0
Saturday 24 Feb 2024 13:23

پاک ایران گیس معاہدے پر اہم پیشرفت

پاک ایران گیس معاہدے پر اہم پیشرفت
تحریر: شبیر احمد شگری

اس وقت پاکستان میں گیس کا شدید ترین بحران ہے، ایک طرف گھروں میں گیس نہیں ہے تو دوسری طرف گیس کے بلوں میں بے حد اضافے سے عوام بہت پریشان ہیں۔ ایسے موقع پر امید کی کرن نظر آئی ہے کہ پاکستان کی جانب سے ایک عرصے سے تعطل کا شکار پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ مکمل کرنے کیلئے اقدامات کئے جا رہے ہیں جو کہ اہم ترین پیشرفت ہے۔ دیر آید درست آید کے مصداق پاکستان نے اپنے 80 کلومیٹر علاقے میں پائپ لائن بچھانے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے۔ اس سلسلے میں کابینہ کی توانائی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا گیا۔ رپورٹ کے مطابق کابینہ کی توانائی کمیٹی کے اجلاس میں ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی تعمیر کا معاملہ زیر غور آیا جس میں کابینہ کمیٹی نے اس کی باقاعدہ منظوری دیدی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پاکستان ایران سرحد تک ابتدائی طور پر 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھائی جائے گی، جس کیلئے توانائی کمیٹی سے اس منظوری کے بعد کابینہ سے حتمی منظوری لی جائے گی، 80 کلومیٹر پائپ لائن بچھانے کیلئے ایک سال کا عرصہ درکار ہوگا۔

ایران سے قدرتی گیس کے حصول کیلئے منصوبے پر بات چیت کا آغاز 1995 میں ہوا تھا اور 2008ء میں طے پانے والے معاہدے میں ابتدا میں بھارت بھی شامل تھا لیکن امریکہ کیساتھ جوہری معاہدے کے بعد بھارت نے اس منصوبے سے خود کو الگ کر لیا تھا۔ اس کے بعد پاکستان اور ایران نے دوطرفہ طور پر اس معاہدے کو آگے بڑھانے کا فیصلہ کیا۔ پاکستانی صدر نے دورہ ایران کے دوران ایک فریم ورک پر دستخط کئے تھے اور پاکستان اور ایران کے صدور نے مارچ 2013ء میں اس منصوبے کا باضابطہ افتتاح کیا اور اس منصوبے کو ’امن پائپ لائن‘ کا نام دیا تھا۔ دو طرفہ معاہدے کی رو سے یہ بھی طے پایا کہ اگر پاکستان اس منصوبے کو 2014ء کے آخر تک مکمل نہیں کرتا تو یکم جنوری 2015ء سے ایران سے گیس نہ لینے پر پاکستان یومیہ 10 لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرے گا۔ دونوں ممالک کے درمیان یہ معاہدہ 25 سال کیلئے کیا گیا تھا۔

پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ 2 ہزار 757 کلومیٹر طویل گیس پائپ لائن منصوبہ ہے۔ منصوبے کے مطابق پاکستان کو 750 ایم ایم سی ایف ڈی (75 کروڑ مکعب فٹ) گیس یومیہ حاصل ہونا تھی جو کہ گوادر پورٹ کے مکمل ہونے پر ایک ارب مکعب فٹ ہو جانا تھی اور اضافی 25 کروڑ مکعب فٹ گیس گوادر میں استعمال کی جانا تھی۔ منصوبے کے ابتدائی تخمینے کے مطابق اِس پر سات ارب امریکی ڈالر رقم خرچ ہونا تھے اور منصوبے کو پاکستان کے توانائی بحران کے تناظر میں گیم چینجر قرار دیا جا رہا تھا لیکن پھر اس پر امریکی اعتراضات سامنے آگئے لیکن اب صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ امریکہ تو اپنے ملک میں مزے کرر ہا ہے لیکن پاکستان میں گیس کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے، سردیوں میں تو گیس کی لوڈشیڈنگ ہوتی ہی تھی لیکن اب گرمیوں میں بھی گیس کی مسلسل فراہمی مسئلہ بن گئی ہے اور قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ گزشتہ ایک ماہ کے دوران گیس کی قیمتیں کئی بار بڑھی ہیں۔

چند روز قبل آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) نے گیس کی قیمتوں میں مزید 67 فیصد تک اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کیا ہے، جس کے مطابق قیمتوں میں اضافے کا اطلاق یکم فروری سے ہوگا۔ دوسری جانب انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) انرجی سیکٹر پر مزید ٹیکسوں میں اضافے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ اِن حالات میں پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ پاکستان کو جرمانے سے بچنے کیلئے پہلے مرحلے کے تحت گوادر سے ایرانی سرحد تک 81 کلومیٹر پائپ لائن بچھانی ہے۔ اس لئے پاک ایران گیس لائن منصوبے کو دو مرحلوں میں مکمل کرنے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے، خصوصی سرمایہ کاری سہولت کونسل (ایس آئی ایف سی) نے 781 کلومیٹر طویل منصوبے میں سے پہلے مرحلے کو مکمل کرنے کی منظوری دی ہے جس کے تحت گوادر سے پائپ لائن شروع کرکے تقریباً 80 کلومیٹر تک کا حصہ بچھایا جائے گا۔

اگر امریکہ کی طرف سے کوئی اعتراض سامنے نہ آیا تو اگلے مرحلے میں اسے نواب شاہ سے منسلک کیا جائے گا۔ ایران پہلے ہی پاکستان کی ڈیڈ لائن میں ستمبر 2024ء تک توسیع کر چکا ہے، اب پٹرولیم ڈویژن کو جلد از جلد وفاقی کابینہ سے انتظامی منظوری حاصل کرنا ہوگی۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ انٹر اسٹیٹ گیس سسٹم (آئی ایس جی ایس) کے پاس 81 کلومیٹر طویل پائپ لائن بچھانے کیلئے فنڈز دستیاب ہیں۔ وزارت خزانہ کے پاس ساڑھے تین سو ارب روپے (1.2 ارب ڈالرز) کی رقم موجود ہے، جو جی آئی ڈی سی (گیس انفرا اسٹرکچر ڈویلپمنٹ سیس) کی مد میں جمع کیے گئے تھے۔ اس منصوبے کے تحت ایران اپنی طرف کا کام مکمل کرچکا ہے لیکن یہ پروجیکٹ 2014ء سے تاخیر کا شکار ہے۔ اِس سلسلے میں ایران پاکستان کو تین نوٹس بھی دے چکا ہے، تازہ ترین نوٹس تقریباً ڈیڑھ ماہ قبل موصول ہوا تھا، پہلا نوٹس ایران نے 2019ء میں بھیجا تھا۔ 2022 میں پاکستان کو دوسرا نوٹس بھیجا گیا تھا کہ پاکستان اپنی سائیڈ پر گیس پائپ لائن منصوبے کا حصہ فروری یا مارچ 2024ء تک تعمیر کر لے اب ایران نے اب رواں سال ستمبر تک منصوبے میں توسیع کر دی ہے، اُس نے پاکستان کو اپنی قانونی اور تکنیکی مہارت اور تعاون کی پیشکش بھی کی ہے تاکہ 180 دن کی ڈیڈ لائن کے اختتام سے قبل مشترکہ طور پر برادر ممالک مل کر پہلے مرحلے کو مکمل کرلیں۔

پاکستان منصوبے کی تاخیر کی وجہ یہ بیان کرتا آیا ہے کہ ایران پر امریکی پابندیوں کی وجہ سے پاکستان اس پراجیکٹ پر کام مکمل نہیں کر پایا، تاہم ایرانی حکام اس دلیل کو نہیں مانتے اور امریکی پابندیوں کو بلا جواز قرار دیتے ہیں۔ عراق اور ترکی طویل عرصے سے ایران سے گیس خرید رہے ہیں کیونکہ اُنہیں امریکی پابندیوں سے استثنیٰ حاصل ہے۔ واضح رہے کہ جی ایس پی اے پر فرانسیسی قانون کے تحت دستخط کیے گئے تھے اور اِس سلسلے میں پیرس میں قائم ثالثی عدالت دونوں ممالک کے درمیان پیدا ہونیوالے تنازعات طے کرنے کا فورم ہے۔ اگر اسلام آباد کے حکام مثبت جواب دینے میں ناکام رہے تو تہران پیرس میں قائم بین الاقوامی ثالثی سے 18 ارب ڈالر کے جرمانے کا مطالبہ کر سکتا ہے۔ قومی اسمبلی کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے ایک اجلاس میں یہ بتایا جا چکا ہے کہ اگر پاکستان نے یہ منصوبہ مکمل نہ کیا تو اِسے 18 ارب ڈالر کا بھاری جرمانہ ادا کرنا پڑے گا۔

پاکستان نے جب معاہدہ کیا تھا اِس وقت بھی تو ایران اقتصادی پابندیوں میں جکڑا ہوا تھا، معاہدہ کرتے وقت پاکستان کو تمام تر مسائل کو مدنظر رکھ کر فیصلہ کرنا چاہیئے تھا۔ اب ایران کی طرف سے تو کام مکمل ہے اور تاخیر اس طرف سے ہے۔ بہرحال اب سنجیدگی سے اس منصوبے کو مکمل کرنے پر توجہ کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف معاہدے ہی کی اہمیت نہیں پاکستان میں گیس کی قلت بھی اہم مسئلہ ہے، اس معاہدے کی تکمیل سے ایک بڑا مسئلہ حل ہو جائے گا۔ امریکہ سے بات کرکے اِسے اپنی مجبوریوں اور اِس منصوبے کی اہمیت کا احساس دلانے کی ضرورت ہے جس سے یقیناً وہ  بخوبی واقف ہے، تھوڑی جدوجہد سے عین ممکن ہے کہ پاکستان کو بھی استثنیٰ حاصل ہوجائے۔ اگر بر وقت اقدامات کر لئے جاتے تو اب تک یہ منصوبہ مکمل ہوچکا ہوتا، بدقسمتی سے یہ سب پالیسیوں میں تسلسل کی کمی اور ناقص منصوبہ بندی کا نتیجہ ہے۔

اگر اب بھی سوچ سمجھ کر اس معاملے کو نہ سلجھایا گیا تو نہ صرف گیس کی قلت برقرار رہے گی بلکہ شاید ہمیں معاہدے کے تحت جرمانہ بھی ادا کرنا پڑے، ایسے حالات میں ملک عزیز کیلئے ایک اور مشکل پیدا ہوجائے گی، اس لئے اس معاہدے پر عملدرآمد کرنا عقلمندی کا ثبوت ہے۔ اللہ پاک میرے ارض وطن کی تمام مشکلات کو دور فرمائے اور اسے ایک خوشحال ملک بنا دے۔ آمین! اگر ہم جرات مندانہ اقدامات اٹھائیں تو برادر ہمسایہ ملک ایران ہماری صرف گیس کی ہی نہیں پیٹرول اور بجلی کی کمی کو بھی پورا کر سکتا ہے۔ آپ یہ جان کر حیران ہوں گے کہ برادر ہمسایہ ملک میں پیٹرول پاکستانی 15 روپے لیٹر ہے، اس لئے ایران کے ساتھ صرف گیس ہی نہیں بجلی، پیٹرول اور اسی طرح دوسرے اہم معاہدے ہونے چاہیئے۔ جس طرح یہ چیزیں ہماری ضرورت ہیں اسی طرح پاکستان بھی ایران کی بہت سی ضروریات پوری کر سکتا ہے اور دونوں برادر ہمسایہ اور دوست ممالک مل کر ایک دوسرے کی مشکلیں آسانی سے حل کر سکتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 1118005
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش