0
Tuesday 12 Feb 2013 21:12

مکتی باہنی، "را" اور تبت کے گوریلے

مکتی باہنی، "را" اور تبت کے گوریلے
تحریر: جنرل (ر) عبدالقیوم 
 
کوہ ہمالیہ کے شمال مشرق میں واقعہ تبت دنیا کا بلند ترین ایسا میدان ہے جہاں لوگ بستے ہیں۔ اس کی سطح سمندر سے بلندی 16000 فٹ ہے۔ ساتویں صدی عیسوی میں تبت ایک ریاست کی شکل میں دنیا کے نقشے پر نمودار ہوا۔ تاریخ کے بہت سارے اتار چڑھاؤ سے گزرنے کے بعد 1951ء میں تبت چین کے زیر تسلط آگیا۔ تبت کی سیاسی حیثیت پر ملک سے نکالے گئے Dalai Lama گروپ کے سخت اعتراضات ہیں، اس لیے انہوں نے ہندوستان میں اپنے ملک سے باہر ایک حکومت بنائی ہوئی ہے۔ ہندوستان Dalai Lama کی مکمل پشت پناہی کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ یہ جنوبی تبت اور Aksai Chin کا علاقہ دراصل ہندوستان کے زیر تسلط ہونا چاہیے۔ تبت کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ایشیا کے پانچ بڑے دریا تبت سے نکل کر چین اور ہندوستان میں دنیا کی تقریباً نصف آبادی کی ضروریات پوری کرتے ہیں۔
 
تبت کا رہنے والا 84 سالہ ایک بریگیڈیئر Ratuk نئی دہلی کے قریب اس وقت تبت کالونی میں رہتا ہے، اس نے حال ہی میں سقوط ڈھاکہ سے متعلق چونکا دینے والے انکشافات کئے ہیں۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کی اپنی ایک الگ تبت گوریلا فوج تھی، جو تبت کی آزادی کے لیے سرگرم رہی۔ یہ فورس ہندوستانی فوج کا حصہ تو نہ تھی، مگر ہندوستانی فوج کے زیر کمان ضرور تھی۔ اور انڈین جنرل Pabun ان کا کمانڈر تھا۔ Ratuk کے مطابق اس کی گوریلا فورس کا نام Tibat Secret رجمنٹ ہوا کرتا تھا، جس کو 1962ء کی چین ہند جنگ کے بعد چین کے اعتراضات ختم کرنے کے لیے سپیشل فرنٹیئر فورس رکھا گیا۔ اس کا ہیڈ کوارٹر اترپردیش میں ڈہرا دون کا شہر تھا۔
 
بریگیڈیئر Ratuk لکھتا ہے کہ جب مجھے 1971ء میں مشرقی پاکستان میں جا کر لڑنے کا حکم ملا تو میں حیران رہ گیا، چونکہ میری فورس کا مقصد صرف تبت کی آزادی تھا، لیکن میں اس لیے تیار ہوگیا کیونکہ Dalai Lama کے بڑے بھائی Gyalo نے مجھے بتایا کہ آپ کی فورس اگر مشرقی پاکستان کو توڑنے میں ہندوستان کی مدد کرے گی تو ہندوستان کی فوج تبت آزاد کرانے میں ہماری مدد کرے گی۔ اس کے بعد بریگیڈیئر Ratik کے مطابق دو ہزار بنگالی (مکتی باہنی) ہندوستان کی طرف سے اس کے پاس بھیجے گئے اور کہا گیا کہ یہ لوگ تمہاری تبت فورس کے لیے اہداف کی نشان دہی کریں گے اور ساتھ مدد بھی دیں گے۔ بریگیڈیئر Ratuk کہتا ہے کہ
"Tibetan gurellas (terrorists) waged war against Pakistan disguised as Mukti Bahni and the world was being deceived that Mukti Bahni was a force of freedom fighters fighting against Pakistan. This was the most clear lie of history"
یعنی تبت کے گوریلوں کو مکتی باہنی کے لبادے میں مشرقی پاکستان پر حملے کے لیے استعمال کرتے ہوئے پوری دنیا کو دھوکہ دیا گیا، یہ تاریخ کا بہت بڑا واضح جھوٹ تھا۔
 
بریگیڈیئر Ratik کے مطابق جب پاکستانی فوج کمزور اور دنیا میں تنہا ہوگئی تو خود پاکستانی شہری بھی اپنی فوج کے جنگی جرائم کی (جھوٹی کہانیاں) سن کر شرمندہ ہو رہے تھے۔ تبت کی گوریلا فورس کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت یہ تھا کہ چٹاگانگ پر قبضے کے بعد اندرا گاندھی کے مشیر اور نہایت قابل اعتبار اسٹاف آفیسر R. N. Kao کو خاص طور پر ہمارے پاس ہمارا شکریہ ادا کرنے کے لئے بھیجا گیا اور یہ کہا گیا کہ تبت کی گوریلا فورس کی مدد کے بغیر ہندوستانی فوج میں بالکل یہ اہلیت نہ تھی کہ وہ مشرقی پاکستان میں کامیابی حاصل کرسکتی۔ 

قارئین! بریگیڈیئر Ratuk کے اس اقبال جرم کے بعد اس بات میں شک نہیں رہنا چاہیے کہ سقوط ڈھاکہ پاکستان کے خلاف ہندوستان کی ایک سازش کی وجہ سے وقوع پذیر ہوا۔ دوسرا یہ کہ مکتی باہنی بھی ہندو سراغ رساں ایجنسی "را" کی تربیت یافتہ ایک دہشت گرد فورس تھی، جس کو پاکستانی فوج کے خلاف کامیابی صرف Tibetan اور ہندو دہشت گردوں کی مدد سے ممکن ہوئی۔ تیسرا یہ لائن آف کنٹرول پر اپنے ایک سپاہی کی گردن کٹ جانے والے جھوٹے پروپیگنڈے سے پاکستان کو بدنام کرنے والی ہندوستانی فوج نے مکتی باہنی کے لباس میں تبت کے دہشت گردوں کو استعمال کرتے ہوئے پاکستانی فوجیوں، عورتوں اور بچوں کو ٹارچر دیکر مارا اور پھر ان کی لاشیں رسی سے باندھ کر گھسیٹیں۔ انٹرنیٹ پر بریگیڈیئر Ratuk کے انٹرویو کے ساتھ ہندوستانی فوج کے ان جنگی جرائم کی فوٹو بھی ہیں، جہاں دو فوجیوں کو باندھ کر گولیاں برسائی جا رہی ہیں اور ساتھ ہی پانچ سے سات سال کے عمر کے بچوں کی لاشوں کو گھسیٹا جا رہا ہے، لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ پاکستان کے وجود کے دشمن اور ان کے پاکستان میں موجود مٹھی بھر حواری مشرقی پاکستان میں قتل و غارت کا الزام افواج پاکستان پر لگاتے ہیں۔
 
قارئین! کوئی بھی ذی ہوش انسان یہ نہیں کہے گا کہ ہندوستان کے ساتھ پاکستان کے تعلقات دوستانہ نہیں ہونے چاہیے، یا یہ کہ پاکستان کو ہندوستان کے ساتھ اپنے مسائل کے حل کے لیے خونی اور ایٹمی معرکے لڑنے کو ترجیح دینی چاہیے۔ ہم ماضی کو بھلا کر ہندوستان کے ساتھ نئے تعلقات استوار کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔ لیکن اس بات کی گارنٹی کہاں سے ملے گی کہ ہندوستان نے صدق دل سے پاکستان کے وجود کو تسلم کرلیا، اور یہ کہ کشمیر میں موجود اپنی سات لاکھ فوج اور ایک لاکھ پولیسں کو جنگی جرائم میں ملوث نہیں ہونے دے گا اور سیاچن سمیت وادی کشمیر کے مکینوں کو سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل کرتے ہوئے حق رائے دہی کے وعدے کو پورا کریگا۔ پاکستانی دریاؤں پر بند باندھ کر ہماری زرخیر زمین کو بنجر نہیں بنائے گا اور افغانستان کے راستے بلوچستان اور ہماری قبائلی پٹی میں دہشتگردی نہیں پھیلائے گا۔ 

قارئین! کیا مذکورہ بالا سوالات کے مثبت جوابات کی توقع ایک ایسے پڑوسی ملک سے کی جاسکتی ہے جس نے ایک تیسرے ملک کے دہشتگردوں کو استعمال کرکے پاکستان کو دو لخت کیا؟ سرینگر سے ایک ہندوستانی سپاہی کو واپس بلائے بغیر اور لائن آف کنٹرول پر سے افواج کو ایک کلو میٹر بھی پیچھے ہٹائے بغیر پاک وہند تعلقات میں بہتری کا خواب بھی نہیں دیکھا جاسکتا۔ ابھی تک تو بالی ووڈ جسے جسم فروشی کا بڑا اڈہ کہا جاتا ہے، سے چند رقاصاؤں کے نیم عریاں فوٹو ہماری ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جا رہے ہیں۔ اس کو امن کی آشا برینڈڈ لوگ اپنی کامیابی تصور کر رہے ہیں، لیکن عام پاکستانی اس کو اپنی ثقافت پر فحاشی کا بدترین حملہ تصور کرتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اگر کشمیر میں اب تک 93836 لوگ شہید کر دیئے گئے، 6997 کو زیر حراست قتل کیا گیا، 120724 بےگناہ کشمیری گرفتار ہیں، 10078 عورتوں کی عزت لوٹی گئی، 6277 گمنام کشمیریوں کی قبریں ہیں اور لاپتہ افراد کی تعداد ان گنت ہے۔
 
ہماری بدنصیبی یہ ہے کہ پہلے ہمارے ارباب اختیار کشمیر کا نام لے کر اپنی سیاست چمکاتے تھے اور اب کشمیر کے مسئلے کا ذکر کئے بغیر پاک و ہند تعلقات بہتر کرنے کا چرچہ ایک فیشن بن چکا ہے اور یہ بہت بڑی بدنصیبی ہے۔
کالم کا اختتام کشمیر نیشنل کانفرنس کے ایک قائد ڈاکٹر مصطفٰی کمال کے اس بیان پر جو انہوں نے حال ہی میں سری نگر میں دیا اور 7 فروری 2013ء کے مقامی انگریزی اخبار The News میں چھپا۔
"Indian army and IB are conniving to launch a Bangladesh type operation to annex Azad Kashmir"
یعنی ہندوستانی فوج اور وہاں کی انٹیلی جنس بیورو ملی بھگت سے آزاد کشمیر پر قبضہ کرنے کے لئے بنگلہ دیش طرز کا حملہ کرنے کا منصوبہ بنا رہے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 238926
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش