0
Wednesday 9 Oct 2013 00:57

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور جوہری ابہام پر مبنی اسرائیلی پالیسیاں

بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اور جوہری ابہام پر مبنی اسرائیلی پالیسیاں
تحریر: ڈاکٹر ماکان عیدی پور

اسرائیل کے پاس موجود بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار جن میں کیمیائی ہتھیار، بائیولوجیکل اور جراثیمی ہتھیار اور ایٹمی ہتھیار شامل ہیں کے بارے میں کوئی واضح معلومات دستیاب نہیں ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسرائیل نے اگرچہ لبنان کے بعض حصوں میں محدود پیمانے پر ان ہتھیاروں کا استعمال کیا ہے لیکن اب تک وسیع پیمانے پر ان ہتھیاروں کو بروئے کار نہیں لایا۔ البتہ اس میں کوئی شک نہیں کہ اسرائیل کے پاس کیمیائی اور جراثیمی ہتھیار موجود ہیں۔ کیونکہ اولاً بائیولوجیکل اور کیمیائی ہتھیاروں کی تیاری میں استعمال ہونے والی ٹیکنولوجی بہت پرانی ٹیکنولوجی ہے جس کی تاریخ پہلی جنگ عظیم تک جا پہنچتی ہے اور دوماً یہ کہ اسرائیل کی جعلی ریاست تشکیل پانے کے بعد اسرائیلی حکومت کے پاس علمی میدان میں کافی وسائل موجود تھے اور بڑی تعداد میں امریکی اور یورپی ماہرین نے بھی دل کھول کر اسرائیل کی مدد کی ہے۔ لہذا پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل 1940ء کے عشرے یا زیادہ سے زیادہ 1950ء کے عشرے میں بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار (Weapons of Mass Destruction) یا WPDs تیار کر چکا تھا۔ 
 
1940ء کے عشرے کے اختتام پر اسرائیل کی جعلی ریاست کی تشکیل کے رسمی طور پر اعلان اور اس کے بعد انجام پانے والی عالمی جنگ جو امریکہ کی جانب سے ایٹمی ہتھیار استعمال کئے جانے کے ذریعے اختتام پذیر ہوئی باعث بنیں کہ چین اور مغربی یورپ کی ریاستیں اپنی سرزمین اور قومی مفادات کے تحفظ کا واحد راستہ ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں جستجو کرنے لگیں۔ اس دوران بین الاقوامی سطح پر کسی ملک کے طاقتور ہونے کا تنہا معیار اس کی ایٹمی طاقت کو تصور کیا جاتا تھا۔ لہذا اسرائیلی حکام نے بھی جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس سلسلے میں اسرائیلی وزیراعظم ڈیوڈ بن گوربن نے 1952ء میں ایک تقریر کے دوران اعلان کیا کہ اسرائیل نے خود کو جوہری ہتھیاروں سے لیس کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ اگرچہ اس بارے میں مصدقہ معلومات میسر نہیں ہیں کہ آیا یہ تقریر اسرائیل کے ایٹمی پروگرام کا آغاز تھا یا نہیں، لیکن یہ بات طے تھی کہ اسرائیل کی دفاعی ڈاکٹرائن ایٹمی ہتھیاروں پر مبنی تھی۔ 
 
کچھ ایسے شواہد و مدارک موجود ہیں جو یہ ظاہر کرتے ہیں کہ اسرائیل کے جوہری پروگرام کی بنیادیں فرانس کی مدد سے رکھی گئی تھیں۔ اس دوران اسرائیل اور فرانس کے درمیان انتہائی قریبی تعاون جاری تھا۔ چارل ڈوگل کے دوران صدارت میں فرانس اس عقیدے پر قائم تھا کہ اسے اپنی قومی سلامتی کے حوالے سے دوسرے ممالک پر بھروسہ نہیں کرنا چاہیئے بلکہ اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ خود اپنے پاوں پر کھڑا ہو۔ لہذٰا فرانسوی حکومت نے یہ فیصلہ کر لیا کہ وہ دنیا میں موجود جدید ترین فوجی ٹیکنولوجی کو حاصل کر کے رہیں گے۔ ان حالات کے پیش نظر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ چونکہ اس وقت اکثر سائنسدان اور ماہرین یہودی تھے لہذا فرانس اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعاون کی بنیاد جوہری تحقیقات ہی رہی ہوں گی۔ یعنی فوجی ٹیکنولوجی کے اعتبار سے جو ترقی فرانس میں ہو رہی تھی اس کا فائدہ براہ راست اسرائیل کو بھی پہنچ رہا تھا۔ 
 
البتہ اسرائیل کی جانب سے ایٹمی ہتھیاروں کی تیاری میں ایک اور مفروضہ بھی موجود ہے۔ وہ یہ کہ 1970ء کے عشرے اور 1980ء کے عشرے کے اواخر میں جنوبی افریقہ میں اسرائیل کی جانب سے جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے منصوبہ کا آغاز کیا گیا۔ اسرائیل جنوبی افریقہ کی نسل پرست رژیم کو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس کرنا چاہتا تھا۔ اس منصوبے کے نتیجے میں جنوبی افریقہ ایٹمی ٹیسٹ انجام دینے میں کامیاب ہوا۔ بعض ماہرین کا خیال ہے کہ چونکہ اس دوران اسرائیل اور عرب ممالک میں شدید تناو موجود تھا لہذا اسرائیلی حکام اپنی سرزمین پر ایسے تجربات نہیں کر سکتے تھے اور جنوبی افریقہ میں انجام پانے والے جوہری تجربات اسرائیل کی جانب سے انجام پائے اور وہ اسرائیل کے جوہری پروگرام کا ہی حصہ تھے۔ 
 
اگرچہ کسی کو بھی اس بات کا پورا علم نہیں کہ اسرائیل کب ایٹم بم بنانے میں کامیابی سے ہمکنار ہوا لیکن مختلف شواہد و مدارک کی روشنی میں کہا جا سکتا ہے کہ 1950ء کے عشرے میں اسرائیل ایٹمی طاقت بن چکا تھا۔ اسرائیل نے 1960ء کا عشرہ ایٹمی طاقت کے طور پر شروع کیا اور اس عشرے کے شروع میں دنیا والوں کو ایسے اشارے دیئے جس سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ ایٹمی طاقت بن چکا ہے۔ مثال کے طور پر عرب ممالک کے ساتھ 6 روزہ جنگ کے دوران بعض اسرائیلی حکام انہیں ایٹمی حملے کی دھمکیاں دیتے رہے۔ یہ دھمکیاں ظاہر کرتی تھیں کہ اسرائیل 1967ء میں ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ہو چکا تھا۔ اس کے بعد اسرائیلی حکام نے اپنے جوہری پروگرام کو جاری رکھنے کے ساتھ ساتھ اسے مزید وسعت بخشی۔ اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ ایٹمی ہتھیاروں کی ٹیکنولوجی میں 1940ء سے لے کر آج تک بہت زیادہ تبدیلیاں رونما ہو چکی ہیں اور اب ہائیڈروجن بم اور نائٹروجن بم اور اسے ہی نئی نسل کے اٹامک ہتھیار تیار کئے جا چکے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ امریکہ کے پاس آج ایسے ایٹم بم موجود ہیں جو ہیروشیما میں استعمال ہونے والے ایٹم بم سے 260 گنا زیادہ تباہ کن اور طاقتور ہیں۔ نیوکلئیر ٹیکنولوجی ایک مسلسل جاری رہنے والا علمی عمل ہے اور اس قانون سے اسرائیلی حکام بھی مستثنٰی نہیں۔ مختلف اہم ذرائع سے ملنے والی رپورٹس کے مطابق یہ اندازہ لگایا جاتا ہے کہ تقریبا 10 سال قبل اسرائیل کے پاس 300 سے 600 تک اٹامک وارہیڈز موجود تھے جو اسرائیل جیسے چھوٹے سے ملک کیلئے ایک بہت بڑی تعداد سمجھی جاتی ہے۔

بین الاقوامی ادارے اور اسرائیل کے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار:  
مختلف مواقع پر اسرائیل کے جوہری ہتھیار بین الاقوامی اداروں کی توجہ کا مرکز رہے ہیں۔ سابق سوویت یونین کے زوال کے بعد عرب اسرائیل تنازعہ ایک نئے مرحلے میں داخل ہوا جس کی وجہ سے اس تنازعے میں مختلف قوتوں کی جانب سے مداخلت اور ثالثی کی نوعیت میں کافی تبدیلی دیکھی گئی۔ اسی طرح اقوام متحدہ کی بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA نے کئی بار اسرائیل سے مطالبہ کیا کہ وہ اس ایجنسی کے انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے لیکن اسرائیلی حکام نے ان مطالبات کو مسترد کر دیا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے اس مسئلے کو اپنی رپورٹس میں لانے کی کوشش کی ہے۔ اسرائیل کے جوہری پروگرام پر عالمی برادری کی توجہ میں اس وقت اضافہ دیکھنے میں آیا جب اسلامی جمہوریہ ایران کا جوہری پروگرام متنازعہ صورت اختیار کر گیا۔ اس تنازعہ کے دوران ایرانی مذاکرات کاروں نے انتہائی مہارت سے یہ مسئلہ اٹھایا کہ کیسے ممکن ہے کہ اسرائیل جس کے پاس 300 سے 600 تک ایٹم بم موجود ہیں خطے کیلئے کسی قسم کا خطرہ محسوب نہیں ہوتا لیکن اسلامی جمہوریہ ایران جس کا ایٹمی پروگرام انتہائی محدود نوعیت کا ہے اور صرف پرامن مقاصد کیلئے توانائی کے حصول کی خاطر ہے دنیا کیلئے خطرہ تصور کیا جاتا ہے؟
 
اس دوران حتی مغربی تھنک ٹینکس میں بھی یہ بحث چھڑ گئی کہ اگر مشرق وسطٰی کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے پاک کرنا چاہیں تو اس میں سب سے بڑی رکاوٹ اسرائیل ہو گا۔ مغرب کے بعض حقیقت پسند ماہرین جیسے "والٹ" کا خیال تھا کہ چونکہ اسرائیل کے پاس جوہری ہتھیاروں کا ایک بڑا ذخیرہ موجود ہے لہذا اس کے اردگرد تمام ہمسایہ ممالک کو بھی یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنی قومی سلامتی اور ملک کے دفاع کی خاطر جوہری ہتھیاروں سے لیس ہوں۔ دوسرے الفاظ میں یہ کہ جب اسرائیل سرتاپا جوہری ہتھیاروں سے لیس ہے تو ہمیں اس کے ہمسایہ ممالک سے یہ توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ وہ ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش نہیں کریں گے۔ بعض دوسرے ماہرین کا خیال تھا کہ موجودہ صورتحال کے پیش نظر ہمیں توقع ہے کہ اگلے چند عشروں کے دوران خطے کے اکثر ممالک جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش کریں گے تاکہ اسرائیل کی ایٹمی طاقت کے مقابلے میں مناسب توازن ایجاد کر سکیں لیکن اس سب کے باوجود اسرائیل کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق کسی قسم کی قانونی یا عدالتی کاروائی عمل پذیر نہ ہو سکی۔ اس کی بڑی وجہ یہ تھی کہ اسرائیل بین الاقوامی اداروں اور تنظیموں میں بے پناہ اثرورسوخ کا حامل ہے اور مغربی ممالک میں اس کی لابی انتہائی طاقتور ہے جس کی وجہ سے یہ بالکل ممکن دکھائی نہیں دیتا کہ اسرائیل کے جوہری پروگرام کے خلاف سطحی بیانات اور رپورٹس سے بڑھ کر کوئی موثر اقدام اٹھایا جا سکے۔ 
 
دوسری طرف اسرائیلی حکام کھلم کھلا یہ اعلان کرتے تھے کہ وہ کسی کو ڈیمونا نامی اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت نہیں دیں گے۔ اس دوران اگرچہ بعض  اسرائیلی عیسائی جو وہاں کی حکومت سے ناراضی تھے کے توسط سے ایٹمی ماہرین کے ذریعے انتہائی محدود پیمانے پر معلومات فاش ہوتی رہیں اور حتٰی اس خطرے کا اظہار بھی کیا گیا کہ ڈیمونا اٹامک ری ایکٹر میں ایٹمی دھماکہ بھی ہو سکتا ہے جو خطے اور دنیا کی سلامتی کو شدید نقصانات پہنچنے کا باعث بن سکتا ہے لیکن کسی بین الاقوامی تنظیم یا ادارے نے ان خبروں پر توجہ نہ دی اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی نے بھی ضروری حد تک اس مسئلے کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی IAEA اب تک کئی بار اسرائیل سے یہ مطالبہ کر چکی ہے کہ وہ ایٹمی ہتھیاروں کی روک تھام کے منصوبے NPT کی رکنیت اختیار کر لے اور آئی اے ای اے کے انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت دے دے۔ اس کے علاوہ غیرجانبدار ممالک کی تنظیم NAM اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے رکن 17 عرب ممالک نے بھی اس ایجنسی کے مقدماتی کمیشن کو بعض ایسے شواہد و مدارک پیش کئے ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل نے این پی ٹی کی رکنیت اختیار کرنے سے انکار کر کے مشرق وسطٰی کو ایٹمی جنگ کے خطرے سے دوچار کر دیا ہے۔ دوسری طرف اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی بھی 1994ء سے 2011ء تک کئی ایسی قراردادیں متفقہ طور پر منظور کر چکی ہے جن میں اسرائیل سے پرزور مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ این پی ٹی معاہدے کا رکن بن جائے۔ لیکن اسرائیل نے انتہائی ہٹ دھرمی کا ثبوت دیتے ہوئے نہ صرف اب تک این پی ٹی کی رکنیت اختیار کرنے سے انکار کیا ہے بلکہ اقوام متحدہ کے انسپکٹرز کو اپنی جوہری تنصیبات کے معائنے کی اجازت بھی نہیں دی۔ 
 
جوہری ابہام پر مبنی اسرائیلی پالیسیاں:
جوہری ابہام یا Nuclear Ambiguity پر مبنی روش درحقیقت اسرائیل کی جانب سے ہی اختراع کردہ ہے۔ اس روش کے تحت ایک ملک پہلے ایٹمی صلاحتیں حاصل کر لیتا ہے لیکن اس کے بعد جوہری تجربات انجام نہیں دیتا اور اپنے ایٹمی طاقت ہونے کا رسمی طور پر اعلان نہیں کرتا۔ رسمی طور پر دوسرے ممالک کو جوہری حملوں کی دھمکیاں نہیں دی جاتیں لیکن ایسے انداز اپنائے جاتے ہیں جن سے دشمن ممالک کو یہ سمجھا دیا جاتا ہے کہ میں ایک ایٹمی طاقت ہوں اور اگر مجھ سے ٹکر لی تو تم پر ایٹمی حملہ بھی کر سکتا ہوں۔ اس طرح سے ایک قسم کا جوہری کنٹرول عمل میں لایا جاتا ہے۔ حتی بعض مواقع پر اسرائیل اپنی جوہری طاقت کا انکار کرتے ہوئے بھی نظر آتا ہے۔ 
 
درحقیقت جوہری ابہام نظریاتی اعتبار سے ایک انتہائی اہم موضوع جانا جاتا ہے لیکن عملی طور پر جوہری ابہام اور جوہری طاقت بن جانے کے درمیان زیادہ فاصلہ پایا نہیں جاتا۔ یعنی یہ کہنا انتہائی مشکل ہے کہ ایک ملک حقیقت میں ایٹمی طاقت نہ ہو لیکن اس نے جوہری ابہام پر مبنی پالیسیاں اختیار کر رکھی ہوں۔ خاص طور پر ایک ایسا ملک جو جوہری ٹیکنولوجی کے میدان میں کافی ترقی یافتہ ملک سمجھا جا تا ہو۔ یہاں اس نکتے کی جانب بھی توجہ ضروری ہے کہ اسرائیل نے جوہری ابہام پر مبنی پالیسیاں امریکہ کے کہنے پر اختیار کر رکھی ہیں جن کا مقصد ایک طرف ہمسایہ ممالک کی تنقید سے بچنا ہے اور دوسری طرف مشرق وسطٰی پر کولڈ وار والی صورتحال حکمفرما ہونے کے ناطے خطے میں موجود ایسے ممالک جو امریکہ کے اتحادی سمجھے جاتے ہیں اور امریکہ سے یہ توقع لگائے بیٹھے ہیں کہ وہ انہیں جوہری طاقت بننے میں تعاون فراہم کرے گا کو خود سے مایوس ہونے سے بچنا ہے کیونکہ اس مایوسی کی صورت میں وہ روس کی جانب رجوع کر سکتے ہیں۔ آج اسرائیل نظریاتی اعتبار سے جوہری ابہام کا شکار ہے اور سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ اسرائیل کی تمامتر طاقت اس کی جانب سے ایٹمی خطرات کی مرہون منت ہے ورنہ جغرافیائی اعتبار سے اسرائیلی حکومت زیادہ طاقتور نہیں۔ یعنی اسرائیل چاہے جتنی طاقتور فوج کا مالک ہو جائے جوہری ہتھیاروں کے بغیر اسے اپنے ہمسایہ ممالک کے ساتھ جنگ شروع کرنے کی جرات نہیں ہو سکتی۔ 
 
خطے اور بین الاقوامی سطح پر موجود طاقتیں اور اسرائیل کے جوہری ہتھیار:
دنیا کو جوہری ہتھیاروں سے پاک کرنے کا ایشو ایک انتہائی سیریمونیل اور غیرحقیقی ایشو ہے۔ جوہری ہتھیاروں کی نابودی کا مسئلہ کسی خاص نظریاتی بنیاد کا حامل نہیں۔ تاریخی اعتبار سے دیکھا جائے تو آج تک کوئی ایسا ملک نہیں جس نے عالمی دباو کے تحت اپنے جوہری ہتھیار نابود کئے ہوں۔ اگرچہ جنوبی افریقہ کی نسل پرست رژیم نے اپنی سرنگونی کے خوف سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار اپنی مرضی سے ہی نابود کر دیئے تھے لیکن چونکہ اس وقت اس ملک میں سیاہ فام قوتیں زور پکڑ رہی تھیں لہذا مغربی طاقتوں نہیں چاہتی تھیں کہ ایٹمی طاقت سیاہ فام قوتوں کے ہاتھ لگ جائے۔  
 اس کے علاوہ دوسری جگہوں پر جیسے لیبیا تو وہاں حقیقت میں ایٹمی ہتھیار موجود ہی نہ تھے جنہیں نابود کیا جاتا۔ یعنی لیبیا میں ایٹمی پروگرام ہی سرے سے نہیں تھا اور اس نے صرف چند ایک ایسی اشیاء کی خریداری کی تھیں جو جوہری پروگرام میں استعمال ہوتی ہیں۔ یہ سازوسامان جوہری پروگرام شروع کرنے کیلئے کافی نہیں تھا اور مختلف علاقوں میں رکھا ہوا تھا۔ لیکن مغربی طاقتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں ان کی تحویل میں دے دیا گیا۔ لہذا پوری تاریخ میں اب تک کوئی ایسا ملک موجود نہیں جو ایٹمی طاقت بھی ہو اور خودمختار بھی ہو اور اس نے اپنی مرضی سے اپنے جوہری ہتھیار نابودی کیلئے پیش کر دیئے ہوں۔ نظریاتی طور پر بھی ایسا ممکن نہیں کیونکہ جوہری ہتھیاروں کی قیمت اور ایک ملک کی قومی سلامتی کیلئے ان کی اہمیت اس قدر زیادہ ہے کہ کوئی بھی ملک ان کو ترک کرنے پر راضی نہیں ہو سکتا۔ 
 
مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں واضح ہے کہ امریکہ اور یورپی ممالک اسرائیل کے جوہری پروگرام سے متعلق کیا موقف اختیار کر سکتے ہیں؟ وہ اس ایشو پر اسرائیل کی حمایت کرنے کے علاوہ کچھ اور سوچ بھی نہیں سکتے اور اسرائیل کے جوہری پروگرام کو سنجیدگی کے ساتھ تنقید کا نشانہ نہیں بنا سکتے۔ کیونکہ وہ خود ایٹمی طاقت بن چکے ہیں اور اسرائیل کو بھی یہ حق دیتے ہیں کہ وہ جوہری طاقت بن کر سامنے آئے۔ دوسری طرف اسرائیل بھی ہولو کاسٹ، 6 روزہ جنگ اور یہودیوں کی مظلومیت جیسے موضوعات کے بارے میں وسیع پروپیگنڈے کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو ایسی سمت میں رہنمائی کرتا ہے کہ جو بھی اسرائیل کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اسے شدید تنقید کا نشانہ بننا پڑتا ہے۔ لہذا ہمیں مغربی طاقتوں سے بالکل یہ توقع نہیں رکھنی چاہیئے کہ وہ اسرائیل پر اپنے جوہری ہتھیاروں کو نابود کرنے کیلئے کسی قسم کا دباو ڈالیں گی۔ 
 
روس اور چین جیسی دوسری عالمی طاقتیں بھی اسرائیل کے جوہری پروگرام کو حقیقت پسندانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں اور اس عقیدے پر قائم ہیں کہ جب ایک ملک ایٹمی طاقت بن جاتا ہے تو اسے واپس پہلی حالت پر لانا ممکن نہیں ہوتا۔ خطے کے چند اہم ممالک میں سے ترکی نے کئی بار اسرائیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے اور یہ سوال اٹھایا ہے کہ آخر کس بنیاد پر اسرائیل کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ جوہری ہتھیار تیار کرے؟ اسی طرح لبنان، مصر، شام اور حتی سعودی عرب بھی یہ موقف اختیار کر چکے ہیں کہ اسرائیل کو بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار ختم کرنا ہوں گے۔ اسی طرح ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعہ کے بارے میں بیان دیتے ہوئے خطے کے بعض ممالک نے یہ موقف اپنایا ہے کہ اگر ایران پر اس لئے دباو ڈالا جا رہا ہے کہ وہ ایٹمی طاقت میں تبدیل نہ ہو سکے تو عالمی برادری کو چاہیئے کہ وہ اسرائیل پر بھی اپنے جوہری ہتھیار نابود کرنے کیلئے دباو ڈالے۔ لیکن عملی میدان میں خطے کے تمام ممالک اور سیاسی اور فوجی حکام اسرائیل کے جوہری پروگرام کو حقیقت پسندانہ نگاہوں سے دیکھتے ہیں جس کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے ایٹمی طاقت بننے کی منطق کو کسی حد تک قبول کیا جا چکا ہے۔ 
 
جو چیز واضح ہے وہ یہ کہ خطے کے ممالک اسرائیل کے ایٹمی پروگرام پر زیادہ دباو نہیں ڈال رہے اور بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی بھی دوسرے بین الاقوامی اداروں کی مانند مختلف لابیز اور عالمی طاقتوں کے اثرورسوخ تلے دبی ہوئی ہے اور خودمختاری سے محروم ہے۔ لہذا بین الاقوامی تنظیمیں بھی اس مسئلے پر کوئی موثر اقدام کرنے سے قاصر نظر آتی ہیں۔ میرا نہیں خیال اسرائیل کسی قسم کے دباو کا احساس کرتا ہو۔ شام میں جاری کیمیائی ہتھیاروں کی نابودی سے متعلق کہا جا سکتا ہے کہ اگرچہ کیمیائی ہتھیار جوہری ہتھیاروں کی مانند اسٹریٹجک ہتھیار محسوب نہیں ہوتے اور دشمن ممالک کو کنٹرول کرنے میں ایٹمی ہتھیاروں جیسی طاقت نہیں رکھتے لیکن اس کے باوجود اسرائیل کی کوشش ہو گی کہ اس کے تمام ہمسایہ ممالک میں موجود کیمیائی ہتھیار مکمل طور پر نابود کر دیئے جائیں اور خطے کا کوئی ملک ایٹمی ہتھیار تیار نہ کر پائے۔ دوسری طرف اسرائیل چاہتا ہے کہ وہ خطے کے ممالک خاص طور پر اپنے ہمسایہ ممالک کو ایسی بدامنی اور عدم استحکام کا شکار کر دے کہ اس کیلئے کسی پریشانی یا خطرے کا باعث نہ بن سکیں۔ اس کا واضح نمونہ ترکی اور شمالی عراق میں جاری شدت پسندی اور دہشت گردانہ اقدامات ہیں۔ اسرائیل ان اقدامات کے ذریعے ترکی کی قومی سلامتی کو خطرے میں ڈالنا چاہتا ہے اور حتٰی ترکی کی خودمختاری کو ختم کرنے کے درپے ہے۔ 
خبر کا کوڈ : 309405
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش