0
Wednesday 8 Apr 2015 17:46

مشرق وسطٰی کے حالات پر طائرانہ نظر (1)

مشرق وسطٰی کے حالات پر طائرانہ نظر (1)
تحریر: صابر کربلائی
(ترجمان فلسطین فائونڈیشن پاکستان)


مشرق وسطٰی کی صورتحال میں آئے روز شدید تنائو اور شدت کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے، اگر ہم گذشتہ چند سالوں کی بات کریں تو ہم دیکھتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک عالمی استعمار امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل کی براہ راست اور بالواسطہ سازشوں کا شکار ہوتے رہے ہیں، اگر ہم اس مشاہدے کا آغاز سنہ1967ء کی عرب اسرائیل جنگ سے کریں تو دیکھا گیا ہے کہ غاصب اسرائیل نے اپنی بقاء اور سرزمین انبیاء پر اپنا تسلط قائم رکھنے کے لئے سنہ1967 میں خطرناک جنگ کا آغاز کیا، جس کا مقصد سنہ 1948 کے بعد سے فلسطین پر جاری غاصبانہ تسلط کو وسیع کیا جائے اور قبلہ اول بیت المقدس کو بھی صیہونی تسلط میں لیا جائے، اس عرب اسرائیل جنگ میں عربوں کے چھ ممالک نے غاصب اسرائیل کا مقابلہ کیا، لیکن نتیجے میں عربوں کو بدترین شکست کا سامنا ہوا اور فلسطین کو بچانا تو دور کی بات خود شام، مصر اور اردن اور لبنان کے متعدد علاقے بھی اسرائیلی تسلط میں چلے گئے، یہاں یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ اس وقت کون کون سی عرب ریاستیں اس جنگ میں فلسطینیوں کی مدد کر رہی تھیں؟ ان میں مصر، اردن، لبنان، خود فلسطینی، شام اور اردن سمیت عراقی افواج اس معرکہ کا حصہ تھیں، لیکن خطے کی بڑی نامور عرب ریاستیں سنہ 1948 کی طرح سنہ 1967 میں بھی خاموش تماشائی بنی رہیں اور عربوں کی عزت کا جنازہ اٹھنے کا منظر دیکھتی رہیں۔

1967ء کے بعد پھر غاصب اسرائیل نے فلسطین پر حملوں کا سلسلہ جاری رکھا اور متعدد بار فلسطینیوں کو قتل و غارت کا نشانہ بنایا جاتا رہا، اسی طرح اسرائیلی ناپاک عزائم صرف فلسطین تک محدود نہ رہے اور بالآخر سنہ 1982 میں لبنان میں بھی اسرائیلی حملوں کا آغاز ہو گیا، جس کے نتیجے میں صابرا و شتیلا کا تاریخی قتل عام تاریخ میں رقم ہوا۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ اس مرتبہ بھی خطے کی عرب قوتیں خاموش رہیں اور دوسرے عرب ممالک کی عزت کا جنازہ اٹھنے کا منظر دیکھتی رہیں۔ خلاصہ یہ ہے کہ غاصب اسرائیل کے ناپاک وجود کے قیام اور فلسطین پر غاصبانہ تسلط کے آغاز سے ہی عالمی استعمار امریکہ اور اس کی ناجائز اولاد اسرائیل نے مشرق وسطیٰ کی تقسیم کے منصوبے کو عملی جامہ پہنانے کے لئے سرگرمیاں شروع کر دی تھیں، جو تاحال جاری ہیں، ماضی میں انہوں نے یہ کام مختلف اوقات میں جنگ مسلط کر کے کیا تو کبھی اوسلو معاہدے اور کیمپ ڈیوڈ کی صورت میں کیا گیا، جس کا براہ راست نقصان صرف اور صرف فلسطینیوں کو پہنچا اور اسرائیل ہمیشہ ان معاہدوں سے فائدہ اٹھاتا رہا۔

غاصب اسرائیل جو پہلے ہی مقبوضہ فلسطین کی سرحدوں پر موجود عرب ریاستوں کے کچھ حصوں پر اپنا قبضہ جما چکا تھا، یعنی لبنان کے شعبا فارمز سمیت پورے لبنان پر سنہ 1982 میں قابض ہو چکا تھا اور اسی طرح شام میں گولان کی پہاڑیوں کا طویل سلسلہ تاحال اسرائیلی قبضے میں ہے، اسی طرح مصر کی بات کریں تو مصر میں وادی سینا سے ملحق علاقے آج بھی صیہونی افواج کے کنٹرول میں ہیں، البتہ اردن کے غرب کی وادی بھی آج تک صیہونی شکنجہ سے آزاد نہیں ہو سکی، اگر کوئی خطہ صیہونی تسلط سے آزاد ہوا ہے تو وہ لبنان ہے، کہ جہاں پر حزب اللہ نے مزاحمت کاری کا آغاز کیا اور یہ مزاحمت کاری سنہ 1982 سے شروع ہو کر سنہ2000 تک اس طرح جاری رہی کہ آخر کار غاصب اسرائیل کو شکست کا سامنا ہوا اور اسرائیل لبنان پر اپنا تسلط ختم کر کے فرار کا راستہ اختیار کر گیا۔ یہ پہلا موقع تھا کہ عرب دنیا نے سنہ1948 کے بعد سے ہونے والی مسلسل متعدد جنگوں میں اسرائیل کو بد ترین شکست سے دوچار کر دیا تھا اور ایک ملک پر قبضہ ختم کر کے فرار ہونے پر مجبور کیا تھا۔ یقیناً یہ عرب دنیا میں ایک بھونچال کی طرح سامنے آیا اور دوسری طرف عالمی استعمار امریکہ کے لئے بھی پریشانی کا باعث بنا کہ آخر کس طرح ایک اسلامی مزاحمتی گروہ جسے حزب اللہ کہا جاتا ہے، اس نے دنیا کی ناقابل تسخیر قوت اسرائیل کو پسپا کر دیا ہے، یہی وہ وقت تھا کہ جب مشرق وسطیٰ میں تبدیلی کے عمل کا آغاز بھی شروع ہوا اور عربوں کی کھوئی ہوئی عزت واپس لوٹنے لگی۔

مصر تو جمال عبد الناصر کے زمانے کے بعد سے مختلف نظریات کے حامل افراد اور قوتوں کے ہاتھوں میں رہا اور کیمپ ڈیوڈ معاہدے کے بعد سے تو مصر ایک طریقے سے فلسطین کی آزادی کی جنگ میں برائے نام ہی رہ گیا تھا۔ دوسری جانب شام تھا کہ جو لبنان میں شروع ہونے والی اسرائیل مخالف اسلامی مزاحمت کے ساتھ ہو گیا تھا اور سنہ2000 میں لبنان سے اسرائیلی افواج کے فرار کے بعد تو شام نے مزید تقویت پکڑ لی اور تحریک آزادی فلسطین میں سرگرم عمل مزاحمتی جماعتوں بالخصوص حماس، حزب اللہ، جہاد اسلامی اور پاپولر فرنٹ کو باقاعدہ شام میں دفاتر کھول کر دئیے گئے تھے، البتہ یہ دفاتر سنہ 1980 سے پہلے بھی موجود تھے، تاہم حزب اللہ کی کامیابیوں کے بعد یہ معاملہ مزید شدت کے ساتھ منظرنامے پر آنے لگا، اب شام پہلے سے زیادہ فلسطینی تحریکوں کی مالی و مسلح معاونت کرنے لگا تھا اور دنیا بھر کی مخالفتوں کے باوجود شامی حکومت نے اس سلسلہ کو بند نہ کیا اور تاحال یہ سلسلہ جاری و ساری ہے۔

اگر ہم اردن کے کردار کی بات کریں تو اردن نے بھی آخرکار اسرائیلی انتظامیہ کے ساتھ مذاکرات کرتے ہوئے اس بات پر رضا مندی کر لی کہ اردن کے پاس بیت المقدس کا انتظام رہے گا، یعنی اوقاف کے معاملات اردن کے پاس ہوں گے، اور اس طرح اردن اس پورے منظرنامے میں خاموش کردار بن کر رہ گیا۔ عراق کی اگر بات کی جائے تو عراق نے سنہ1967 کی عرب اسرائیل جنگ شکست کھانے کے بعد پھر فلسطین کے بارے میں سوچنا ہی بند کر دیا، کیونکہ عراق آگے چل کر سنہ 1979-1980 میں امریکی ایماء پر ایران پر جنگ مسلط کرنے میں مصروف عمل رہا، یہاں دس سال تک رہنے والی اس جنگ سے فارغ ہوا تو عراق نے اپنا اگلا ہدف کویت کو بنا لیا۔ یہی وہ زمانہ تھا کہ جب مصر نے بھی یمن پر چڑھائی کر دی لیکن اس جنگ کا نتیجہ بھی مصر کی شکست کے ساتھ نکلا۔ اس دوران لیبیا بھی بظاہر تو فلسطین کی تحریک آزادی کی حمایت میں پیش پیس نظر آتا رہا لیکن یہ معاملہ بھی اس وقت واضح ہو گیا جب صرف حمایت کی دعویداری صرف اور صرف زبانی جمع خرچ تک رہی اور عملی میدان میں کسی قسم کا کوئی کردار سامنے نہ آیا۔

ایک طرف سعودی عرب، ترکی، قطر، عمان، اور بحرین سمیت دیگر خلیجی ریاستیں تھیں جو مشرق وسطیٰ میں مالی اعتبار سے مستحکم پوزیشن کی حامل تھیں، لیکن یہ جان کر حیرت ہوتی ہے کہ ان خلیجی عرب ریاستوں نے سنہ 1948 سے سنہ 2000 تک رونما ہونے والے واقعات میں کبھی بھی مثبت کردار ادا نہیں کیا، بات چاہے فلسطین پر صیہونی حملوں کی ہو یا لبنان پر اسرائیلی جارحیت کی، یا پھر عرب اسرائیل جنگ ہو اور اس کے نتیجے میں عربوں کے مزید علاقوں پر اسرائیلی قبضہ ہو، یہ تمام عرب ریاستیں خاموش تماشائی بنی رہیں اور حتی المقدور اس بات کی کوشش کی گئی کہ جس پلڑے میں امریکہ اور اسرائیل ہوں اسی پلڑے میں جھکائو رکھا جائے۔
(جاری ہے)
خبر کا کوڈ : 452870
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش