1
0
Tuesday 15 Jun 2010 20:17

فریڈم فلوٹیلا اور صہیونی ذہنیت!

فریڈم فلوٹیلا اور صہیونی ذہنیت!
 فلسطینیوں کے لیے امدادی سامان غزہ لے جانے والے بحری جہاز فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی ننگی جارحیت سے ایک بار پھر امریکا کی ناجائز ریاست کا مکروہ چہرہ اور مسلمانوں کے خلاف اُس کے مذموم عزائم سامنے آگئے ہیں۔اسرائیلی جارحیت کے دوران بیس افراد جاں بحق اور ساٹھ سے زائد زخمی ہوئے۔یہ افراد 2007ء سے محصور فلسطینیوں کے لیے انسانی ہمدردی کے تحت امدادی سامان غزہ لے جا رہے تھے،جس میں اسکول کے بچوں کے لیے تدریسی کتابیں، ادویات،کھانے پینے کی اشیاء اور سیمنٹ شامل تھا۔اسرائیل نے غزہ کے محصورین کے لیے ان اشیاء پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔
 فریڈم فلوٹیلا پر پاکستان،آسٹریلیا،آذربائیجان،اٹلی،انڈونیشیا،آئرلینڈ، الجیریا،امریکا،بلغاریہ،بوسنیا،بحرین،بیلجئم،جرمنی،جنوبی افریقہ، ہالینڈ،برطانیہ،یونان،اردن،کویت،لبنان،ماریطانیہ،ملائیشیا،مصر،مقدونیہ، مراکش،ناروی،نیوزی لینڈ،شام،سربیا،اومان،چیک ری پبلک،فرانس، کوسووا،کینیڈا،سویڈن،ترکی اور یمن کے چھ سو سے زائد شہری سوار تھے۔اتنی بڑی تعداد میں مختلف ممالک کے افراد کی فریڈم فلوٹیلا پر موجودگی اور خاص طور پر اسرائیل کے سب سے بڑے حامی امریکا کے گیارہ اور محسن برطانیہ کے اکتیس شہریوں کے ہوتے ہوئے اسرائیل کی اس دیدہ دلیری کی کیا وجہ ہے اور اس کے پیچھے کیا ذہنیت کارفرما ہے؟ 
اسرائیل کی حالیہ جارحیت اس شیطانی سوچ کا عملی مظاہرہ ہے،جس کو سابق اسرائیلی وزیراعظم ایرل شیرون ملعون نے گریٹر اسرائیل منصوبے کی تکمیل کے لیے ضروری قرار دیا تھا: ”مجھے بتاﺅ کیا اس دنیا کے شیطان آدمی پر برا وقت ہے؟جو وہ کھانا چاہتے ہیں اس کو پکڑتے اور اس کا شکار کرتے ہیں۔وہ نہ تو بدہضمی کا شکار ہوتے ہیں اور نہ ہی قدرت کی جانب سے ان کو سزا مل رہی ہے۔میں چاہتا ہوں اسرائیل اس کلب میں شامل ہو جائے،ہو سکتا ہے دنیا آخرکار ہم پر ترس کھانے کے بجائے ہم سے خوف کھانے لگے۔ہو سکتا ہے دنیا ہمارے پاگل پن کی وجہ سے ہماری شرافت کی تحسین کے بجائے ہمارے خوف سے کپکپانا شروع ہو جائے۔دنیا کو کہنے دیں کہ ہم پاگل ریاست ہیں۔انہیں ہمیں وحشی ملک اور ہمسایوں کے لیے خطرناک سمجھنے دیں کہ ہم کسی وقت بھی وحشی پن پر اتر سکتے اور تیسری جنگ عظیم شروع کر سکتے ہیں۔اور یہ کہ ہم کسی وقت بھی پاگل ہو سکتے ہیں اور مشرق وسطیٰ کی تیل کی تمام تنصیبات نذرِ آتش کر سکتے ہیں۔اگر آپ یہ ثابت کریں گے کہ موجودہ جنگ بری اور غیر اخلاقی ہے تو مجھے اس کی پروا نہیں۔ہم ایک اور جنگ شروع کریں گے اور بڑی تعداد میں قتل و غارت گری اور تباہی پھیلائیں گے۔“ایرل شیرون اسرائیل کے اسپتال میں طویل عرصے سے مصنوعی تنفس کے ذریعے زندہ اور عبرت کا نشان بنا ہوا ہے۔اس کا یہ انٹرویو 17 دسمبر 1982ء کو اسرائیلی اخبار Davar میں چھپ چکا ہے۔
نہ صرف سابق اسرائیلی وزیراعظم بلکہ اسرائیل کا سابق وزیر دفاع موشے دایان بھی شیطانی مقاصد کی تکمیل کے لیے باﺅلے کتے کا طرز عمل اختیار کرنے کی ہدایت کر چکا ہے۔اس نے کہا تھا: ”اسرائیل کو ایک باﺅلے کتے کی طرح ہونا چاہیے،خطرناک حد تک اذیت دینے والا۔“ یہودیوں کی کتاب The King Torah(تورات) کے مطابق ارض اسرائیل کے حصول کے لیے غیر یہودیوں کا خون بہانا جائز ہے،یہاں تک کہ اگر عورتوں اور بچوں کا بھی خون بہانا پڑے تو یہ ارض اسرائیل کے لیے جائز اور قابل تحسین ہو گا۔اسی شیطانی سوچ پر عمل پیرا ہو کر اسرائیل نے جون 2007ء سے محصور فلسطینی مسلمانوں کے لیے امدادی سامان جس میں کھانے پینے کی اشیائ،تدریسی کتابیں، ادویات اور 2007ء کے اسرائیلی بہیمانہ حملوں سے تباہ ہونے والے اسپتالوں،مساجد،اسکولوں اور گھروں کی تعمیر کے لیے سیمنٹ لے جانے والے جہاز پر حملہ کر کے بے قصور اور نہتے انسانوں کا خون بہایا۔کیونکہ وہ دنیا کو یہ تاثر دینا چاہتا ہے کہ اسرائیل ایک پاگل ریاست ہے اور باﺅلے کتے کی طرح کسی کو بھی بلا جواز کاٹ سکتا اور نقصان پہنچا سکتا ہے۔
ایک طرف تو اس شیطانی سوچ اور دوسری جانب امریکا،برطانیہ سمیت مغربی ممالک کی پشت پناہی کی وجہ سے جو اسرائیل کو گزشتہ 61 برس سے مسلمانوں کے خلاف حاصل ہے،بے خوف و خطر مسلمانوں کے خلاف جارحیت اور درندگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت صلیبی جذبے کے تحت کر رہے ہیں کیونکہ وہ اس جنگ کو صلیبی جنگوں کا ایک حصہ سمجھتے ہیں،جس کا ثبوت 1967ء کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد سنڈے ٹائمز لندن کی جانب سے شائع ہونے والی کتاب {"The Holy War-June 1967"کے ایک باب کا عنوان "Back after 896" یعنی 896 برس بعد واپسی ہے۔ 896 سال پہلے بیت المقدس پر سے صلیبی عیسائیوں کا قبضہ ختم ہوا تھا نہ کہ یہودیوں کا۔
فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیل کی ناجائز ریاست کا قیام بھی جمہوریت کے چیمپئن برطانیہ کا کارنامہ ہے،جو اس نے اسی صلیبی جذبے کے تحت انجام دیا تھا۔دوسری جنگ ِعظیم کے بعد برطانیہ نے ایک سازش کے تحت 1917ء میں اعلانِ بالفور (Balfour declearation) کے تحت یہودیوں کو اس سرزمین پر لا کر بسایا۔جس کے بعد عیسائی ممالک اور یہودیوں نے فلسطینیوں کو دہشت گردی کا نشانہ بنایا اور ان کی زمینوں پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔اس کی ایک مثال دیر یاسین کا 9 اپریل 1948ء کا مسلمانوں کا قتل عام ہے جس میں عورتوں،مردوں اور بچوں کو بے دریغ قتل کیا گیا اور عرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا۔اس موقع پر یہودی لاﺅڈ اسپیکر پر دھمکی دیتے رہے کہ ہم نے دیریاسین میں جو کچھ کیا ہے،اگر تم نے علاقہ نہیں چھوڑا تو تمہارے ساتھ بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔
 یہودیوں کی ان تمام تر زیادتیوں کا اقوام متحدہ اور اقوام عالم کی تنظیم league of Nations نے بھرپور انداز میں ساتھ دیا اور امریکا،برطانیہ،فرانس اور دیگر صلیبی ممالک نے بھی فلسطین پر قبضے اور مسلمانوں کو بہ زور طاقت بے دخل کرنے کے لیے اسرائیل کی ہر ممکن مدد کی اور بے تحاشا ہتھیار فراہم کیے۔یہودیوں کا پروٹوکول منظر عام پر آنے کے بعد تو مسلمانوں کی آنکھیں کھل جانی چاہیے تھیں۔یہ لڑائی نہ تو عرب اسرائیل ہے اور نہ فلسطین اسرائیل، بلکہ یہ خالصتاً کفر اور اسلام کی لڑائی ہے۔فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی حملے کے بعد دنیا بھر سے شدید مذمت کے باوجود اسرائیل روایتی ہٹ دھرمی پر قائم ہے۔اور صرف یہی نہیں بلکہ اسرائیل نے اپنے اس بیان کو کہ کسی بھی قسم کی امداد غزہ نہیں پہنچنے دی جائے گی،عملی جامہ پہنا دیا اور ایک اور امدادی جہاز پر قبضہ کر لیا۔یہ واقعہ فریڈم فلوٹیلا پر اسرائیلی جارحیت کے ٹھیک چھ روز بعد 5 جون کو پیش آیا۔جس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اسرائیل پر دنیا کی ناراضی کا کیا اثر ہوا۔وہ دنیا کو جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ 
اسرائیل کے اس طرزعمل کے بعد ضرورت اس امر کی ہے کہ صہیونی ریاست کے خلاف طاقت کے استعمال سمیت انتہائی موثر اقدامات کیے جائیں۔عرب ممالک اور اسلامی دنیا کی جانب سے اسرائیل کا مکمل عملی بائیکاٹ کیا جائے۔فریڈم فلوٹیلا پر حملے سے قبل بھی اسرائیل بڑے جرائم کر چکا ہے اور دنیا کی بڑی طاقتیں جن کو مسلم ممالک کے حکمران اپنا خیرخواہ اور دوست سمجھتے ہیں،خاموش تماشائی بنی رہیں بلکہ اسرائیل کو ہر ممکن مدد فراہم کرتی رہیں۔ 2007ء میں غزہ پر اسرائیلی جارحیت کسے یاد نہیں!ان حملوں میں سیکڑوں نہتے مسلمان شہید کر دیے گئے،متعدد اسکول،اسپتال اور ہزاروں گھر ملبے کا ڈھیر بنا دیے گئے۔ایک ماہ سے زائد جاری رہنے والی اسرائیلی جارحیت کے دوران پورا غزہ تہس نہس کر دیا گیا۔اور اس جارحیت پر مغربی ممالک تو ایک طرف،اسلامی ممالک بھی یا تو خاموش تماشائی بنے رہے یا پھر زبانی مذمت کرتے رہے۔
دوسری جانب اقوام متحدہ کے تحقیقاتی کمیشن کی رپورٹ میں اسرائیل پر جنگی جرائم ثابت ہونے کے باوجود امریکی آشیرباد کی وجہ سے اس کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی۔تاہم آفرین ہے غزہ کے مسلمانوں کے جذبہ ایمانی کو کہ وہ آج بھی صہیونی ریاست اور اس کے حامیوں کے سامنے سینہ سپر ہیں۔ایک اور دلخراش اور اندوہناک واقعہ 21 اگست 1969ء کو پیش آیا تھا،جس میں اسرائیل نے مسجد اقصیٰ کو نذرِ آتش کرنے کا گھناﺅنا جرم کیا تھا۔یہ وہ مسجد ہے جہاں سے ہمارے پیارے آقا حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم معراج پر گئے تھے اور جس کی طرف رخ کرکے اللہ کے رسول اور ان کے صحابہ کئی برس تک نماز ادا کرتے رہے،اسی لیے اسے قبلہ اول کہا جاتا ہے۔دنیا کی صرف تین مساجد کے بارے میں حضور نے فرمایا کہ وہاں نماز پڑھنے کے لیے خصوصی طور پر جانا اور انہیں دوسری تمام مساجد پر فوقیت دینا جائز ہے۔یہ حرم مکہ،مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ ہیں۔ 
اس روح فرسا واقعہ کے باوجود کچھ عرب ممالک نے اسرائیل کی ناجائز ریاست کو تسلیم کیا اور اس سے معاہدے کیے۔ اسرائیل کے مذموم عزائم کھل کر سامنے آچکے ہیں۔صہیونی ریاست جو یہودیوں کے مطابق دریائے نیل سے دریائے فرات تک ہے،اس کی تکمیل کے لیے مصر،اردن،شام،لبنان،عراق،ترکی،مدینہ منورہ اور حجاز مقدس پر قبضہ کرنا چاہتی ہے۔ اسرائیل کا یہ عزم اس کی پارلیمنٹ کے ماتھے پر درج ہے کہ ”اے ارضِ اسرائیل تیری سرحدیں نیل سے فرات تک ہیں“ جس کے بعد مسلم دنیا کو یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ یہ لڑائی اسلام اور کفر کی ہے۔مسلمانوں کو اپنے مقدس مقامات کی حفاظت کے لیے وطنیت سے نکل کر ایک امت کے طور پر جدوجہد کرنا ہوگی۔
 اقبال رہ کا فیصلہ ہے کہ: 
ان تازہ خداﺅں میں بڑا سب سے وطن ہے
 جو پیراہن اس کا ہے وہ امت کا کفن ہے
 دنیا میں ایک ارب سے زائد تعداد میں ہونے اور بے تحاشا وسائل کے باوجود اگر مسلمان عملی اقدام جو کہ صرف طاقت ہے،کا استعمال کر کے صہیونی ریاست کو منہ توڑ جواب نہیں دیتے اور مصلحتوں کا شکار رہتے ہیں تو انہیں سوچ لینا چاہیے کہ کہیں ایسا تو نہیں کہ وہ ایمان کے اس درجے پر پہنچ چکے ہیں،جس کے بارے میں حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان کا مفہوم ہے ”ایک وقت ایسا آئے گا جب دنیا کی قومیں تم پر ایسے ٹوٹ پڑیں گی جیسے بھوکا کھانے پر ٹوٹ پڑتا ہے۔“ ایک صحابی  نے عرض کی کہ یارسول اللہ کیا اُس وقت ہم تعداد میں کم ہوں گے؟ تو اللہ کے رسول ص نے فرمایا ”نہیں تم تعداد میں تو بہت زیادہ ہو گے،لیکن سمندر کے جھاگ کی مانند ہو گے اور اللہ تمہارے دشمنوں کے دلوں سے تمہارا خوف ختم کر دے گا۔اس وقت تمہیں ”وہن“ کا مرض لاحق ہو جائے گا۔“ صحابی نے پوچھا: یا رسول اللہ یہ وہن کا مرض کیا ہے؟ اللہ کے رسول نے فرمایا ”موت سے نفرت اور دنیا سے پیار“۔ (مسند احمد، ابوداﺅد)
 "روزنامہ جسارت"
خبر کا کوڈ : 28442
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Canada
Now I know who the barniy one is, I’ll keep looking for your posts.
ہماری پیشکش