0
Thursday 10 May 2012 00:41

عوامل اتحاد اور اُمّتِ مسلمہ ۴

عوامل اتحاد اور اُمّتِ مسلمہ ۴
تحریر: غلام علی گلزار

اختلاف اور تصادم کی درجہ بندی:
شیخین بادشاہ نہیں تھے، انہوں نے سرکاری خزانہ(بیت المال) کو اپنے ذاتی خرچہ کی نذر نہیں کیا، وہ سادہ زندگی گزارتے ہوئے، اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کے حامل تھے، یہ بھی مد نظر رکھنے کی ضرورت ہے کہ اگر حضرت علی ع کو مناسب وقت پر موقع دیا گیا ہوتا، وہ اپنے زمانہ خلافت کے مقابلے میں اُن (دور شیخین کے) حالات میں بہت زیادہ کامیاب ہوئے ہوتے، کیونکہ جو زمانہ ان کو ملا وہ تباہیوں اور شورشوں سے بھرا ہوا تھا، جس کی جوہری وجہ مروان کی بد چلنی اور بنوامیہ کی ایجیٹیشن تھی، اگر کوئی حضرت علی ع کی انتظامی/حکومتی صلاحیت کا اندازہ کرنا چاہتا ہو وہ اُس ہدایت نامہ (مکتوب) کو پڑھ لے جو آپ ع  نے مالک اشتر (گورنر مصر) کو اچھے انتظام حکومت کے لئے بطور ”ضابطہ عمل“ (Code) لکھا تھا، (دیکھئے نہج ا لبلاغہ مکتوب ۳۵)، چنانچہ یہ مکتوب متعدد مسلم و غیر مسلم مفکرین کی طرف سے ”انسائیکلو پیڈیا برائے حکومت حسنہ“ قرار دیا جا چکا ہے۔ جیسے ڈاکٹر طٰہٰ حسین (مصر) اور ڈاکٹر کار لائل۔ بعض سُنی حلقے/مکاتب فکر خلافت شیخین اور ملوکیت معاویہ بن ابو سفیان کو ایک ہی گز (پیمانہ Scale ) سے ماپتے ہیں، یہ جذباتی انداز ہے۔ دانشمندانہ اور حقیقت پسندانہ نہیں ہے۔
 
حضرت فاطمة ا لزہرا س رسول اکرم ص کو سب سے زیادہ عزیز تھیں۔ لیکن آپ نے فرمایا ”اگر فاطمہ س بھی چوری (سرقہ) کا فعل انجام دے اس کا ہاتھ بھی کا ٹا جائے گا!“۔۔۔۔ اسلام میں دو رُخی پالیسی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، صحابہ رسول ص پر بھی حد (شرعی) جاری کی گئی، اگر منافقانہ عمل/غیر شرعی فعل کسی حدیث کو آلہ کار بنا کر مصلحت یا ضرورت یا جائز قرار دیئے جانے کی کوشش کی جائے پھر یا تو ایسی حدیث گڑھ لی گئی ہے (جو اصول حدیث کی رو سے واضح ہو چکا ہے/ہو بھی سکتا ہے) یا پھر ہمیں ایسی صورت حال کا سامنا ہو گا کہ گویا قرآن و سنت کی رو سے منافقانہ طرز عمل کو جائز قرار دیا گیا ہو؟ (استغفر ا للہ) حتیٰ کہ بعض سطحی نظر رکھنے والے یہاں تک کہہ چکے ہیں کہ گویا یزید خلیفة ا لمسلمین تھا اور امام حسین ع خلافت اسلامیہ کے خلاف با غی!۔۔ جن کے بارے میں رسول اکرم ص نے فرمایا تھا ”حُسین مِنی وَ اِنا مِن ا لحُسین“ (حسین ع مجھ سے ہے اور میں حسین ع سے ہوں“ رواة مسلم ترندی)۔ 

کسی پیجیدہ مسئلہ یا واقعہ کے تجزیہ کے لئے متعلقہ زمانہ کے سماجی عوامل اور سیاسی صورت حال کو سمجھنا بڑی اہمیت کا حامل ہو تا ہے، سطح پر کھیلنے والی موجوں کا کوئی حصہ سمندری لہروں/روﺅں میں نہیں ہوتا، بحرانی دہاہیوں کے گردش ایام میں بھیانک مناظر منصہہ شہود پر منڈلاتے رہے۔ قلوب کو لمحات میسر نہ ہو سکے کہ ضمیر تِہیج کو وجدانی حرارت کے دوش پر متحرک کر کے ذہنی شعور بیدار کر نے کی پہل کریں!۔۔۔۔ خلافت کے خدوخال مٹائے جا چکے تھے، بادشاہت قائم کی جا چکی تھی، سیاست کی حکمت عملی کو مکاری میں بدل دیا گیا تھا، امام حسن ع کے ساتھ کیا گیا ”معاہدہ“جس میں قرآن و سنت کے مطابق حکومت قائم کر نے کی ضمانت دی گئی تھی کو لوگوں کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر کے پاﺅں تلے روندا گیا تھا، غنڈوں کو اختیارات دیئے گئے تھے، شرفاء کی سر بازار بے عزّتی کی جاتی تھی۔ عصمتیں محفوظ نہیں تھیں، اجتماعی اسلامی کردار زخموں سے چُور تھا۔
 
چالیس برس تک علی ع اور آل علی ع پر سرکاری پلیٹ فارموں اور جمعہ کے خطبوں میں (اکثر دباﺅ و خوف کے تحت) اعلانیہ سب و شتم (ملامت/کردار کشی) کی جاتی تھی، یہاں تک کہ حضرت عمر بن عبد ا لعزیز (نیک حاکم) نے یہ سلسلہ بند کر ایا، اگر کوئی کارمند/خطیب اس بُرا کہنے سے احتراز یا انکار کرتا اس کو اذیتیں دی جا تیں/کوڑے برسائے جاتے، چنانچہ متعدد اصحاب رسول اور تابعین من جملہ حضرت عدی بن حاتم اور جناب میثم تمار کو حضرت علی ع کی تعریف کر نے پر قتل کیا گیا، جو حکام بنو امیہ حضرت عمر بن عبد ا لعزیز (کے اڑھائی سالہ مختصر عہد حکومت) کے بعد آئے انہوں نے بھی حضرت علی ع کا حوالہ دینے یا ان کی تعریف کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی، امام ابو حنیفہ بھی حضرت علی ع کو تعریف اعلانیہ نہیں کر سکتے تھے، جب (فقہ، اخلاق کے سلسلے میں) حضرت علی ع کے قول و فعل سے کوئی حوالہ دینا چاہتے تو کہتے: ”قال ا لشّیخ“ (استاد نے کہا) اس دور بحرانی کے حالات کا اندازہ کر نے کے لئے علامہ شبلی نعمانی ڈاکٹرطٰہٰ حسین (مصر) علامہ سید ابو الا علیٰ مودودی (ہند) اور کتاب ”امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی“ چھاپ پاکستان کا مطالعہ کافی ہے۔

 امام صاحب نے اس سخت دور میں فرصت اور موقعہ سے استفادہ کر کے فقہ مدون کیا، مخفی طریقے سے اُن بہت سارے احادیث (جعلی) کو چھانٹ لیا جو دہشت کے اس دور کی پیداوار تھے، حکام جور نے (پہلے پہلے) اُن کے ساتھ مختلف بر تاﺅ کیا، یہ سیاسی چالبازی کا حصہ ہوتا ہے، ظالم/منافق حکام کسی سے ایک قسم کا برتاﺅ کرتے ہیں تو کسی سے اس سے مختلف مقصد دھوکا دینا ہوتا ہے، رائے عامہ کو مغالطہ میں ڈالنا ہوتا ہے تاکہ ان کو تقسیم کر کے اُن پر حکومت کریں، امام صاحب نے زندگی کے آخری برسوں میں حضرت زید بن علی (فرزند امام زین ا لعابدین ع) کے قیام کی تعریف کی تھی اور ظالم حاکم ہاشم (جو اموی باشاہوں کے آخری حکام میں سے تھا) کی پالیسیوں پر تنقید کی تھی۔ 

”جمل“ اور ”صفین“ کے سماجیاتی اجزائے ترکیبی مختلف ہیں، جنگ جمل غلط فہمیوں کے الجھاﺅ جذبات کے استحصال اور ایک ”مفاد پرست ٹولے“ کے پروپگنڈا کا نتیجہ تھا (حضرت علی ع نے اس ٹولہ کے سرغنوں کو الگ الگ سمجھانے کی بہت کوشش کی تھی) لیکن اس کے برعکس ”جنگ صفین“ جان بوجھ کر لڑی گئی، البتہ اس کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ سُنی مسلم کی اکثریت اس شش و پنج میں رہ چکی ہے اور اب بھی رہتی ہے کہ آیا اس طرف رہیں یا اُس طرف! حضرت علی ع کو صحیح قرار دیں یا معاویہ بن ابو سفیان کو؟ اس ”عدم فیصلہ“ نے دور خلافت کے بعد سے آج تک برابر امت مسلمہ کو مصائب اور آلام میں گرفتا رکر رکھا ہے، متعدد محاذوں پر انقلابی تحاریک کو اس تذبذب خیز نفسیاتی پس منظر سے ناکامی کا مُنہ دیکھنا پڑا۔
 
اگر ”کربلا “ نے ”ذرا سوچئے“ کی توجہ مبذول نہ کرائی ہوتی تو ”اسلامی ریاست“ کے خدوخال کا نقشہ مختلف ہوتا، صفین کے موقف کو سمجھنے کی راہ میں دورُخی پن نے مسلمانوں کے عمومی معاشرتی کردار کو بھی مجروح کر رکھا ہے، مجموعی سوچ بھی مفلوج ہو کر رہ گئی ہے، اصلاحاتی تحریکوں نے مذکورہ ”مغالطہ انگیز فکر و نظر“ کے سائے میں خون خرابہ/تلف جان و مال کے بعد بھی کچھ حاصل نہ کیا، عدم اتفاق کے باعث اکثر انقلابی اور اصلاحاتی تحاریک ناکام ہو چکی ہیں، فلسطین، کشمیر، افغانستان، چیچنیا، عراق، پاکستان ہر جگہ بحران کا سامنا ہے۔ 

”امامت“ کے دو پہلو ہیں، ایک شخصی پہلو ایک معنوی پہلو، مسلمان آج (کی نازک صورت حال میں) بھی شخصیات کو مورد بحث لانے پر سارا زور صرف کر تے ہیں،  ”امامتِ امّت (امّت مسلمہ کی رہنمائی Leadership) کو منظم کر نے کےلئے قرآن سنت اور سیرتی خطوط کی روشنی میں شرائط اور خطِ صلاحیت کو مرتب کر نے اور حالات کو مسطح کر نے کی جانب متوجہ نہیں ہو تے ہیں، مسلمانوں کو ”اسلامی انقلاب“ اور ”اسلامی مرکزیت“ کی جانب متوجہ ہو جانا چاہئے، آج کے عالمی تناظر میں انہیں مل کر ایک اسلامی ریاست کے آئینی منشور کا بنیادی اور متفقّہ لائحہ عمل تشکیل دینا چاہئے۔
خبر کا کوڈ : 159589
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش