1
0
Monday 20 Apr 2015 21:01

تکفیری گروپوں کا مستقبل

تکفیری گروپوں کا مستقبل
تحریر: عون جوادی

لبنان، شام، عراق اور پھر یمن کے حالات میں تغیر و تبدل سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یہ ایک ہی منصوبہ ساز کے پلان اے، بی، سی اور ڈی ہیں۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ منصوبہ ساز ان پلانز سے کیا مقاصد حاصل کرنا چاہتے ہیں، مسلم ممالک کو تباہ و برباد کرنے سے ان دہشت گرد گروہوں کو کیا فائدہ حاصل ہوگا؟ چاہیئے تو یہ تھا کہ یہ گروہ پہلے اپنے ہم فکر ممالک میں اپنی خلافت قائم کرتے پھر لوگوں سے بیعت لیتے، جیسے پہلے خلیفہ کے دور میں لی گئی یا پھر ان ممالک کی بھرپور مدد کرتے، جن میں ان کے ہم فکر بھائیوں کی حکومت آخری ہچکیاں لے رہی تھی، جیسے افغانستان، ان کو تنہا چھوڑ کر نئے پروجیکٹ پر کام شروع کرنا یا دوسرے لفظوں میں نئے معاہدوں پر دستخط کرنا کوئی عقلمندی کی نشانی نہیں، لیکن شاید ان کو کامیابی سے زیادہ ہارنے میں مزہ آتا ہے، کبھی کبھار ایسا ہوتا ہے کہ کامیابی اور فتح صرف جیتنے کا احساس دیتی ہے، لیکن ہار جیبیں بھر دیتی ہے۔

آخر کیا وجہ ہے کہ اکثر ان گروہوں کا نشانہ شیعہ اکثریت والے ممالک ہیں، نعرہ تکبیر کے توحیدی شعار کے ساتھ خاص روش سے فعالیت، وحشی طریقہ کار سے سر کاٹنا، جہاد باالنکاح اور ایسے بہت سے کام جو نہ تو اسلامی تعلیمات کے مطابق ہیں اور نہ ہی یہ جہاد اسلام کے لئے مفید ہے۔ لہذا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ ان کا مقصد غیر اسلامی دنیا کو اسلام کا منفی چہرہ دکھانے کے ساتھ ساتھ شیعہ آزاد قدرت کو کنٹرول کرنا ہے، جو ان شیعہ اکثریت والے ممالک میں ظاہر ہو رہی ہے، اس کام کا فائدہ صرف اسرائیل اور امریکہ کو ہوگا۔ لبنان کی اسرائیل کے خلاف اس تاریخ ساز فتح کے بعد شام پر ان گروہوں کا حملہ آور ہونا ایک احمقانہ اقدام تھا، اس کے بعد عراق پر حملہ، یہ اس سے بھی بڑھ کر احمقانہ اقدام ہے، کیونکہ عراق، شام کی طرح نہیں ہے، اس کے لئے کچھ دلیلیں دی جاسکتی ہیں۔

1۔ عراق میں شام کی نسبت شیعہ آبادی بہت زیادہ ہے۔
2۔ عراق میں شیعہ مجتہدین عظام کا وجود، انقلاب اسلامی ایران کی تاریخ گواہ ہے کہ اگر ایک شیعہ مجتہد اٹھ کھڑا ہوتا ہے تو دنیا کی سپرپاور کہلانے والی طاقتیں اس کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتیں اور اس کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہوجاتی ہیں۔ لہذا عراق میں موجود کسی شیعہ مجتہد نے بھی اگر کوئی فتویٰ دے دیا تو ان دہشت گرد گروہوں کے ساتھ ساتھ ان کے آقاؤں کے لئے بھی مشکل بن جائے گی۔
3۔ شام کی نسبت عراق میں ایسے شیعہ گروہ موجود ہیں، جن کے لئے اسلحہ کوئی ناآشنا چیز نہیں ہے۔ دوسرا یہ ان کے پیروکار ہیں جو اگر صدیوں بعد بھی اسلحہ اٹھانے پر مجبور ہوجائیں تو ایسے شاہکار رقم کرتے ہیں کہ انسان یہ کہنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ یہ اسلحہ بنا ہی ان ہاتھوں کے لئے ہے۔
4۔ عراق میں وحدت ملی کا ظہور، عراق میں امریکہ کا مطلوب و مقصود کچھ اور تھا، لیکن وہ اپنے مقصد تک نہ پہنچ سکا۔
5۔ عراق کے کمزور پہلو کو دیکھا جائے تو وہ کچھ ایسے قبائل کا وجود ہے، جو عراقی حکومتوں سے ہمیشہ سے سازگار نہیں رہے، ان کو اپنے مفادات عزیز ہیں اور اس وقت خوش قسمتی سے ان قبائل کے مفادات حکومت کے ساتھ ہونے میں ہیں نہ کہ داعش۔
6۔ عراق اور ایران میں کوئی فاصلہ نہیں ہے، لہذا یہ بھی عراق کے لئے کسی اضافی فائدے سے کم نہیں۔

ایک مھم نکتہ یہ ہے کہ ان دہشت گروہوں کی پشت پناہ طاقتیں اس کوشش میں ہیں کہ شیعہ کمیونٹی کے اندر ایسا گروہ تشکیل دیا جائے، جو شیعہ کے اندر وہی کام کرے، جو داعش جیسے گروہ مسلمانوں کے اندر انجام دے رہے ہیں۔ اگر وہ اس مقصد میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو یہ مسلمانوں کے لئے انتہائی خطرناک ہوگا۔ لہذا شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے افراد سے گزارش ہے کہ وہ اپنی صفوں میں وحدت کو حفظ کريں اور ہر طرح کے اختلافات چاہے وہ نظریاتی ہوں یا عقیدتی، ان کو ہوا نہ دیں اور دوسروں کے ہاتھوں میں کھلونا بننے سے بچیں اور اپنے اندر دشمن شناسی کا شعور پیدا کریں۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ داعش شام و عراق میں شکست کھانے کے بعد کہاں کا رخ کرے گی؟ تو اس کا جواب دو صورتوں میں سامنے آسکتا ہے۔
1۔ یہ افراد وقتی طور پر منتشر ہوجائیں گے اور پھر کسی مناسب وقت پر اکٹھے ہوجائیں گے۔
2۔ یہ افراد وحشی درندوں کی مانند ہیں، جو ہر وقت قتل و غارت کے درپے ہیں، لہذا ان کی پشت پناہی کرنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ اگر ان کو مصروف نہ رکھا گیا تو یہ خود ان کے لئے درد سر بن جائیں گے، لہذا ہر وقت کوئی نہ کوئی خود ساختہ جہاد کا محاذ کھولے رکھیں گے جیسے یمن۔
خبر کا کوڈ : 455705
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

سید اسد عباس تقوی
Pakistan
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
برادرم!
اسلام ٹائمز پر خوش آمدید، اچھی تحریر ہے خداوند کریم توفیقات خیر میں اضافہ فرمائے۔
ہماری پیشکش