0
Tuesday 7 Apr 2015 00:15

جاہ طلبی (1)

جاہ طلبی (1)
تحریر: سید توکل حسین شمسی
رسول خدا(ص) فرماتے ہیں اگر دو بھوکے وحشی بھیڑیوں کو بھیڑ بکریوں کے گلے میں آزاد چھوڑ دیا جائے تو وہ اتنا گلے کا نقصان نہیں کرتے جتنا مال کی محبت اور جاہ طلبی ایک مؤمن کے دین کا نقصان کرتی ہے۔ (میزان الحکمہ، جلد1، صفحہ492)
ایک اور مقام پر فرماتے ہیں، مقام اور مال کی محبت انسان کےدل میں نفاق کو ایسے اگاتی ہے جیسے پانی سبزے کو تیزی سے اگاتا ہے۔(المحجۃ البیضاء، جلد6، صفحہ112)۔ پھر فرمایا کہ پہلے وہ گناہ کے جن کےذریعے سے اللہ کی معصیت کی گئی وہ چھ چیزوں کی وجہ سے انجام دئیے گئے، دنیا کی محبت، ریاست کی محبت، رنگین غذاؤں سے دل لگی، عورتوں کی چاہت، سونے کا شوق، اور راحت پسندی (الخصال، جلد1، صفحہ 330)۔

حقیقت یہ ہے کہ جاہ طلبی ایک خطرناک مرض ہے اور اس سے بڑی حقیقت یہ ہے کہ یہ مرض ہمارے بعض خطباء وعلماء و ذاکرین میں بہت تیزی سے بڑھ رہا ہے، ویسے تو اس مرض کے اثرات ہر طبقہ میں بہت مضر ہوتے ہیں، لیکن اگر یہ مرض اثر و رسوخ رکھنے والے طبقہ میں آ جائے تو پھر اسکی تباہکاریاں ناقابل شمار ہوا کرتی ہیں۔ میں تو اتنے روپوں سے کم پر مجلس نہیں پڑھتا، اگر اتنا مجمع اکٹھا نہیں کر سکتے تو مجھے بلاتے کیوں ہو، میں چھوٹی موٹی مجلس نہیں پڑھتا (کیا مجلس حسین علیہ السلام بھی چھوٹی ہوتی ہے)، جب مجھے بلانا ہو تو فلاں فلاں کو مت بلائیں، ہم فرسٹ کلاس کے ذاکر ہیں، میرے نام کے ساتھ اتنے القاب ہوں، میرا نام اشتہار میں اتنا بڑا ہو، میں آؤں تو منبر خالی ہو ورنہ میں مجلس نہیں پڑھوں گا، دوستوں یہ وہ الفاظ ہیں جو آپ نے ضرور سنے ہوں گے، لیکن کسی اور سے نہیں بلکہ اپنے ہی خطباء و ذاکرین سے۔

کیا ان جملوں سے جاہ طلبی و نام و شہرت طلبی کی بو نہیں آ رہی؟ کیا قرآن نے جاہ طلبوں کے متعلق جو تعبیرات اور جملے بیان فرمائے ہیں کیا یہ ان جملوں جیسے نہیں لگ رہے ہیں؟ کیا یہ وہی معنی و مفہوم نہیں رکھتے؟ تو سمجھ لینا چاہیے اگر وہ جاہ طلب اپنے مقصد تک پہنچنے کے لئے اپنے انبیاء کی تعلیمات کو نظر انداز کر سکتے ہیں، معجزات کو فراموش کر سکتے ہیں اور اللہ کے دین کا سودا کر سکتے ہیں، تو آج کے جاہ طلب بھی بہت کچھ کر سکتے ہیں، بندے کا مطلوب و مقصود کسی خاص گروہ یا خاص شخصیت پر تنقید کرنا نہیں ہے، بلکہ یہ ہے کہ اقوام گذشتہ میں یہ مرض پایا جاتا تھا قرآن نے ان کا ذکر کیا ہے ان میں سے چند کا ذکر کرنے کے بعد اس مرض کے آثار وعواقب اور تباہ کاریوں کے متعلق بیان کرنا مقصود ہے تاکہ اس مرض کی سرایت سے بچا جا سکے اور اس کا کچھ درمان سوچا جا سکے۔

جاہ طلبی و ریاست طلبی کی اقسام:
بغض قرآنی آیات میں عبادالرحمان، خداوندمتعال سے ریاست و جاہ و امامت کا سؤال کرتے نظر آتے ہیں۔ جیسے حضرت سلیمان علیہ السلام نے اللہ سے ملک کا سؤال کیا وہ بھی ایسے ملک کا جو پہلے کسی کو عطا نہ کیا گیا ہو، لذا ان آیات سے باخوبی استفادہ ہو سکتا ہے کہ جاہ طلبی ہمیشہ مذموم نہیں ہوتی۔ علامہ باقر مجلسی (رح) بحارالانوار میں ریاست طلبی کی دو اقسام بیان فرماتے ہیں ریاست حق، ریاست باطل۔ پھر فرماتے ہیں اگر کوئی شخص کتاب خدا کا عالم ہو، سنت رسول (ص) سے کامل آشنائی رکھتا ہو، فتوی و تدریس و موعظہ اور ریاست کی اہلیت رکھتا ہو، جب کہ اس کا ہدف خلق خدا کی ہدایت، دینی مسائل کی تعلیم و ترویج ہو، ایسی ریاست طلبی حق اور الہی ریاست طلبی ہے جو کہ نہ صرف ممدوح ہے بلکہ بعض اوقات واجب کفائی کی منزل عبور کرنے کے بعد واجب عینی کی منزل تک جا پہنچتی ہے۔ اس کے مقابل وہ شخص جو ان امور سے آشنائی تک نہ رکھتا ہو، ریاست کی اہلیت نہ رکھتا ہو صرف دلوں کو مجذوب کرنے کے لئے، شہرت اور مال بٹورنے کے لئے، ریاست چاہ رہا ہو تو یہ ریا ست طلبی باطل و مذموم ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ بیشتر یہ صفت کن افراد میں پائی جاتی ہے اور کس عمر کے حصہ میں اس کا زور ہوتا ہے؟ غالبا بڑی عمر کے لوگوں میں پائی جا تی ہے اور قبر تک انسان سے جدا نہیں ہوتی، حتی کہ مرنےجا رہے ہوں تو بھی خواہش یہ ہوتی ہے کہ پورے جاہ وجلال کے ساتھ انکو موت کے گھاٹ اتارا جائے۔ یعنی اس حالت میں بھی جاہ طلبی ان کے وجود میں پوری آب و تاب کے ساتھ پائی جاتی ہے۔ غزوہ بدر کے موقع پر سرداران مکہ میں سے ایک کو صحابی رسول نے زمین پر دے مارا اور چاہا کہ اس کو واصل جہنم کریں تو اس مشرک سردار نے ایک خواہش کی کہ اس کے سر کو ایسے قلم کیا جائے کہ مرنے والوں میں اس کا سر سب سے اونچا نظر آئے، لیکن اللہ کو اس کی جاہ طلبی پسند نہیں آئی اور اس کا سر ایسے قلم کیا گیا کہ مرنے والوں میں سب سے چھوٹا سر اسی کا تھا۔

یہ صفت رذیلہ بہت سارے فردی اور اجتماعی مفاسد کا سرچشمہ ہے جو نہ صرف مخلوق خدا سے انسان کو دور کرتی ہے بلکہ خالق سےبھی دور کر دیتی ہے۔ اپنے مقصود تک پہنچنے کے لئے پھر انسان خطرناک ترین گناہوں سے بھی پرہیز نہیں کرتا۔ حدیث میں وارد ہوا ہے کہ جب کوئی انسان ایمان کی طرف اپنا سفر جاری رکھتا ہے اور ایک منزل پر وہ مؤمن ہو جاتا ہے، پھر وہ صفات رذیلہ کو ترک کرنے لگتا ہے جھوٹ، دھوکہ، فریب، بدکاریاں چھوڑ دیتا ہے، لیکن وہ چیز کہ جس پر سب سے آخر میں قادر ہوتا ہے کہ اس غلاظت کو اپنے وجود سے اتار پھینکے، وہ یہی حب جاہ طلبی ہے (آخر ما یخرج من قلوب الصادقین حب الجاہ) اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ کتنی خطرناک اخلاقی بیماری ہے کہ جس کا درمان ایک سچے مؤمن کے لئے بھی سب اخلاقی بیماریوں کے علاج کے بعد ممکن ہوتا ہے۔

اب یہاں ہم کچھ ایسے چہروں کا ذکر کرتے ہیں جن کو ماضی میں یہ مرض لاحق ہوا تھا جو خود ان کی اور ہزاروں لوگوں کی تباہی و بربادی کا سبب ہوا اور قرآن نے ان کے احوال کو بیان فرمایا ہے۔ مفسرین کے مطابق ان میں سے ایک سامری تھا کہ جس کی جاہ طلبی باعث بنی کہ اس نے نہ صرف خود کو گمراہ کیا بلکہ بنی اسرائیل کی ایک بہت بڑی تعداد کو گمراہی و گوسالہ پرستی میں مبتلا کر دیا۔ سورہ طہ میں آیہ مجیدہ 85 سے لیکر 98 تک اس کا ماجرا بیان ہوا ہے اور مفسرین نے تفصیل کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔ حتی یہاں تک کہ سامری کون تھا اور وہ سونا کہاں سے مہیا ہوا تھا؟ جس سے وہ بچھڑا بنایا گیا تھا، اس کے متعلق اقوال و ابحاث ذکر ہوئی ہیں، جن کی تفاصیل کے لئے تفاسیر کی طرف رجوع کیا جائے۔ حضرت موسی علیہ السلام نے اس سونے کے بچھڑے کو آگ میں جلایا، پھر اس کے خاکستر کو دریا میں ڈال دیا، پھر سامری کے لئے بظاہر ایک عجیب سزا معین کی (قال فاذھب فان لک فی الحیوۃ ان تقول لامساس)، فرمایا (لوگوں سے) دور چلے جاؤ اور ان کے ساتھ کوئی ارتباط نہ رکھو اور تیری سزا اس دنیا میں یہ ہے کہ جو بھی تیرے نزدیک ہو گا تو تو اسے کہیے گا مجھ سے دورہوجاؤ۔

بعض مفسرین کہتے ہیں خدا کی طرف سے اس کو الرجی جیسی بیماری ہو گئی تھی کہ اگر کوئی اس کے قریب ہوتا تو وہ شور مچا دیا کرتا کہ میرے نزدیک نہ آؤ اور مجھے سے بات نہ کرو۔ بعض کہتے ہیں اس کو ایسی بیماری ہو گئی تھی کہ اگر کوئی اسکے قریب آتا تو سامری اور اس شخص دونوں کو بخار ہو جاتا تھا ابن عباس فرماتے ہیں یہ بیماری نہ صرف سامری کے لئے تھی بلکہ اسکی نسل میں رہی اور وہ بھی اس سے دچار ہوئی۔ درحقیقت خدا نے ایسی سزا معین فرما کر واضح کر دیا ہے کہ جاہ طلب انسان کو انسانوں سے جدا کر دیا جائے، بعض صاحبان کے اذہان عالی میں سؤال اٹھے گا، جس شخص نے 6 لاکھ 88 ہزار لوگوں کو شرک جیسے گناہ کبیرہ میں مبتلا کر دیا اس کو فقط انسانی معاشرے سے جدا کر دینا بہت کم سزا ہے اس کو جتنی بھی سزا دی جائے کم ہے۔ امام صادق علیہ السلام فرماتے ہیں، حضرت موسی علیہ السلام سامری کو قتل کرنا چاہتے تھے لیکن اللہ نے اس کام سے روک دیا کیونکہ اس ملعون میں سخاوت پائی جاتی تھی۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 452115
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش