0
Monday 6 Feb 2023 08:34

طالبان کی ثالثی اور ٹی ٹی پی

طالبان کی ثالثی اور ٹی ٹی پی
تحریر: مجید وقاری

حکومت پاکستان نے افغان طالبان سے کہا کہ وہ اسلام آباد اور تحریک طالبان پاکستان کے درمیان ثالثی کا کردار ادا کریں۔ یہ پہلا موقع نہیں ہے کہ افغان طالبان پاکستانی حکومت اور تحریک طالبان کے درمیان ثالثی کر رہے ہیں۔ اس سے قبل 2022ء میں افغان طالبان کی ثالثی سے مختلف سیاسی اور سکیورٹی سطحوں پر تحریک طالبان اور حکومت پاکستان کے درمیان علمائے کرام کی موجودگی میں مذاکرات کے کئی دور ہوئے، جو نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوئے۔ ان مذاکرات کی ناکامی کی سب سے اہم وجہ فریقین کا اپنے اپنے موقف پر اصرار تھا۔ جنگ بندی کی منسوخی کے بعد تحریک طالبان پاکستان نے پشاور کی مسجد میں خوفناک دھماکے سمیت سرکاری فوج کے ٹھکانوں نیز عوامی اور مقدس مقامات کے خلاف اپنے حملوں میں اضافہ کر دیا ہے۔تحریک طالبان نے اس میں ملوث ہونے کی تردید کی ہے، تاہم حکومت پاکستان کا کہنا ہے کہ یہ دھماکہ تحریک طالبان کا کام تھا۔

سیاسی امور کے ماہر عبداللطیف نظری کہتے ہیں: "ایسا لگتا ہے کہ حکومت پاکستان اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ وہ فوج کے ذریعے تحریک طالبان سے نمٹ نہیں سکتی، کیونکہ یہ گروپ اور پاکستان میں سرگرم دیگر دہشت گرد گروہ مل کر کسی بھی جگہ کسی بھی فرد کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس حوالے سے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کی ان سے نمٹنے کی صلاحیت پر سنجیدگی سے سوال اثھ رہے ہیں۔ حکومت پاکستان دہشت گرد گروہ تحریک طالبان کے اہم ترین مطالبات کو قبول نہیں کرسکتی، جن میں قبائلی علاقوں کے خیبر پختونخوا صوبے میں الحاق کی منسوخی، افغانستان کے ساتھ سرحد سے پاکستانی فوج کا انخلا اور ٹی ٹی پی کے دہشتگردوں کی عام معافی ہے۔ اس کے علاوہ ٹی ٹی پی کا اہم مطالبہ پاکستان میں اسلامی حکومت کا قیام ہے۔

پاکستانی حکومت اور فوج کو جس چیز کی سب سے زیادہ پریشانی ہے، وہ اس ملک میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کے بارے میں تحریک طالبان کے نئے نعرے ہیں۔ اس گروپ نے افغان طالبان کی پیروی میں، جو ایک سال سے زیادہ عرصے سے افغانستان میں حکومت میں ہیں، اعلان کیا ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی وجہ سے پاکستانی حکومت کے نقطہ نظر سے تحریک طالبان کو متاثر کرنے والا واحد گروہ افغان طالبان ہے، اس لیے وزیراعظم پاکستان شہباز شریف کے خصوصی مشیر نے اعلان کیا ہے کہ ایک وفد کابل بھیجا جائے گا، تاکہ افغان طالبان سے کہیں کہ وہ دہشت گردوں کو اس ملک سے نکال دیں اور ٹی ٹی پی کو پاکستان پر حملے کے لیے اپنی سرزمین استعمال نہ کرنے دیں۔

سیاسی امور کے ماہر بہرام زاہدی کا کہنا ہے کہ "تحریک طالبان کے دہشت گردوں کی افغانستان کے ساتھ مشترکہ سرحد سے گزر کر پاکستان کی سرزمین میں کارروائیوں میں اضافے کے حوالے سے پاکستانی حکومت کا موقف افغان طالبان کو قبول نہیں ہے۔ وہ اصولی طور پر اس طرح کے موقف کو مسترد کرچکے ہیں۔ افغان طالبان کا کہنا ہے کہ دہشت گردی پاکستان کا اندونی مسئلہ ہے اور اسے افغانستان سے نہ جوڑا جائے اور پاکستانی فوج اور سکیورٹی فورسز کو اسے تباہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیئے، لیکن کیا افغان طالبان پاکستانی حکومت اور ٹی ٹی پی کے درمیان ثالثی کریں گے۔؟ ایسا لگتا ہے کہ طالبان کا ایک بار پھر اسلام آباد حکومت کے موقف پر انحصار ہے کہ وہ تحریک طالبان کے ساتھ کیسا برتاؤ کرتے ہیں۔"

اس سلسلے میں افغانستان کی طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی کے حالیہ بیانات کا حوالہ دیا جا سکتا ہے، جنہوں نے پشاور میں ہونے والے دہشت گردانہ دھماکے کے لیے طالبان کو ذمہ دار ٹھہرانے کے لیے پاکستانی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا اور اس پر زور دیا کہ اس کی جڑیں پاکستان میں ہیں۔ سلامتی کے مسائل کی ذمہ داری اسلام آباد کی ہے اور پاکستان کی جانب سے اسے افغان طالبان سے منسوب کرنا درست نہیں ہے۔ اس لیے یہ تصور کرنا مشکل ہے کہ افغان طالبان پاکستانی حکومت کی ثالثی کی درخواست کا فوری طور پر مثبت جواب دیں گے۔

اگرچہ تحریک طالبان پاکستان بھی خود کو بہتر پوزیشن میں دیکھتی ہے، لیکن ایسا لگتا ہے کہ وہ پاکستانی حکومت کے ساتھ کسی پیشگی شرط کے بغیر ممکنہ نئے مذاکرات میں حصہ نہیں لینا چاہے گی۔ تاہم اگر پاکستان کے علمائے کرام متفقہ طور پر اس ملک میں دہشت گردی کی کارروائیوں کی مذمت کرتے ہیں اور اسے حرام قرار دیتے ہیں تو ممکن ہے کہ میدان تنگ ہونے پر تحریک طالبان اسلام آباد سے بات چیت پر آمادہ ہو جائے۔
خبر کا کوڈ : 1039786
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش