0
Tuesday 30 Nov 2010 12:28

وکی لیکس کے انکشافات اور عزائم عالمی تناظر میں

وکی لیکس کے انکشافات اور عزائم عالمی تناظر میں
تحریر:مطلوب احمد وڑائچ
گذشتہ روز انٹرنیٹ کی مشہور امریکی ویب سائیٹ وکی لیکس نے کچھ انکشافات کر کے دنیا بھر میں تہلکہ مچا دیا ہے۔اڑھائی لاکھ سے زائد دستاویزات پر مشتمل یہ انکشافات محض ایک خبر ہی نہیں بلکہ لمحہ فکریہ بھی ہے کہ وہ کونسے حالات تھے کہ جن کی بناء پر ان خفیہ دستاویزات کو دنیا بھر کیلئے افشاء کرنا مقصود تھا۔حقائق کچھ اس طرح ہیں کہ وکی لیکس کی ویب سائٹ کے مالکان خالصتاً امریکی اور یہودی ہیں جو عالمی امن کو وقتا فوقتاً بھونچال کا سا سماں دے کر اپنے مفادات کی تکمیل کرتے ہیں۔وکی لیکس کی اشاعت کے پیچھے کیا مفادات پنہاں ہیں یہ تو وقت کیساتھ آشکار ہونا ابھی باقی ہیں مگر جب ہم گذشتہ سے پیوستہ تاریخ کا بغور مطالعہ کرتے ہیں تو کچھ تلخ حقائق ہمارا منہ چڑاتے نظر آتے ہیں۔
سانحہ نائن الیون کے بعد امریکی حکومت اور عوام عدم استحکام کی دلدل میں پھنسے نظر آتے ہیں۔ امریکہ نے نائن الیون کے بعد بش حکومت کی پالیسیوں کے مطابق گذشتہ آٹھ سالوں میں بین الاقوامی امن اور بین المذاہب ہم آہنگی کو جو نقصان پہنچایا شاید اس کی تلافی اگلے سینکڑوں برسوں میں ممکن نظر نہیں آتی۔ہوم لینڈ سیکورٹی کے نام پر امریکہ میں بسنے والے کروڑوں غیر ملکی خصوصاً مسلم کمیونٹی جو کہ سانحہ نائن الیون سے پہلے امریکی معیشت اور سوشل زندگی میں اپنا ایک نہ صرف مقام بنا چکی تھی،کا جینا عذاب بنا دیا ہے۔امریکہ میں تیزی سے بڑھتا ہوا اور پنپتا ہوا مذہب اسلام یقینا آرتھوڈوکس عیسائیوں اور یہودیوں کیلئے ایک لمحہ فکریہ بنتا چلا جا رہا تھا اور ایک سروے کیمطابق اگر سانحہ نائن الیون رونما نہ ہوتا تو آج 2010ء تک مزید 7فیصد امریکی اسلام قبول کرچکے ہوتے اور 2050ء تک اسلام امریکہ کا سب سے بڑا مذہب بن جاتا۔ایسے سروے اور حقائق سے نظر چرانا اور ان حقائق کے پیچھے چھپے حقائق سے پہلوتہی ممکن نظر نہیں آتی۔نائن الیون سے پہلے یورپ بھر میں بھی اسلام کی ترویج اور وسعت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جرمن،سوئٹزرلینڈ اور فرانس کی پارلیمنٹ میں مقامی نومسلموں کی ایک بڑی تعداد داخل ہو گئی تھی کچھ یہی حال انگلینڈ کی پارلیمنٹ کا بھی ہے۔
جہاں ہائوس آف لارڈز اور پارلیمنٹ میں مقامی و غیر مقامی مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد اپنی جگہ بنا چکی تھی۔اسرائیل جو طاقت کے زور پر کبھی صابرہ و شتیلہ کیمپ لبنان پر بمباری کر کے ایک ہی دن میں ہزاروں فلسطینی مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتارتا ہے اور کبھی غزہ اور القدس کے مسلمانوں پر قیامت بن کر ٹوٹتا ہے اور کبھی مصر کی سرزمین پر قابض ہو جاتا ہے اور کبھی شام اور اردن کی سرزمین کو روندتا عربوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن جاتا ہے مگر مذہب اسلام اپنی حقیقتوں کی بنیاد پر یورپ سمیت امریکہ و کینیڈا میں اپنے پائوں جمانے میں کامیاب ہو رہا تھا ان حالات میں نائن الیون کے متنازعہ سانحہ کا وقوع پذیر ہو جانا بے شمار سوالات کو جنم دیتا ہے۔
امریکہ میں رونما ہونیوالے ٹوئن ٹاور کے واقعے کے بعد ہم تبدیلی اور نفرت کی ایک ایسی لہر دیکھتے ہیں جس کا شکار صرف وہاں پر بسنے والی مسلم کمیونٹی ہی بنتی ہے،خود میں 26سال تک سنٹرل یورپ کے ملک سوئٹزرلینڈ میں مقیم رہا بلکہ یورپ اور دنیا بھر میں سینکڑوں فضائی سفر کیے اور ٹریولنگ کے دوران دنیا کے کسی بھی ملک میں انسانی توہین اور عزتِ نفس کی پامالی کی ایک بھی مثال نہ دیکھی تھی،جو نائن الیون کے بعد تواتر سے دیکھنے میں آ رہی ہیں اور اب ان محرکات کے بعد امریکہ عالمی برادری میں اپنا مقام کھوتا جا رہا تھا کہ 2008ء کے الیکشن میں اس امریکہ میں جہاں 52 ریاستوں میں کسی ایک کا بھی گورنر سیاہ فام نہ تھا وہاں ڈیموکریٹک پارٹی میں ابھی نئے آنیوالے باراک حسین اوباما کو ملک کا صدر منتخب کر لیا جاتا ہے مگر عالمی کساد بازاری اور معاشی عدم استحکام کہیں رکنے کا نام نہیں لیتی اور 2009ء اور 2010ء میں ساڑھے سات سو امریکن بنک اور تمام بڑے قومی و پرائیویٹ ادارے دیوالیہ ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ ابھی رکا نہیں یہی وجہ ہے کہ امریکن اکانومی کو استحکام دینے کیلئے سعودی عرب،متحدہ عرب امارات اور کویت نے 150 ارب ڈالر سے زائد کے اسلحہ کے ذخائر جس کا کے اسکے پاس رکھنے کا بھی انتظام نہیں امریکہ سے خریدنے کا سودا کیا اور اس طرح ڈوبتی ہوئی امریکی معیشت کو ڈوبنے سے بچانے میں کلیدی کردار ادا کیا۔
ایک سروے کے مطابق اگر سعودی عرب اور گلف کے تمام مکانوں کی چھتوں پر گن شکن مشینیں نصب کر دی جائیں اور خطے کے تمام سڑکوں پر ٹینک اور توپیں کھڑی کر دی جائیں اور جدید ترین امریکن طیارے سعودیہ اور گلف کی فضائوں میں پرندوں کے جھنڈ کی طرح اڑا دیئے جائیں تو پھر بھی 150 ارب ڈالر کا یہ دفاعی بجٹ خطے کی ضرورت سے بھی زیادہ ہے۔سانحہ نائن الیون جو درحقیقت سانحہ مسلم ہے کے بعد ہمارے ازلی دشمن بھارت اور اسرائیل کا گٹھ جوڑ اتنا پروان چڑھا ہے کہ ہم سے دبکنے والا اسرائیل ہمارے دشمن کیساتھ مل کر ہمارا منہ چڑچڑا رہا ہے اور ہم کبھی بمبئی حملوں اور کبھی بھارتی پارلیمنٹ پر حملوں کے الزامات کے نیچے دب جاتے ہیں۔
وکی لیکس کے موجودہ انکشافات کو اگر عالمی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ بات قرین قیاس لگتی ہے کہ اسرائیل اور یہودیوں کی بین الاقوامی تنظیم نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ایک دفعہ پھر آپس میں لڑا کر مسلم دنیا کے اندر عدم استحکام کی سازش کو ہوا دینے کی کوشش کی ہے۔ایک طرف سعودی فرماں روا شاہ عبداللہ کو ایران کے ساتھ متصادم کرانے کی کوشش کی ہے۔دنیا جانتی ہے کہ ایرانی صدر احمدی نژاد،جنہیں وکی لیکس نے ہٹلر قرار دیا تھا،نہ صرف امریکہ کی بین الاقوامی سازشوں کا ڈٹ کر مقابلہ کر رہے ہیں بلکہ اپنے اقوام متحدہ کے گذشتہ خطاب میں عالمی رائے عامہ کو حقائق بتانے میں بھی کامیاب رہے اور امریکہ ہزار جتنوں کے باوجود ابھی تک ایران پر حملہ کی جرأت نہیں کر سکا،جبکہ اس سے پہلے امریکہ عراق اور ایران کو باہم لڑا کر اپنے مقاصد کی تکمیل کر چکا ہے۔ 
عراق اور ایران کی اس جنگ میں جہاں سے دونوں بڑی مسلم قوتیں نہ صرف دفاعی اور معاشی طور پر کمزور ہوئیں وہاں دونوں طرف سے دس سال سے زائد لمبی جنگ میں 20 لاکھ سے زائد مسلمان ہی لقمہ اجل بنے،لیکن سفید بھیڑیئے کی تشنگی برقرار رہی اور پھر شکست خوردہ عراق پر امریکہ نے بربریت کے پہاڑ توڑ دیئے اور بچے کھچے عراق کو اپنے ناپاک پائوں تلے روند ڈالا۔
انسانی خون جو امریکہ اور یہودی لابیوں کے منہ کو لگ چکا ہے یہ بھیڑیئے اب اپنی تکونی چالوں سے ایک طرف سعودی عرب اور ایران کو باہم دست و گریبان کرانا چاہتے ہیں اور وکی لیکس کے مطابق سعودی فرمانروا نے ایران کے نیوکلیئر پروگرام پر حملے کا مشورہ امریکہ کو دیا ہے۔دوسری طرف بھارت اپنے ناپاک کھیل میں مصروف ہے اور دنیا جانتی ہے کہ امریکہ میں آباد بھارتی وہاں کی دوسری بڑی کمیونٹی ہے جو امریکہ کی روزمرہ زندگی سے لیکر اہم عہدوں پر بھارتی نژاد ہندو قابض ہیں۔
دوسری طرف پاکستان جو اپنے اندرونی خلفشار اور معاشی عدم استحکام کی دلدل میں پھنسا ہوا ہے اور اپنے دوست ملک سعودی عرب سے مالی فوائد حاصل کرتا ہے اور ہر مشکل گھڑی میں سعودی حکومتوں نے ہمیشہ چاہے وہ جنگ 65ء ہو یا جنگ71ء ہو پاکستان کا نیوکلیئر ایٹمی پروگرام ہو،2006ءکا زلزلہ ہو یا 2010ء کا سیلاب۔سعودی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کے شانہ بشانہ کھڑے ہو کر ثبوت دیا ہے کہ وہ مشکل کی کھڑی میں پاکستانی عوام کو تنہا نہیں چھوڑتے۔اس امر کی حقیقت میں بھی شاید کچھ صداقت ہو کہ سعودی عرب نے عورت کی حکمرانی کے مسئلہ پر یا پھر صدر آصف علی زرداری سے ذاتی پسند یا ناپسند کی وجہ سے کبھی اختلاف کیا ہو،مگر جب بات پاکستان کے عوام کی آتی ہے تو مفت تیل اور خون سعودی عوام پاکستان کو دینے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ 
وکی لیکس کے حالیہ انکشافات سے یہودی و بھارتی لابی نے ایک تیر سے کئی شکار کرنے کی کوشش کی ہے بالکل اسی طرح افغانستان جہاں کون نہیں جانتا امریکی پروردہ درآمد شدہ حکمران لائے گئے ہیں۔اگر 62 ملین ڈالر کی رقم نقد ساتھ لیکر یورپی بنکوں کے حجم بڑھاتے ہیں تو امریکہ خاموش رہتا ہے۔افغانستان جہاں ایک ایک ڈالر کی ضرورت ہے عوام غربت کی انتہائی لکیر تلے دبے ہوئے ہیں اسی طرح پاکستان کے چند وہ امراء بھی جو غیرملکی بنکوں کا پیٹ بڑھا رہے ہیں کی تمام دولت ان ممالک کی عوام کو واپس لوٹا کر ان ممالک پر احسان کریں نہ کہ بھیک کے چند ٹکڑوں پر چلنے کی روش کو فروغ دیں۔ 
ان حالات و واقعات کے بعد مزید کسی تشریح کی ضرورت نہیں رہتی کہ امریکہ،یورپ،اسرائیل اور بھارت کی سازشوں کو پروان چڑھانے کیلئے ایسے ڈرامے سٹیج کرتے رہتے ہیں تاکہ مسلم کمیونٹی آپس میں دست و گریباں رہے اور ترقی کا کا پہیہ چلنے نہ پائے۔وکی لیکس اور یہودی و نصرانی لابیوں کو ادراک کرنا ہو گا کہ اگر جنگل میں آگ لگی تو کوئی بھی ریسکیو اسے بچا نہ سکے گی۔وکی لیکس کے ان انکشافات میں کہیں بھی بھارت اور اسرائیل کا ذکر نہیں اور یہی وہ لمحہ فکریہ ہے جس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔
"روزنامہ نوائے وقت"
 
خبر کا کوڈ : 45574
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش