0
Saturday 27 Sep 2014 16:35
وزیراعظم کی موجودگی میں شواہد نکال کر تحقیقات کرنا ممکن نہیں

حکومت کی مذاکراتی ٹیم کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ نہیں، سردار مزمل خان کاکڑ

عمران خان اور طاہرالقادری کے دھرنوں نے عوام کو باشعور بنایا ہے
حکومت کی مذاکراتی ٹیم کسی بھی مسئلے کے حل کیلئے سنجیدہ نہیں، سردار مزمل خان کاکڑ
سردار مزمل خان کاکڑ پاکستان تحریک انصاف بلوچستان کے جوائنٹ سیکرٹری ہیں۔ آپ 1972ء کو بلوچستان کے علاقے چاغی میں پیدا ہوئے۔ اس سے قبل نیشنل پارٹی میں بھی خدمات سرانجام دیں چکے ہیں۔ 2012ء میں آپ نے پاکستان تحریک انصاف میں شمولیت اختیار کی۔ گذشتہ انتخابات میں بلوچستان اسمبلی کی نشست جیتنے میں ناکام رہے، لیکن اپنے سیاسی کیرئیر کو جاری رکھا۔ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں پاکستان تحریک اںصاف کے چئیرمین عمران خان اور پاکستان عوامی تحریک کے سربراہ ڈاکٹر طاہر القادری کی جانب سے دیئے گئے دھرنوں اور اسکے مثبت و منفی نتائج کے حوالے سے ’’اسلام ٹائمز‘‘ نے ایک مختصر انٹرویو کیا، جو قارئین کے لئے پیش ہے۔ (ادارہ)

اسلام ٹائمز: الیکشن کمیشن کی رپورٹ کے مطابق انتخابات کے دوران استعمال ہونے والی سیاہی صرف پانچ گھنٹے تک کیلئے کارآمد تھی، تو کیا ایک بجے کے بعد ووٹنگ کا عمل دھاندلی پر مبنی تھا۔؟
سردار مزمل خان کاکڑ: ہمیں تو رونا ہی اسی بات کا ہے کہ انتخابی اصلاحات کے حوالے سے پچھلی حکومت نے جو ڈرامہ کیا، وہ آہستہ آہستہ اب عوام کے سامنے روز روشن کی طرح عیاں ہورہا ہے۔ پہلے تو صرف ریٹرنگ آفیسرز کا معاملہ زیر بحث تھا، لیکن اب تو انتخابی سیاہی کے علاوہ بہت سے دیگر نکات پر بھی شکوک و شبہات میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ جب ہر حلقے کی الگ الگ تحقیقات ہونگی، تو ساری میچ فکسنگ کا ڈرامہ سامنے آ جائے گا۔ اگر میاں صاحب یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اس فراڈ میں شامل نہیں تھے، تو انہیں انصاف کرنا ہوگا۔ اب شواہد ایک ایک کرکے سارے سامنے آ رہے ہیں، لیکن وہ تحقیق ہونے نہیں دیتے۔ اسکا مطلب یہی ہے کہ وہ خود اس کھیل میں شامل ہے۔

اسلام ٹائمز: عمران خان کہتے ہے کہ مر جاؤنگا، لیکن استعفٰی لئے بغیر دھرنا ختم نہیں کرونگا۔ اس مطالبے سے پارٹی کی ساکھ کس حد تک متاثر ہو سکتی ہے۔؟
سردار مزمل خان کاکڑ: بعض اوقات مذاکراتی پوزیشن ہوتی ہے، ضروری نہیں کہ ہر چیز کو آپ سمجھیں کہ یہ حتمی تھی لیکن جن لوگوں سے آپ ڈیل کر رہے ہوتے ہیں، وہاں سختی دکھانی پڑتی ہے کہ ہم اس حد تک سنجیدہ ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مذاکراتی ٹیم کسی بھی طرح سے سنجیدہ نہیں ہے۔ حکومتی ٹیم کا مقصد یہ ہے کہ استعفے والے مطالبے سے مکر کر باقی چار مطالبات کو بھی پورا کرنے سے پیچھے ہٹ جائے اور اتنی مشکلات ڈالی جائیں کہ وہ مسئلہ حل ہی نہ ہو پائے۔

اسلام ٹائمز: اسحاق ڈار صاحب نے تو عمران خان کو تحقیقاتی کمیشن کا سربراہ بننے کی بھی پیشکش کی تھی۔؟
سردار مزمل خان کاکڑ: بات یہ ہے کہ چئیرمین بننے یا نہ بننے سے مسائل حل نہیں ہونگے کیونکہ حکومت تو انہی کی ہے، لہذٰا ہر جگہ انہی کا اختیار ہوگا۔ 11 مئی کی رات کو میاں صاحب نے اپنے چھوٹے بھائی کے ساتھ کھڑے ہوکر تقریر میں کہتے ہے کہ آپ کا وزیراعظم ہوں، اور یہ آپکا خادم اعلٰی ہے۔ اسکے بعد کہا کہ آپ ہمیں واضح اکثریت دلا دیں تو ووٹنگ کا عمل تو ختم ہو چکا تھا۔ لہذٰا اس سے یہ بات اخذ کی جا سکتی ہے کہ وہاں پر یہ بات آپ صرف پریزائیڈنگ اور ریٹرنگ آفیسر کو ہی کہہ رہے تھے جبکہ انکی بات میں ایک دھمکی بھی تھی کہ شہباز شریف کا خیال کرے، وہی چیف منسٹر بننے والے ہیں۔ اسی طرح نگران حکومت بھی نجم سیٹھی کی قیادت میں انکے ساتھ ملی ہوئی تھی۔

اسلام ٹائمز: لیکن ان سارے معاملات کو جوڈیشنل کمیشن کے ذریعے تحقیقات کروا کر بھی ثابت کیا جا سکتا تھا۔؟
سردار مزمل خان کاکڑ: میں یہی کہہ رہا ہوں کہ جب اتنا طاقتور وزیراعظم اور وزیراعلٰی ہوں، تو کسی بھی جگہ سے شواہد نکالنا اور تحقیقات کروانا بڑا مشکل ہے۔ اسی وجہ سے عمران خان صاحب کی بات میں مطابقت ہے۔

اسلام ٹائمز: دھرنے کے پہلے چالیس دن کس کے فائدے میں رہے، حکومت اور اسکے اتحادی یا عمران خان اور طاہرالقادری صاحب کے۔؟
سردار مزمل خان کاکڑ: جیساکہ میں نے پہلے کہا تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک تو مسلسل جدوجہد میں ہیں۔ انکے مقاصد متعین ہیں اور انکا پیغام لوگوں تک پہنچ رہا ہے۔ اگر دوسری جانب حکومت کو دیکھا جائے تو وہ بے نقاب ہو چکی ہے۔ ہم نے اپنی بات کا آغاز یہاں سے کیا تھا کہ گذشتہ انتخابات جعلی ہیں۔ ہم نے سارے دروازے کھٹکھٹائے اور جواب نہ ملا تو ہم سڑکوں پر آگئے جبکہ اس تحریک کو مسلسل پذیرائی مل رہی ہے۔ تکلیفوں کے باوجود ہم آگے بڑھ رہے ہیں۔

اسلام ٹائمز: ڈاکٹر طاہرالقادری صاحب نے کہا ہے کہ ہم کامیابی کا احساس لیکر جائینگے۔ کیا اصل کامیابی ملنے کی بھی توقع ہے۔؟

سردار مزمل خان کاکڑ: طاہرالقادری صاحب شروع دن سے سسٹم کی تبدیلی کی بات کرتے تھے۔ یعنی موجودہ سسٹم کے ہوتے ہوئے غریب عوام کی حالت زار تبدیل نہیں ہو سکتی۔ سب سے زیادہ فائدہ تو یہ ہوا ہے کہ خیبر سے لیکر کراچی تک عام عوام کے شعور میں اضافہ ہوا ہے۔ امریکہ میں نوازشریف صاحب نے اپنے نام نہاد کارکنوں کو اپنی حمایت میں جلسہ کرنے کو کہا، لیکن وہاں پر صرف دس سے پندرہ افراد انکی حمایت میں نکلے۔ جبکہ اسکے برعکس یہاں پر چالیس دنوں سے لوگ سراپا احتجاج ہیں۔ یہ جہاں بھی جاتے ہیں لوگ "گو نواز گو" کے نعرے بلند کرتے ہیں۔ لہذٰا یہی شعور ہماری بڑی کامیابیوں میں سے ایک ہے۔

اسلام ٹائمز: وزیراعظم کے دورے امریکہ کے حوالے سے کیا کہیں گے۔؟

سردار مزمل خان کاکڑ: ملک سیلاب اور دہشتگردی کی آفتوں میں پھنسا ہوا ہے، جبکہ ہمارے وزیراعظم امریکہ کے مہنگے ترین ہوٹل میں قیام پذیر ہیں۔ جسکا یومیہ کرایہ آٹھ لاکھ روپے ہے۔ انکی ساکھ کا اسی بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ وہ نہ امریکہ، روس اور نہ ہی انڈیا کے رہنماؤں سے انکی ملاقات ہو سکی۔ اسکی وجہ یہی ہے کہ دوسرے ممالک اب نواز شریف کو اس قابل ہی نہیں سمجھتے، کہ ان سے ایک ملاقات کیلئے بھی راضی ہوں۔
خبر کا کوڈ : 411941
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش