2
0
Sunday 6 Jun 2010 10:04

اسرائیلی ”فتنہ“ کا علاج....الجہاد الجہاد

اسرائیلی ”فتنہ“ کا علاج....الجہاد الجہاد
پروفیسر شکیل صدیقی
صہیونیوں کی انسانیت دشمن فطرت اور تاریخی روایات کی روشنی میں یہ بات یقینی تھی کہ اسرائیل ”فریڈم فلوٹیلا“ کو غزہ کے بے بس اور مظلوم لاکھوں فلسطینی مسلمانوں تک غذا اور خوراک، پینے کا پانی،جان بچانے والی ادویات اور دیگر بنیادی ضروریات ِزندگی کی فراہمی اور رسائی کی اجازت نہیں دے گا۔چنانچہ ایسا ہی ہوا۔چھ بحری کشتیوں پر سوار 40 ممالک کے 700 افراد پر مشتمل یہ قافلہ جس کا انتظام ترکی کی ایک رفاہی تنظیم ترک ہیومینٹیرین فاﺅنڈیشن نے کیا تھا اور جس میں امریکی سفارت کاروں سمیت ترکی،پاکستان،جرمنی،سوئیڈن،آئرلینڈ،ملائیشیا اور فلسطین کے ممتاز ارکانِ پارلیمنٹ اور حقوق انسانی کے ایکٹیوسٹ شامل تھے،غزہ سے ڈیڑھ سو کلو میٹر بین الاقوامی سمندری حدود میں داخل ہوا،تو اسرائیلی افواج کے وحشی کمانڈوز نے امدادی قافلے کی ایک کشتی پر دھاوا بول دیا اور فائر کھول دیا۔جس سے موقع پر ہی 20 افراد ہلاک اور 60 سے زیادہ زخمی ہو گئے۔ 
امدادی بحری کشتیوں کو اغوا کر کے اسرائیلی بندرگاہ حیفہ لے جایا گیا،جہاں امدادی قافلے کے ارکان کو یرغمال بنا کر شدید تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔ان میں پاکستان کے معروف صحافی طلعت حسین سمیت دیگر دو پاکستانی بھی شامل تھے۔”فریڈم فلوٹیلا“ پر اسرائیلی حملہ جدید مہذب دنیا کی تاریخ کا ایک سیاہ باب ہے،اس کی پوری دنیا میں مذمت کی جا رہی ہے اور کی جاتی رہے گی۔ اس سانحہ پر مسلم ممالک میں ترکی کا مرکزی کردار بھی سب کے سامنے ہے،اور دوسری طرف دیگر اسلامی ممالک کی روایتی بے عملی اور بے حسی بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ امریکا،یورپ اور عالمی اداروں کا دوہرا معیار بلکہ منافقت بھی کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔ ”سانحہ فریڈم فلوٹیلا“ اسرائیلی دہشت گردی کا کوئی نیا اور پہلا واقعہ نہیں ہے،بلکہ اسرائیل نے اپنے قیام کے اول روز سے فلسطینیوں کو انسانیت سوز مظالم کا نشانہ بنایا اور بے شمار فلسطینیوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔دنیا یہ بھی جانتی ہے کہ اسرائیل کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کا سرپرست امریکا ہے۔ 
آج دنیا میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ذمہ دار بھی امریکا اور اسرائیل ہیں۔یہ روایتی تبصرے اور تجزیے پہلے بھی ہوتے رہے ہیں،لیکن اسرائیل کی غنڈہ گردی اور دہشت گردی کو لگام نہیں دی جا سکی۔اب سوال یہ ہے کہ اسرائیلی دہشت گردی کا حل کیا ہے؟ہم نے اسی سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے قلم اٹھایا ہے۔ہم اپنے مطالعے کی روشنی میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ اسرائیل ایک ”فتنہ“ ہے.... وہ ”فتنہ“ جسے قرآن مجید نے قتل سے زیادہ سنگین جرم قرار دیا ہے۔فلسطینیوں کی سرزمین پر اسرائیلی قبضہ،ان کی نمائندہ جمہوری حکومت کو تسلیم نہ کرنا،غزہ کی پوری بستی کو دنیا کی سب سے بڑی جیل میں تبدیل کر دینا اور فلسطینیوں کی صف ِاول کی قیادت شیخ یٰسین اور ڈاکٹر عبدالعزیز رنتیسی کی ٹارگٹ کلنگ قرآنی احکام کی روشنی میں ”فتنہ“ ہے،اور خود اللہ رب العالمین نے اپنے محبوب آقائے نامدار سیدنا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس بدترین فتنے کے خلاف جہاد و قتال کا حکم دیا تھا۔چنانچہ حکمِ الٰہی کی تعمیل میں پیغمبرِ انقلاب اور انسانیت کے سب سے بڑے محسن محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بدر،احد،خندق اور حنین و تبوک کے میدانوں میں اس فتنہ کا استحصال کر کے عرب میں امن قائم کیا اور پوری انسانیت کو تحفظ فراہم کیا۔
ہماری رائے میں تریسٹھ برس سے جاری اسرائیلی فتنے کا واحد علاج قتال و جہاد ہے۔اور یہ قتال و جہاد ہر اُس قوت کے خلاف جائز ہے جو اس فتنے کی آبیاری کر رہی ہے۔ہم مفتیانِ دین سے استفسار کرتے ہیں کہ مسلم حکمرانوں کی بے حسی اور خاموشی کی موجودگی میں مظلوم فلسطینی مسلمانوں کی دادرسی کے لیے کیسے جہاد کریں،جہاد کو کون اور کیسے منظم کرے؟
 "روزنامہ جسارت"


خبر کا کوڈ : 27692
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Germany
الجہاد.
Germany
جہاد کی تیاری کرو
ہماری پیشکش