1
Saturday 27 Apr 2024 21:11

صیہونی حکام امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج سے خوفزدہ کیوں

صیہونی حکام امریکی یونیورسٹیوں میں احتجاج سے خوفزدہ کیوں
تحریر: عبدالباری عطوان (چیف ایڈیٹر اخبار رای الیوم)
 
میں نے اپنی پوری زندگی میں بنجمن نیتن یاہو جیسا واحیات شخص نہیں دیکھا جس نے سوشل میڈیا ایکس پر ویڈیو شائع کر کے امریکہ کی یونیورسٹیوں میں رونما ہونے والی انقلابی تحریک کی مذمت کی اور اسے یہود دشمنی کا مصداق قرار دیا۔ نیتن یاہو امریکہ کو بہت اچھی طرح پہچانتا ہے جس کی وجہ سے وہ بخوبی جانتا ہے کہ وہاں رونما ہونے والی موجودہ طلبہ انقلابی تحریک ممکن ہے اسرائیل میں نسل پرستانہ کابینہ کے زوال تک متوقف نہ ہو سکے۔ کیونکہ اس سے پہلے ماضی میں جب ایسی ہی طلبہ انقلابی تحریک کا آغاز ہوا تھا تو وہ اپنے مطلوبہ اہداف کے حصول تک مسلسل جاری رہی تھی جن میں ویتنام جنگ بند ہونا نیز جنوبی افریقہ میں نسل پرستانہ حکومت کا خاتمہ اور امریکہ میں سیاہ فام شہریوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین ختم ہو جانا شامل تھے۔
 
صیہونی وزیراعظم بنجم نیتن یاہو عالمی رائے عامہ پر اپنا تسلط قائم کرنے میں "ہاسبارا" نامی پروپیگنڈہ گروپ کی تشکیل کو سب سے بڑی کامیابی تصور کرتا ہے۔ یہ گروپ نیتن یاہو نے اپنے ہم فکر ساتھی اور برطانیہ کے سابق وزیراعظم ٹونی بلیئر کے تعاون سے تشکیل دیا تھا جس پر سالانہ 1.5 ارب ڈالر اخراجات انجام پاتے ہیں اور اس کا واحد مقصد جھوٹ کے ذریعے عالمی رائے عامہ کو دھوکہ دینا ہے۔ غاصب صیہونی رژیم اس پروپیگنڈہ گروپ کے ذریعے اپنے ان تمام مخالفین کے خلاف سرگرم عمل ہے جو مقبوضہ فلسطین میں صیہونی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف آواز اٹھانے میں مصروف ہیں۔ لیکن آج نیتن یاہو دیکھ رہا ہے کہ آزادی اظہار کو کچلنے کیلئے اس کی تمام تر محنتوں اور سازشوں پر پانی پھر گیا ہے اور امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ کا احتجاج بہت تیزی سے اس کی سب سے بڑی کامیابی کو ناکامی میں تبدیل کرتا جا رہا ہے۔
 
اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سب کچھ فلسطین کے بے گناہ شہداء کے خون کی برکت سے ہے۔ امریکی یونیورسٹیوں میں اس قابل فخر طلبہ انقلابی تحریک نے فلسطین کاز کو امریکہ کے اندر نمبر ون ایشو بنا دیا ہے اور امریکی معاشرے میں نسلوں کے درمیان ٹکراو کو جنم دینے کے ساتھ ساتھ انصاف اور آزادی جیسی اقدار کے احیاء کی جانب پہلا قدم اٹھایا ہے۔ یہ طلبہ انقلابی تحریک پورے زور و شور سے فلسطین میں جنگ کے خاتمے اور فلسطینیوں کی نسل کشی روک دیے جانے کیلئے کوشاں ہے۔ جس چیز نے نیتن یاہو اور اس جیسے دیگر افراد کی سربراہی میں صیہونزم کو پریشان کر ڈالا ہے وہ امریکہ میں اس طلبہ انقلابی تحریک کا دھماکہ خیز آغاز اور تیزی سے متعدد یونیورسٹیوں میں پھیل جانا ہے اور وہ حتی یورپ اور مشرق وسطی کی یونیورسٹیوں میں بھی مشابہ تحریکیں شروع ہو جانے کا خطرہ محسوس کر رہے ہیں۔
 
یہاں ہم امریکی یونیورسٹیوں میں طلبہ انقلابی تحریک کے آغاز سے صیہونی حکمرانوں کے خوف کی چند وجوہات بیان کریں گے:
1)۔ امریکہ کی مختلف یونیورسٹیوں، خاص طور پر صیہونی لابی کا گڑھ تصور کئے جانے والے شہر نیویارک کی کولمبیا یونیورسٹی نیز بوسٹن میں ہارورڈ یونیورسٹی میں شروع ہونے والی اس طلبہ انقلابی تحریک کا مطلب یہ ہے کہ امریکہ کی جدید نسل ہر گز اپنے آباء و اجداد کی مانند صیہونزم کی جانب سے بولے جانے والے جھوٹ سے متاثر نہیں ہو گی۔ قابل غور نکتہ یہ ہے کہ احتجاج کرنے والے امریکی طلبہ جو ایف آئی بی کی جانب سے شدید کریک ڈاون کا شکار ہوئے ہیں، کا تعلق  امریکی معاشرے کے عام طبقے سے نہیں ہے بلکہ وہ سب امریکہ کے اراکین کانگریس، اراکین سینیٹ، بڑے بڑے تاجر اور سیاسی رہنماوں کے بیٹے بیٹیاں ہیں لہذا وہ درحقیقت امریکہ کے آئندہ بیوروکریٹس اور سیاسی رہنما ہیں۔
 
2)۔ غاصب صیہونی رژیم کی جانب سے ایسے امریکی طلبہ کو کچل دیے جانے کی ترغیب دلانا جو غزہ میں نیونازی عناصر کے مجرمانہ اقدامات کے خلاف سراپا احتجاج بنے ہوئے ہیں جبکہ غاصب صیہونی رژیم خود کو نازی ازم کی قربانی ظاہر کرتی ہے، انتہائی درجہ خباثت ہے اور امریکہ کی طلبہ انقلابی تحریک کے سربراہان ہر گز اسے فراموش نہیں کریں گے۔
3)۔ امریکہ میں جاری طلبہ انقلابی تحریک میں امریکی نژاد یہودی طلبہ کی بھی ایک بڑی تعداد شامل ہے جو فلسطینی پرچم اٹھائے فلسطینی لباس پہنے احتجاج کرنے میں مصروف ہیں۔ یہ چیز بنجمن نیتن یاہو کے منہ پر زوردار طمانچہ ہے اور اس کی جانب سے امریکہ کے انقلابی طلبہ پر یہود دشمنی پر مبنی لگائے جانے والے الزام کو غلط اور جھوٹا ثابت کر دیتا ہے۔
4)۔ امریکہ میں جاری اس طلبہ انقلابی تحریک نے عالمی رائے عامہ پر صیہونزم کا تسلط ختم کر دیا ہے اور یہ تحریک غاصب صیہونی رژیم کیلئے عالمی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ثابت ہوئی ہے۔
 
5)۔ امریکی معاشرے میں یہ آگاہی اور عقیدہ ابھر کر سامنے آیا ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے اسرائیل کی مالی اور فوجی امداد کا براہ راست نتیجہ غزہ میں صیہونی فوج کے جنگی جرائم اور فلسطینیوں کی نسل کشی کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ یوں امریکی رائے عامہ اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ اسرائیل کی مالی، سیاسی اور فوجی امداد دنیا بھر میں امریکہ کے قومی مفادات کیلئے انتہائی نقصان دہ ثابت ہوئی ہے۔ مزید برآں، امریکی حکومت کی موجودہ پالیسی نے ملک پر صیہونی لابی کے اثرورسوخ میں اضافہ کر دیا ہے اور امریکہ کو جنگ کی جانب دھکیل دیا ہے۔ موجودہ امریکی حکومت کی پالیسیاں امریکی شہریوں کے ٹیکسز غلط جگہ استعمال ہونے کا باعث بن رہے ہیں۔ امریکی معاشرے میں روز بروز ابھرتی ہوئی یہ رائے عامہ اور عوامی بیداری بھی غاصب صیہونی رژیم کے خوف و ہراس کی ایک بڑی وجہ ہے۔
خبر کا کوڈ : 1131564
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش