1
Saturday 27 May 2023 19:21

اسلامک جہاد فلسطین، غزہ سے لے کر جنین تک

اسلامک جہاد فلسطین، غزہ سے لے کر جنین تک
تحریر: محسن فائزی
 
جب ہم اسلامک جہاد فلسطین کا نام سنتے ہیں تو ہمارے ذہن میں غزہ کی پٹی میں سرگرم حماس سے چھوٹے ایک ایسے مسلح گروہ کا تصور آتا ہے جو ایران کے قریب ہے اور شہید فتحی شقاقی اور مرحوم رمضان عبداللہ کی یادگار ہے۔ ایسا چھوٹا گروہ جو سب سے قدیمی اسلامی مزاحمتی گروہ ہے اور اس کی تاریخ حماس سے بھی زیادہ پرانی ہے۔ لیکن چونکہ یہ گروہ ہر گز سیاسی سرگرمیوں میں شریک نہیں ہوا لہذا سماجی طور پر زیادہ جانا پہچانا نہیں اور فلسطینی معاشرے پر بھی کم اثرورسوخ کا حامل ہے۔ اب شاید اسلامک جہاد کو دوبارہ متعارف کروانے کی ضرورت ہے کیونکہ غزہ میں سرگرم چھوٹا فوجی گروہ اس کیلئے مکمل تعریف نہیں ہو سکتی۔ اسلامک جہاد فلسطین اس وقت ایک اہم نقطہ قوت کا مالک ہے اور وہ مغربی کنارے میں جہادی سرگرمیوں کے ذریعے حالات کا رخ موڑنا ہے۔
 
یہ وہ چیز ہے جو اسلامک جہاد فلسطین کے خلاف 2022ء اور 2023ء میں غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے 3 اور 5 روزہ دو جنگیں شروع کرنے کا بنیادی سبب قرار پائی ہے۔ صیہونی فوج کی جانب سے اسلامک جہاد فلسطین کو خاص طور پر جارحانہ اقدامات کا نشانہ بنائے جانے کی ایک بڑی وجہ مغربی کنارے خاص طور پر جنین میں اس کی مزاحمتی سرگرمیاں ہیں۔ اسلامک جہاد سے منسوب بٹالینز مغربی کنارے خاص طور پر اس کے شمالی حصے میں سکیورٹی مساواتیں تبدیل کرنے میں مصروف ہیں۔ صیہونی ماہرین اور تجزیہ نگا آئندہ ایک عشرے میں اس جہادی گروہ کی جانب سے درپیش شدید خطرات پر بہت زیادہ اظہار تشویش کر رہے ہیں اور اسے حتی حماس سے بھی زیادہ خطرناک قرار دے رہے ہیں۔ گذشتہ چند سالوں سے حماس غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں کم از کم تناو کی پالیسی پر گامزن ہے۔
 
حماس کا خیال ہے کہ جس قدر غاصب صیہونی رژیم کو فوجی اقدامات انجام دینے کا زیادہ موقع فراہم کیا جائے گا اسی قدر غزہ میں اسلامی مزاحمت کی فوجی طاقت بڑھانے کی رفتار میں کمی آئے گی۔ لہذا غزہ میں موجودہ معیشتی صورتحال، غزہ سے مقبوضہ فلسطین میں جا کر مزدوری کرنے والے افراد کے لائسنس منسوخ کر دیے جانا، بے روزگاری میں اضافہ اور اسپتالوں اور صحت کے مراکز میں ادویہ جات اور دیگر وسائل کی شدید کمی کے ساتھ ساتھ غزہ میں گذشتہ جنگوں خاص طور پر سیف القدس معرکے کے بعد تعمیر نو کا کام انجام نہ پانا وہ بنیادی اسباب ہیں جن کے باعث حماس زیادہ سے زیادہ تناو کی پالیسی اپنانے سے گریز کرتی ہے اور بہت احتیاط سے عمل پیرا ہے۔ لیکن دوسری طرف اسلامک جہاد فلسطین نے واضح طور پر اعلان کیا ہے کہ وہ غاصب صیہونی رژیم کے مقابلے میں زیادہ سے زیادہ ٹکراو کی پالیسی پر گامزن ہے۔
 
اسلامک جہاد فلسطین جنین اور نابلس میں اپنے ملٹری ونگز کو مزید طاقتور بنا کر صیہونی رژیم سے ٹکراو کا مرکز وہاں منتقل کرنے کیلئے کوشاں ہے۔ گذشتہ چند سالوں میں صیہونی رژیم کا ردعمل اور جارحانہ اقدامات میں وسعت اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ اسلامک جہاد فلسطین نے درست پالیسی اپنا رکھی ہے۔ اسلامک جہاد فلسطین کی جانب سے صیہونی دشمن سے ٹکراو کا مرکز ثقل غزہ کی پٹی سے نکال کر مغربی کنارے منتقل کرنے کی سوچ موجودہ سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ کا کارنامہ ہے۔ انہوں نے 2018ء میں سابق سیکرٹری جنرل رمضان عبداللہ کے انتقال کے بعد یہ اہم ذمہ داری سنبھال رکھی ہے۔ البتہ اسلامک جہاد کا منظرعام پر آنے اور اسٹریٹجک اہمیت اختیار کرنے کا آغاز 2014ء میں 51 روزہ جنگ کے دوران ہوا جب اس کے فجر 7 نامی میزائل تل ابیب تک جا پہنچے۔
 
غاصب صیہونی رژیم کے خلاف مسلح جدوجہد میں زیاد النخالہ کی بھرپور اور موثر سرگرمیوں کے باعث 2014ء میں 51 روزہ جنگ کے بعد امریکہ نے ان کا نام دہشت گردی کی بلیک لسٹ میں شامل کر دیا۔ وہ اس لسٹ میں شامل کئے جانے والے دوسرے فلسطینی رہنما ہیں۔ اس سے پہلے اس نام نہاد دہشت گردی کی بلیک لسٹ میں صرف رمضان عبداللہ شلح کا نام تھا جو امریکہ نے 1995ء میں اس فہرست میں ڈالا تھا۔ زیاد النخالہ 14 سال تک صیہونی جیل میں قید بھی رہ چکے ہیں۔ وہ اپنی اسارت کے دوران بھی بہت فعال اور سرگرم تھے۔ 1970ء اور 1980ء کی دہائیوں میں صیہونی جیلوں میں موجود خاص حالات کے تناظر میں انہوں نے اپنی اسارت کی مدت میں "جماعت اسلامی" نامی تنظیم کی بنیاد رکھی۔ یوں زیاد النخالہ صیہونی جیلوں کے اندر اسلامی گروہ تشکیل دینے والے پہلے فلسطینی مجاہد ہیں۔
 
اسلامک جہاد فلسطین کے سیکرٹری جنرل زیاد النخالہ کی ایک اور اہم خصوصیت اسلامی ممالک میں سرگرم تنظیموں اور گروہوں سے ان کا قریبی رابطہ ہے۔ انہوں نے لبنان میں اپنی رہائش کے دوران کئی اسلامی ممالک کا دورہ کیا۔ اسی طرح ان کی غیر متنازعہ شخصیت تمام اسلامی گروہوں اور ممالک کی نظر میں قابل احترام ہے۔ 1995ء میں شہید فتحی شقاقی کی شہادت کے بعد جب رمضان عبداللہ سیکرٹری جنرل بنے تو زیاد النخالہ کو ڈپٹی سیکرٹری جنرل کی ذمہ داری سونپی گئی۔ اس وقت سے لے کر آج تک انہوں نے اکثر مواقع پر اسلامک جہاد کی نمائندگی کا کردار ادا کیا ہے۔ اسی طرح تقریباً تین عشروں سے لبنان میں رہائش پذیر ہونے کے ناطے لبنان میں اسلامی مزاحمت کی تنظیموں اور گروہوں سے بھی ان کے انتہائی قریبی تعلقات استوار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1060452
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش