1
0
Wednesday 24 Sep 2014 14:55

پاکستان سے لندن تک ایک ہی گونج

پاکستان سے لندن تک ایک ہی گونج
تحریر: طاہر یاسین طاہر

حکمت مگر منڈیوں کی جنس نہیں، اگر ہوتی تو پاکستانی سیاستدان اس کے بڑے خریدار ہوتے۔ یہ عطائے خداوندِ کریم ہے۔ فرمایا ’’جسے حکمت عطا کی گئی اسے خیرِ کثیر عطا کی گئی۔‘‘ وہ جو خود سے سوچنے کے بھی روادار نہیں؟ کیا انھیں خیرِ کثیر عطا کی گئی ہے؟ وہ جنھوں نے سوچنے کے لیے بھی ’’بندے‘‘ رکھے ہوئے ہیں؟ بندے بھی ویسے جیسے خود ہیں، مشیر۔ یہ کیا سوچتے ہوں گے اور کیا مشورہ دیتے ہوں گے؟ ایک دوسرے کے منفی اور ذاتی مفادات کے محافظ۔ ایک سی فکری ڈگر۔ ہوسِ اقتدار اور جھوٹ کا کاروبار۔ خیر کثیر کی ممکن ہے کئی ایک مفتی صاحبان اپنی سے تفسیر کریں، ضرور کریں۔ ہوسکتا ہے کچھ ’’مفت ہی‘‘ مضاربہ کو ہی خیرِ کثیر کہیں۔ حکمت مگر واقعی اور چیز ہے۔ حکمت ہی خیرِ کثیر ہے۔ علمائے حق پرست اس حوالے سے معاشرے کی رہنمائی ضرور کریں کہ حکمت کیا ہے؟ اور خیرِ کثیر کیا ہے؟ حکمت ہی انسان کو غیرت کے اوجِ کمال تک پہنچاتی ہے۔ غیرت مند آدمی عزت دار ہوتا ہے، خواددار ہوتا ہے۔ غیرت مند جھوٹ نہیں بولا کرتے۔ دانش و حکمت سے عاری مشیروں حکمرانوں کو خبر ہی نہیں کہ وہ کس لمحے اپنے حق میں جعلی سروے کرا رہے ہیں۔ جھوٹے سروے آج تک کسی حکومت کو بچا سکے نہ کسی خود سر مجسمہ ساز کے تراشے کسی بت کو۔ خلقِ خدا کی آواز کو نقارہء خدا سمجھنا بھی حکمت ہے، مگر یہ منڈی کی جنس نہیں۔ خداداد صلاحیت ہے، عطائے ربانی ہے، مولا کا کرم ہے۔

ایک قومی اخبار میں ایک کالمی خبر پر نظر پڑی، ٹی وی پہ مگر گذشتہ شب یہ منظر دیکھ چکا تھا۔ طبیعت پوری طرح بحال نہیں، پھر بھی منظر کی دلفریبی دل کو بھا گئی۔ کیا قوم جاگ اٹھی ہے؟ ممکن ہی نہیں۔ ہم پاکستانی ایک ہجوم سے آگے کچھ بھی نہیں۔ بس پاکستانی ہی کہیں تو بہتر، پاکستانی عوام کہیں تو زیادہ اچھا۔ قوموں کے سامنے بلند مقاصد ہوتے ہیں اور ان مقاصد سے ہمکنار کرانے والے بلند حوصلہ اور حکمت والے رہنما۔ قومیں اپنے اندر سے رہنما پیدا کرتی ہیں۔ کیا پاکستانیوں کے پاس کوئی ایسا عالی ہمت رہنما موجود ہے؟ جو اپنے ذاتی مفادات اور روایتی الزام تراشیوں سے ہٹ کر کوئی قومی ایجنڈا دے سکے؟ کیا عمران خان؟ کیا ڈاکٹر طاہر القادری؟ کیا بلاول بھٹو زرداری؟ کیا مولانا فضل الرحمن؟ جو اسلامی نظریاتی کونسل اور کشمیر کونسل کی چئیرمین شپ سے آگے دیکھ ہی نہیں سکتے؟ کیا جماعت اسلامی؟ کیا اے این پی؟ کیا ایم کیو ایم؟ مذہبی و سیکولر فریب کار۔ اگرچہ ڈاکٹر طاہر القادری صاحب کا ایجنڈا بڑا ہی دلفریب ہے۔ غریب پرور اور تکفیریت سے پاک پاکستان کی نمود، عمران خان کا زور انتخابی اصلاحات پر ہے، بہت اچھی بات، جب تک بنیاد، درست نہیں ہوگی، عمارت درست نہیں ہوگی۔

میرا سوال مگر یہ ہے کہ کیا یہ دونوں رہنما بھی پاکستانی عوام کو ایک قوم میں بدل دیں گے؟ عمران خان قادری صاحب سے زیادہ پر عزم، قادری صاحب بلا کے خطیب، ان کے پیروکار زبردست عزم والے۔ لیکن وہ عالی ہمت، جو تفرقے اور نفرت میں بٹے ہوئے عوام کو ایک قوم میں ڈھالنے کے لیے درکار ہے، کیا وہ عمران خان و قادری صاحب میں موجود ہے؟ دھرنا اور کتنا چلے گا؟ کیا عیدِ قربان سے پہلے انھیں اٹھا دیا جائے گا؟ کیا اعلٰی سطح پر عسکری کمان کی تبدیلیاں امریکی مہمان کی طرف سے امریکہ کو کوئی نیا پیغام ہے؟ سوالات جنم لیتے ہیں، اخبار نویس گاہے بال کی کھال اتارتا ہے۔ بعض اوقات تو خبر کی بنیاد ہی شک پر ہوتی ہے۔ میرے کالم کی بنیاد مگر یقین والی خبر ہے۔ بالکل جیسے آنکھوں دیکھا حال۔ ’’پاکستانی وزیراعظم میاں محمد نواز شریف لندن کے راستے امریکہ روانہ ہوئے تو لندن میں ان کی آمد کے وقت پی ٹی آئی اور پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں نے ان کی رہائش گاہ کے سامنے ’’گو نواز گو‘‘ کے نعرے لگائے۔‘‘ ایک دوست سے رابطہ ہوا، لندن میں مقیم ہے اور پاکستانی سیاسی منظر نامے کا زبردست دیدہ ور۔ کہنے لگا صرف پی ٹی آئی اور عوامی تحریک ہی نہیں سول سوسائٹی کے وہ پاکستانی بھی اس احتجاج میں شامل تھے جو پاکستان سے محبت کرتے ہیں۔
غالب کا مصرع یاد آتا ہے
’’نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں‘‘

لندن سے پاکستانی وزیراعظم بدھ کو نیویارک روانہ ہوں گے، جہاں وہ جمعرات کو امریکی نائب صدر جوبائیڈن کے ہمراہ اقوامِ متحدہ امن مشن کانفرنس کی مشترکہ صدارت اور جمعہ کو اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 69ویں اجلاس سے خطاب، توانائی کانفرنس اور دیگر اہم اجلاسوں میں شریک ہوں گے۔ شنید ہے دیگر امریکی ریاستوں سے پاکستانیوں کی ایک بڑی تعداد اپنی فیملیز کے ہمراہ نیویارک پہنچ رہی ہے، جہاں وہ پاکستانی وزیرِاعظم کا استقبال "گو نواز گو‘‘ کے نعروں اور پلے کارڈز سے کریں گے۔ نیویارک پہنچتے ہی پاکستانی وزیراعظم کو جس خفت اور ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گا، اس سے بچنے کے لئے ’’حکمت‘‘ درکار ہے، وہی حکمت جسے خیرِ کثیر کہا گیا ہے۔ کیا شریف خاندان پہ واجب ہے کہ وہ ہی پاکستانیوں کی نمائندگی کرے؟ کیا وہ پاکستانی عوام کے مفادات اور پاکستان کے عالمی مفادات کو بہتر انداز میں اقوامِ متحدہ میں پیش کر پائیں گے؟
 
ماڈل ٹاؤن کی آفت گری اور ڈی چوک کی شیلنگ کے بعد وہ امریکہ میں جمہوریت کی کیا تعریف کر پائیں گے؟ سب سے بڑھ کر جس طرح انھوں نے مسئلے کے حل کے لئے آرمی چیف کو مدد کے لیے پکارا اور پھر مکر گئے؟ اس کے بعد وہ امریکہ اور برطانیہ کو کیا یقین دلا پائیں گے کہ وہ پاکستان میں جمہوریت اور جمہوری بقا کے لیے بہتر ’’حکیم‘‘ ہیں؟ اگر وہاں کسی صحافی نے پوچھ لیا کہ کیا انتخابات میں ’’آر اوز‘‘ کی مدد لینا اور بعد میں ان کو نوازنا ہی جمہوریت ہے تو وہ کیا جواب دے پائیں گے؟ بے شک امریکہ سے اپنی خاندانی ’’جمہوریت‘‘ کے بچاؤ کے لئے مدد مانگی جائے گی۔
غالب یاد آتے ہیں، 
حضورِ شاہ میں اہلِ سخن کی آزمائش ہے
چمن میں خوش نوایانِ چمن کی آزمائش ہے

حکمت سے خالی دماغ ہمیشہ اپنا ذاتی فائدہ دیکھتا ہے۔ اسے اپنے خاندانی وزیر مشیر ہی ’’خیرِ کثیر‘‘ نظر آتے ہیں۔ 
شیفتہ آپ کی روح شاد رہے
افسوس بے شمار سخن ہائے گفتنی
خوفِ فسادِ خلق سے ناگفتہ رہ گئے
خبر کا کوڈ : 411381
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

پیارے اور قابل فخر دوست طاہر یاسین کا ایک اور شاہکار ۔۔ حالات حاضرہ پر منفرد تبصرہ ۔۔ منطق کی افراط، دلائل کی کاٹ، واقعات کی اچھوتی تشریح ۔۔ فاضل مضمون نگار کی ہر نئی تحریر پہلے سے بڑھ کر جاندار دکھائی دیتی ہے ۔۔ دعا ہے کہ باری تعالٰی ہمارے بھائی کو صحافت کے میدان میں شاندار کامیابیوں سے سرفراز فرماوے ۔۔ اللہ کرے زور بیاں اور زیادہ ۔۔
ہماری پیشکش