3
0
Sunday 8 Jun 2014 13:41
ناجائز و غاصب نسل پرست صہیونی ریاست

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (1)

اسرائیل کے قیام میں امریکہ کا کردار (1)
تحریر: عرفان علی

میری کم علمی مجھے یہ جملہ لکھنے پر مجبور کر رہی ہے کہ اردو زبان میں اس عنوان پر بہت ہی کم لکھا گیا ہے۔ کم از کم میں نے اس موضوع پر اردو میں کوئی خاص کام نہیں دیکھا۔ فلسطین پر ناجائز طریقوں سے قبضہ و تسلط جما کر دہشت گردی کے ذریعے جو نسل پرست یہودی (صہیونی) ریاست قائم کی گئی، اس کے قیام میں امریکا کا کردار بھی اتنا ہی اہم تھا جتنا برطانیہ کا۔ امریکا کا یہ کردار  بھی اس وقت ہی شروع ہوگیا تھا جب تھیوڈور ہرزل نے یہودی وطن کا نظریہ پیش کرنے کے ایک سال بعد عالمی صہیونی کانفرنس کرکے عالمی صہیونی تحریک کی بنیاد رکھی۔1897ء میں سوئٹزرلینڈ کے شہر بازل (Basle) میں سیاسی صہیونیت کے بانی تھیوڈور ہرزل نے پہلی صہیونی کانگریس بلوائی اور اسی میں عالمی صہیونی تنظیم قائم کی۔ اس اجلاس میں 4 امریکی صہیونیوں نے شرکت کی تھی۔ صہیونی تنظیم میں پہلے سال 117 گروپوں کی نمائندگی تھی، جو بڑھ کر اگلے سال 900 گروپس تک جا پہنچی (Perceptons of Palestine by Katlhleen Chrstison)۔ اس کانگریس میں 15 ممالک کے 204 یہودیوں نے شرکت کی تھی۔ جرمنی کے یہودی مالدار تھے، وہ سماجی طور پر غیر یہودی معاشرے میں ضم ہونے کے خلاف اور دیگر ممالک میں یہودی وطنیت کے خلاف تھے۔ انہوں نے اپنی سماجی حیثیت کا بھرپور استعمال کیا۔ (Fallen Pillars: U.S. Policy Towards Palestine and Israel Since 1945 by Donald Neff)۔

ایسا نہیں تھا کہ تھیوڈور ہرزل سے پہلے نسل پرست یہودیوں کا نظریہ صہیونیت موجود نہیں تھا، بلکہ زرعی و ثقافتی صہیونیت کے عنوان سے دنیا کے مختلف ممالک میں گروہ کام کر رہے تھے۔ 1890ء کے عشرے کے اوائل میں صہیونیت کے فروغ کے لئے کام کرنے والی تنظیمیں امریکا کے شہروں نیویارک، شکاگو، بالٹی مور، ملواکی، بوسٹن، فلاڈیلفیا اور کلیولینڈ میں سرگرم عمل تھیں۔1897-98ء میں امریکا کے مشرق اور وسط مغرب میں صہیونیوں نے مزید کئی نئی انجمنیں تشکیل دیں۔ 1898ء میں امریکی صہیونیوں کی پہلی سالانہ کانفرنس میں وہ سب جمع ہوئے اور وہیں انہوں نے فیڈریشن آف امریکن زایونسٹ (وفاق صہیونی امریکائی) قائم کی۔ 1880ء کے عشرے میں ہی بہت سے گروہوں نے یہودی ریاست کے قیام کی حمایت شروع کردی تھی()۔ اسی عشرے میں امریکا کی مشہور شاعرہ ایمو لے زرس (Emma Lazarus) نے صہیونیت کے فروغ کے لئے کام کیا۔ امریکا کے مجسمہ آزادی کے ستون پر اسی یہودی شاعرہ کی مشہور نظم ’’دی نیو کولوسس‘‘ کے اشعار کندہ ہیں۔ 1887ء میں انتقال کرنے والی اس شاعرہ نے مشرقی یورپ سے نقل مکانی کرنے والے یہودیوں کو تاکید کی کہ وہ فلسطین کا رخ کریں، (جیوش ورچوئل لائبریری)۔ اسرائیلی جھنڈے کا پہلا ماڈل بھی بوسٹن میں ہی تخلیق کیا گیا تھا (Jews of Boston)۔

اس پس منظر میں یہ سمجھنا بہت ہی زیادہ آسان ہوگیا کہ سیاسی صہیونیت کے شریک بانی اور تھیوڈور ہرزل کے قریبی و قابل اعتماد ساتھی ڈاکٹر میکس نرڈاؤنے یہ تاریخی جملہ کیوں کہا تھا کہ صہیونیت کی واحد امید امریکا کے یہودی ہیں(The Macabaen Vol.7 1904صہیونی مجلہ)۔ ایک جانب صہیونیوں کی یہ سرگرمیاں جاری تھیں اور دوسری جانب ایسے ہی افراد کے زیر اثر اور انہیں خوش کرنے کے لئے امریکی صدر گروور کلیولینڈ نے 1887ء میں سلطنت عثمانی ترکی کے لئے ایک یہودی کو امریکی سفیر مقرر کیا۔ فلسطین پر اس وقت ترک سلطنت یا خلافت کا کنٹرول تھا۔ یہودی مورخ ڈیوڈ جی ڈالن نے لکھا کہ امریکی صدور امریکا کے یہودیوں میں صہیونیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیش نظر ترکی میں اپنے سفارتخانے کو زیادہ اہمیت دیا کرتے تھے۔ ( At the Summit: Presidents, Presidential Appointments and Jews, in, Jews in American Politics)۔

1910ء کے عشرے تک امریکا میں صہیونیوں کی تعداد 20 ہزار تک جا پہنچی۔ ان میں وکلاء، پروفیسرز اور تاجروں کی بڑی تعداد بھی شامل تھی۔ 1914ء مزید صہیونی گروہ بننے لگے اور ان میں Hadassah نامی صہیونی تنظیم برائے خواتین بھی شامل تھی۔ (Fallen Papers by Donald Neff)۔ 1918ء تک صہیونیوں کی تعداد 2 لاکھ ہوگئی۔ 1948ء تک امریکا میں صہیونیوں کی تعداد لگ بھگ 10ہوگئی تھی (The Lobby: Jewish Political Power and American Foreign Policy by Edward Tivnan))۔ امریکی دفتر خارجہ میں صہیونیوں کے لئے کوئی خاص گرم جوشی نہیں پائی جاتی تھی، البتہ امریکی مقننہ اور ذرائع ابلاغ میں صہیونیت کا اثر و نفوذ بڑھتا جا رہا تھا۔ مسئلہ یہ تھا کہ محکمہ خارجہ کو صہیونیوں کے ووٹ اور چندے کی ضرورت نہیں تھی (Fallen Papers)۔ صہیونی شروع سے ہی اپنے ایجنڈا کو میڈیا کے ذریعے پھیلا رہے تھے۔ Yiddish پریس نے شروع سے صہیونی اہداف کی تائید کی۔ 1923ء تک نیویارک کے جتنے بھی یڈش اخبارات تھے، سوائے ایک کے سب صہیونی تھے۔1927ء تک ان اخبارات کی رسائی 5 لاکھ 35 ہزار خاندانوں تک تھی (American Zionism and U.S. Foreign Policy1942-47)۔

1912ء میں صہیونی ادبی سوسائٹی نے امریکی صدر ولیم ہوورڈ ٹیفٹ سے رابطہ کیا تھا، لیکن اس وقت کے وزیر خارجہ فلانڈر نوکس نے صہیونی مقاصد کو امریکی مفادات سے متصادم قرار دیا تھا، لیکن اس کے باوجود دیگر محاذوں پر صہیونی اس سال کامیاب رہے تھے۔ (Fallen Papers)۔ لیکن 1913ء میں صہیونیت نواز وڈرو ولسن امریکا کے صدر بنے۔ امریکی تاریخ کے چند نامور اور انتہائی بااثر ترین صہیونیوں میں سے ایک لوئس برینڈیس وڈرو ولسن کا انتہائی قابل اعتماد دوست تھا۔ وڈرو ولسن نے اسے امریکی سپریم کورٹ کا جج مقرر کیا۔ یہ عالمی صہیونی سینٹرل آفس کا سربراہ تھا اور یہ سینٹرل آفس انہی سالوں میں جرمنی سے امریکا منتقل کر دیا گیا تھا۔ برینڈیس نے پہلی جنگ عظیم اور فلسطین کے حوالے سے امریکی پالیسی میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ (Fallen Papers)۔

برینڈیس جج بننے کے باوجود صہیونی سازشوں میں خفیہ طور فعال کردار ادا کرتے رہے۔ امریکا میں ان کا احترام کیا جاتا رہا، کیونکہ ان کے سازشی کردار سے امریکی لاعلم رہے۔ 1982ء میں امریکی آئینی قانون کے اسکالر اور جڈیشل بائیوگرافر بروس ایلن مرفی نے ایک کتاب لکھی تو اسے امریکن بار ایسوسی ایشن سے سرٹیفیکیٹ آف میرٹ ملا۔ پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پولیٹیکل سائنٹسٹ مرفی نے لکھا کہ برینڈیس اور فیلکس فرینکفرٹر نامی صہیونی جو بعد میں امریکی سپریم کورٹ کا جج بنا، ان دونوں کے مابین کئی سال تک خفیہ سرگرمیوں میں اشتراک کار تھا اور ان سرگرمیوں میں صہیونیت بھی شامل تھی: (The Brandies/Frankfurter Connection: The Secret Political Activities of the Supreme Court Judges by Bruce Allen Murphy))۔

فرینکفرٹر کو 31 سال کی عمر میں ہارورڈ لاء اسکول فیکلٹی جوائن کروانے کے لئے ایک نئی اسامی تخلیق کی گئی۔ برینڈائس کے کہنے پر مشہور یہودی فائنانشر جیکب اسکف نے چندہ (ڈونیشن) دے کر یہ نئی پوسٹ تخلیق کروائی تھی۔ 25سال تک فرینکفرٹر قانون کے طلباء کی ذہن سازی کرتا رہا۔ جب برینڈائس امریکی صہیونی تحریک کا سربراہ بنا تو اس نے ایک ایڈوائزری کاؤنسل بنائی اور اس میں اپنے انتہائی قابل اعتماد افراد کو مشیر رکھا، اس کاؤنسل میں فرینکفرٹر کو بھی رکنیت دی گئی۔ ہارورڈ لاء اسکول کے دور سے ہی برینڈائس نے فرینکفرٹر کو اپنی سیاسی لابنک کرنے والا تنخواہ دار معاون بنا لیا تھا۔ 25 سال سے زائد عرصے کی رفاقت کے دوران دونوں صہیونی یہودی امریکیوں نے اپنے پیروکاروں کا ایک نیٹ ورک قائم کیا۔ ان پیروکاروں کو اثر انداز عہدوں پر فائز کروایا اور انتہائی مستعدی سے اپنے منصوبوں پر عمل کروایا۔ فرینکفرٹر کے ذریعے برینڈائس نے اپنے کردار کو عوام سے خفیہ رکھا۔ صرف ایک اور آدمی کو برینڈائس نے اس خفیہ مشن سے آگاہ کیا تھا اور وہ اس کا ساتھی جولین میک تھا، جو امریکی کورٹ آف اپیلز کا جج تھا:(The Brandies/Frankfurter Connection: The Secret Political Activities of the Supreme Court Judges by Bruce Allen Murphy)۔

مرفی کی کتاب کے بعد نیویارک ٹائمز نے 18 فروری 1982ء کو اپنے اداریے میں برینڈائس اور فرینکفرٹر کے معاملے کو اخلاقی معیار کے خلاف اور صریحاً غلط قرار دیا۔ اداریے کے مطابق اس کردار کو خفیہ رکھنا ہی اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ دونوں بھی اسے اخلاقیات کے خلاف ہی سمجھتے تھے، یا کم از کم وہ یہ تو جانتے تھے کہ عوام اسے خلاف اخلاقیات ہی قرار دیں گے :(Judging Judges, and History: New York Times)۔ فرینکفرٹر جب جج بنا تو اس نے بھی برینڈائس جیسے ہتھکنڈے استعمال کئے۔ صہیونی اہداف کے حصول کے لئے مختلف سرکاری اداروں میں اپنے پیروکار تعینات کروائے۔ ہٹلر کے خلاف جنگ میں امریکا کو شریک کروانے کے لئے امریکی صدر پر اپنا اثر و رسوخ استعمال کیا۔ ماورائے آئین و قانون یہ منظم سازش مرحلہ بہ مرحلہ آگے بڑھائی گئی۔ (The Brandies/Frankfurter Connection: The Secret Political Activities of the Supreme Court Judges by Bruce Allen Murphy)۔ صہیونیوں نے برینڈائس کے کردار کو خفیہ رکھا۔ جس ایڈوائزری کاؤنسل کا تذکرہ کیا گیا ہے، اس کا نام پیروشم (Parushim) تھا۔ صہیونی اسرائیلی پروفیسر سارہ شمٹ نے پہلی مرتبہ اس خفیہ سوسائٹی کا تذکرہ 1970ء کے عشرے میں ایک آرٹیکل میں کیا۔ اس کا عنوان تھا :(The Parushim: A Secret Episode in American Zionist History)۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 388059
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
Salam. Very informative and research work. Thanks the writer and Islam Times.It is really hard work
Pakistan
acha likha.shukriya
سلام
بہترین، ہمیشہ کی طرح
ہماری پیشکش