0
Saturday 13 Aug 2022 18:31

رہبر کبیر امام خمینی کا فتویٰ

رہبر کبیر امام خمینی کا فتویٰ
تحریر: شکیل بخاری ایڈووکیٹ

14 فروری 1989ء کو آیت اللہ امام خمینی رحمۃ اللہ نے فتویٰ جاری کیا، جس میں عالم اسلام کو مخاطب کیا۔ یہ فتوی ریڈیو ایران پر براہ راست پڑھ کر سنایا گیا۔ فتویٰ میں کیا تھا۔؟ یہ فتویٰ کیوں دیا گیا۔؟ اور اس فتویٰ کے بعد دنیا کا منظر نامہ کیا تھا۔؟ امام خمینی نے فتویٰ دیتے ہوئے فرمایا: "دنیا کے مسلمانوں کو میں کہنا چاہتا ہوں کہ آیات شیطانی کا مولف جس نے اپنی کتاب میں اسلام، پیغمبر اکرم اور قرآن مجید کی توہین کی ہے اور وہ ناشرین کہ جن کو اس کے محتوا (متن) کا پتہ تھا، ان کے لیے پھانسی (قتل) کا حکم دیتا ہوں۔ میں غیرت مند مسلمانوں سے تقاضا کرتا ہوں کہ جہاں کہیں بھی ان لوگوں کو پاٸیں، ان کو پھانسی دیں، تاکہ پھر کوٸی مسلمانوں کے مقدسات کی توہین کرنے کی جرات نہ کرے اور اگر کوٸی اس راستے میں مارا جائے تو وہ شہید ہے، اگر کوٸی اس کتاب کے مولف تک پہنچ سکتا ہے اور اس کو قتل کرنے کی استطاعت نہیں رکھتا تو وہ لوگوں کو بتائے، تاکہ وہ اپنے انجام کو پہنچ سکے۔والسلام"

امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے اس فتویٰ نے پوری دنیا میں کھلبلی مچا دی اور استعمار، اس کے حواری اور اسلام و مسلمین کی توہین کرنے والوں کو ان کی حد بتا دی، ایک دفعہ استکباری قوتیں یکجا ہو کر فتویٰ واپس لینے کی بات کرتی ہیں، ایران پر پابندیاں لگا دی، تاکہ یہ فتویٰ واپس لیا جائے، مگر ایسا نہ ہوسکا۔ امام خمینی اپنے موقف پر قاٸم رہے اور کبھی فتویٰ واپس نہیں لیا۔ 1988ء میں ملعون سلمان رشدی نامی شخص جو کہ ایک بھارت نژاد ناول نگار ہے، ایک ناول لکھا شیطانی آیات (The satanic verses)، جو بڑے تنازعہ کا موجب بنا۔ اس کے بعد امام خمینی نے ملعون رشدی کے قتل کا فتویٰ جاری کیا، جو آج تک باقی ہے۔ اس ناول میں اسلام و مسلمین کی توہین کی گٸی ہے، جسے مسلمان ہرگز برداشت نہیں کرتے، کیونکہ مقدسات کی توہین کا حق کسی کو حاصل نہیں ہے۔

امام خمینی رضوان اللہ کے فتویٰ کے بعد یہ شخص روپوش ہوگیا اور تقریباً 10 سال روپوش رہا اور اسکے بعد برطانوی حکومت نے رشدی کو اپنی تحویل میں رکھا اور اس کی حفاظت کی ذمہ داری لی۔ اس کتاب کے شاٸع ہونے کے بعد بریڈ فورڈ Bradford جو کہ شمالی برطانیہ کا علاقہ ہے، مسلمانوں نے رسمی طور پر اس کتاب کو جلایا اور اس کی مذمت کی اور 12 اگست 2022ء کو نیو یارک میں ایک قاتلانہ حملے میں رشدی شدید زخمی ہوتا ہے، ہادی مطار نامی جوان کو گرفتار کر لیا جاتا ہے، جس کی تصویر سوشل میڈیا پر دیکھی جا سکتی ہے۔ مقدسات کی توہین کا حق کسی کو حاصل نہیں، اس پر ایمان رکھنا ہے یا نہیں، یہ ہر شخص کا اپنا اختیار ہے، کیونکہ دین میں زبردستی نہیں ہے، مگر دوسروں کے مقدسات کی توہین ایک غیر اخلاقی اور غیر قانونی کام ہے، جس کی پرزور مذمت ہونی چاہیئے۔
خبر کا کوڈ : 1009038
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش