0
Thursday 10 Oct 2013 23:35

امریکہ نے کیوں شام پر حملہ نہیں کیا؟ ایک علمی جائزہ

امریکہ نے کیوں شام پر حملہ نہیں کیا؟ ایک علمی جائزہ
ہر ملک کی خارجہ پالیسی کی بنیاد قومی مفادات کے حصول پر مبنی ہوتی ہے۔ دنیا کے مختلف ممالک نے خارجہ پالیسی کے ذریعے قومی مفادات کے حصول کیلئے دو قسم کے نقطہ نظر وضع کر رکھے ہیں۔ ایک "حقائق پر مبنی نقطہ نظر" یا Factual Approach اور دوسرا "مثالی نقطہ نظر" یا Ideal Approach۔ حقائق پر مبنی نقطہ نظر مادی اور نظر آنے والے اہداف پر مبنی ہے جبکہ مثالی نقطہ نظر کی بنیاد ایسے اہداف و مقاصد پر ہے جو اخلاقی یا روحانی مقاصد کہلائے جاتے ہیں۔ البتہ گذشتہ چند عشروں کے دوران مختلف ممالک کے سیاستدانوں نے ان دونوں نقطہ نظر سے ترکیب شدہ ایک نئے نقطہ نظر کو اپنانے کی کوشش کی ہے جسے "حقیقت پسندانہ مثالی نقطہ نظر" یا "حقائق پر مبنی تخیل پرستانہ نقطہ نظر" بھی کہا جا سکتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس نئے نقطہ نظر کے مطابق قومی مفادات کے حصول کیلئے بنائی جانے والی خارجہ پالیسیوں میں دونوں قسم کے نقطہ نظرات کو مدنظر قرار دیا جاتا ہے اور کوشش کی جاتی ہے کہ ان دونوں نقطہ نظرات کی مدد سے سیاسی اہداف کے حصول کو ممکن بنایا جا سکے۔ گذشتہ چند عشروں کے دوران امریکہ کی سیاست خارجہ کا تاریخی جائزہ لینے سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس ملک کی خارجی پالیسیاں زیادہ تر "حقائق پر مبنی نقطہ نظر" کے تابع رہی ہیں اور بعض اوقات رائے عامہ خاص طور پر امریکی شہریوں کے طرز تفکر کی تسکین کیلئے "بیان کردہ پالیسیوں" کی بنیاد مثالی نقطہ نظر کو بھی بنایا گیا ہے لیکن اس صورت میں بھی "لاگو شدہ پالیسیوں" کی بنیاد حقائق پر مبنی نقطہ نظر پر ہی رہی ہے۔

گذشتہ ایک صدی کے دوران امریکہ کی جانب سے وسیع پیمانے پر انجام پانے والے فوجی اقدامات، مختلف ممالک میں فوجی بغاوتوں کی کھلی حمایت، مشرق وسطی میں آمر حکمرانوں کی بے چون و چرا حمایت، دنیا کے مختلف حصوں میں فوجی موجودگی، امریکی کانگریس میں عظیم فوجی بجٹس کی منظوری، ایشیائی ممالک میں جنم لینے والے رنگی انقلابوں کی حمایت اور عراق اور افغانستان میں انجام پانے والے فوجی حملے، ایران کے خلاف عراق کے فوجی ڈکٹیٹر صدام حسین کی حمایت اور دوسرے دسیوں اقدامات سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی سیاست خارجہ میں قومی مفادات کے حصول کی بنیاد حقائق پر مبنی نقطہ نظر ہی ہے۔ اگرچہ ان پالیسیوں پر عمل درآمد اور سیاسی مفادات کے حصول کیلئے بعض مثالی نعروں جیسے جمہوریت پسندی، دہشت گردی کے خلاف جنگ، انسانی حقوق کا دفاع وغیرہ کا سہارا بھی لیا گیا ہے اور میڈیا کی پروپیگنڈا مشینری کے ذریعے عالمی اور ملکی سطح پر رائے عامہ ہموار کرنے کی کوشش بھی کی گئی ہے۔

مذکورہ بالا دونوں نقطہ نظرات کی بنیاد پر سیاست خارجہ کے میدان میں انجام پانے والی تمام سرگرمیاں صرف اسی صورت میں قابل قبول اور جائز تصور کی جاتی ہیں جب ان سے حاصل ہونے والے مفادات ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے منفی اثرات و نتائج پر غلبہ رکھتے ہوں۔ لیکن اگر صورتحال اس کے برعکس ہو جائے یعنی ان سرگرمیوں اور اقدامات پر انجام پانے والے اخراجات اور ان کے منفی نتائج ان سے حاصل ہونے والے مفادات پر غالب آ جائیں، تو ایسے اقدامات کو خارجہ پالیسیوں کا حصہ نہیں بنایا جاتا اور انہیں ایجنڈے سے نکال دیا جاتا ہے۔ علمی انداز میں یوں کہا جا سکتا ہے کہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے علم میں ایک انتہائی عام اور معروف نظریہ پایا جاتا ہے جسے "کھیل کے اصول" یا Theory of Games کا نام دیا جاتا ہے۔ اس نظریئے کے مطابق ہر ملک کی جانب سے عالمی سیاست میں انجام پانے والی کسی بھی سیاسی کھیل کا حصہ بننا صرف اسی صورت میں قابل قبول اور جائز ہو سکتا ہے جب اسے اس بات کا یقین ہو کہ وہ اس کھیل کو "جیت – ہار" یا "جیت – جیت" کی صورت میں اختتام پذیر کر سکتا ہے لیکن اگر ایک ملک یہ محسوس کرے کہ اس سیاسی کھیل میں حصہ لینے کا نتیجہ "ہار - جیت" یا "ہار – ہار" کی صورت میں ظاہر ہو گا تو ایسی خارجہ پالیسی کا اتخاذ یقینا اس ملک کے نقصان میں ہے اور اگر بالفرض حکومت کی طرف سے اپنے ایجنڈے میں شامل بھی کر لیا جائے تو ملک کے سیاست دانوں کی جانب سے شدید تنقید کا نشانہ بننے کے بعد ایجنڈے سے نکال باہر کر دیا جائے گا۔

مندرجہ بالا وضاحتوں کی روشنی میں آئیے اب یہ دیکھتے ہیں کہ موجودہ حالات کے تناظر میں شام کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی کس حد تک قابل قبول اور جائز ہو سکتی ہے؟ شام کے خلاف جنگ میں پوشیدہ امریکی مفادات کا حصول کس نقطہ نظر (حقائق پر مبنی یا مثالی) کے تحت امکان پذیر ہے؟ آیا شام کے خلاف امریکی جنگ (چاہے یہ جنگ محدود ہو یا بڑے پیمانے پر ہو یا ایک پراکسی وار کی صورت میں ہو) کا نتیجہ اس کیلئے جیت – ہار یا جیت – جیت کی صورت میں نکلے گا یا ہار – جیت اور ہار – ہار کی صورت میں ظاہر ہو گا؟ کیا شام کے خلاف ممکنہ امریکی حملے کے مقاصد کی نوعیت مادی ہے یا یہ اہداف اخلاقی اور روحانی نوعیت کے ہیں؟ اسی قسم کے دسیوں سوالات نے بین الاقوامی تعلقات اور خارجہ سیاست سے متعلق محققین اور ماہرین کی توجہ اپنی جانب مبذول کر رکھی ہے اور وہ یہ جاننے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام کے خلاف جنگ میں امریکہ کیا مفادات حاصل کر پائے گا اور ان مفادات کے حصول کیلئے اسے کیا قیمت چکانا پڑے گی؟ ہم اس کالم میں پہلے ان قومی مفادات کی جانب اشارہ کریں گے جو شام کے خلاف جنگ میں امریکہ حاصل کر سکتا ہے اور اس کے بعد ان منفی اثرات اور نقصانات کو بیان کریں گے جو شام کے خلاف فوجی کاروائی کی صورت میں امریکہ کو برداشت کرنا پڑیں گے۔

شام کے خلاف جنگ میں امریکہ کے مفادات:
1. مشرق وسطٰی میں ایک حامی حکومت کا قیام: اور حکومتوں کے خلاف جتنی بھی فوجی کاروائیاں انجام دی ہیں ان میں سے اکثر کا مقصد اس ملک میں ایک ایسی حکومت کا قیام تھا جو امریکہ نے اب تک مختلف ممالک کی خارجہ پالیسیوں سے متفق ہو اور امریکہ کے سیاسی مفادات کے حصول میں اس کیلئے مددگار ثابت ہو۔ مثال کے طور پر جنوبی امریکہ میں واقع ملک چِلی میں فوجی بغاوت کے ذریعے ایک ایسے حکومت برسراقتدار لائی گئی جو سو فیصد امریکی پالیسیوں کے موافق تھی اور امریکی مفادات کے حصول کیلئے سرگرم عمل بھی رہی۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آیا شام میں صدر بشار اسد کی سرنگونی کے بعد حکومت مخالف مسلح دہشت گرد گروہوں کی جانب سے تشکیل دی جانے والی نئی حکومت امریکی مفادات کے حق میں ہو گی یا نہیں؟ حقیقت یہ ہے کہ شام میں صدر بشار اسد کے خلاف برسرپیکار مسلح دہشت گرد گروہوں میں ایسے افراد اور تنظیمیں بھی پائی جاتی ہیں جو امریکہ سے مخالفت میں صدر بشار اسد سے بھی آگے ہیں اور امریکہ کے ساتھ ان کی دشمنی صدر بشار اسد سے زیادہ شدید ہے۔ مثال کے طور پر شام حکومت کے خلاف برسرپیکار گروہوں میں خود القاعدہ اور اس سے وابستہ سلفی اور تکفیری مسلح دہشت گرد گروہوں اور تنظیموں کی موجودگی۔ شام کے علاوہ دوسرے ممالک میں انہیں گروہوں کی سرگرمیوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان گروہوں نے امریکی مفادات کو بھی اپنے نشانے پر رکھا ہوا ہے۔ لہذا ایسا دکھائی دیتا ہے کہ اگر امریکہ بالفرض شام میں صدر بشار اسد کی حکومت کو گرانے میں کامیاب بھی ہو جاتا ہے تو یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ تشکیل پانے والی نئی حکومت امریکہ کی حامی اور اس کے مفادات کے حق میں ہو گی۔

2. اسرائیل کی پوزیشن کو مضبوط بنانا: شام کے خلاف امریکہ کی ممکنہ فوجی کاروائی کا ایک اور مقصد مشرق وسطٰی کے خطے میں اسرائیل کی پوزیشن کو مضبوط بنانا ہے۔ امریکہ چاہتا ہے کہ شام کے خلاف فوجی حملے کے ذریعے اسلامی مزاحمتی بلاک کو دھچکا پہنچائے اور اسے مرعوب کر دے اور اس طرح اسرائیل کی مدد اور حوصلہ افزائی کرے۔ لیکن انٹرنیشنل ریلیشنز سے وابستہ سیاسی ماہرین کی نظر میں موجودہ صورتحال کے پیش نظر مشرق وسطٰی کا خطہ اس وقت ایک ایسے بارود سے بھرے گودام کی مانند ہو چکا ہے جس میں ایک چنگاری ایک انتہائی عظیم دھماکے کا باعث بن سکتی ہے اور اس دھماکے کے نتیجے میں وہ ملک جسے سب سے زیادہ نقصان پہنچنے کا خطرہ ہے اسرائیل ہے۔ اسرائیل سے موصولہ رپورٹس کے مطابق ابھی سے، جبکہ ابھی جنگ بھی شروع نہیں ہوئی، پورے اسرائیل پر ایک عجیب خوف اور وحشت کی فضا قائم ہو چکی ہے جس کی وجہ سے اسرائیلی عوام کھانے پینے کی اشیاء کی جمع آوری اور ذخیرہ اندوزی میں لگے ہوئے ہیں تاکہ ممکنہ جنگ کی صورت میں گھروں سے باہر آنے کی ضرورت نہ پڑے اور غذائی قلت کا شکار بھی نہ ہوں۔ ایسا نظر آتا ہے کہ شام کے خلاف امریکہ کی فوجی کاروائی نہ صرف خطے میں اسرائیل کی پوزیشن مضبوط ہونے کا باعث نہیں بنے گی بلکہ اس کے برعکس اس جنگ کے شعلے اسرائیل کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیں گے اور اسرائیل کیلئے گذشتہ 22 روزہ اور 33 روزہ جنگوں میں عبرتناک شکستوں کی یادیں تازہ ہو جائیں گی۔

3. اپنی جمہوریت پسندی کی مشہوری کرنا: اگرچہ امریکہ کی جانب گذشتہ چند عشروں کے دوران شروع کی جانے والی جنگوں کے بارے میں بیان کردہ پالیسیوں میں انسانی حقوق اور جمہوریت کے فروغ کا بہت ڈھنڈورا پیٹا گیا ہے لیکن دنیا کے مختلف ممالک میں فوجی طاقت اور حملوں کے ذریعے جمہوریت کے فروغ کا نعرہ بذات خود ایک ایسے بڑے تضاد کا حامل ہے جس کی وجہ سے دنیا والوں کی نظروں میں اس نعرے کی کوئی قدروقیمت نہیں رہی۔ عالمی رائے عامہ آج یہ بات قبول کرنے پر ہر گز راضی نظر نہیں آتی کہ کسی ملک میں ایک بیرونی فوجی طاقت کے ذریعے جمہوریت کو فروغ دیا جا سکتا ہے۔ بلکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوریت کی بحالی کو صرف بہانہ بنایا جاتا ہے اور اس بہانے کے ذریعے اپنی بےجا فوجی مداخلت کو جائز اور صحیح ظاہر کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔

4. امریکا کے رعب اور دبدبے میں اضافہ: ماضی میں مختلف ممالک کا معمول رہا ہے کہ وہ جب بھی کسی خطے میں اپنا رعب قائم کرنے کے خواہاں ہوتے تھے وہاں اپنی فوجی موجودگی کو بڑھا دیتے تھے اور اس طرح دنیا والوں کو اپنی فوجی طاقت سے مرعوب کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ لیکن آج کے دور میں جب علم اور ٹیکنولوجی کی بے پناہ ترقی کے سائے میں عالمی سطح پر عوام کے شعور میں خاطرخواہ اضافہ ہو چکا ہے اور دوسری طرف انفارمیشن ٹیکنولوجی کی برکت سے پوری دنیا ایک small village میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے اور دنیا کے کسی کونے پر انجام پانے والا ایک واقعہ چند منٹ میں ہی ایک گلوبل ایشو بن جاتا ہے، فوجی طاقت اپنا ماضی کا کردار کھو چکی ہے اور اس کی جگہ نرم جنگ یا soft war نے لے لی ہے جس میں میڈیا اور ذرائع ابلاغ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ لہذا آج کے دور میں طاقت کے عناصر بالکل تبدیل ہو چکے ہیں اور اب فوجی طاقت کا اظہار وہ مقاصد حاصل نہیں کر سکتا جو کسی زمانے میں حاصل کئے جاتے تھے۔

آج کی دنیا میں سخت طاقت (فوجی طاقت) کی نمائش خود کو طاقتور ظاہر کرنے کا پرانا طریقہ جانا جاتا ہے اور امریکہ کی جانب سے فوجی طاقت کے بے پناہ اور اندھے استعمال نے سخت طاقت کے استعمال کو ایک انتہائی نامعقول اقدام کے طور پر ثابت کر دیا ہے۔ لہذا اگر امریکہ شام کے خلاف فوجی طاقت کے استعمال سے دنیا والوں کو مرعوب کرنا چاہتا ہے تو اسے جان لینا چاہیئے کہ نہ صرف وہ اس مقصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہے گا بلکہ عالمی برادری کی جانب سے فوجی طاقت کے ناجائز استعمال جیسا الزام اس کی تاڑ میں ہو گا۔

5. اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنا: امریکہ کی جانب سے شام پر فوجی حملے کا ایک اہم مقصد اسلامی مزاحمتی بلاک جس میں شام ایک بنیادی اہمیت کا حامل ملک ہے کو کمزور کرنا ہے۔ شام لبنان اور مقبوضہ فلسطین کے ساتھ مشترکہ سرحدیں ہونے کے ناطے اور اسی طرح اسرائیل کے مقابلے میں حزب اللہ لبنان کی مکمل حمایت کی وجہ سے اسلامی مزاحمتی بلاک میں انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ملک ہے۔ امریکہ شام پر فوجی حملے کے ذریعے اسلامی مزاحمتی بلاک کو کمزور کرنے کے درپے ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شام پر امریکہ کی جانب سے فوجی کاروائی کے نتیجے میں اسلامی مزاحمتی بلاک میں اتحاد زیادہ ہونے کے ساتھ ساتھ اسرائیل کے خلاف خطرے کی شدت میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ جیسا کہ گذشتہ چند ہفتوں کے دوران دیکھا گیا ہے کہ دنیا بھر میں شام کی حمایت میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔

شام پر امریکی حملے کے نقصانات اور منفی اثرات:
1. سنگین فوجی اور دوسرے اخراجات: اسٹریٹجک ماہرین کا خیال ہے کہ اگر امریکہ شام کے خلاف کسی قسم کا فوجی اقدام انجام دیتا ہے تو اول یہ کہ وہ محدود پیمانے پر جنگ کے ذریعے اپنے مطلوبہ اہداف و مقاصد کو حاصل نہیں کر سکتا اور دوماً یہ کہ اگر امریکہ ایک نامحدود اور وسیع جنگ کا آغاز کرتا ہے تو اس کے نتیجے میں امریکی عوام کے سر پر انتہائی سنگین اخراجات آ پڑیں گے جن کے ذہن سے ابھی تک عراق اور افغانستان کی جنگوں میں ہونے والے نامحدود اخراجات کی یادیں نہیں نکل پائیں۔ سیاسی اور اقتصادی ماہرین کی نظر میں گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکہ پر قرضوں کا بوجھ اور عالمی سطح پر رونما ہونے والا اقتصادی بحران بہت حد تک عراق اور افغانستان میں انجام پانے والی دو امریکی جنگوں کا نتیجہ ہے۔ عظیم مالی اخراجات کے علاوہ ان دو جنگوں میں بڑی تعداد میں امریکی فوجیوں کی ہلاکت اس بات کا باعث بنی ہے کہ امریکی عوام جنگ کے نام سے ہی متنفر ہو جائیں اور نہ صرف امریکہ بلکہ پورے یورپ کی سطح پر جنگ مخالف عظیم تحریک معرض وجود میں آ جائے۔

2. اوباما کی جانب سے اپنے جنگ مخالف نعروں کی خلاف ورزی: امریکی صدر براک اوباما نے گذشتہ دو صدارتی انتخابات کے دوران گذشتہ صدر جرج بش کی جنگ پسندانہ پالیسیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے جنگ مخالف نعرے بلند کئے اور امن کے نعروں کے ذریعے امریکی عوام کے ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ درحقیقت امریکی عوام لمبی جنگوں اور ان پر ہونے والے عظیم لاحاصل اخراجات سے تنگ آ چکے تھے لہذا براک اوباما کی جانب سے جنگ کے خلاف اور امن کے حق میں نعرے سن کر اس کی جانب کھنچتے چلے آئے۔ اب اگر براک اوباما امریکی صدر بننے کے بعد ملک کو ایک نئی جنگ میں جھونکتے ہیں تو انہیں اپنی عوام کی جانب سے شدید تنقید اور اعتراضات کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ دوسری طرف گذشتہ چند سالوں کے دوران امریکہ اور یورپی ممالک میں وسیع پیمانے پر منعقد ہونے والے جنگ مخالف مظاہروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ امریکی اور مغربی عوام جنگ سے تھک چکے ہیں اور اب شام یا کسی اور ملک کے خلاف ایک نئی جنگ شروع ہونے کے شدید مخالف ہیں۔

3۔امریکہ کے خلاف اسلامی مزاحمتی بلاک میں اتحاد و یگانگی میں اضافہ: شام کے خلاف امریکہ کے ممکنہ فوجی حملے کا ایک یقینی نتیجہ یہ نکلے گا کہ خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک میں اتحاد اور یگانگی میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ اسلامی جمہوریہ ایران، حزب اللہ لبنان، عراق، فلسطینی جہادی تنظیمیں اور خطے کی دوسری عوامی طاقتیں شام کے خلاف امریکی حملے کی صورت میں آپس میں مزید متحد ہو کر سامنے آئیں گی۔ شام کے خلاف ممکنہ امریکی حملہ باعث بنے گا کہ خطے میں موجود ہر اس گروہ یا ملک جو امریکہ کی جنگ طلبانہ پالیسیوں کی وجہ سے اس سے متنفر ہے اور خطے میں اجنبی قوتوں کی موجودگی سے اسے نقصانات برداشت کرنا پڑے ہیں کو امریکہ کے خلاف عملی جدوجہد کیلئے مناسب موقع میسر ہو جائے اور وہ امریکی مفادات کو سنجیدہ خطرات سے دوچار کر دے۔


4. فوجی حملے کی ناکامی کی صورت میں امریکی رعب اور دبدبے کو دھچکہ پہنچنے کا خدشہ: اگر امریکہ شام کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کر دیتا ہے لیکن مطلوبہ اہداف و مقاصد کو حاصل کرنے میں ناکام رہتا ہے جیسا کہ ماضی میں اسرائیل حزب اللہ لبنان کے خلاف 33 روزہ جنگ اور حماس کے خلاف 22 روزہ جنگ میں ناکامی کا شکار ہوا تھا، تو عالمی سطح خاص طور پر مشرق وسطی کی سطح پر امریکی رعب اور دبدبے کو شدید دھچکہ پہنچے گا۔ فوجی ماہرین کی نظر میں شام کے خلاف محدود پیمانے پر فوجی کاروائی امریکہ کو اس کے مطلوبہ اہداف تک نہیں پہنچا سکتی لہذا یہ ناکامی امریکہ کیلئے ایک بڑی شکست محسوب ہو سکتی ہے۔

5. اتحادی ممالک کی جانب سے امریکہ کا ساتھ دینے سے انکار: اگرچہ امریکہ نے شام کے خلاف فوجی کاروائی میں اپنے اتحادی ممالک کو ساتھ ملانے کیلئے کئی ہفتے محنت کی لیکن ماضی میں افغانستان اور عراق کے خلاف فوجی حملے جیسی صورتحال کے برعکس اس بار اس کے قریبی ترین اتحادیوں جیسے برطانیہ اور فرانس نے شام کے خلاف فوجی حملے میں شریک ہونے سے صاف انکار کر دیا۔ ان دو اتحادیوں کے علاوہ باقی مغربی ممالک نے اس جنگ میں امریکہ کا ساتھ دینے کو اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی جانب سے منظوری دیئے جانے کے ساتھ مشروط کر دیا۔ دوسری طرف سکیورٹی کونسل میں بھی چین اور روس کی جانب سے ویٹو کے خطرے کے باعث شام کے خلاف فوجی کاروائی کی اجازت دیئے جانے کا کوئی امکان نظر نہیں آ رہا تھا۔ لہذا امریکہ اپنے اہم اتحادیوں کو شام کے خلاف جنگ پر راضی نہ کر سکا جو امریکہ کیلئے ایک بڑی سفارتی شکست محسوب کی جاتی ہے۔

آخر میں عالمی حالات خاص طور پر مشرق وسطی کی سیاسی صورتحال کو مدنظر رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل بعض اہم نکات کی جانب اشارہ کیا جا سکتا ہے:
۱. شام کا مسئلہ عراق اور افغانستان سے بنیادی فرق رکھتا ہے۔
۲. صدر بشار اسد کی صورتحال صدر صدام حسین جیسی نہیں بلکہ انہیں اپنی عوام اور خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کی حمایت حاصل ہے۔
۳. شام میں تیل کے وسیع ذخائر موجود نہیں جس کے حصول کیلئے امریکہ ہر ہتھکنڈہ استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے۔
۴. شام کے حکومت مخالف گروہ آپس میں متحد نہیں ہیں جس کی وجہ سے امریکہ شام کے مستقبل کے حوالے سے ان پر اعتماد نہیں کر سکتا۔
۵. مشرق وسطی کے سیاسی اور اسٹریٹجک امور پر چین اور روس کا گہرا اثرورسوخ ہے۔
۶. اسلامی جمہوریہ ایران خطے میں موجود اسلامی مزاحمتی بلاک کا مرکز و محور ہونے کے ناطے خطے کے سیاسی امور میں بنیادی اور اہم حیثیت کا حامل ہے۔
۷. شام اسلامی مزاحمتی بلاک کا حصہ ہے اور اسرائیل کے خلاف برسرپیکار اسلامی مزاحمتی قوتیں شام کی حفاظت کیلئے ہر قربانی دینے کیلئے تیار ہیں۔ 
۸۔ شام کے خلاف امریکی فوجی حملہ اسرائیل کیلئے انتہائی سنگین نقصانات کا باعث بن سکتا ہے۔
۹. امریکہ کو چاہیئے کہ وہ اپنے گذشتہ دس سالہ تجربات کی روشنی میں شام کے خلاف فوجی کاروائی کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ سمجھ کر فیصلہ کرے۔

شام کے خلاف ممکنہ فوجی حملے کے سنگین نتائج اور نقصانات اور انتہائی کم فوائد کے پیش نظر ایسا نظر آتا ہے کہ امریکہ نے ہر دو نقطہ نظرات یعنی مثالی نقطہ نظر اور حقائق پر مبنی نقطہ نظر کے تحت شام کے خلاف فوجی کاروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا ہے جس کا منطقی نتیجہ اسلامی مزاحمتی بلاک کے مقابلے میں امریکہ کی واضح شکست کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 306560
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش