0
Friday 14 Mar 2014 15:30

راشی اور مرتشی کی مضحکہ خیز منطق!

راشی اور مرتشی کی مضحکہ خیز منطق!
تحریر: سجاد حسین کامل
 
قوموں کی تاریخ میں کھٹن ادوار آتے رہتے ہیں۔ زندہ قومیں تند باد مخالف سے اڑان بھرتی ہیں۔ ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر بموں کی بارش سے انسانی زندگی مفقود کر دی گئی مگر مختصر وقت میں ارتقاء اور خوشحالی کے میدان میں وہ قابل تقلید بن گئے۔ چین کی افیون زدہ قوم ایک مخلص لیڈر کی بدولت دنیا میں بہترین معیشت کا منبع بن گئی۔ ترقی کا راز اور کنجی چند سادہ اصولوں پر منتبح ہے۔ انصاف، سادگی اور تعلیم۔ یہ وہ خصوصیات ہیں جو کسی معاشرے سے روٹھ جائیں تو وہ ذلت و بربادی کا نشان بن جاتا ہے۔ دجلہ و فرات کے کنارے مناظر میں توانائیاں ضائع کرنے والی قوم ابھی ہلاکو خان اور چنگیز خان کے حملوں سے سنبھلی ہی نہیں تھی کہ بددیانت اور غدار قیادت تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گئی۔ میرٹ کی پامالی اور عدل و انصاف کی عدم فراہمی تب سے اس قوم کا مقدر بن گئی۔ ملک و قوم بےشمار افرادی اور قدرتی وسائل کے باوجود انحطاط پذیر ہوتی چلی گئی۔
 
گلگت بلتستان کے گھر گھر، گلی کوچے، بازاروں، دفاتر اور اقتدار اعلٰی کے محلات میں اس وقت ایک بحث تواتر سے جاری ہے۔ رشوت، سفارش، اور بدعنوانی کی بنیاد پر لگائے جانے والے اساتذہ کا مستقبل کیا ہونا چاہیئے؟ جو لوگ ان اساتذہ کے حق میں دلالت دے رہے ہیں وہ اس پہلو کو یکساں نظر انداز کئے بیٹھے ہیں کہ رشوت دینے اور لینے کا انجام کیا ہے۔ قرآن کا واضح حکم ہے کہ رشوت دینے اور لینے والے دونوں دوزخی ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اب رشوت ستانی ہمارے معاشرے میں فخر و مباہات کا باعث بن چکی ہے۔ افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ اب راشی اور مرتشی ایک دوسرے کے حق میں بیانات دے رہے ہیں۔ کرپٹ سرمائے کو بچانے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جا رہا ہے۔ دوبارہ ٹیسٹ کا سہارا لیکر انہی بےایمانی سے بھرتی کیے گئے اساتذہ کو راہ فراہم کی جا رہی ہے۔ کرپشن کی بنیاد پر لئے جانے والے بہت سے اساتذہ ابھی ان لسٹوں میں شامل نہیں ہیں۔ خاص کر جن کا تعلق امراء کے گھرانوں سے ہے۔ انکی تعداد ہزاروں ہیں ہے۔ ابھی تو چند کے نام افشاء ہوئے ہیں۔ حالیہ انٹرویو کے دوران ہی ہونے والی بےضابطگیوں کی داستان الگ ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ کرپشن کو جانچنے اور سدھارنے والی ٹیم میں بھی مافیا کے افراد ہیں اور وہ الگ کھیل کھیل رہے ہیں۔
 
الزام یہ ہے کہ فیاض نامی ایک شخص نے ایجوکیشن میں کرپشن کی ابتداء کی۔ جس میں سیاسی راہنماوں نے کھل کر حصہ ڈالا۔ اس کام کیلئے اسے وزیراعلیٰ گلگت بلتستان کی مکمل آشیر باد حاصل رہی ۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ انہوں نے میرٹ کی پامالی کو ایک جائز امر بنا کر معاشرے کو اس برائی کا مسکن بنا لیا۔ ان کے بیانات ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ اس کام میں یوں تو بڑی بڑی نامی گرامی شخصیات شامل ہیں۔ ایک معروف میڈیا گروپ کی جانب سے کی گئی تحقیقات میں بہت کچھ آشکار ہو چکا ہے۔ اس تحقیقاتی ٹیم کا میں بھی حصہ رہا ہوں۔ بہت جلد چونکا دینے والے حقائق سامنے آنے والے ہیں۔ مضحکہ خیز بات یہ ہے کہ اس گھناونے کاروبار میں سب سے زیادہ فائدہ ایک بہروپئے نے اٹھایا۔ یہ نوسر باز سرعام بڑے بڑے دعوے کرنے میں مشہور تھا۔ یادگار چوک سے گھر جانیکا کرایہ لوگ چندہ کرکے ادا کرتے تھے۔ اب کرپشن کے اثاثے آسمان سے باتیں کر رہے ہیں۔ موصوف ہمیں بھی بتائیں کہ آخر انکے پاس کونسا "نسخہء کیمیاء" ہے جسکی بنیاد پر راتوں رات ارب پتی بنا جا سکتا ہے؟ تاکہ ہم اس حوالے سے ان کا موقف بھی سامنے لے آئیں۔ موصوف کا بیان ملاحظہ ہو، ’’کرپشن کی تحقیقات شروع کی گئی تو عوام کو سڑکوں پر لایا جائیگا‘‘۔ ذرا سی سوجھ بوجھ والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ دال میں کچھ کالا ضرور ہے۔ یہاں اگر کوئی بےداغ عوامی راہنماء ہوتا تو تحقیقات کی حوصلہ افزائی کرتا۔ محض تحقیقات سے ہی گھبرانے کا مطلب ہے کہ کہانی کچھ زیادہ ہی شرمناک ہے۔
 
حالیہ کرپشن میں ملوث سیاست دانوں کا مستقبل مجھے بہت اندوہناک نظر آتا ہے۔ جنہوں نے نہ صرف تعلیم کے شعبے میں خیانت کی بلکہ گلگت بلتستان کو بربادی کا کھنڈر بنایا ہے۔ ہسپتالوں میں معمولی ادویات کی عدم موجودگی سے مریض تڑپ رہے ہیں۔ گندگی، پسماندگی نے خطے کو لپیٹ میں لیا ہوا ہے اور کرپشن کی لوٹ سیل الگ لگی ہوئی ہے جبکہ حکمران اور اشرافیہ عیاشی اور بےہودگیوں میں مست ہیں۔ تعلیمی میدان میں کرپشن کر کے اس خطے کے مغز پر کاری ضرب لگائی گئی ہے جبکہ دوسری طرف مہدی شاہ اور اسکے حواری اسے جائز بنانے کی سعی میں ہیں۔ جس خطے میں راہبر ہی راہزن بن جائے، برائی عام ہو جائے اور اسکی حوصلہ افزائی کی جائے وہ قومیں گمنامی کے اندھیروں میں گم ہو جاتی ہیں۔ ذلت اور انحطاط انکا مقدر بن جاتا ہے۔ ایسے لوگ ہی انسانیت کے قاتل ہیں۔ تاریخ انہیں کبھی معاف نہیں کرتی۔
خبر کا کوڈ : 361813
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش