دلی تمنا رہی ہے کہ ایک روز آئے کہ جب عدالت، اںصاف اور مساوات کا بول بالا ہو، لہٰذا انسان ہمیشہ سے عدالت اور انسانی اقدار کی حکومت کے انتظار میں ہے، اس انتظار کی آخری حد امام مہدی علیہ السلام کی حکومت کا پرامن و سبز زمانہ ہے، وہ سب سے عظیم عادل رہبر اور انصاف کرنے والے ہادی کے عنوان سے پوری دنیا میں عدالت کو نافذ فرمائیں گے، الحمدللہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت میں اس ابدی و حقیقی حکومت کے لئے مقدمات فراہم ہوتے دکھائی دیتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 301516
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش