0
Sunday 9 Sep 2012 22:44

کب تک روئیں، فریاد کریں ہم کب تک

کب تک روئیں، فریاد کریں ہم کب تک
تحریر: علی ناصر الحسینی  

اہل تشیع کو کراچی، کوئٹہ، گلگت بلتستان، پاراچنار، کوہاٹ، ہنگو، پشاور اور ملک کے چھوٹے بڑے شہروں میں زندگی سے محروم کیا جا رہا ہے۔ آئے روز ان کے مذہبی عقائد و مقدسات پر حملے کئے جاتے ہیں، ان کی ناموس و مال کو مباح قرار دے کر لوٹا جاتا ہے، انہیں پابند سلاسل کیا جاتا ہے، یہ ظلم و ناانصافی گزشتہ تین عشروں سے تسلسل سے جاری ہے، آمر ضیاءالحق کے دور سے اب تک ہزاروں افراد اس کا شکار ہو کر مٹی تلے جا سوئے ہیں، جبکہ قاتلوں، دہشت گردوں، ملک دشمنوں میں سے کسی ایک کو بھی سزا نہیں دی گئی، جس کے باعث ان اندوہناک، گھناؤنی وارداتوں میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
 
اگر ہم ملک کے بارے معمولی سے بھی فکر مند ہوں اور ہمیں اس کی سلامتی عزیز ہو تو مسئلہ سمجھنے، یعنی اس کی تہہ تک پہنچنے میں دیر نہیں لگے گی، کجا یہ کہ حکومت، ایجنسیاں، افواج اور دیگر ذمہ دار ادارے جو اپنی بنیادی ذمہ داری سے فرار اختیار کرچکے ہیں یا پھر جان بوجھ کر آنکھیں بند کرکے انسانوں کو خون میں نہلاتا دیکھ کر ملک کے ساتھ غداری اور وطن دشمنوں کے ہدف کو پورا کر رہے ہیں، بلوچستان جس کی سرحد ایران و افغانستان کے ساتھ ملتی ہیں، یہاں انڈیا و امریکہ نے منظم سازش کے تحت علیحدگی پسند جماعتوں اور گروہوں کو دہشت گردی کے وسائل و ضروریات سے لیس کیا ہوا ہے۔ 

ان کے ساتھ ساتھ ایران و پاکستان میں سرگرم عمل اس کے لے پالک گروہوں کے ذریعے مخصوص شکل و ساخت کے حامل شیعہ ہزارہ قبائل کے افراد کو بآسانی نشانہ بنانے کا ٹاسک دیا گیا ہے۔ یہ بہت بڑی بدقسمتی ہے کہ ملک کی سلامتی کے ضامن خفیہ اداروں کے اہلکاروں کے روابط ایسے عناصر سے بتائے جاتے ہیں جو ایک طرف تو ایران کے سرحدی شہروں میں مسلح کارروائیوں میں مصروف ہیں اور دوسری طرف پاکستان میں اپنے مراکز اور سنٹرز چلا کر یہاں کے ہم فکروں کے ساتھ مل کر اہل تشیع کا قتل عام کرنے میں آزاد ہیں۔

ہمارے خفیہ اداروں کے لشکر جھنگوی اور جنداللہ سے روابط محض الزام یا خام خیالی نہیں بلکہ اس کا اظہار انسانی حقوق کی تنظیموں اور ایران کی فورسز نے بھی پکڑے گئے دہشت گردوں کے انکشافات پر مبنی رپورٹس میں بھی کیا ہے، ریگی گروہ کی تمام تر کارروائیوں اور سرگرمیوں کا مرکز بدقسمتی سے پاکستان ہی رہا ہے۔ کہا یہ جاتا ہے کہ موجودہ حکومت کو سعودیہ نے لفٹ نہیں کروائی اور یہ ایران کے ساتھ بہتر تعلقات کا نتیجہ ہے۔ اس حوالے سے حکومت کو قصور وار ٹھہرانا حقائق سے منہ چڑانے کے مترادف ہے، حقیقت یہ ہے کہ اس طرح کے معاملات کا حکومت کے فرشتوں کو بھی علم نہیں ہوتا، یہ سب کچھ خفیہ ہاتھوں کے ذریعے ہو رہا ہوتا ہے۔ لہذا ایسی صورتحال میں کسی بڑے بریک تھرو کی اُمید رکھنا عبث اور خام خیالی ہی ہوگا، یہ صورتحال خفیہ اداروں کی طاقت و قوت کا اظہار ہے۔
 
اہل تشیع سے تعلق رکھنے والے ہزارہ افراد کی سیریل کلنگ اس وقت تک روزانہ کا معمول رہے گی جب تک ہزارہ ہتھیار نہیں اُٹھا لیتے، دراصل یہ امریکہ کی خواہش ہے کہ ہزارہ بھی ہتھیار اُٹھا لیں اور وہ جنگ جو بلوچ علیحدگی پسند پہاڑوں، غاروں اور دوسرے ممالک میں بیٹھ کر لڑ رہے ہیں۔ ہزارہ مسلح گروہوں کے ذریعے بلوچستان بالخصوص اس کے صدر مقام کوئٹہ کے گلی کوچوں میں لڑی جائے، ہم اس جگہ پر یہ تو نہیں کہتے کہ جارح گروہ اور فتنہ پروروں کے خلاف مسلح ونگ بنا کر ملک کے خلاف سازش کو عملی جامہ پہنا دیا جائے۔
 
البتہ اسلام کے سنہری اُصولوں کے تحت اپنی ملت، قوم، افراد، ناموس اور مقدسات کے دفاع اور بقا کیلئے حالات و واقعات کی روشنی میں سر جوڑ کر بیٹھنے اور بعض سخت فیصلے و اقدامات کی ضرورت سے انکار ممکن نہیں۔ ہزارہ قبائل کے عمائدین اور مقامی و ملکی تنظیموں کے مسئولین و ذمہ داران کو یہ بات درک کرنے کی ضرورت ہے کہ روزانہ جنازے اُٹھانے سے ان کے کندھے بالآخر جواب دے جائیں گے اور اگر انہوں نے اس کا تدارک کرنے کی تدبیر نہ کی تو بالآخر فطری طور پر ہزاروں کی تعداد میں مار دیئے گئے افراد کے خانوادوں کے جوان کسی ایسے اقدام پر تیار ہو جائیں گے، جس کا نتیجہ اس ملک اور سرزمین کیلئے بہر حال کسی بھی طور سود مند نہیں ہوگا۔
 
16 اگست کو شمالی علاقہ جات میں بابوسر کے مقام پر مسافروں کی ٹارگٹ کلنگ کی گئی۔ یہ کوئی عام بات نہیں 25 افراد کی المناک انداز میں شہادت کی ذمہ داری یقیناً ملکی سلامتی کے ضامن ان اداروں پر عائد ہوتی ہے جو اس ایریا میں اڑتی چڑیوں کے پر بھی گننے کا ہنر اور صلاحیت رکھتے ہیں۔ ان کی چھتری تلے یہ تیسرا بڑا سانحہ ہوا ہے، اس سے قبل سانحہ چلاس اور سانحہ کوہستان کے دلخراش واقعات ہو چکے ہیں۔
 
ان واقعات پر بھی شدید احتجاج کیا گیا تھا اور حکومت کے ایوانوں تک اس کی گونج بھی سنائی دی تھی۔ اب بھی حکمرانوں کو ان سانحات پر شیعہ قیادت و عوام کا ردعمل پہنچایا گیا ہے۔ ملک بھر میں ہونے والے احتجاج اور عوام میں پائی جانے والی بےچینی کا نوٹس لیا جانا وقت کا اہم تقاضا اور مظلوموں کے زخموں پر مرہم رکھنے کے مترادف ہوگا۔ مگر افسوس کا مقام ہے کہ حکومتی ذمہ داروں نے ہمیشہ کی طرح غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے اور وقت کے تقاضوں کو نہیں بھانپ سکے۔ ابھی تک اس حساس علاقے کو پاکستان سے جدا کرنے کے مؤجب اور سازشیوں کی چالوں کے سامنے ہتھیار ڈالے دکھائی دینے والے ذمہ دار ادارے آخر کس چیز کا انتظار کر رہے ہیں۔؟ ہم سمجھتے ہیں کہ ظلم کی یہ داستاں جس قدر طویل ہوگی، پاکستان کا نقصان اس قدر زیادہ ہوگا۔ 

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے بعض معمولی کیسز پر اتنی پھرتی کا مظاہرہ کیا کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، چند ماہ پہلے چلاس کے حوالے سے ایک خبر پر نوٹس لے کر تحقیقات کی گئیں سپریم کورٹ میں ہلچل سی مچا دی گئی، بعد میں ثابت ہوا تو پتہ چلا کہ خبر غلط ہے۔ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ انصاف کا قتل ہے کہ ایک جھوٹی خبر اور نہ ہونے والے واقعے کا نوٹس لیا جائے اور عدالت کا وقت اور قوم کا خزانہ لٹایا جائے اور جن واقعات پر ارض و سما لرز کر رہ جائیں، ان پر آنکھیں بند کر لی جائیں اور چپ کا روزہ رکھ لیا جائے۔ 

کسی وکیل یا عدالتی اہلکار کو معمولی سا مسئلہ ہو جائے تو عدالتوں میں کام بند اور عدلیہ احتجاج پر چلی جائے، جب کہ شیعہ وکلاء اور ججز کو سر عام گولیوں سے بھون دیا جائے تو عدلیہ کے کان پر جوں تک نہ رینگے۔ کوئٹہ میں شیعہ ایڈیشنل سیشن جج سید ذوالفقار نقوی اور ان کے گارڈ و ڈرائیور کو دن دیہاڑے شہید کر دیا گیا، مگر عدالت کے کانوں پر جوں تک نہ رینگی۔۔۔؟ کراچی میں روزانہ جنازے اٹھتے ہیں، ماتم ہوتا ہے، لباس یتیمی پہنا جاتا ہے، گریہ و ماتم کی صدائیں عرش و فرش کو ہلا دیتی ہیں۔
 
آج صورتحال یہ ہو چکی ہے کہ شیعہ ہونا سب سے بڑا جرم بن گیا ہے۔ شیعہ اپنے گھروں میں محفوظ ہیں نہ مساجد میں، نہ امام بارگاہوں میں انہیں تحفظ حاصل ہے، نہ دکانوں پر، دفاتر میں ان کی جان کی حفاظت ہے نہ بسوں میں سفر کرتے ہوئے، علماء محفوظ ہیں نہ وکیل، شیعہ جج محفوظ ہے، نہ شیعہ تاجر، شیعہ آفیسر محفوظ ہے نہ اُستاد، شیعہ سیاستدان محفوظ ہے نہ تنظیمی رہنما ۔۔۔ شیعوں کا قتل عام اب اس ملک کے ہر دن کے روزنامے کا حصہ بن چکا ہے، ہر طرف آہ و بقاء اور گریہ و ماتم ہے، کسی کا جنازہ ہوتا ہے تو کسی کی مجلس سوئم، کسی کا زخمی بدن ملتا ہے تو کسی کا سر کٹا اور ٹکڑوں میں منقسم جسم، یہ کیسا پاکستان ہے جو ہم آئندہ نسلوں کو دینا چاہ رہے ہیں۔؟ کیا ہمیں بھی ایسا ہی ملک ملا تھا یا ہمارے بزرگوں نے ایسی ہی مملکت کا خواب دیکھا تھا؟ 

مغرب کی عالمی قوتیں جو فساد و شر کی جڑ ہیں اور اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے بعض بدفکر ممالک کو ساتھ ملا کر ظلم کی داستانیں رقم کر رہی ہیں، وہی عالمی انسانی حقوق کے اداروں کو چلاتی ہیں، ان کی مرضی ہو یا مفاد ہو تو کسی معمولی واقعے کو بڑھا چڑھا کر میڈیا میں لا کر ایشو بنا دیتی ہیں۔ مگر ان کا مفاد نہ ہو تو اس قدر ظلم پر ان کی آہ بھی نہیں نکلتی۔ جیسے بحرین، شام، سعودیہ، یمن، عراق میں شیعہ عوام پر ہونے والے مظالم کے ذمہ داروں کے خلاف انسانی حقوق کی پائمالی اور بنیادی انسانی حقوق سے محروم کرنے پر خاموشی اختیار کی جاتی ہے۔ 

پاکستان میں فرقہ واریت پھیلانے میں بھی وہی عالمی کردار اور مملکتوں کی سازشیں کارفرما ہیں جو بظاہر تو پاکستان کے دوست ہیں مگر ان کا کردار عالمی استعماری طاقتوں کے ناپاک منصوبوں کی تکمیل کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اگر یہ بھیانک کردار کے حامل ملک نہ ہوں تو ممکن نہیں کہ استعمار اپنے منصوبوں میں کامیاب ہو سکے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ ان تمام مسائل کا حل بلآخر قومی بیداری اور یکجہتی ہے، اتحاد اور وحدت کے راستے اور بیداری کی طاقت سے ہم دشمن کو شکست دے سکتے ہیں، اس حوالے سے ملت کے تمام طبقات کو آگے بڑھنا ہوگا۔
خبر کا کوڈ : 194092
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش