1
0
Tuesday 28 Feb 2023 13:03

آل رسول (ص) کو سادات کیوں کہا جاتا ہے؟

آل رسول (ص) کو سادات کیوں کہا جاتا ہے؟
تحریر: سیّد عاقب شاہ ترمذی

وہ لوگ جن کا سلسلہ نسب بلواسطہ حضرات حسنین کریمینؑ اور خاتون جنت سیّدہ فاطمہ سلام اللّٰہ علیہا کے واسطے سے نبی اکرمﷺتک جا پہنچتا ہے، وہ عجم خاص طور پر پاک و ہند میں جبکہ عرب کے بعض ممالک میں سیّد و سادات کہلاتے ہیں۔ اعتراض کیا جاتا ہے کہ آپﷺ قبیلہ قریش کی ذیلی شاخ بنو ہاشم سے تھے، تو آپﷺ کی اولاد سیّد کیسی ہوئی۔؟ انہیں سیّد کیوں اور کس بنیاد پر کہا جاتا ہے۔؟ یہ اصطلاح اور عرف ان کے لئے کیوں، کیسے اور کب خاص ہوا، اس کی حیثیت کیا ہے۔؟ اس سوال کے جواب میں چند امور قابل غور ہیں، جن کے سمجھنے سے تمام اشکالات اور اعتراضات دور ہو جاتے ہیں۔ ایک ہے لفظِ سَیِّد دوسرا لفظ شریف ہے۔ لفظِ سیّد، عربی زبان کا لفظ ہے، جس کی جمع سادات ہے، اس کا اطلاق کئی معنوں پر ہوتا ہے، یعنی مربی، مالک، شریف، فاضل، کریم، حلیم، اپنی قوم کی ایذاء پر تحمل کرنے والا، رئیس، سردار اور پیشوا۔ قاضی عیاض (رہ) لفظ سیّد کی تشریح میں لکھتے ہیں کہ سیّد وہ ہے، جو اپنی قوم پر فائق ہو اور یہ سیادت، ریاضت، قیادت اور بلند رتبے سے عبارت ہے، آگے لکھتے ہیں کہ سیّد وہ ہے، جو خیر میں اپنی قوم پر فائق ہو۔ (مشارق الانوار ج سوم/ص۲۸۶)۔

علامہ ابن منظور افریقی لکھتے ہیں کہ شریف، مالک، فاضل، سخی اور بردبار کو سیّد کہتے ہیں۔ (لسان العرب ج ۸/ص۴۲۲)۔ بعض نے فرمایا ہے کہ سیّد وہ ہے، جو خیر و برکات میں دوسروں سے بڑھ کر ہو۔ شیخ الہند محمود حسن دیوبندی محدث دارالعلوم دیوبند کے مایہ ناز شاگرد رشید مولانا عبدالحفیظ بلیاوی اپنی مشہور زمانہ لغت کی کتاب "مصباح اللغات" میں لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک سیّد وہ ہے، جو خاتون جنت سیّدہ فاطمۃ الزہرا سلام اللہ علیہا کی اولاد اور نسل سے ہو اور السَّیدان حضرت امام حسنؑ و امام حسینؑ کو کہتے ہیں، جو کہ علی کرّم اللّٰہ وجہہ کے بیٹے ہیں۔ دوسرا لفظِ شریف ہے، یہ بھی عربی زبان کا لفظ ہے، اس کی جمع اشراف آتا ہے، جس کا لغوی معنی ہے بزرگ، عالی خاندان، اصیل، لفظِ سیّد، شریف دونوں کے معنوں میں اتحاد پایا جاتا ہے۔ رسول کریمﷺکی محبت ہر مسلمان کا جزوءِ ایمان ہے اور آپﷺ کی ذات تمام اہل ایمان کے لئے سب سے بڑھ کر محبوب و محترم ہیں۔

دوسرا یہ کہ ہر شخص کو طبعاً اپنی اولاد سے محبت ہوتی ہے۔ پس آنحضرتﷺ کی آلؑ سے محبت، ان کی تعظیم بھی اہل ایمان کے لئے تقاضائے ایمان اور واجب ہے، متعدد نصوص میں اس کا حکم بھی موجود ہے۔ سوم یہ کہ جس طرح بادشاہ کی اولاد شہزادے اور شہزادیاں کہلاتی ہیں، اسی طرح سیّد الرسل صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی اولاد کو سیّد کہا جاتا ہے، یہ لفظ آنحضرتﷺ نے سبطین کریمینؑ کے لئے خود استعمال فرمایا ہے، چنانچہ امام حسن سلام اللّٰہ علیہ کے بارے میں فرمایا، "ھٰذا اِبنِی سیّد" (میرا یہ بیٹا سیّد ہے) فاطمۃ الزہرا سلام اللّٰہ علیہا کے بارے میں فرمایا: "وَ فَاطِمَۃُ سَیِّدَۃُ النِّسَاءِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ وَ اَنَّ الْحَسَنَ وَ الْحُسِیْنَ سَیِّدَا شَبَابِ اَھْلِ الْجَنَّۃِ۔" (ترمذی ج ۲/ص ۶۹۸)۔ اگر یہ لفظ نہ بھی استعمال فرمایا ہوتا، تب بھی آپﷺ کی اولاد کو اپنا آقا اور سردار سمجھنا ہمارا فرض تھا کہ آقا کی اولاد آقا کہلاتی ہے، یہی معنی سیّد کا ہے۔ سیّد عزت و توقیر کے لئے استعمال ہونے والا ایک لفظ ہے۔

تعجب ہے کہ آل النبی علیہم السلام جن کا نام نامی آقا کے ساتھ آتا ہے اور ایک مسلمان کی نماز ان کے ذکر خیر کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتی، وہ نفوس قدسیہ اگر سیّد کہلانے کے قابل نہیں تو پھر کون مقدس ہستی اس قابل ہوسکتی ہے۔؟ اس اطلاق میں خرابی کیا ہے۔؟ اگر اس عربی لفظ کا معنیٰ سردار ہے تو کیا اہلِ بیت کی سرداری سے بڑی سرداری بھی کوئی ہوگی۔؟ ایک دو حرف شناس کے لئے "حضرت" "مولانا، علامہ" اور چند ماہ چند رسالے پڑھنے والے پر "مفتی" کا اطلاق شرعاً درست ہے اور نبی فخر موجودات کے خانوادے کے لئے سیّد کا استعمال درست نہیں۔؟ اگر اس لفظ کے تمام معانی پر غور کیا جائے تو کیا یہ ساری خصوصیات ان کے اندر موجود نہیں۔؟ مجازی جاہ و جلال رکھنے والوں کو سردار، ان کی اولاد کو سردار زادہ، رئیس زادہ، صاحبزادہ کہنے پر اعتراض نہیں تو یہاں کیوں۔؟ اگر جواب اثبات میں ہے تو پھر اس خانوادے کے لئے احتراماً یہ لفظ استعمال کرنے میں قباحت کیا ہے۔؟

اہلِ لغت نے قریش کی وجہ تسمیہ (یہ نام پڑنے) کی مختلف وجوہات ذکر کی ہیں: بعض کہتے ہیں کہ "قریش" تصغیر ہے، قرش کی، جس کے معنی سمندر کے ایک طاقتور جانور کے ہیں، اپنی طاقت کی وجہ سے سب پر غالب رہتا ہے، وہ جس جانور کو چاہے کھا لیتا ہے، مگر اس کو کوئی نہیں کھا سکتا، اسی طرح یہ قبیلہ بہادری و شجاعت کی وجہ سے سب پر غالب رہتا ہے، کسی سے مغلوب نہیں ہوتے، اس لئے قریش کے نام سے معروف ہوئے۔ ہاشم: امام مالک، امام شافعی فرماتے ہیں کہ ہاشم کا نام عمرو تھا، یہ ہشم سے ہے، جس کا معنی چورہ کرنے کے ہے، مکہ میں قحط تھا، لوگ قحط کی وجہ سے لاغر، ناتواں تھے، ہاشم نے شوربہ میں روٹیاں چور کر اہل مکہ کو کھلائیں، ایک نہیں کئی مرتبہ انہیں کھلایا، جس کی وجہ سے اس کا نام ہاشم پڑ گیا۔ (سیرت مصطفٰیؐ)۔

اگر شجاعت و بہادری کی بناء پر نضر بن کنانہ کو قریش اور سخاوت کی وجہ سے عمرو کو ہاشم کا لقب اور ان کی اولاد کو بنو قریش، بنو ہاشم کے نام سے موسوم کیا جاسکتا ہے تو سیّد الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، جن کا فرمان ہے کہ اَنا سَیِّدُ وُلدِ آدَمؐ (میں اولادِ آدمؐ کا سردار ہوں)۔ سیّد الانبیاء و المرسلین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ ساتھ تمام اولاد آدمؐ کے سیّد (سردار) بھی ہیں، جد امجد اولاد آدم کے سردار، جدہ تمام جنتی عورتوں کی سردار، حسنین کریمین نوجوان جنتیوں کے سردار کی اولاد کو کیوں اور کیسے سیّد نہیں کہا جا سکتا۔؟ اہل فارس اپنے سردار کو سیّد کہا کرتے تھے، لیکن جب تیسری صدی ہجری میں آل النبیﷺ فارس میں آکر آباد ہوئے، تو انہوں نے دیکھا کہ وہ کون ہیں، جو اس خاندان سے عظمت، شرافت، حسب و نسب اور رتبے میں بڑھ کر ہیں، یہی وہ خاندان ہے، جو لفظ سیّد اور لفظ شریف کے معنی پر پورا اترتے ہے، لہٰذا انہوں نے اس خاندان کے لئے لفظ سیّد کا استعمال شروع کیا۔

یہ عرف اور اصطلاح ان کے لئے کب خاص ہوئی تو اس حوالے سے چند ادوار کا ذکر پیش خدمت ہے: چھٹی صدی ہجری کی کتاب تاریخ بیہق میں ایک باب سادات بیہق کے عنوان سے تدوین ہوا ہے، اس میں پیغمبرؐ کے خاندان سے جنہوں نے وہاں سفر کیا، ان کے بارے میں ذکر ہوا ہے، اس سے پہلے قم (ایران کا شہر جسیے آشیانہ اہلبیتؑ کہا جاتا ہے) کی تاریخ میں پیغمبرؐ کی اولاد کے لئے سیّد، سادات کا لفظ استعمال ہوا ہے، ان سندوں کے ہوتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ سادات کا لفظ چوتھی صدی ہجری سے ہی پیغمبرؐ کی اولاد کے لئے استعمال کیا جاتا تھا، ایک اور دور کا ذکر کرتے ہوئے علامہ جلال الدین سیوطی کچھ یوں رقم طراز ہیں: بے شک "سیّد" کا اطلاق قرونِ اولیٰ میں ہر اُس شخص پر ہوتا تھا، جو اہلِ بیت کرام سے ہو، چاہے وہ حسنی ہو، حسینی ہو یا علوی ہو، محمد بن حنفیہ کی اولاد اور دیگر اولادِ حضرت علی کرَّم اللّٰہ وجہہ سے جعفری ہو یا عقیلی ہو یا عباسی، جب مصر میں خلفاءِ فاطمیین کو حکومت ملی (909ء تا 1171ء) تو انہوں نے"سیّد" کا لفظ فقط حضرت حسن و حسین سلام اللّٰہ علیہما کی اولاد کے  لئے مختص کر دیا، چنانچہ یہ تخصیص اس دور سے اب تک قائم ہے۔ (الحاوی للفتاوی للسیوطی)۔

مصر سمیت مشرق و مغرب کے تمام شہرِ اسلامیہ میں اس وقت اس خاندان کے لئے لفظِ شریف و سیّد کی عام اصطلاح یہی ہے، ہمارے دیار عجم اور خاص طور پر پاک وہند میں یہ خاندان رسولﷺ کب سے "سیّد" کے لقب سے مشہور ہوئے، تو اس کی بنیاد بھی ایک سرکاری حکم نامہ ہے: ہند و پاک میں پیر و مرشد کو سیّد، سیّدی اور ان کی اولاد کو شاہ، جبکہ بادشاہ اور ان کی اولاد کو بھی شاہ کہتے تھے، لیکن سلطان غیاث الدین بلبن سلاطینِ ہند میں سے تھے، دہلی پایہ تخت تھا، موصوف کا دور حکومت (1266ء سے تا 1287ء) ہے اور یہ سلطان بلبن حضرت بابا فرید گنج شکر فاروقی قریشی کے خسر تھے، انہوں نے اپنے دور حکومت میں ایک نوٹیفکیشن جاری کیا، جسے بلبن کا شاہ گزٹ نوٹیفکیشن کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اس میں طے ہوا کہ تمام اولاد فاطمی اپنے نام کے آغاز میں سیّد اور آخر میں لفظ شاہ لکھیں گے، یہ طریقہ ابھی تک پاک و ہند میں رائج ہے کہ سادات اپنے نام کے شروع میں سیّد اور آخر میں شاہ لکھتے ہیں، اب یہ عرف بھی ہے اور اصطلاح بھی ہے، عرب کے عرف و اصطلاح میں لفظِ شریف، سیّد جبکہ عجم اور خاص طور پر پاک و ہند کے عرف و اصطلاح میں صرف لفظِ سیّد یہ اولادِ رسولؐ کے لئے خاص اور لقب ہے۔

عرب و عجم کے ہاں یہ طریقہ چلا آرہا ہے کہ جب کوئی شخص جاہ و جلال کا مالک ہو، چاہے اس کی یہ حیثیت حلم، بردباری، شجاعت، سخاوت کی وجہ سے ہو یا علم، فقاہت، ذہانت کی بنیاد پر ہو تو اس کے بعد آنے والی ان کی اولاد کو اسی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر اولادِ جناب ابوبکر صدیق، جناب عمر فاروق، آپؐ کے چچا جناب عباس کو صدیقی، فاروقی، عباسی، اسی طرح جناب علی کرّم اللّٰہ وجہہ کے ایک بیٹے کی اولاد اعوان کہلاتے ہیں۔ زمانہ قدیم میں گزرنے والے اولیاء کی اولاد کو میاں، اخونزادہ، صاحبزادہ، پیرزادہ کے نام سے موسوم کرتے ہیں۔ یہاں تک کہ سرکاری سطح پر محکمہ مال وغیرہ کے ریکارڈ میں ان کے نسب کے خانہ میں یہی نام درج کئے جاتے ہیں۔ یہی ان کے نسب کی پہچان ہوا کرتی ہے۔ اگر اس نکتے پر کچھ غور کیا جائے تو موجودہ دور کے تمام تر خاندانوں نے اپنے بنیادی قوم، قبیلے کی بجائے کسی بھی ذیلی شاخ کی طرف خود کو منسوب کیا ہے۔ اس پر معترض کو اعتراض نہیں، تاہم صرف آل رسولؐ کے حوالے سے اس کی ذہن میں اعتراضات اور اشکالات سر اٹھاتے ہیں۔

اس تحریر کے استدلالات (دلائل) کی بنیاد عرف اور اصطلاحات ہے، اگر اصولین اور اہل منطق کے ہاں ان قواعد کی حیثیت کو جان لیا جائے تو میرے موضوع کو سمجھنے میں کوئی دقت اور دشواری نہیں ہوگی: عرف: ایک لفظ جس کو واضع نے ایک معنیٰ کے لئے وضع کیا ہو، پھر ایک خاص اہل علاقے یا اہل زبان اور یا عام لوگوں نے اس کو دوسرے معنی میں نقل کیا ہو۔ عرف کا شریعت میں اعتبار ہے، جب تک کوئی قرینہ نہ ہو، تب تک عرف پر عمل کرنا مقدم ہے، اسی وجہ سے کبھی اس پر حکم کا مدار ہوتا ہے، علامہ بیری کی شرح مبسوط میں ہے"اَلثَّابِتُ بِالعُرفِ کَالثَّابِتُ بِالنَّصِّ" جو بات عرف سے ثابت ہوتی ہے، وہ نص (قرآن، حدیث) سے ثابت ہونے والی بات کی طرح ہے، اسی طرح ایک دوسرا قاعدہ ہے: اَلثَّابِتُ بِالعُرفِ کَثَابِتِ بِدَلِیلِِ (جو عرف میں ثابت ہے، وہ شریعت میں دلیل شرعی سے ثابت کی طرح ہے)۔

ایک اور قاعدہ ہے"اَلْعَادَۃ مَحَکمَۃُْ" عادت فیصلہ کن چیز ہے، ان قواعد کی بنیاد یہ حدیث ہے: "مَا رَآہُ المُسلِمُون حَسَناً فَھُوَ عَندَ اللّٰہ حَسَن" جس چیز کو سب مسلمان اچھا سمجھیں، وہ اللّٰہ تعالٰی کے نزدیک بھی اچھی چیز ہے (یہ موقوف حدیث ہے، جس کی امام احمد نے اپنی مسند میں تخریج کی ہے)۔ ان تمام دلائل و قرائن سے مضبوط بنیاد پر یہ ثابت ہوتی ہے کہ آل رسولؐ کے لئے لفظِ سیّد استعمال کرنے پر اجماع امت ہے۔ دلائل اربعہ میں اجماع امت بھی مستقل دلیل ہے۔ مشہور فقیہ ابواللیث سمرقندی (متوفی۳۷۳ھ) اجماع کے حوالے سے سورۃ النساء کی آیت نمبر (۱۱۵) کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ اجماع امت حجت ہے، کیونکہ جس نے اجماع کی مخالفت کی تو اس نے سبیل المؤمنین کی مخالفت کی۔ (تفسیر السمرقندی)۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ جب اہل اسلام نے آل رسولؐ کے لئے ان کے احترام اور تعظیم کو مدنظر رکھتے ہوئے لفظِ سیّد، سادات کی اصطلاح خاص کی، جو نہ شریعت کے مخالف ہے، نہ ہی اصولین اور اہل منطق کے اصولوں کے تو اس پر اعتراض کرنا یہ کم علمی اور وقت کے ضیاع کے علاوہ باقی کچھ بھی نہیں، لہٰذا مسلمانوں کے عرف اور اصطلاح میں آلِ رسولؐ کو سیّد اور سادات کہنا یہ شرعاً عرفاً، عقلاً اور اصطلاحاً بالکل درست ہے۔
خبر کا کوڈ : 1043686
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ملک
Pakistan
آپ نے حضرت علی (ع) کے ایک بیٹے کا لکھا کہ وہ اعوان کہلواتے ہیں؟
براہ کرم اسکا حوالہ مینشن کر دیں پلیز، سلامت رہیں۔ بہترین علمی پوسٹ ہے۔
ہماری پیشکش