1
0
Thursday 22 May 2014 14:00

یوکرائن میں غرب کا احمقانہ کھیل

یوکرائن میں غرب کا احمقانہ کھیل
تحریر: ڈاکٹر مصطفی ملکوتیان

اسلام ٹائمز- یوکرائن کی سرزمین 6 لاکھ 3 ہزار 700 مربع کلومیٹر کے رقبے پر پھیلی ہوئی ہے جس کی آبادی تقریبا 45 میلین 7 لاکھ 6 ہزار نفوس پر مشتمل ہے۔ یہ ملک بحیرہ اسود کے شمال میں واقع ہے اور مشرقی یورپ کے 7 ممالک کے ساتھ اس کی سرحدیں ملتی ہیں۔ ان میں سے تین ممالک یعنی روس (17 میلین 75 ہزار 200 مربع کلومیٹر رقبہ اور 141 میلین 930 ہزار آبادی)، بیلاروس (2 لاکھ 7 ہزار 6 سو مربع کلومیٹر رقبہ اور 9 میلین 4 لاکھ 73 ہزار آبادی)اور مالدووا (33 ہزار 842 مربع کلومیٹر رقبہ اور 35 میلین 5 لاکھ 90 ہزار آبادی) سابق سوویت یونین سے علیحدہ ہونے والی ریاستیں ہیں جبکہ چار دوسرے ممالک یعنی پولینڈ (3 لاکھ 12 ہزار 685 مربع کلومیٹر رقبہ اور 38 میلین سے زیادہ آبادی)، سلوواکیہ (48 ہزار 845 مربع کلومیٹر رقبہ اور 5 میلین 5 لاکھ 40 ہزار آبادی)، ہنگری اور رومانیہ (2 لاکھ 37 ہزار 500 مربع کلومیٹر رقبہ اور 21 میلین 3 لاکھ 90 ہزار آبادی) کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جو مشرقی اور مغربی بلاکس کے درمیان جاری گذشتہ سرد جنگ کے د وران مشرقی کمیونیسٹ بلاک کا حصہ رہے ہیں۔ اسی طرح ان میں سے بعض ممالک بڑے ملک کے ٹوٹنے سے معرض وجود میں آئے ہیں جیسے سلوواکیہ جو پہلے چک سلوواکیہ کا حصہ تھا اور اس کے ٹوٹنے سے دو ممالک چک اور سلوواکیہ معرض وجود میں آئے۔

سابق سوویت یونین کے دور میں جو اس کے آخری سربراہ میخائیل گورباچف کے بقول تقریبا 128 مختلف اقوام کا مجموعہ تھا کئی مواقع پر بڑے پیمانے پر نقل مکانی انجام پائی جس کے دوران روس کی بڑی اقلیتیں یا اپنی مرضی سے یا مجبوری کے عالم میں دوسری سرزمین کی جانب ہجرت کر گئیں۔ یہ اقلتیں اس قدر اثرورسوخ کی حامل تھیں کہ حتی سابق سوویت یونین کے ٹوٹ جانے کے بعد بھی نئی تشکیل پانے والی ریاستوں میں اہم سیاسی کردار ادا کرنے کی صلاحیت رکھتی تھیں اور اقتدار کو اپنے ہاتھ میں لینے میں کامیاب ہو گئیں۔ سابق سوویت یونین کے ٹوٹ جانے اور تقریبا 15 آزاد اور خودمختار ریاستوں میں تبدیل ہو جانے کے بعد موجودہ رشین فیڈریشن یا روس اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل جیسے بین الاقوامی اداروں میں اس کی جانشین اور میراث دار قرار پائی۔

اس وقت سے لے کر آج تک روسی حکام کی کوشش یہی رہی ہے کہ سابق سوویت یونین سے ٹوٹ کر الگ ہونے والی ریاستوں کو زیادہ سے زیادہ اپنے قریب لا سکے اور اس طرح ایک طرح سے "کامن ویلتھ کنٹریز" کی شکل کا اتحاد تشکیل دے سکے۔ سوویت یونین سے الگ ہونے والی ریاستیں کم از کم دو اعتبار سے روس کے محتاج تھے۔ ایک انرجی کے شعبے میں اور دوسرا روزمرہ ضروریات کی اشیاء کے حوالے سے۔ ان امور نے ایک بار پھر ان ریاستوں کا نئے تشکیل پانے والے روس سے رابطہ مضبوط کر دیا۔ مشرقی بلاک اور سابق سوویت یونین کا زوال ایران میں "نہ شرقی نہ غربی" کے نعرے کے ساتھ کامیاب ہونے اسلامی انقلاب کے 12 سال بعد واقع ہوا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ اس زوال میں کارفرما موثر محرکات میں سے ایک سوویت یونین کے جنوب میں واقع مسلمان نشین ریاستوں میں انقلاب اسلامی ایران کی گونج کو قرار دیا جا سکتا ہے۔ اسی طرح انقلاب اسلامی ایران نے افغان عوام کے اندر سوویت یونین کے ظالمانہ قبضے کے خلاف جہادی تحریک کے آغاز کا بھی ولولہ پیدا کر دیا اور اس جنگ کے آخر تک انتہائی خلوص کے ساتھ افغان مجاہدین کا ساتھ دیا۔ اگرچہ اس کے جواب میں سوویت یونین ایران کے خلاف عراقی صدر صدام حسین کو اسلحہ اور میزائل فراہم کرتا رہا۔ افغانستان سوویت یونین کے ویت نام میں تبدیل ہو کر رہ گیا اور سوویت یونین کے پاس اپنی شکست قبول کرنے کے علاوہ کوئی چارہ نہ بچا۔ انقلاب اسلامی ایران نے اپنے وظیفے پر عمل کرتے ہوئے ایک الحادی نظام کی نابودی کا زمینہ فراہم کیا۔

1985ء میں سوویت یونین میں میخائیل گورباچف کے برسراقتدار آنے اور اس کی جانب سے پروسٹروئیکا پالیسی (اقتصادی اصلاحات) اور گلاس نوسٹ پالیسی (سیاسی اصلاحات) اختیار کئے جانے کے بعد کسی کے ذہن میں یہ تصور موجود نہیں تھا کہ کمیونزم بہت جلد نابود ہونے والا ہے اور سوویت یونین اپنے زوال کے قریب آن پہنچا ہے۔ صرف امام خمینی رحمہ اللہ علیہ جیسی الہی اور دور اندیش شخصیت تھی جس نے اپنے پیغام میں مارکسزم کی قریب الوقوع نابودی اور شکست کی خبر دنیا والوں کو پہنچائی۔ بانی انقلاب اسلامی ایران نے اپنے پیغام میں اعلان کیا کہ دنیا والے بہت جلد کمیونزم کو دنیا کے سیاسی عجائب گھروں میں تلاش کریں گے۔ حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے تہران میں اپنے سادے سے گھر میں سوویت یونین کے وزیر خارجہ ایڈورڈ شوارد نادزے جو ان کے خط کے جواب میں دونوں ممالک کے درمیان موجودہ تعلقات کو مزید وسعت دینے کی درخواست پر مبنی گورباچف کا پیغام لایا تھا سے اپنی ملاقات کے دوران واضح کیا کہ میرا مطمع نظر یہ نہیں تھا کہ دونوں ممالک کے درمیان تعلقات مضبوط کئے جائیں بلکہ میں تو درحقیقت تمہارے ملک کے حکام کو خداپرستی کی جانب آنے اور مادہ پرستی سے دوری اختیار کرنے کا راستہ دکھانا چاہتا تھا۔

1991ء کے آخر میں مشرقی بلاک اور سوویت یونین
کے زوال کے بعد مغربی دنیا اس غلط فہمی کا شکار ہو گئی کہ ان کے رقیب کی نابودی کا مطلب مغربی بلاک کی مضبوطی اور طاقت ہے۔ لہذا انہوں نے پوری دنیا کو اپنے قبضے اور تسلط میں لینے کے خواب دیکھنا شروع کر دیئے اور حتی سابق سوویت یونین سے جدا شدہ ریاستوں پر بھی سیاسی تسلط قائم کرنے کی منصوبہ بندی کرنے لگے۔ سوویت یونین کے زوال کے بعد معرض وجود میں آنے والی نئی رشین فیڈریشن کے نئے صدر یلسٹین نے بھی مغرب نوازی کی راہ اپنائی۔ اس دوران سابق سوویت یونین سے جدا ہونے والی خودمختار ریاستیں بھی شدید سیاسی اور معاشی مشکلات کا شکار ہو چکی تھیں۔ ساتھ ہی مغربی طاقتوں نے ان نومولود ریاستوں میں موجود طاقت کے خلاء کو پر کرنے کی کوششیں شروع کر دیں۔ اس دوران مغربی دنیا کی تمام تر توجہ ایران کی طاقت کو کنٹرول کرنے پر متمرکز ہو چکی تھی۔

رونلڈ ریگن کے دورہ صدارت میں امریکی حکومت نے ایران کا مقابلہ کرنے کیلئے "چھوٹی سطح پر جنگ" کی ڈاکٹرائن اختیار کی۔ اس ڈاکٹرائن کے مطابق امریکی حکومت کو ایران کے مقابلے میں فوجی کاروائی کے علاوہ ہر ممکنہ ہتھکنڈہ بروئے کار لانے کی کھلی چھوٹ دی دے گئی۔ لیکن ریگن آخرکار ایران کی طاقت کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا اور اس کے نتیجے میں "ایران گیٹ" اسکینڈل معرض وجود میں آیا جس کی بنیادی وجہ امریکہ کی جانب سے ایران کے ساتھ اپنی مرضی کے مطابق تعلقات استوار کرنے میں ناکامی تھی۔ اسی طرح بل کلنٹن کے دوران حکومت میں بھی اس کی جانب سے اختیار کردہ “Dual Containment” یا دہرے کنٹرول پر مبنی ڈاکٹرائن کا بھی کوئی خاطرخواہ نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ مغربی طاقتیں حسب سابق مشرقی یورپی ممالک اور ان کے بعد قفقاز اور سنٹرل ایشیائی ممالک کے ذریعے مشرق کی جانب نیٹو کی پیشروی کے منصوبے بنا رہی تھیں تاکہ اس طرح اپنے زعم میں مستقبل میں تشکیل پانے والے یونی پولر عالمی نظام کے خلاف پیش آنے والی ممکنہ مشکلات کا موثر انداز میں مقابلہ کر سکیں۔ وہ اپنی خام خیالی میں یہ سوچ رہے تھے کہ اس منصوبے کو عملی جامہ پہنا کر مشرق وسطی اور مغربی ایشیا جیسے انتہائی اسٹریٹجک خطے میں موجود اپنے سب سے زیادہ اہم دشمن یعنی ایران کے گرد محاصرے کو حتمی شکل دے پائیں گے اور اس کے نتیجے میں ایران کو کنٹرول کرتے ہوئے خطے میں موجود دوسرے بڑے ممالک کے ساتھ اس کا رابطہ منقطع کر دیں گے۔ اس دوران نیا تشکیل پانے والا رشین فیڈریشن بھی شدید اقتصادی اور صنعتی مشکلات کا شکار تھا اور مغربی تعاون خاص طور پر مغربی ٹیکنولوجی کی ضرورت کا شدت سے احساس کر رہا تھا۔ لہذا ان شعبوں میں مغربی تعاون اور مدد کے بدلے ان کے بعض مطالبات کو ماننے پر مجبور ہو چکا تھا۔ مغربی دنیا بھی اپنے عالمی اہداف اور تسلط پسندانہ پالیسیوں کو مزید آگے بڑھانے کیلئے مناسب موقع کی تلاش میں تھی۔

ایسے حالات میں امریکہ کے شہر نیویارک میں واقع ورلڈ ٹریڈ سنٹر کے جڑواں ٹاورز دہشت گردانہ اقدامات کا نشانہ بنتے ہیں اور امریکی حکام فورا ہی اس کی ذمہ داری اسامہ بن لادن یا القاعدہ پر ڈالتے ہوئے اعلان کرتے ہیں کہ افغانستان میں برسراقتدار طالبان ملا عمر کی سربراہی میں اسامہ بن لادن کے دہشت گردانہ نیٹ ورک اور اس کے ٹھکانوں کی سرپرستی کر رہے ہیں۔ امریکہ نے اس موقع پر روسی حکام کو رشوت کے طور پر مالی امداد دیتے ہوئے اور نیٹو میں روس کو رکنیت دینے جیسے جھوٹے وعدے دے کر اس بات پر راضی کر لیا کہ سابق سوویت یونین سے آزاد شدہ ریاستوں میں امریکہ کو فوجی اڈے بنانے کی اجازت دی جائے۔ انہیں میں سے ایک ریاست ازبکستان کی ہے جہاں امریکہ نے بعد میں بڑا فوجی اڈہ قائم کیا ہے۔ لیکن وقت نے مغربی مفادات کا ساتھ نہ دیا اور دنیا میں ایسے واقعات رونما ہوئے جنہوں نے مغرب کی تمام آرزووں پر پانی پھیر دیا۔ انہیں میں سے ایک واقعہ انقلاب اسلامی ایران کی ترقی اور دوسری قوموں تک اپنے پیغام کو پہنچانا تھا۔ ان واقعات کے نتیجے میں فعال اور متحرک مغربی دنیا غیرفعال اور عقب نشینی کا شکار مغربی دنیا میں تبدیل ہو کر رہ گئی۔ اس بار مغربی بلاک کی باری تھی کہ وہ زوال کی جانب گامزن ہو جائے۔ وہ اپنی سرتوڑ کوششوں کے باوجود ایران کے خلاف کوئی خاطرخواہ کامیابی حاصل کرنے میں بری طرح ناکام رہے ہیں۔ انہوں نے 2003ء میں جارجیا ، 2004ء میں یوکرائن اور 2005 میں کرغزستان میں رنگی انقلاب برپا کئے اور افغانستان اور عراق پر فوجی چڑھائی بھی کی۔ افغانستان اور عراق میں فوجی شکست اور بھاری نقصان برداشت کرنے کے بعد دنیا میں رشین فیڈریشن، ایران اور چین جیسی نئی بڑی طاقتوں کے ظہور کا ڈراونا خواب اور اسی طرح اپنے ممالک میں فکری، معاشی اور سیاسی بحران کا رونما ہونا مغربی بلاک کی بوکھلاہٹ کا باعث بنے ہیں۔ آج مغربی طاقتیں خوداعتمادی کھو چکی ہیں اور اپنی بقا کی جنگ لڑنے میں مصروف ہیں۔

ان حقائق کو صحیح طور پر درک کئے بغیر یوکرائن کے بحران کو سمجھنا ناممکن ہے۔ مغربی طاقتیں حزب اللہ اور حماس کے مقابلے میں اسرائیل کی غاصب صہیونیستی رژیم کی مسلسل ناکامیوں اور اسرائیل کے ساتھ ساز
باز کرنے والی عرب حکومتوں کی طاقت اور خوداعتمادی کے زوال کے پیش نظر خطے میں اپنے مفادات کے مستقبل کے بارے میں مکمل طور پر مایوس ہو چکی ہیں۔ لہذا انہوں نے 2011ء میں خطے میں اسلامی بیداری کی تحریک کے جنم لینے کے ساتھ ہی دنیا کے 80 سے زائد ممالک سے تعلق رکھنے والے تکفیری دہشت گرد عناصر کو شام میں دھکیل کر وہاں خانہ جنگی کا بازار گرم کر دیا۔ اس سازش کا اصل مقصد اسرائیل کے مقابلے میں خطے میں پائی جانے والی اسلامی مزاحمت کے ایک بنیادی رکن یعنی شام کو توڑنا تھا تاکہ اپنے مفادات میں حائل اسلامی مزاحمت کو ٹھکانے لگا سکیں۔ لیکن خدا کی غیبی مدد اور شام کی حکومت اور عوام کی جانب سے بے نظیر مزاحمت اور استقامت نے ان تمام سازشوں اور ناپاک منصوبوں کو خاک میں ملا کر رکھ دیا اور اس وقت ان کی پوری کوشش یہ ہے کہ کسی طرح شام میں سرگرم مسلح تکفیری دہشت گردوں کو حتمی شکست سے بچایا جا سکے۔ کیونکہ وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر شام میں سرگرم تکفیری دہشت گرد پوری طرح ناکامی کا شکار ہو گئے تو پورے خطے کی تقدیر بدل جائے گی۔ ایسے حالات میں مغربی طاقتوں نے یوکرائن میں اپنے کھیل کا آغاز کیا ہے۔ انہوں نے یوکرائن کے دارالحکومت کیف میں چند اوباش اور بدمعاش افراد کی حمایت کرتے ہوئے تیموشینکو اور اپنے دوسرے کٹھ پتلی حکمرانوں کے برسراقتدار آنے کا زمینہ فراہم کیا اور اس طرح ایک قانونی صدر یعنی وکٹوریا نوکوویچ جو 2010ء میں انتخابات کے ذریعے صدر کے عہدے پر فائز ہوئے تھے اور 2015ء تک قانونی طور پر ملک کے صدر تھے کو برکنار کر دیا۔

لیکن مغربی طاقتوں کا یہ اقدام انتہائی نامعقول اور احمقانہ تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یوکرائن میں مغربی اہداف محقق نہ ہوئے اور یوکرائن میں مغربی مداخلت کا نتیجہ صرف یہ نکلا کہ مغربی دنیا جو پہلے ہی عظیم معاشی اور سیاسی بحرانوں اور شام کے بحران اور ایران کے جوہری پروگرام سے متعلق تنازعات میں الجھی ہوئی تھی ایک نئے بحران میں کود پڑی جو روس کے ساتھ ایک نئی سرد جنگ کی صورت میں ظاہر ہو چکا ہے۔ یوکرائن کے مسئلے میں مغربی طاقتیں مکمل طور پر شکست کھا چکی ہیں۔ ان کی شکست کے بہت سے دلائل اور شواہد موجود ہیں جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:

۱۔ جیوپولیٹیکس کے اعتبار سے دیکھا جائے تو یوکرائن جو ماضی میں سوویت یونین کا حصہ رہا ہے اور روس اس کے بارے میں مکمل طور پر آگاہ ہے اور تفصیلی معلومات کا حامل ہے اس وقت شمال اور مشرق کی جانب سے رشین فیڈریشن اور بیلاروس جبکہ دوسری جانب سے بلیک سی اور بحیرہ آزوف میں واقع روس کے فوجی اڈوں کے درمیان پوری طرح گھرا ہوا ہے۔ مزید یہ کہ یوکرائن کے نزدیک کوئی مغربی طاقتور ملک موجود نہیں۔ اس کے علاوہ بحیرہ اسود میں روس کی بحریہ کا بڑا حصہ موجود ہے۔ دنیا کا کوئی سیاسی ماہر اس حقیقت کا انکار نہیں کر سکتا کہ روس بحیرہ اسود میں اپنی اسٹریٹجک پوزیشن کو کھونے کی ہر گز اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ صرف اسی راستے سے روس کا رابطہ بحیرہ قلزم کے گرم پانیوں اور یورپ سے جڑا ہوا ہے۔ آج روس کا رقبہ تقریبا 1 کروڑ 70 لاکھ مربع کلومیٹر تک جا پہنچتا ہے جو دنیا کی تمام خشکی کا تقریبا 13 فیصد حصہ بنتا ہے۔ روس نے صدر ولادیمیر پیوٹن کے برسراقتدار آنے کے بعد یورو ایشیا اسٹریٹجی اپنا رکھی ہے جس کے تحت جارجیا اور یوکرائن جیسی سرزمینوں پر اپنا تسلط قائم رکھنے پر تاکید کی گئی ہے۔ جیسا کہ ہم نے چند سال قبل دیکھا ہے کہ اوسیٹیا کی جانب سے جارجیا پر جارحیت کے ردعمل میں روس نے فوجی کاروائی کرتے ہوئے اسیٹیا کی فوجوں کو شدید شکست سے دوچار کر دیا تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے جارجیا اور یوکرائن جیسے ممالک روس کی جانب سے مشرقی یورپ کے دروازے تصور کئے جاتے ہیں جن پر سیاسی تسلط روس کی قومی سلامتی و نیز مغربی طاقتوں کی نیٹو کو مشرق کی جانب وسعت دینے پر مبنی پالیسیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے انتہائی اہم اور ناگزیر سمجھا جاتا ہے۔ روس اپنے قومی مفادات کے تحفظ کیلئے ہر اقدام اٹھانے پر آمادہ نظر آتا ہے۔

۲۔ یوکرائن کی آبادی تقریبا 4 کروڑ 60 لاکھ کے لگ بھگ ہے جس کا 83٫7 فیصد حصہ ارتھوڈوکس عیسائی مذہب سے وابستہ ہے اور وہ روس میں ارتھوڈوکس کے مرکز کلیسا کی حمایت کرتے ہیں جبکہ پروٹسٹنٹ عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 4٫4 فیصد ہے۔ لہذا یوکرائن کے عوام کی اکثریت ہمیشہ سے ہی مشرقی طرز تفکر کی حامل رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ کبھی کبھار یوکرائنی عوام کا بعض حصہ مغربی ذرائع ابلاغ کے وسیع پروپیگنڈے اور مغرب کی جانب سے دی جانے والی مالی امداد سے متاثر ہو کر مغربی پالیسیوں کی حمایت کا اظہار کرنے لگتے ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ وہ لوگ جنہوں نے 2004ء میں نارنجی رنگی انقلاب کی بھرپور حمایت کی تھی اور یانکوویچ کی شکست کا باعث بنے تھے 2010ء میں انہی کے حق میں نعرے لگاتے ہوئے نظر آئے اور انہیں کے ووٹوں نے یانکوویچ کو منصب صدارت تک پہنچا دیا۔ یوکرائن کی آبادی سے متعلق حقائق صرف اسی حد تک محدود نہیں بلکہ یوکرائن مشرقی اور مغربی رجحانات کے حامل عوام کی خاطر دنیا بھر میں معروف ہو چکا ہے۔ خاص
طور پر یہ کہ اس ملک کے مشرقی اور جنوبی حصے میں بسنے والے افراد کی اکثریت روسی نژاد ہے۔ یوکرائن کی آبادی کا 22 فیصد حصہ غیرملکی مہاجرین پر مشتمل ہے اور 17٫3 فیصد افراد روس نژاد ہیں جو ملک کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں آباد ہیں۔

۳۔ رشین فیڈریشن دنیا میں موجود انرجی کے ذخائر کا 20 فیصد حصہ اپنے اندر لئے ہوئے ہے۔ اگرچہ مغربی ممالک کی پوری کوشش ہے کہ جہاں تک ہو سکے انرجی کے میدان میں روس پر اپنے انحصار کو کم سے کم کر سکیں جیسا کہ حال ہی میں ناباکو پائپ لائن کا منصوبہ سامنے آیا ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ان کی یہ کوششیں زیادہ ثمربخش ثابت نہیں ہو سکیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ناباکو پائپ لائن کا منصوبہ ان کی صرف 5 فیصد ضروریات کو پورا کرے گا۔ درحقیقت مغربی دنیا اس وقت انرجی کے پھندے میں پھنس چکی ہے۔ کیونکہ مجبور ہے یا تو روس سے اپنی ضرورت کی گیس خریدے اور یا پھر اپنے دوسرے دشمن یعنی اسلامی جمہوریہ ایران سے گیس خریداری کرے۔ ایران سے مغربی دنیا تک گیس کی فراہمی کیلئے بحیرہ قلزم کے ذریعے ایک نئی پائپ لائن بچھائے جانے کا منصوبہ بھی زیر غور ہے۔ دوسری طرف یوکرائن بھی گیس کے معاملے میں روس کا شدید محتاج ہے۔ روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے حال ہی میں ایک تقریر کے دوران کہا ہے کہ گذشتہ چند سالوں کے دوران روس نے یوکرائن کو سستی گیس مہیا کرتے ہوئے اس کی تقریبا 35 ارب ڈالر مدد کی ہے۔ موجودہ بحران کے دوران مغربی ممالک ہر گز یہ صلاحیت نہیں رکھتے کہ یوکرائن کو درپیش گیس کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔

۴۔ رشین فیڈریشن اقوام متحدہ کا ایک مستقل رکن ہے جبکہ سابق سوویت یونین اقوام متحدہ کے بانی اراکین میں شمار ہوتا ہے۔ مغربی دنیا اس وقت شدید عالمی معاشی بحران کا شکار ہے جبکہ دوسری طرف اس بحران نے روس کو کوئی خاطرخواہ نقصان نہیں پہنچایا۔ لہذا ایسے حالات میں مغربی طاقتیں روس کے خلاف موثر اقتصادی پابندیاں لگانے کی پوزیشن میں نظر نہیں آتیں۔ اگر انہوں نے روس کے خلاف اقتصادی پابندیوں پر زیادہ تاکید کی تو اس کا الٹا نقصان انہیں ہی بھگتنا پڑے گا جبکہ مغرب مخالف عالمی اتحاد زیادہ سے زیادہ متحد ہوتا چلا جائے گا اور یہ امر اقتصادی پابندیوں کے ہتھکنڈے کو ہمیشہ کیلئے ناکارہ بنا سکتا ہے۔

مذکورہ بالا حقائق کی روشنی میں مغربی طاقتوں کی جانب سے یوکرائن میں شروع کی گئی سازشیں اور سیاسی اقدامات انتہائی احمقانہ دکھائی دیتے ہیں۔ شاید مغربی طاقتیں اس غلط فہمی کا شکار ہیں کہ چونکہ یوکرائن روس کیلئے انتہائی اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ملک ہے لہذا وہاں پر ایک سیاسی بحران پیدا کر کے وہ روس کو مشرق وسطی میں جاری شام کے بحران، اسلامی مزاحمت اور ایران کے ساتھ جاری جوہری تنازعہ کے بارے میں ان کی مطلوبہ پالیسی اپنانے پر مجبور کر سکتے ہیں۔ تاکہ اس طرح مغربی طاقتیں خطے میں قریب الوقوع شکست فاش سے بچ سکیں۔ ایک ایسی شکست جو خطے میں مغربی طاقتوں کے اثرورسوخ کے خاتمے اور نئی سیاسی تبدیلیوں کے آغاز کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ اب تک یوکرائن میں پیش آنے والے واقعات نے ثابت کر دیا ہے کہ یہ کھیل مغربی طاقتوں کے ہاتھ سے نکل چکا ہے اور جوں جوں وقت گزر رہا ہے وہ اپنے ہی کھودے ہوئے گڑھے میں مزید نیچے گرتی جا رہی ہیں۔ مغربی ممالک کو بالکل یہ توقع نہیں تھی کہ یوکرائن کے مشرقی اور جنوبی حصے میں آزادی یا روس کے ساتھ الحاق کی تحریکیں اٹھ کھڑی ہوں گی۔ جیسا کہ ہم نے جزیرہ کریمہ میں دیکھا۔ جزیرہ کریمہ 27 ہزار مربع کلومیٹر رقبے کے ساتھ 24 لاکھ آبادی پر مشتمل جزیرہ ہے جس کی زیادہ تر آبادی روسی نژاد ہے۔ روس کا دعوی ہے کہ یہ جزیرہ درحقیقت روس کا ہی حصہ تھا جسے سابق سوویت یونین کی جانب سے یوکرائن کو دیا گیا تھا۔ لہذا روس نے اس جزیرے میں منعقد ہونے والے ریفرنڈم کی حمایت کرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ ملا لیا ہے۔ جب مغربی ممالک نے روس پر تنقید کی اور اس پر جزیرہ کریمہ کو یوکرائن سے الگ کرنے کی کوشش کا الزام عائد کیا تو روس نے انہیں جواب دیا کہ یہ عمل بالکل ایسے ہی ہے جیسے مغربی ممالک نے کوسوو کی ریاست کو البانیہ سے الگ کرنے میں انجام دیا تھا۔ البتہ یوکرائن کے نگران صدر یانوکوویچ نے جزیرہ کریمہ کا روس سے الحاق کو ایک ٹریجڈی قرار دیا اور اسے مغربی ممالک کی غلط پالیسیوں کا نتیجہ قرار دیا۔

مختصر یہ کہ مغربی طاقتیں نہ صرف شام کے محاذ پر عبرتناک شکست سے دوچار ہو چکی ہیں بلکہ انتہائی حماقت کا ثبوت دیتے ہوئے یوکرائن جیسے نئے محاذ کو بھی اپنے خلاف کھول چکی ہیں۔ یہ نیا محاذ یورپ میں واقع ہونے کے ناطے عالمی سطح پر موجود دوسرے مسائل پر بھی شدید انداز میں اثرانداز ہو سکتا ہے۔ یوکرائن کے نئے محاذ کا اثر مغربی دنیا میں موجود سیاسی، فکری اور معاشی بحران، ایران کے خلاف مغرب کی اقتصادی پابندیوں، شام میں فوج کی مزید پیشروی اور دوسرے عالمی ایشوز پر پڑتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ گذشتہ کئی سالوں سے مغربی بلاک نے بھی مشرقی بلاک کی مانند زوال کی راہ اپنا رکھی ہے اور مغربی طاقتیں نت نئے مسائل کھڑے کر کے اس زوال کو روکنے پر قادر نہیں ہو سکتے۔
خبر کا کوڈ : 384949
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Iran, Islamic Republic of
realey an exelent and most informative.thanks islamtimes
ہماری پیشکش