0
Sunday 19 Oct 2014 21:24

جلسوں کا رواج، کیا حکومت مدت پوری کرے گی؟

جلسوں کا رواج، کیا حکومت مدت پوری کرے گی؟
تحریر: طاہر یاسین طاہر
  
تجزیہ کار کی ایک مشکل یہ بھی ہے کہ اسے فوری تجزیہ کرنا پڑتا ہے، اخباری دانشوروں کو تخلیق و تحقیق کے بجائے فوری کوئی ایسی ’’کوڑی‘‘ لانا ہوتی ہے جو بہت دور کی ہو، لیکن کیا اس سے حقائق بدل جاتے ہیں؟ جذباتیت، شخصیت پرستی، دھڑے بندی، برادری ازم اور وراثتی ’’سیاسی گدی نشینی‘‘ ہمارے معاشرے کے سیاسی رویے کی پہچان ہے۔ حقیقت تو یہی ہے کہ ہمیں آج بھی، اکیسویں صدی میں، ترقیاتی کاموں، جمہوریت کی برکات اور ’’شہادتوں‘‘ کی داستانیں سنا کر سیاسی شخصیت پرستی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے۔ اس امر میں کیا کلام ہے کہ ضیاءالحق ایک آمرِ مطلق تھا، اس نے ہماری معاشرتی اور سماجی زندگی میں انتہا پسندی کا زہر گھولا، اس نے بھٹو جیسے ویژنری رہنما کو پھانسی دی، اس نے امریکی مفادات کے پیشِ نظر افغانستان میں ’’جہاد‘‘ کے نام پر مداخلت کاری کی اور دنیا بھر سے آنے والے ’’جہادیوں‘‘ کے لئے پاکستان کو ہیڈ کوارٹر بنا دیا، جس کا خمیازہ آج نہ صرف پورا پاکستان بلکہ پورا خطہ بھگت رہا ہے۔ ضیاءالحق نے بلاشبہ ایک خاص مسلک کی سرپرستی کی۔ اس کا اسلام صرف ظواہر پرستانہ ’’خارجی‘‘ عوامل تک تھا۔ اسلام کی روح اور معاشرتی و سماجی معاملات کو اس نے کوئی اہمیت نہ دی۔ مگر بھٹو کی پھانسی کب تک پی پی پی کے کام آتی رہے گی؟ 

ہمیں اس امر میں بھی کلام نہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ایک فطین سیاستدان تھیں، انھیں بے دردی سے شہید کیا گیا۔ مگر پی پی پی کی پانچ سالہ حکومت ان کے قاتلوں تک کیوں نہ پہنچ سکی؟ کب تک ’’زندہ ہے بی بی زندہ ہے‘‘ کا نعرہ پاکستان پیپلز پارٹی کو زندہ رکھے گا؟ اگر واقعی پاکستان پیپلز پارٹی کے تھینک ٹینک کے پاس سماجی و معاشی مسائل کا حل موجود ہے تو پی پی پی کی حکومت نے اپنے گذشتہ دورِ حکومت میں اس فارمولے کو قابلِ عمل کیوں نہیں بنایا؟ کیا ہماری روایتی سیاسی جماعتوں کے پاس ملک سنوارنے اور بے روزگاری ختم کرنے کا فارمولا اسی وقت ہاتھ آتا ہے جب یہ اپوزیشن میں ہوتی ہیں؟ عموماً ایک اور بات بھی کی جاتی ہے۔ جرائم میں شرح کا تناسب! فلاں ملک اور فلاں شہر سے کم ہے۔ مگر کیا کبھی یہ بھی موازنہ کسی سیاسی جماعت کے جلسے میں ہوا کہ میکسیکو کی سماجی زندگی میں قانون کی پاسداری سب کے لئے یکساں ہے؟ کیا کبھی کسی سیاسی بادشاہ نے اپنے جلسے میں یہ بھی کہا کہ یورپ کی معاشرتی زندگی میں ’’لیڈر اور ووٹر‘‘ ایک ہی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں؟ لیڈر اور اس کے رشتے داروں کی سواری گذارنے کے لئے خاص اہتمام نہیں کیا جاتا اور روٹ نہیں لگتا۔؟
 
ہم مگر خود فریب معاشرے میں سانس لے رہے ہیں۔ ہم جھوٹ کو پسند کرتے ہیں۔ ہم اس بات کو اپنی محفلوں میں دہراتے ہیں کہ دیکھو ’’شہباز شریف سابق صدر زرداری کو لکشمی چوک میں الٹا لٹکانے کے دعوے کرتے تھے‘‘ مگر عملاً جب میاں برادران اپنی خاندانی جمہوریت کی بقا کے لئے سابق صدر کو اپنے محل میں دعوت دیتے ہیں اور ملاقات کرتے ہیں تو ہم اس ملاقات سے ’’حظ‘‘ اٹھاتے ہیں۔ کوئی اسے جمہوری سفر کے لئے نیک شگون کہتا ہے تو کوئی اسے سابق صدر کی چالاکیاں، کوئی اسے شریف برادران کی نالائقیاں، مگر ہم میں سے کوئی بھی اسے ’’وراثتی اور شخصی‘‘ سیاست کی بقا کی ملاقات نہیں کہتا۔ کیوں؟ اس لئے کہ ہم بحثیت مجموعی ایک فریب خوردہ معاشرے کا حصہ ہیں۔ ہم جان رہے ہوتے ہیں کہ ہماری روایتی سیاسی جماعتوں کے سربراہان ترقی کے نام پر اقربا پروری کر رہے ہیں مگر پھر بھی ہم ان کی ’’ذہانت‘‘ کے گن گاتے ہیں۔ کیا نون لیگ موٹروے ،میٹرو بس اور ’’ایٹمی دھماکوں‘‘ کے علاوہ اپنی جھولی میں کوئی شے رکھتی ہے۔؟ جس ملک کے باسیوں کی بیشتر آبادی بے روزگار ہو، جہاں مائیں بچوں کو فروخت کرنے بازاروں میں نکل آئیں، وہاں کون ہے جو میٹرو کا سفر کرے گا؟ ترقی کا پیمانہ اخباری اشتہارات ہوا کرتے ہیں؟ 

کراچی کے جلسے سے پاکستان پیپلز پارٹی کے جیالے کو بڑی امیدیں تھیں۔ کیسی؟ کہ شاہد پی پی پی کی قیادت ملتان میں اپنا حشر دیکھ کر کوئی پالیسی اعلان کرے۔ لیکن سوائے پی ٹی آئی پر تنقید کے کچھ نہ ہوا۔ بلاول بھٹو نے نون لیگ کی قیادت کو بھی اگرچہ آڑے ہاتھوں لیا مگر ساتھ نبھانے کا اشارہ بھی دیا۔ کہا الیکشن 2018ء میں ہوں گے اور شفاف ہوں گے۔ لیکن یہ بھی کہہ دیا کہ 30 نومبر کو پارٹی کنونشن میں جیالے فیصلہ کریں گے کہ ’’شیر کے شکار‘‘ پر کب نکلنا ہے۔ پی ٹی آئی تو دھرنے کے ساتھ جلسے بھی کئے جا رہی ہے۔ پاکستان عوامی تحریک نے بھی شہر شہر جلسے کرنے کی ٹھان لی ہے۔ ایسے میں ایم کیو ایم جلسے نہیں کرے گی؟ اے این پی پشاور میں کے پی کے کی ’’محرومیوں‘‘ کا رونا نہیں روئے گی؟ جماعت اسلامی، مولانا فضل الرحمن اور سمیع الحق کی جماعتیں ملک میں ’’اسلامی انقلاب‘‘ کے لئے جلسے نہیں کریں گی؟ یہ سب ہوگا۔ 

ہوا کا رخ بدل رہا ہے۔ ملتان کے ضمنی انتخاب نے ’’محرومیوں اور ترقیاتی کاموں‘‘ کے گٹھ جوڑ کو سرِ بازار سوا کیا۔ سیاسی بازی گر جان گئے کہ جنھیں وہ ’’مداری‘‘ کہہ رہے ہیں انھوں نے بہرحال عوام کو شعور دیا ہے۔ آج کا نوجوان بھٹو کے نام سے تو واقف ہے مگر اس کے کارناموں سے نہیں۔ اسے نہیں پتا کہ وہ کون سا جنرل تھا جس نے نواز شریف کو پنجاب کا وزیرِ خزانہ اور بعد ازاں وزیرِاعلٰی بنا دیا تھا۔ آج کے نوجوان کو یہ بھی پتہ نہیں کہ 17 اگست کو کئی برس تک وزیراعظم نواز شریف فیصل مسجد میں کس کی قبر کے سامنے کھڑے ہو کر قسمیں کھایا کرتے تھے کہ ’’آپ کا مشن‘‘ میں پورا کروں گا؟ آج کا نوجوان یہ جاننے کی بھی کوشش نہیں کرے گا کہ وہ مشن کیا تھا؟ آخری تجزیے میں آج کا نوجوان صرف آصف علی زرداری اور میاں نواز شریف کو جانتا ہے۔ آج کے نوجوان کو ’’مداریوں‘‘ نے بتا دیا کہ تم جن سیاستدانوں کو جانتے ہو ان کی جاگیریں اور دولت باہر پڑی ہے۔ آج ہر طرف کرپشن کہانیاں ہیں۔ موجودہ وزیرِاعظم پہ نیب کے اندر کیسز کھلنے کے منتظر، سابق وزرائے اعظم کرپشن کیسز بھگت رہے ہیں۔

آج کے نوجوان کا ذہن کیسے مان لے کہ وہ میٹرو کی داستان پر اپنی جان قربان کر دے گا؟ آج کا نوجوان کیسے بھٹو کی شہادت کے نام پر بلاول کو ووٹ دینے باہر نکل آئے گا؟ پی پی پی کو بالخصوص سندھ میں ڈلیور کرنا ہوگا۔ جنوبی پنجاب میں کیسے جیتے گی؟ پی پی پی نے مزاحمتی سیاسی رویہ ترک کر دیا ہے۔ اب ڈرائنگ روم کی سیاست نہیں چل سکتی۔ میڈیا بیدار ہے، اگرچہ طرف دار بھی ہے۔ اب دیکھنا ہوگا کہ بڑے جلسے کون کرتا ہے اور کون کیا وعدے کرتا ہے؟ پی پی پی اور نون لیگ اپنے پرانے وعدوں پر لوگوں کو زیادہ دیر اپنا ہمنوا نہیں بنا پائیں گے۔ پی ٹی آئی کے لئے بڑا چیلنچ کے پی کے میں ڈلیور کرنے کے ساتھ ساتھ جلسوں کی اس گرما گرمی کو بھی قائم رکھنا ہے، جہاں تک وہ لے گئی ہے۔ کیا وسط مدتی انتخابات ہونے والے ہیں؟ بہ ظاہر ایسا لگتا نہیں، لیکن گمان یہی ہے کہ وسط مدتی انتخابات ہو کر رہیں گے۔ حکومت کے پاس ڈلیور کرنے کو کچھ نہیں، میٹرو سے عوام کی بھوک نہیں مٹ سکتی اور بھٹو کی قبر سے کوئی کرامت ہونے سے رہی۔ 

اب ریاست کو بھی اپنا وزن عدل کے ترازو میں تولنا ہوگا۔ خارجہ پالیسی کے ’’استحکام‘‘ کے لئے جو حربے ماضی میں استعمال کئے گئے نئے عہد کے ’’بیدار‘‘ تقاضوں میں وہ ہتھکنڈے استعمال نہیں ہوسکتے۔ اب خاندانوں کی وراثتی سیاست اور جماعت اسلامی و دیگر مذہبی جماعتوں کی طرف داری کے بجائے ریاست کو ریاستی اداروں کی بقا اور وطن کے دفاع کی طرف سوچنا ہوگا۔ پاکستانی سیاسی تاریخ پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو 1967ء سے پہلے ساری ڈرائنگ روم سیاست تھی۔ وڈیروں کی حد بندیاں، گدی نشینوں کا جاہ و جلال اور مذہب کے نام پر سیاست کا بازار گرم کرنے والوں کی فتنہ سامانیاں، اگرچہ مذہب کے نام پر یہ فتنہ سامانیاں اب نکاح ٹوٹنے کے فتوؤں سے آگے بڑھ کر تکفیریت تک پہنچ چکی ہیں۔ کیا ریاست اس فتنہ سامانی میں قصور وار ہے؟ یہ ایک مشکل مگر حقیقت پسندانہ سوال ہے، جس کا جواب ہاں میں ہی ہے۔ اس پر تحقیقی مقالے کی ضرورت ہے۔
خبر کا کوڈ : 415422
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش