0
Tuesday 2 Jun 2015 16:00

قرآن و سنّت کی حقّانیت کا تقاضا۔۔۔ عقیدہ مہدویت

قرآن و سنّت کی حقّانیت کا تقاضا۔۔۔ عقیدہ مہدویت
تحریر: نذر حافی
nazarhaffi@gmail.com


بلاشبہ قرآن مجید اللہ کی آخری آسمانی کتاب ہے اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) اللہ کے آخری رسول ہیں۔ دنیا کا ہر مسلمان قرآن مجید کی صداقت اور رسول اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی ختم نبوت پر کامل یقین رکھتا ہے۔ قرآن مجید اور حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ) پر یقین اور ایمان رکھنے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے ہر مسلمان کو سو فیصد اطمینان ہے کہ جو کچھ قرآن مجید اور اللہ کے آخری نبی (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے بیان کیا ہے، وہ سب کا سب سچ ہے اور ان کا کہا ہوا ہر لفظ اپنے وقت اور مقام پر سچ ثابت ہو کر رہے گا۔ انسان جب اس یقین اور اطمینان کے ساتھ قرآن مجید کا مطالعہ کرتا ہے تو اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ ابھی تک قرآن مجید کی بہت ساری آیات ویسے متحقق نہیں ہوئی ہیں جیسا کہ حق ہے۔ اس لئے ہر مسلمان یہ یقین رکھتا ہے کہ عنقریب وہ وقت ضرور آئے گا جب ان آیات کی صداقت اقوام عالم پر پوری طرح آشکار ہوجائے گی۔

ان آیات میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
{إِذَا جَاء نَصْرُ اللَّهِ وَالْفَتْحُ ٭ وَرَأَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّهِ أَفْوَاجاً ٭ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّاباً}۔(1)
ترجمہ:“جب اللہ کی مدد اور فتح آجائے اور لوگوں کو دیکھو کہ وہ فوج در فوج خدا کے دین میں داخل ہو رہے ہیں تو اپنے خداوند کی تسبیح پڑھو اس کی حمد کے ساتھ، اور اس سے مغفرت مانگو۔ بے شک وہ بڑا ہی معاف کر دینے والا ہے۔"
ہم جانتے ہیں کہ ابھی تک دنیا میں بہت سارے لوگوں تک دین کا پیغام پہنچا ہی نہیں اور بے دین لوگوں کی تعداد صاحبان ایمان سے کئی گنا زیادہ ہے۔ پس اس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ وقت ضرور آئے گا جب اللہ کی مدد سے لوگ فوج در فوج دین خدا میں داخل ہونگے۔ ممکن ہے کہ کوئی شخص یہ کہے کہ یہ آیہ مجیدہ فتح مکہ سے متعلق ہے تو اس بارے میں عرض ہے کہ جی ہاں، اس آیہ مجیدہ کا ایک مصداق فتح مکہ کا دن بھی ہے اور اگر ہم اس سورہ کے لحن کو دیکھیں تو صاف پتہ چلتا ہے کہ اس سورہ کا مصداق کامل ابھی وجود میں نہیں آیا اور یقیناً ایک دن ایسا آئے گا کہ جب اللہ کے دین کی ایسی شان ہوگی کہ لوگ ہر طرف سے جوق در جوق اس میں شامل ہوں گے۔

اسی طرح اگر آپ مندرجہ ذیل تین آیات کو سامنے رکھیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ وہ وقت ضرور آئے گا کہ جب خدا کا دین دیگر ادیان پر غالب آکر رہے گا۔
{هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ}۔(2)
{هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَلَوْ كَرِهَ الْمُشْرِكُونَ}۔(3)
{هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيداً}۔(4)

اسی طرح مندرجہ ذیل آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اللہ نے صاحبان ایمان کو وعدہ دیا ہے کہ وہ انہیں زمین پر حکومت دے گا:
{وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُم فِي الْأَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ وَلَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِينَهُمُ الَّذِي ارْتَضَى لَهُمْ وَلَيُبَدِّلَنَّهُم مِّن بَعْدِ خَوْفِهِمْ أَمْناً يَعْبُدُونَنِي لَا يُشْرِكُونَ بِي شَيْئاً وَمَن كَفَرَ بَعْدَ ذَلِكَ فَأُوْلَئِكَ هُمُ الْفَاسِقُونَ}۔ (5)
نیز خداوند عالم نے یہ وعدہ بھی دیا ہے کہ وہ مستضضعفین کو زمین پر حکومت دے گا اور انہیں پیشوا بنائے گا:
{وَنُرِ‌يدُ أَن نَّمُنَّ عَلَى الَّذِينَ اسْتُضْعِفُوا فِي الْأَرْ‌ضِ وَنَجْعَلَهُمْ أَئِمَّةً وَنَجْعَلَهُمُ الْوَارِ‌ثِينَ}۔(6)

اگر ہم تاریخی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ حقیقت کھل کر سامنے آجاتی ہے کہ اس آٓیت کے سب سے کامل مصداق اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) ہیں کہ جن پر بے شمار مظالم ڈھائے گئے اور انہیں مستضعف کیا گیا۔ پس اس آیت سے پتہ چلتا ہے کہ اس کرہ زمین پر وہ وقت آکر رہے گا کہ جب یہاں مکمل طور پر اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی حکومت قائم ہوگی اور تمام لوگ انہیں اپنا پیشوا تسلیم کریں گے اور خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
{وَقُلْ جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ إِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوقًا}۔(7)
جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک باطل نابود نہیں ہوا بلکہ دنیا میں حق کو مٹانے کی سعی کی جا رہی ہے۔ کہیں پر سلمان رشدی جیسے لوگ حق کے خلاف زہر اگل رہے ہیں اور کہیں پر طالبان، القاعدہ اور سعودی عرب جیسے ناعاقبت اندیش اسلام دشمنوں کے کندھوں کے ساتھ کندھا ملاکر حق کے خلاف کھڑے ہیں۔ اہل بیت رسول (صلی اللہ علیہ و آلہ) کی نشانیوں کو مٹایا جا رہا ہے، صحابہ کرام کی قبور کو اکھاڑا جا رہا ہے، مسجدوں میں نمازیوں کو شہید کیا جا رہا ہے اور بے گناہ انسانوں کے خون سے ہولی کھیلی جارہی ہے۔

اگرچہ یہ سب کچھ ہو رہا ہے تو ایسے حالات میں جو چیز ایک مسلمان کو امید عطا کرتی ہے وہ یہ ہے کہ قران مجید کی اس آیت کے مطابق ایک وقت آئے گا کہ جب مکمل طور پر حق آجائے گا اور باطل حرف غلط کی طرح مٹ جائے گا اور یہ ظلم و ستم کے رسیا خس و خاشاک کی طرح بہہ جائیں گے۔ اسی طرح ارشاد پروردگار ہے:
{وَلَقَدْ كَتَبْنَا فِي الزَّبُورِ‌ مِن بَعْدِ الذِّكْرِ‌ أَنَّ الْأَرْ‌ضَ يَرِ‌ثُهَا عِبَادِيَ الصَّالِحُونَ}۔(8)
اس آیت کے مطابق اللہ نے زبور میں بھی عالم بشریت کو یہ پیغام دیا ہے کہ زمین پر اس کے نیک بندے حکومت کریں گے جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ ابھی تک زمین کے بڑے حصے پر اس کے دشمن حکومت کر رہے ہیں۔ اس طرح کی متعدد آیات قرآن مجید میں موجود ہیں، جن کے مطالعے سے انسان کے دل میں ایک الٰہی حکومت کا انتظار پیدا ہوتا ہے اور اسے مکمل طور پر یہ یقین ہوجاتا ہے کہ الٰہی وعدے کے مطابق اس زمین پر حق اور اللہ کے نیک بندوں کی حکومت ضرور قائم ہوکر رہے گی۔

اہل سنت اور شیعہ حضرات کی روایات سے پتہ چلتا ہے کہ وہ الٰہی حکومت جس کا خداوند عالم نے بنی نوع انسان کو وعدہ دے رکھا ہے، وہ حضرت امام مہدی (علیہ السلام) کی حکومت ہوگی۔ بحیثیت مسلمان ہمیں یہ معلوم ہونا چاہئے کہ اگرچہ تمام مسلمان امام مہدی (عجَّل الله تعالی فَرَجَهُ الشریف) کے قیام کے قائل ہیں۔ جیسا کہ سنی روایات میں اسی طرح درج ہے:
“حضور اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ) نے فرمایا کہ قیامت اس وقت نہیں آئے گی جب تک میرے اہل بیت کا ایک مرد امور کو اپنے ہاتھوں میں نہ لے لے اور اس کا نام میر انام ہے۔”(9)
اور اسی طرح نمونے کے طور پر ایک شیعہ روایت بھی ملاحظہ فرمائیں۔
”رسول اکرم نے فرمایا کہ قائمؑ میری اولاد میں سے ہے، اس کا نام میرا نام ہے۔ اس کی کنیت میری کنیت ہے، اس کے شمائل میرے شمائل اور اس کی سنت و روش میری سنت و روش ہے۔(10)

شیعہ روایات سے یہ بات قطعی طور پر ثابت ہے کہ آج سے تقریباً ساڑھے بارہ سو سال قبل (15 شعبان سنہ 255 ھ کو) عراق میں حضرت امام حسن عسکری (علیہ السلام) کے ہاں حضرت امام مہدی (عج) کی ولادت ہوچکی ہے۔ شیعہ چونکہ امام کے منصوص من اللہ اور معصوم ہونے کے قائل ہیں۔ اس لئے ان کے نزدیک حضرت امام مہدی (عج) بھی معصوم اور منصوص من اللہ ہیں۔ جیسا کہ احمد بن اسحاق سے روایت ہے کہ میں امام حسن عسکری کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ کے جانشین کے بارے میں سوال کرنا چاہتا تھا۔ میرے سوال کرنے سے پہلے ہی امام نے فرمایا کہ اے احمد! خداوند عالم نے جس وقت حضرت آدم کو پیدا کیا، اس وقت سے آج تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھا اور قیامت تک زمین کو اپنی حجت سے خالی نہیں رکھے گا۔ حجت خدا کی بدولت زمین والوں سے بلائیں دور ہوتی ہیں۔ بارش ہوتی ہے۔ اور زمیں سے برکتیں ظاہر ہوتی ہیں۔

میں نے عرض کیا اے فرزند رسول! آپ کے بعد امام اور جانشین کون ہوگا؟ فوراً حضرت اندرون خانہ تشریف لے گئے اور جب باہر تشریف لائے تو آپ کے مبارک ہاتھوں پر ایک چودھویں کے چاند کی طرح چمکتا ہوا تین سالہ بچہ تھا۔ آپ نے فرمایا اے احمد بن اسحاق اگر خداوند عالم اور اس کی حجتوں کے نزدیک تم محترم نہ ہوتے تو یہ بچہ تمہیں نہ دکھاتا۔ جان لو کہ یہ بچہ پیغمبر اکرم کے ہم نام ہے۔ اس کی کنیت پیغمبر کی کنیت ہے اور یہ زمین کو عدل و انصاف سے بھر دے گا۔ جیسا کہ وہ ظلم و جور سے بھر چکی ہوگی۔ اے احمد بن اسحاق یہ بچہ اس امت میں “خضر” اور “ذوالقرنین” کی طرح ہے۔ خدا کی قسم۔ یہ نگاہوں سے پوشیدہ ہو جائے گا، غیبت کے زمانے صرف وہی لوگ نجات پائیں گے جن کو خدا اس کی امامت پر ثابت قدم ر کھے گا اور انہیں اس بات کی توفیق دے گا کہ اس کے ظہور میں تعجیل کے لئے دعا کریں۔ میں نے عرض کیا میرے آقا ایسی کوئی نشانی ہے جس سے میرے دل کو مزید اطمینان حاصل ہو؟ اس موقع پر بچہ نے فصیح عربی میں کہا “میں زمین میں وہ بقیة اللہ ہوں جو خدا کے دشمنوں سے انتقام لے گا۔ اے احمد بن اسحاق آنکھوں سے دیکھنے کے بعد اس کے اثرات کی فکر میں نہ رہو۔”(11)

شیعی روایات کے مطابق آپ پندرہ (15) شعبان 255 ھ میں حسن عسکری کے ہاں پیدا ہوچکے ہیں۔ چونکہ روایات و احادیث کی روشنی میں عباسی حلفاء اس بات سے آگاہ ہوچکے تھے کہ حضرت امام حسن عسکری کے صلب سے امام مہدی (عج) کی ولادت ہونی ہے۔ چنانچہ خدا نے حضرت موسٰی کی ولادت کی طرح حضرت امام مہدی (عج) کی ولادت کو بھی مخفی رکھا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب حکومت وقت نے امام حسن عسکری کو اپنے پایہ تخت سامرہ میں مقید کر رکھا تھا، تاکہ آپ کی کڑی نگرانی کی جاسکے۔ جب 260ھ میں حضرت امام حسن عسکری شہید کر دیئے گئے تو پھر 329ھ تک تقریباً 69 سال حضرت امام مہدی (عج) نے مشیت ایزدی کے تحت غیبت صغریٰ اختیار کیئے رکھی۔ اگر آپ اس دوران غیبت اختیار نہ کرتے تو دیگر گیارہ اماموں کی طرح آپ کو بھی شہید کر دیا جاتا۔ غیبت صغریٰ کا ایک اہم مقصد عوام الناس کو غیبت کبریٰ کے لئے مشق کرانا تھا، تاکہ لوگ “امام مہدی (عج)“ کی عدم موجودگی میں اپنی شرعی ذمہ داریوں کو بطریق احسن ادا کرسکیں۔

غیبت صغریٰ کے دوران آپ اپنے مخصوص نائبین جنہیں نواب اربعہ کہا جاتا ہے، ان کے ذریعے لوگوں کے مسائل حل فرماتے تھے۔
نواب اربعہ کی ترتیب حسب ذیل ہے:

1۔ ابو عمر و عثمان بن سعید عمری۔
2۔ ابو جعفر محمد بن عثمان بن سعید عمری۔
3۔ ابوالقاسم حسین بن روح نو بختی۔
4۔ ابو الحسن علی بن محمد سمری۔
آخری نائب ابو الحسن علی بن محمد سمری کی وفات 923ھ میں ہوئی، جنہیں امام مہدی (عج) نے کوئی جانشین مقرر نہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ یوں ابوالحسن علی بن محمد سمری کی وفات کے بعد غیبت کبریٰ کا آغاز ہوگیا۔ غیبت کبریٰ کے دوران لوگوں کی ہدایت و رہنمائی کے بارے میں شیخ طوسی، شیخ صدوق اور شیخ طبرسی نے کتاب احتجاج میں یہ روایت نقل کی ہے کہ ”زمانے کے مسائل کے بارے میں ہماری احادیث کے راویوں کی طرف رجوع کرو۔ وہ میری جانب سے تم پر حجت ہیں اور میں خدا کی جانب سے ان پر حجت ہوں۔"

اسی طرح کتاب احتجاج میں شیخ طبرسی نے امام سے یہ روایت بھی نقل کی ہے کہ ہر وہ فقیہ جو اپنے نفس کا مراقب ہو۔ اپنے دین کا محافظ اور اپنے مولا کا فرمانبردار ہو تو عوام پر لازم ہے کہ اسکی تقلید کریں۔ اس طرح کی متعدد روایات کتب احادیث میں موجود ہیں، جن کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ غیبت صغریٰ میں تو امام کا ہر نائب مخصوص اور متعین ہوتا تھا، جبکہ غیبت کبریٰ میں امام زمانہ نے علماء حقہ کو اپنی طرف سے عوام پر حجت قرار دیا ہے۔ لہذا عصر حاضر میں حضرت امام مہدی (عج) سے مربوط رہنے کے لئے عوام کے لئے لازمی ہے کہ وہ علماء دین کے اجتہاد کی تقلید کرتے ہوئے اپنے اعمال انجام دیں۔

جہاں تک امام کے ظہور کا تعلق ہے تو اس بارے میں علامات تو بتائی گئی ہیں، جن میں سے کچھ حتمی ہیں اور کچھ غیر حتمی، لیکن وقت کا تعین نہیں کیا گیا جیسا کہ ”فضیل کے دریافت کرنے پر امام باقر نے تین مرتبہ فرمایا ہے کذب الوقاتون یعنی وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(12)
اسی طرح اسحق بن یعقوب نے محمد بن عثمان کے ذریعے امام زماں کی خدمت میں ایک خط لکھ کر کچھ سوال پوچھے تو امام نے اپنے ظہور کے وقت کے بارے میں یوں ارشاد فرمایا:
{واما ظهور الفرج فانه الی الله تعالی ذكره وكذب الوقاتون}۔“جہاں تک ظہور کا تعلق ہے تو یہ خداوند عالم کے حکم پر منحصر ہے اور وقت کا تعین کرنے والے جھوٹے ہیں۔”(13)

عصر حاضر میں شیعہ اور سنی مسلمانوں کا عقیدہ مہدویت تمام مسلمانوں کا مشترکہ عقیدہ ہے۔ اس لئے تمام مسلمانوں کو ہر قسم کی فرقہ بندی سے بلند ہوکر اپنے مشترکہ امام حضرت امام مہدی (عج) کے ظہور کے لئے جدوجہد اور کوشش کرنی چاہیے۔ چونکہ ظہور امام کے دور میں شیطانی مکر اور طاغوتی شر زوروں پر ہوگا جس کی وجہ سے لوگ گمراہی اور فتہ فساد میں مبتلا ہوجائیں گے۔ لہذا مسلمانوں کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ شیطانی قوتوں کے مقابلے میں دین اسلام کی تعلیمات کی نشرواشاعت کریں اور تبلیغ دین کے ذریعے لوگوں کی ہدایت کریں، تاکہ لوگ شیطانی شر سے ہلاک ہونے کی بجائے دین اسلام پر عمل کرکے نجات حاصل کرسکیں۔

نتیجہ:۔
ظہور امام مہدی (علیہ السلام) پر تمام مسلمان بالخصوص اور دیگر ادیان بالعموم، عقیدہ رکھتے ہیں۔ چونکہ اسلام آخری اور کامل دین ہے، لہذا حضرت امام مہدی (عج) کی شخصیت، اہداف اور اسلام کی حقانیت سے دیگر مذاہب اور عالم بشریت کو آگاہ کرنا امت مسلمہ کی مشترکہ ذمہ داری ہے۔ عقیدہ مہدویت دراصل قرآن و سنت کی حقانیت اور قرآن اور سنت میں دیئے گئے وعدوں کی سچائی کا دوسرا نام ہے۔ ………….
1۔ سورہ نصر۔
2۔ سورہ توبہ آیت 33۔
3۔ سورہ صف آیت 9۔
4۔ سورہ فتح آیت 28۔
5۔ سورہ نور آیت 55۔
6۔ سورہ قصص آیت 5۔
7۔ سورہ اسرا کی آیت 81۔
8۔ سورہ انبیا آیت 105۔
9۔ مسند احمد بن حنبل ج 1 ص 99۔
10۔ اعلام الوری۔
11۔ اکمال الدین ج 2 ص 55، 57۔
12۔ غیبت شیخ طوسی۔
13۔ کمال الدین ج 2 ص 140
خبر کا کوڈ : 464624
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش