5
0
Sunday 2 Nov 2014 17:30

یمن عوامی حکومت کی دہلیز پر

یمن عوامی حکومت کی دہلیز پر
تحریر: سلمان رضا 

سرزمین یمن پر 21 ستمبر کو ہونے والے معاہدے کے بعد ایسا محسوس ہوتا تھا کہ شاید مغربی حکومتیں اور ان کی پٹھو عرب حکومتیں یمن کی زمینی حقیقت یعنی "حوثی مزاحمت" کو تسلیم کر لیں گیں اور اپنی عوام دشمن پالیسیوں جو درحقیقت آل سعود اور امریکی مفادات کے لیے مرتب کی گئیں تھیں، ان سے کنارہ کش ہوجائیں گئیں، لیکن بعد ازاں یمنی صدر عبد الربہ منصور ہادی کے جنرل علی محسن الاحمر کے ساتھ گٹھ جوڑ کے نتیجے میں ہونے والی سازشوں کے بعد عبدالمالک الحوثی نے اقوام متحدہ کی سرپرستی میں ہونے والے معاہدہ سے کنارہ کشی اختیار کرلی۔ ہمیں یاد رہے کہ یمن میں حوثی قبائل جو کہ مسلک کے اعتبار سے شیعہ زیدیہ ہیں، یمن کی آبادی کا تقریباً 40 فیصد ہیں لیکن پچھلی کئی دہائیوں سے ان کے حقوق سلب کئے جاتے رہے ہیں اور ملک کی باگ ڈور پر آل سعود نواز علی عبداللہ صالح کا قبضہ تھا جو کہ گذشتہ 33سال سے یمن کا مطلق العنان اور خود ساختہ صدر تھا۔
 
پھر اسلامی بیداری کی ہوا جب یمن کی طرف آئی تو یہاں پر بسنے والے حوثی قبائل کے ساتھ ساتھ یمن کے سنی شافعی عوام بھی علی عبداللہ صالح کے خلاف سڑکوں پر نکل آئے۔ اسلامی بیداری کی لازوال تحریک کو کچلنے کے لئے آل سعود اور امریکہ نے ہر ممکن کوشش کی لیکن شیعہ سنی عوام کے سیلاب کے آگے بند نہ باندھا جاسکا اور فروری 2012ء میں امریکہ نے علی عبداللہ صالح کے لئے محفوظ راستہ نکالا اور وہ بھی تیونسی آمر علی زین العابدین کی طرح اپنے آقا اور پشت پناہ آل سعود کی پناہ گاہ یعنی سعودی عرب میں منتقل ہوگئے۔ علی عبداللہ صالح کی سعودی عرب منتقلی کے بعد بھی امریکہ و آل سعود نے اپنی شکست کو تسلیم نہیں کیا اور درپردہ سازشیں جاری رکھیں، کبھی نجران کے ساتھ یمنی سرحد پر خود ساختہ جنگ چھیڑ کر، جس کا منطقی انجام سعودی عرب کی شکست پر ہوا تو کبھی منصور ہادی کے ذریعے حوثیوں کی حق تلفی والی پالیسی کو دوام بخش کر۔
 
گذشتہ چند ماہ میں یمنی کٹھ پتلی حکومت نے جنرل علی محسن الاحمر (جو کہ علی عبداللہ صالح کے دور کے کزن ہیں) کے ذریعے حوثیوں پر ظلم کا بازار گرم رکھا اور آل سعود نے دوسرے محاذ پر القاعدہ جو کہ حوثیوں کو اپنا اور یمنی حکومت کا مشترکہ دشمن سمجھتی ہے، کو بھرپور امداد فراہم کی، تاکہ وہ اس دوسرے محاذ پر حوثیوں کا جینا محال کر دیں۔ لیکن حوثیوں نے اپنی شجاعت اور استقامت کے ساتھ دونوں محاذوں پر کامیابی حاصل کی، جس کے نتیجے میں یمنی عوام کے دلوں میں حوثی مزاحمتی تنظیم "انصار اللہ" کے بارے میں مثبت خیالات نے جنم لیا اور آج یمنی عوام یہ سوچ رہے ہیں کہ امریکہ اور آل سعود کی پروردہ "حکومت" خواہ وہ علی عبداللہ صالح کی شکل میں ہو یا منصور ہادی کی شکل میں، رفاہ عامہ سے لے کر ملکی دفاع تک ہر میدان میں ناکام رہی ہے۔ یہ حکومت اپنی بدعنوانیوں اور مغربی و آل سعود دوست پالیسیوں کی وجہ سے عوام کے دلوں میں پہلے سے زیادہ منفور ہوچکی ہے۔ منفور تو شاید پہلے بھی تھی لیکن اس حکومت کے مقابلے میں انہیں کوئی دوسری آپشن نظر نہیں آرہی تھی، اسی لئے جب انہیں عوامی مزاحمت کے نتیجے میں کامیابیاں ملیں تو ان کا عزم بلند ہوگیا اور جب حوثیوں نے عوام دوست پالیسیوں والے مطالبات حکومت کے سامنے رکھے اور حکومت کو مجبوراً انہیں تسلیم کرنا پڑا تو عوام کو ایک متبادل لیڈر شپ کا خاکہ بھی نظر آنے لگا۔ 

یمنی عوام یہ سوچنے لگے ہیں کہ حکومت کے اربوں ڈالر کے بجٹ اور بے مہار دفاعی اخراجات کے باوجود القاعدہ جیسا ناسور کیسے یمن میں پھیلا اور آل سعود کی پشت پناہی کے باعث القاعدہ کامیابیاں حاصل کرتی رہی اور نتیجتاً ان علاقوں میں لوگوں کا جینا محال ہوتا رہا اور القاعدہ اپنے برانڈ کے متشدد اسلام والی پابندیاں (جن کا اسلام ناب محمدی سے دور دور تک کوئی تعلق نہیں) یہاں بسنے والوں پر لگاتی رہی۔ گویا باقاعدہ تربیت یافتہ فوج جس کے پیچھے Petro dollars کی سرمایہ کاری بھی تھی، القاعدہ کے سامنے ڈھیر ہوتی رہی جبکہ اس کے برعکس حوثی تنظیم انصار اللہ، انہیں درندوں کے سامنے بغیر کسی مالی پشت پناہی اور بغیر باقاعدہ عسکری تربیت کے سینہ سپر ہوکر یمنی عوام کو اس ناسور سے نجات دلانے کے لئے کھڑی رہی اور نہ صرف کھڑی رہی بلکہ جنوبی یمن کے بیشتر علاقوں سے القاعدہ کا صفایا کر دیا۔ انصار اللہ کو ایک طرف سے ظالم حکومتی فوجوں کا سامنا تھا، جس کی سربراہی جنرل علی محسن الاحمر کر رہا تھا جبکہ دوسری طرف اسے القاعدہ کے جھنڈے تلے دنیا بھر سے آئے ہوئے تکفیری درندوں کا سامنا تھا، جن کو آل سعود، قطری، اماراتی، پشت پناہی حاصل تھی۔ حوثی تنظیم نے ان دونوں محاذوں پر بیک وقت کامیابی حاصل کرکے عوام سے داد شجاعت بھی حاصل کی اور یمن میں شیعہ سنی کے مشترکہ چیلنجز کا سامنا بھی کیا۔

انصار اللہ کی لیڈر شپ نے ساری تحریک میں کسی موقع پر اپنی تحریک کو مسلکی رنگ میں رنگنے نہیں دیا، اگرچہ ان کا یہ دیرینہ مطالبہ رہا ہے کہ یمن میں زیدیہ مسلک کی ہمیشہ سے حق تلفی ہوتی رہی ہے لیکن اس مطالبے کے حصول کے لئے انہوں نے کبھی غلبہ پسندانہ مطالبہ نہیں کیا، یعنی یہ نہیں کہا کہ ملک کا صدر یا وزیراعظم زیدیہ مسلک سے ہونا چاہیے بلکہ ان کا یہ مطالبہ رہا کہ حکومت میں ان کے حمایت یافتہ افراد کو ان کے تناسب کے مطابق جگہ دینی چاہیے، دوسرے الفاظ میں یہ مطالبہ بھی عوامی بن جاتا ہے یعنی عوام کو ان کی متناسب نمائندگی کا حق۔ پھر تحریک کے حالیہ مرحلے میں انہوں نے اس مطالبے کو پس پشت رکھا اور جن تین مطالبات کا تقاضا کیا وہ مندرجہ ذیل ہیں۔

(1) حکومت چونکہ بدعنوان ہے اور اس نے اپنی بدترین کارکردگی کے ساتھ یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کی اہل نہیں، لہٰذا فوری طور پر مستعفی ہو اور ٹیکنو کریٹس کی حکومت فوری طور پر تشکیل دی جائے۔
(2) پٹرول اور اس کی مصنوعات پر دی جانے والی 50فیصد سبسڈی کو ختم کرنے کا حکومتی فیصلہ عوام اور غریب کش ہے، لہٰذا اس فیصلے کو فوری طور پر واپس لیا جائے اور تیل پر دی جانے والی سبسڈی بحال کی جائے۔ ظاہر ہے کہ اس فیصلے سے کسی مسلک نہیں بلکہ یمنی عوام کو ریلیف ملنا تھا اور اسی لئے یمنی عوام کی اکثریت نے اس مطالبے کا خیر مقدم کیا اور اسے حوثی مطالبے کی بجائے یمنی عوام کا مطالبہ قرار دیا۔
(3) یمن میں کچھ عرصہ قبل ہونے والے قومی مذاکرات کے نتیجے میں مرتب ہونے والی سفارشات پر عمل کیا جائے اور یمنی آئین میں اصلاحات سے لے کر عوام دوست پالیسیوں کا اجراء کیا جائے۔ شفاف اور غیر جانبدارانہ انتخابات کروا کر حکومت حقیقی عوامی نمائندوں کو منتقل کی جائے۔

مندرجہ بالا مطالبات میں کہیں بھی مسلکی یا قبائلی رنگ نظر نہیں آتا اور بجا طور پر کہا جاسکتا ہے کہ یہ مطالبات حوثی قبائل یا زیدی مسلک کے مطالبات نہیں بلکہ یمنی عوام کے مطالبات ہیں۔ یہاں ایک اور بات انتہائی قابل غور ہے کہ عبدالمالک الحوثی نے یہ مطالبات اس وقت پیش نہیں کئے جب وہ کسی پسپائی کا شکار تھے بلکہ یہ مطالبات ان ایام میں کئے گئے جب حکومتی ظالم فورسز اور القاعدہ دونوں انصاراللہ کے سامنے سر تسلیم خم کرچکے تھے اور صدارتی محل سے لے کر بہت سی اہم عمارتوں پر انصار اللہ کا قبضہ تھا اور ساتھ ساتھ کئی فوجی چھائونیاں بھی انصار اللہ کے قبضے میں تھیں اور اس سے قبل فوج کا ایک حصہ یعنی فضائیہ ماہ ستمبر میں ہی حوثیوں کی تحریک کی تائید کرچکا تھا اور موجودہ حکومت کو بدعنوان قرار دے چکا تھا۔ یعنی اگر عبدالمالک الحوثی صرف اقتدار پر قبضہ کرنا چاہتے تو اس سے بہتر فرصت کیا تھی کہ ایوان صدر کے گرد بے مثال دھرنے کے بعد جب ایوان صدر میں انصاراللہ کے مجاہدین داخل ہوچکے تھے تو وہ اپنی حکومت کے قیام کا اعلان کر دیتے، لیکن اس کے برعکس انہوں اس اختیار کو عوام کا حق قرار دیا اور عوامی مطالبات کی تکرار کی۔
 
درحقیقت اس تحریک میں حالیہ شدت اس وقت پیدا ہوئی تھی، جب منصور ہادی نے گذشتہ معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے احمد بن مبارک کو چیف آف اسٹاف کے عہدے سے ترقی دیتے ہوئے وزیراعظم نامزد کر دیا تھا۔ موصوف آل سعود اور امریکہ کے فیورٹ تصور کئے جاتے تھے، لیکن انصاراللہ کی طرف سے ہونے والی مزاحمت کے نتیجے میں 9اکتوبر کو احمد بن مبارک نے اپنے استعفٰی کا اعلان کر دیا۔ بن مبارک کے استعفٰی کو یمن میں آل سعود، امریکہ اور غاصب یمنی حکومت کی ایک اور شکست تصور کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یمن میں حکومت عملاً مفلوج ہے اور انصاراللہ نے اپنی پیش قدمی کو القاعدہ کے زیر تسلط علاقوں کی طرف جاری رکھا ہوا ہے اور ابھی چند روز پہلے انہوں نے البیدہ جیسے تزویراتی اہمیت والے شہر پر قبضہ کرلیا ہے۔ البیدہ شہر باب المندب نامی اہم سمندری گذر گاہ کے کنارے پر واقع ہے، جو خلیج عدن کے ذریعے بحر احمر کو بحر ہند سے ملاتی ہے اور دنیا میں سمندری تجارت کے اعتبار سے یہ آبنائے ہرمز کی طرح انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔
 
یہاں ہم اس اعتراض کا جواب دینا ضروری سمجھتے ہیں کہ کچھ مبصرین انصاراللہ کے مسلح پہلو کو القاعدہ کے ساتھ تشبیہ دیتے ہوئے انصاراللہ کو بدنام کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ان کی اطلاع کے لئے عرض کر دیں کہ یمنی آبادی کا تقریباً 85فیصد قبائل میں تقسیم ہے اور یہ تمام قبائلی یمن میں مسلح رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں، لیکن ان حوثی قبائلیوں نے حکومت مخالف تحریک کو کبھی مسلح نہیں کیا تھا بلکہ جب ان کو الجھانے کے لئے دوسرے محاذ پر القاعدہ کے مسلح درندوں کو منظم کیا گیا تو جواب میں انصاراللہ نے اپنے دفاع میں مسلح مزاحمت شروع کی۔ دوسرا یہ کہ القاعدہ کا بانی اسامہ سعودی عرب کا شہری تھا اور اس کا نائب ایمن الظواہری مصری باشندہ ہے۔ اسی طرح عراق میں لڑنے والا ابو مصعب الزقاوی اردن سے تعلق رکھتا تھا لیکن ان تینوں نے اپنے ممالک سے امریکہ نواز حکومتوں کو بیدخل کرنے کے لئے یا امریکی مفادات کو نشانہ بنانے کے لئے کوئی باقاعدہ مہم جوئی نہیں کی، بلکہ دوسرے ممالک کو اپنی نام نہاد جہادی کاروائیوں کا مرکز بنایا جبکہ انصاراللہ یا حوثی قبائل اپنے ملک میں امریکہ و آل سعود نواز آمرانہ حکومت کی عوام دشمن پالیسیوں کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں یا القاعدہ نامی دہشت گردوں سے یمن کے دفاع کے لئے مسلح جدوجہد کر رہے ہیں۔ اس لئے القاعدہ اور انصاراللہ میں کسی پہلو سے بھی مماثلت نہیں۔

اس سال عید غدیر کے روز یمن کی سرزمین پر جو جشن منایا گیا، اس کے بارے میں تمام آزاد مبصرین یہ کہنے پر مجبور ہیں کہ پوری تاریخ اسلام میں اتنا بڑا جشن کبھی کسی سرزمین پر نہیں منایا گیا۔ ہم خدا سے دعا گو ہیں کہ سرزمین یمن میں عوام کو استکباری پنجوں سے آزادی میسر آئے اور یہاں عوام کی حقیقی حمایت یافتہ حکومت کا قیام عمل میں آئے، جو یہاں کے باسیوں کو مغرب و مشرق کی استکبار دوست اور غلامانہ پالیسیوں سے نجات دلائے۔ اس ضمن میں حوثیوں اور دیگر قبائل یعنی یمن کے شیعہ سنی عوام کو بصیرت کے ساتھ ابھی استقامت اور جاں فشانی کے کئی امتحان دینے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 417649
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

Pakistan
dilchasp hai.
United States
Very informative Mashallah Salman bhai keep it
ماشااللہ شیخ صاحب
انتہائی معلوماتی اور پراثر تحریر ہے۔
مولا سلامت رکھے آمین
Pakistan
یمن میں حوثیوں کی کامیابی کا سنا تو تھا لیکن اتنی تفصیل سلمان بھائی سے ہی مل سکتی تھی۔
سدا سلامت رہیں۔
ایک ایسے مسئلہ پر قلم فرسائی کی ہے کہ جس کو صہیونیت کا زرخرید عالمی میڈیا نظر انداز کر رہا ہے۔ ماشاءاللہ قابلِ قدر کاوش ہے۔ اللہ جزائے خیر دے
ہماری پیشکش