0
Sunday 30 Nov 2014 16:59

علامہ نواز عرفانی کی شہادت۔۔ ممکنہ مقاصد و محرکات؟

علامہ نواز عرفانی کی شہادت۔۔ ممکنہ مقاصد و محرکات؟
تحریر: علی ناصر الحسینی
 
ملک کے دارالحکومت اسلام آباد میں پاراچنار کی معروف دینی شخصیت اور نامور عالم دین جو پاراچنار کی مرکزی مسجد کے خطیب اور پاکستان کے بڑے مدرسہ جامعہ جعفریہ کے پرنسپل بھی تھے، کو 26 نومبر کی شام شہید کر دیا گیا، ان کی میت پمز اسپتال میں لائی گئی جہاں ان کا پوسٹ مارٹم کیا گیا، بعد ازاں میت جامع مسجد امام الصادق ؑ میں لائی گئی، جہاں ان کا غسل و کفن ہوا، مولانا شیخ شفا نجفی نے ان کی نماز جنازہ پڑھائی، اس موقعہ پر پاراچنار سے تعلق رکھنے والے یوتھ آف پاراچنار، مجلس وحدت مسلمین اور امامیہ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے نوجوانوں نے احتجاج بھی کیا، میت اگلے دن پاراچنار کیلئے روانہ کر دی گئی، جہاں انہیں لاکھوں سوگواروں کی موجودگی میں آہوں  و سسسکیوں میں دفن کر دیا گیا، ان کا جنازہ جگہ جگہ استقبال و رش کے باعث پشاور سے کئی گھنٹے بعد پاراچنار پہنچا، اس موقعہ پر انتہائی رقت آمیز مناظر دیکھنے میں آئے، خواتین و حضرات کی انتہائی جذباتی وابستگی کا مظاہرہ دیکھنے میں آیا، اسی وجہ سے انہیں اگلے روز یعنی 28 نومبر کو جنازہ کے بعد دفن کیا گیا۔ بعض حضرات نے اس نقصان کو پاراچنار کے حوالے سے شہید قائد جیسے نقصان سے تشبیہ دی، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ علامہ نواز عرفانی کو یہاں کے عوام میں کس قدر پذیرائی حاصل تھی۔
بقول شاعر
اک جنازہ اٹھا مقتل سے عجب شان کیساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے 

علامہ نواز عرفانی کا قتل کئی حوالوں سے بے حد اہمیت کا حامل ہے، جسے کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، سب سے پہلے تو اس حوالے سے کہ ان کی شخصیت ایک ایسے علاقے کی معروف و محبوب تھی جس کا تعلق پاکستان کے انتہائی حساس علاقوں میں ہوتا ہے، اگر اس خطے کے لوگ مطمئن نہ ہوئے تو یہ حالات کو خراب کرنے کا باعث بن سکتا ہے۔ دوسرا علامہ نواز عرفانی کا قتل اسلام آباد میں ہوا ہے جہاں وہ آج کل رہائش پذیر تھے، ان پر پاراچنار جانے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی، الیکشن کے بعد سے لیکر ایک مصنوعی بحران کرم ایجنسی میں چل رہا ہے جو ختم ہونے کا نام بھی نہیں لے رہا ہے۔ بعض لوگ اس قتل کو اس کھاتے میں ڈالنے کے خواہش مند نظر آتے ہیں، جو کہ اس ملت کے ساتھ ظلم کے مترادف ہوگا، یہ بات ایسی آگ لگا سکتی ہے جس کا نقصان اس قدر زیادہ ہوگا کہ اس کا خمیازہ بھگتنا ممکن نہیں ہوگا۔ اس اہم ترین شخصیت کا بنیادی تعلق بھی ایک حساس علاقہ گلگت سے تھا مگر گذشتہ کئی برسوں سے وہ پاراچنار میں مرکزی خطیب کی حیثیت سے خدمات سرانجام دے رہے تھے، ان کی شہادت کی خبر کے بعد ان کے آبائی علاقوں میں بھی احتجاجی مظاہرے ہوئے ہیں، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اس خطے کے لوگ بھی اس ظلم پر غم و غصہ پایا جاتا ہے، جنہیں مطمئن کرنا حکوت کی ترجیح ہونا چاہیئے۔
 
حقیقت یہ ہے کہ قتل کے محرکات میں سب سے اہم ترین محرک وہ عناصر و گروہ ہیں جو شیعہ شخصیات کو چن چن کر قتل کرنے کے ماہر ہیں، جن کی ٹارگٹ کلنگ کے نتیجہ میں پہلے بھی کئی ایک شیعہ علماء کو شہید کیا جا چکا ہے۔ پشاور، ہنگو، کوہاٹ اور ڈیرہ اسماعیل خان جیسے خیبر پختونخوا کے شہر آج شیعوں کے مقتل بن چکے ہیں، اسی عدم تحفظ کے باعث ہی اس خطے کی بہت بڑی آبادی اسلام آباد اور دیگر شہروں میں آکر آباد ہوئی ہے، جب سے پاراچنار میں دہشت گردوں کو بدترین شکست ہوئی ہے، انہوں نے پاراچنار سے ہجرت کرنے والی بہت سی نامور شیعہ شخصیات و عمائدین کو پشاور اور اسلام آباد میں ٹارگٹ کیا ہے، بہت سے لوگ اغواء برائے تاوان بھی کئے گئے ہیں جنہیں بھاری رقوم کے بدلے یا تو رہا کیا گیا یا پھر ان کو شہید کرکے لاشیں وصول کی گئی ہیں۔
 
ایک بات بڑی واضح ہے کہ ملت تشیع کو سیاسی حوالے چاہے جتنے گروہوں میں تقسیم کر دیا جائے، اس کی مذہبی وابستگی و ملی مفادات پر رائے اجتماعی نکتہ نظر سے ہم آہنگ ہوتی ہے، جس کا واضح ثبوت پاراچنار میں لڑی جانیوالی تمام جنگیں ہیں، جن میں ہمیشہ شیعہ قوم میں وحدت ایجاد ہو جاتی تھی، اگر کوئی قبیلہ یا خاندان کسی سے دشمنی رکھتا تھا تو اس ماحول میں وہ کبھی بھی فائدہ نہیں اٹھاتا تھا، ذاتی بدلے اور دشمنیاں امن کے زمانے میں بھگتائی جاتی ہیں، میرے خیال میں یہ قتل دشمن کی سازش ہے اور اس قتل کے بعد سامنے آنے والے بعض واقعات کو جوڑا جائے تو سازش گروں کے پاؤں کے نشان تلاش کرنا مشکل نہیں ہوگا، یہ بات اپنی جگہ حقیقت ہے کہ علامہ نواز عرفانی سے موجودہ پولیٹیکل انتظامیہ کسی بھی طرح سے خوش نہیں تھی، وہ انہیں برداشت نہیں کر رہی تھی، اس کا اصل ہدف شیخ نواز عرفانی کو ہٹانا یا ان کے مخالف سیاسی دھڑے کو لانا نہیں تھا بلکہ وہ اپنے وسیع مقاصد کے تحت ایسا کر رہے تھے کہ شیعہ قوم یہاں باہم تفریق و تقسیم کا شکار ہو کر اس قدر کمزور ہو جائے کہ اس کی قوت و طاقت سے کوئی خطرہ محسوس نہ ہو۔
 
ایک بات اور ہے جس کا ذکر کرنا یہاں ضروری سمجھتا ہوں، وہ یہ کہ کرم ایجنسی کی اہمیت اس وقت پہلے سے کہیں زیادہ ہوچکی ہے، یہاں وزیرستان سے بھاگنے والے دہشت گردوں کو جائے پناہ درکار ہے، وہ بھی ایسی جائے پناہ جس میں وہ افغانستان اور پاکستان میں آنے جانے کیلئے باآسانی سفر کرسکیں، یہ ان دہشت گرد گروپس کی بات کی جا رہی ہے جو افغانستان جا کر کارروائیاں کرتے ہیں،2007ء میں اہل کرم طوری شیعہ قبائل پر مسلط کی جانے والی جنگ کا بھی یہی مقصد تھا، جس کی راہ میں شیعہ قبائل حائل ہوئے اور ان دہشت گردوں کو راستہ نہیں دیا، جو اپنے مذموم مقاصد کیلئے چاہ رہے تھے، علامہ نواز عرفانی کا اس میں بڑا واضح کردار تھا، اس حوالے سے علامہ نواز عرفانی ان دہشت گردوں اور ان کے سرپرستوں کی راہ میں بہرحال رکاوٹ بنے رہے تھے۔
 
ایک اور پہلو جس پر دقت نظر کی ضرورت ہے وہ یہ ہے کہ کرم ایجنسی کا مرکزی امام بارگاہ و مدرسہ جعفریہ جس کے علامہ نواز عرفانی پرنسپل تھے، بڑی وسیع جائیداد و ملکیت کا حامل ہے، اس مرکز کے زیر کنٹرول پاراچنار میں کئی مارکیٹیں، کئی مکانات، ہوٹلز اور زمین ہے، پشاور میں بھی ایک ہوٹل ہے، جس سے اہل کرم ایجنسی کو بے حد فائدہ حاصل ہوتا ہے، ہنگو کے نزدیک رئیسان میں بھی ایک نیا ہوٹل مرکزی شاہراہ پر چل رہا ہے، اتنے وسیع ذرائع آمدن رکھنے والی انجمن کے تمام اکاؤنٹس بہرحال انہی کے زیر دستخط تھے، اس سے قبل یہ سب کچھ شیخ علی مدد مرحوم کے زیر کنٹرول تھے، جن کی وفات کے بعد علامہ شیخ نواز عرفانی اس منصب پر فائز ہوئے تھے، بلکہ شیخ علی مدد نے انہیں اپنی زندگی میں ہی ایک عید کی نماز میں اپنا جانشین مقرر کر دیا تھا، اتنے وسائل رکھنے والی انجمن اور مرکز پر پولیٹیکل انتظامیہ کی للچائی نظریں بھی محسوس کی گئی ہیں، پولیٹیکل ایجنٹ کسی بھی قبائلی علاقہ کا بے تاج بادشاہ ہوتا ہے، اسے کوئی بااختیار یا طاقتور کہاں قابل قبول ہوسکتا ہے، موجودہ پولیٹیکل انتظامیہ بہت سے علاقوں میں ایسے خطرناک لوگوں کو آباد کر رہی ہے جن سے یہ علاقہ ایک بار پھر کسی جنگ میں جھونک دیا جائے گا۔
 
2007ء کی جنگ میں جو علاقے غیر آباد ہوگئے تھے وہاں مقامی سنیوں (وہابیوں) کی بجائے ایسے جہادی عناصر کی آمد و رفت دیکھنے میں آ رہی ہے جو اس خطے کیلئے کسی بھی صورت میں فائدہ مند نہیں ہوسکتے، چونکہ ایک ایسی قیادت جس پر حالت جنگ میں سب متفق ہو جاتے تھے، اس کے ہوتے ہوئے کسی سازش پر عمل کرنا ممکن نہ ہوتا، اسی لئے انہیں راستے سے ہٹایا گیا ہے، تاکہ اگلے پلان پر عمل درآمد کیا جاسکے، اگلا پلان بے حد خطرناک محسوس ہوتا ہے۔ خداوند کریم کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس المناک و غم ناک موقعہ پر اہلیان کرم نے انتہائی صبر و حوصلہ کا مظاہرہ کیا اور دشمن کی خواہش و سازش کو ناکام بنایا، وگرنہ اس کا وار ایسے وقت میں کیا گیا تھا کہ کچھ بھی باقی نہ بچتا اور بہت بڑا خون خرابہ ہوتا، شائد ایسا جس کی توقع کسی نے کبھی نہ کی ہو، یہ وقت بے حد حساس اور صبر و تدبر کا ہے، قوم کے بڑے ان حالات میں ہر قدم پھونک پھونک کر رکھیں، کسی کو یہ موقعہ نہ دیں کہ وہ قومی مفادات کو ذاتی مفادات کی چکی میں پیس کر رکھ دے، اس وقت ممکنہ طور پر کچھ مزید حملے یا فائرنگ کے واقعات ہوسکتے ہیں، جن کا ہدف باہمی اختلافات کو بھڑکانا اور اس قتل ناحق کا رخ ان کی مرضی کی طرف موڑنا ہوسکتا ہے۔ اگر ایسا ہو تو یہ سمجھنے میں دقت نہیں ہونی چاہیئے کہ یہ سب ان سازش گروں کا کام ہے جو ملت کو تقسیم کرکے اپنے مذموم مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
خبر کا کوڈ : 422333
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش