1
Thursday 4 Jun 2015 10:07
4 جون، برسی امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی مناسبت سے

اسلام اور جمہوریت، امام خمینی(رہ) کی نظر میں

اسلام اور جمہوریت، امام خمینی(رہ) کی نظر میں
تحریر: سید جواد حسینی

جب امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی قیادت میں ملت ایران کی اسلامی جدوجہد اپنے عروج پر پہنچی اور امام و امت نے مشروطہ سلطنتی نظام کے خاتمے کا عزم کر لیا تو مغربی سیاستدان، جو مشرق وسطی جیسے حساس اور اہم خطے میں اپنے مفادات کو خطرے میں پڑتا ہوا دیکھ رہے تھے، یہ سوچنے لگے کہ ایران میں جاری انقلابی تحریک کی ممکنہ کامیابی کے نتیجے میں کس قسم کا نظام حکومت برسراقتدار آئے گا؟ وہ اس بابت پریشان دکھائی دیتے تھے کہ مستقبل کی ایرانی حکومت کن اصولوں اور معیاروں پر استوار ہو گی اور یہ کہ ایسی حکومت کے برسراقتدار آنے کے بعد خطے میں مغربی مفادات کا کیا بنے گا؟ یہ وہ ایشوز تھے جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے قریب عالمی رائے عامہ کی توجہ کا مرکز بن چکے تھے اور سینکڑوں مشرقی اور مغربی صحافیوں کی جانب سے فرانس میں مقیم انقلاب اسلامی ایران کے بانی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ سے پوچھے جانے والے سوالوں میں جلوہ گر تھے۔ 
 
اسلام اور جمہوریت میں رابطے کی نوعیت کو امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی سوچ کے مطابقت سمجھنے کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ تقریبا تمام امت مسلمہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی فقاھت اور تفقہ فی الدین پر مضبوط عقیدہ رکھتی ہے اور یہ سمجھتی ہے کہ آپ کی سوچ درحقیقت دین مبین اسلام کے گہرے مطالعے اور عمیق فہم کے نتیجے میں تشکیل پائی ہے لہذا ایسی سوچ کو اسلام کا حقیقی ترجمان قرار دے کر اس کی پیروی کی جا سکتی ہے۔ دوسری طرف امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا سیاسی تفکر اسلامی جمہوریہ ایران کی نظریاتی بنیادوں کی حیثیت رکھتا ہے۔ یوں اس عظیم ہستی کی نظر میں اسلام اور جمہوریت کے درمیان پائے جانے والے رابطے کی نوعیت کو جان کر بہت سے سوالات کا جواب دیا جا سکتا ہے۔ ان سوالات میں وہ شبہات بھی شامل ہیں جو گذشتہ چند سالوں کے دوران مختلف سیاسی اور نشریاتی محافل میں کئی عنوانات کے تحت پیش کئے جا رہے ہیں۔ یہ شبہات درحقیقت انہیں سوالات اور شبہات کا تکرار ہے جو ایران میں اسلامی انقلاب کی کامیابی کے فوراً بعد اسلامی جمہوری نظام کے برسراقتدار آنے کے بعد اٹھائے گئے تھے۔ اب ہم ان شبہات کا تفصیل سے جائزہ لیتے ہیں۔ 
 
"اسلامیت" اور "جمہوریت" میں تضاد کا وہم:
گذشتہ چند سالوں سے بڑے پیمانے پر پھیلائے جانے والا شبہہ "جمہوریت" اور "اسلامیت" میں تضاد پائے جانے پر مبنی ہے۔ بعض حلقے اس بات پر شدت سے تاکید کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ اسلام اور جمہوریت میں تنافی اور تضاد پایا جاتا ہے لہذا ہمارے پاس ان دونوں میں سے کسی ایک کو چننے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں اور ان دونوں کو ایک ساتھ لے کر آگے نہیں بڑھا جا سکتا۔ واضح ہے کہ اس غلط سوچ سے جو نتیجہ مغربی مفکرین اور سیاستدان اٹھا رہے ہیں وہ یہ ہے کہ ایک جمہوری نظام کے تحقق میں اسلام سب سے بڑی رکاوٹ ہے لہذا جمہوری تقاضوں کے پیش نظر دین خاص طور پر اسلام کو انسان کی شخصی اور انفرادی زندگی تک محدود کر دینے اور تمام معاشرتی و سماجی امور سے حذف کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ تفکر درحقیقت سیکولر نظام حکومت کی بنیاد بنتا ہے۔ دوسری طرف آج کی دنیا اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے کہ کسی بھی معاشرے کیلئے بہترین نظام حکومت "جمہوری نظام حکومت" ہے۔ البتہ مغربی مفکرین ایسے جمہوری نظام حکومت کی بات کرتے ہیں جو مغربی جمہوریت کے اصولوں سے مکمل مطابقت رکھتا ہو۔ ان کی نظر میں چونکہ اسلام میں اس طرز کی جمہوریت ممکن نہیں لہذا اسے تمام معاشرتی و سماجی امور سے بے دخل کر دینا چاہئے۔ البتہ خود اسلامی معاشروں میں بھی بعض ایسے روایتی حلقے پائے جاتے ہیں جو اسلام اور جمہوریت میں تنافی کا دعوی کرتے ہیں اور امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے اسلامی جمہوری نظام کی تشکیل کو نظریہ ضرورت کا شاخسانہ قرار دیتے ہوئے ایک مصلحت آمیز اور عارضی اقدام ظاہر کرتے ہیں۔ 
 
"اسلامیت" اور "جمہوریت" میں سے بنیادی اہمیت کس کو حاصل ہے؟
بعض حلقوں کی جانب سے یہ سوال اٹھایا جاتا ہے کہ "اسلامیت" اور "جمہوریت" میں بنیادی اہمیت کس کو حاصل ہے، یعنی ان دونوں میں سے کون "اصلی" اور کون "فرعی" ہے؟ مزید وضاحت یہ کہ اگر کسی وقت جمہوریت کے کسی بنیادی رکن کا اسلامیت کے کسی بنیادی رکن سے ٹکراو ہو جاتا ہے تو ترجیح کسے دی جائے گی؟ کیا اسلامیت کے حق میں جمہوریت کے اس بنیادی رکن کو نظرانداز کر دیا جائے گا یا برعکس، جمہوریت کے حق میں اسلامیت کے متضاد بنیادی رکن کو چھوڑ دیا جائے گا؟ واضح ہے کہ یہ سوال ایسے حلقوں کی جانب سے پیش کیا جاتا ہے جو اسلام اور جمہوریت کے درمیان مکمل تضاد اور تنافی کے قائل نہیں اور ایک سیاسی نظام میں اسلام اور جمہوریت کا ایک ساتھ ہونے کو ممکن قرار دیتے ہیں۔ ان کی نظر میں "اسلامیت" اور "جمہوریت" دونوں دو قسم کے ارکان پر مشتمل ہیں: ۱)۔ اصلی، ۲)۔ فرعی۔ یہ حلقے سمجھتے ہیں کہ ایک اسلامی جمہوریہ سیاسی نظام کی تشکیل اور اس میں قانون سازی، پالیسی سازی اور اجرا کے مراحل میں اسلامیت اور جمہوریت کے بنیادی اراکین کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ البتہ بعض اوقات عین ممکن ہے کہ دونوں کے بعض بنیادی ارکان میں ایکدوسرے کے ساتھ تضاد اور ٹکراو پایا جائے۔ ایسی صورت میں کس کو کس پر ترجیح حاصل ہے؟
 
ایسا دکھائی دیتا ہے کہ بعض مفکرین پہلے نظریے (اسلامیت پر جمہوریت کی فوقیت) جبکہ بعض دوسرے مفکرین دوسرے نظریے (جمہوریت پر اسلامیت کی فوقیت) کی حمایت کرتے ہیں۔ ہم اس تحریر میں حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے نقطہ نظرات کی روشنی میں اس موضوع کا جائزہ لینا چاہتے ہیں۔ چونکہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ایک اسلامی سیاسی نظام کا نمونہ پیش کیا لہذا ان کے نقطہ نظرات سے ان ابہامات کو دور کیا جا سکتا ہے یا کم از کم یہ واضح کیا جا سکتا ہے کہ اس بارے میں انقلاب اسلامی کے بانی حضرت امام خمینی رحمہ اللہ کا نقطہ نظر کیا ہے۔ ہماری کوشش ہو گی کہ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے اظہار خیال کو بعینہ قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے اور ان کے ذریعے مذکورہ بالا سوال کا جواب تلاش کیا جا سکے۔ 
 
جمہوریت کو غلطی سے لبرل ازم کے معنی میں لینا:
سیاسی اور قانونی مفکرین کی تحریروں میں "جمہوری حکومت" کے مختلف معیار بیان کئے گئے ہیں جن میں بعض اوقات بہت اختلاف پایا جاتا ہے۔ ان اختلافات کی ایک وجہ یہ ہے کہ حتی مغربی فلاسفہ بھی جمہوری حکومت کی ایک تعریف پر متفق نہیں۔ قدیم یونانی دور کے مغربی فلاسفہ کی جانب سے پیش کی گئی جمہوری حکومت کی تعریف اور جدید دور کے مغربی فلاسفہ کی تعریف میں بہت زیادہ اختلاف پایا جاتا ہے۔ اس گہرے اختلاف کی ایک اور وجہ یہ ہے کہ بعض محققین "جمہوریت" کو ایک قدر (value) کے طور پر دیکھتے ہیں جبکہ دوسرے اسے محض ایک "طریقہ کار" کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ اسی طرح بعض مفکرین مختلف وجوہات کی بنا پر جمہوریت کی ایسی تعریف پیش کرتے ہیں کہ گویا وہ لبرل ازم کا ہم معنی ہے، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ جمہوری حکومت، لبرال ازم، سوشل ازم یا اسلام جیسے کسی مکتب فکر (school of thought) کے ساتھ جڑی ہوئی نہیں بلکہ حکومت کے دوسرے ماڈلز جیسے "سلطنتی" یا "مشروطہ" کے مقابلے میں ایک ماڈل کی حیثیت رکھتی ہے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو دنیا کی مختلف اقوام، جو گوناگون مکاتب فکر کی پیرو ہیں، ہر گز ایک ماڈل کی حکومت یعنی جمہوری حکومت کو اپنانے پر قادر نہ ہوتیں۔ 
 
امام خمینی رح اور جمہوریت:
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اپنے فرانس میں قیام کے دوران کئی بار مغربی صحافیوں سے بات چیت کی اور اس دوران جب بھی اسلامی بنیادوں سے عدم آشنائی رکھنے والے مغربی صحافیوں نے ان سے انقلاب کی کامیابی کی صورت میں ایران میں نئے سیاسی نظام کی نوعیت کے بارے میں سوال پوچھا تو آپ نے فرمایا: 
"ہمارے مدنظر جمہوریت اسی معنی میں ہے جو ہر جگہ پائی جاتی ہے"۔ [1] 
جمہوریت کو بنیادی حیثیت قرار دینے والے اکثر لکھاریوں نے امام خمینی رح کے اس جملے کا سہارا لیا ہے۔ لیکن امام خمینی رح نے فرانس میں قیام کے دوران ہی اپنی مدنظر جمہوریت کو بہت واضح انداز میں بیان کیا ہے۔ انہوں نے فرانس حکومت کے نمائندوں کو مخاطب قرار دیتے ہوئے فرمایا: 
"جمہوری سے مراد وہی ہے جو آپ کے ملک میں بھی موجود ہے یعنی عوامی رائے کو بنیاد بنایا جاتا ہے، جمہوری ہونے کا مطلب ڈیموکریٹک ہونا ہے اور اسلامی ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کا قانون اسلامی ہو گا"۔ [2]
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے "جمہوری" کی وضاحت "حکومت کا عوامی رائے پر استوار ہونا" کی صورت میں کی ہے اور جمہوریت کا اہم ترین رکن بھی یہی ہے۔ جمہوری ہونے کی اساس سیاسی نظام کا عوامی رائے پر استوار ہونا ہے۔ اگر ہم جمہوریت کو سیاسی نظاموں کی گوناگون شکلوں میں سے ایک شکل قرار دیں اور اسے مختلف مکاتب فکر کی نظریاتی بنیادوں سے خلط نہ کریں تو اس حقیقت کا اعتراف کر پائیں گے۔ 
 
ایران کے معروف مسلم سکالر شہید آیت اللہ مرتضی مطہری رح، اسلامی انقلاب کے بعد ایران میں تشکیل پانے والے سیاسی نظام کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کے جواب میں فرماتے تھے:
"اس مفہوم (جمہوری اسلامی) کو مبہم قرار دینے والے افراد کی غلطی کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے قومی حق حاکمیت کو کسی مسلک اور آئیڈیالوجی سے عدم وابستگی اور کسی تصور کائنات یا زندگی کے بارے میں علمی اصولوں کا پابند نہ ہونے کے مساوی قرار دیا ہے۔ جمہوری کا مسئلہ حکومت کی شکل سے مربوط ہے جس کا لازمہ ایک قسم کی ڈیموکریسی ہے یعنی عوام کو اپنی تقدیر کا فیصلہ خود کرنے کا حق حاصل ہے"۔[3]
 
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اپنے اس نقطہ نظر پر کاربند تھے کہ حکومتی عہدیداروں کیلئے دین مبین اسلام میں بیان شدہ شرائط کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے عوام کو حکومتی عہدیداران کے انتخاب کا پورا حق حاصل ہے اور بعض افراد کی جانب سے یہ اظہار خیال کہ اس بارے میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا سیاسی تفکر تبدیل ہو گیا تھا، حقیقت پر مبنی نہیں۔ حضرت امام خمینی رح انقلاب اسلامی کی کامیابی سے پہلے بھی اسی بات پر تاکید فرماتے تھے کہ سیاسی نظام کی بنیاد عوامی رائے پر استوار ہے اور اسلامی انقلاب کی کامیابی کے قریب بھی جب انقلابی کونسل بنائی تو فرمایا "شرعی حق اور ملت ایران کی واضح اکثریت کی جانب سے اعتماد کے ووٹ کی بنیاد پر کونسل کے اراکین کو منصوب کیا ہے" [4]، اور اسی طرح نگران حکومت بناتے وقت فرمایا "شرعی حکم پر مبنی رہبری اور ملت کی واضح اکثریت پر مبنی رائے کی بنیاد پر نگران حکومت بنا رہا ہوں" [5]۔ امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے اسلامی انقلاب کی کامیابی کے بعد ملک میں اسلامی جمہوری نظام کے نفاذ کیلئے ریفرنڈم کا انعقاد کروایا اور بارہا اس جملے "معیار عوامی حمایت ہے" کا تکرار کر کے واضح کر دیا کہ آپ کی نظر میں حکومت اور حکومتی عناصر کا عوامی حمایت پر استوار ہونا لازمی ہے۔ 
 
عصر غیبت میں ولایت فقیہ کے کردار کے بارے میں امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کا نقطہ نظر بھی انتہائی اہمیت کا حامل ہے، خاص طور پر یہ کہ امام خمینی رح نے یہ اظہار خیال اپنی زندگی کے آخری حصے میں فرمایا ہے اور یوں جمہوریت سے متعلق آپ کے نقطہ نظر کا زندگی کے آخری لمحات تک باقی رہنے پر تاکید کرتا ہے۔ آپ نے ائمہ جمعہ سیکرٹریٹ میں اپنے نمائندوں کی جانب سے پوچھے گئے اس سوال کے جواب میں کہ "فقیہ جامع الشرائط کن حالات میں اسلامی معاشرے پر ولایت رکھتا ہے؟"، مرقوم فرمایا: "تمام حالات میں ولایت رکھتا ہے، لیکن امور مسلمین کو اپنے ہاتھ میں لینے اور حکومت تشکیل دینے کی شرط مسلمانوں کی اکثریت کا ووٹ حاصل ہونا ہے، جس کا ذکر آئین میں بھی کیا گیا ہے اور جسے عصر اسلام میں ولی مسلمین سے بیعت سے تعبیر کیا جاتا تھا"۔ [6] 
اسی طرح حضرت امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے آئین کی تجدید نظر کونسل کے سربراہ کے نام اپنے خط میں سپریم لیڈر کی ذمہ داری سنبھالنے کیلئے مرجع تقلید کی شرط کو ختم کرنے کے اعلان کے ساتھ لکھا: "اگر عوام نے خبرگان (ایکسپرٹس کونسل) کے اراکین کو ووٹ دیا تاکہ وہ ایک عادل مجتہد کو ان کی حکومت کے رہبر کے طور پر چنیں، جب وہ رہبر کی ذمہ داری کیلئے ایک شخص کو چن لیں گے تو اس کی حکومت عوام کی طرف سے قبول شدہ ہے۔ ایسی صورت میں وہ عوام کی جانب سے چنا گیا ولی قرار پائے گا اور اس کا حکم واجب العمل ہو گا"۔ [7]
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے ان فرامین سے واضح ہو جاتا ہے کہ جمہوریت سے آپ کی مراد وہی رائج معنی یعنی حکومت کا عوامی حمایت پر استوار ہونا تھا اور آپ اپنی زندگی کے آخری لمحات تک اس نقطہ نظر سے نہیں ہٹے اور اس پر پابند رہے۔ اسی طرح یہ بھی واضح ہو جاتا ہے کہ امام خمینی رح کی جانب سے اسلامی نظام میں جمہوریت کا عنصر داخل کیا جانا کوئی عارضی یا مصلحتی عمل نہ تھا بلکہ آپ حقیقتا جمہوری اسلامی نظام کا عقیدہ رکھتے تھے۔ 
 
امام خمینی رح کی نظر میں حکومتی ماڈل کی اہمیت:
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی جانب سے اسلامی نظام حکومت میں جمہوریت پر تاکید کئے جانے کے باوجود ہمیں اس نکتے سے غافل نہیں ہونا چاہئے کہ آپ کی نظر میں "اسلام میں جمہوریت اور ڈیموکریسی" دنیا کے دوسرے حصوں میں پائی جانے والی جمہوریت سے مختلف ہے۔ امام خمینی رح نے اسلام میں عوام کے کردار کو واضح کرتے ہوئے بعض ایسے نکات بیان کئے ہیں جنہیں اس موقع پر ذکر کرنا انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ امام خمینی رح کا عقیدہ تھا کہ اگرچہ حکومت کے بعض ماڈل دوسرے ماڈلز پر فوقیت رکھتے ہیں لیکن جمہوریت کے تحفظ اور عوامی مطالبات کے تحقق میں خاص حکومتی ماڈل کوئی اہمیت نہیں رکھتا بلکہ جو چیز اہمیت کی حامل ہے وہ:
1۔ حکمرانوں کیلئے ضروری شرائط، اور 
2۔ دین مبین اسلام میں بیان کئے گئے حکومت کیلئے واجب الاجرا معیار اور قواعد و مقررات ہیں۔
 
امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی نظر میں جو عناصر عوام کی حقیقی آزادی اور حقوق کی ادائیگی کو یقینی بنا سکتے ہیں وہ مکتب اسلام کے مطلوبہ "لائق اور بااستعداد حکمران" اور "اسلامی اصولوں پر مبنی حکومتی قواعد و مقررات" پر مشتمل ہیں۔ دوسرے الفاظ میں اگر حکمران لائق اور بااستعداد نہ ہوں یا ملکی قوانین و مقررات اسلامی اصولوں کے مطابق نہ ہوں تو دونوں صورتوں میں عوامی حقوق کا تحفظ یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ [8] لہذا امام خمینی رحمہ اللہ علیہ نے ان فرانسوی جوانوں سے اپنی ملاقات میں، جو آپ کی سادہ زندگی سے متاثر ہو کر اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر چکے تھے، "اسلام میں ڈیموکریسی" اور "دنیا کے معروف عوامی مکاتب فکر میں ڈیموکریسی" کے درمیان فرق پر زور دیا۔ امام خمینی رح نے اپنی تقریر کے دوران حکمرانوں اور عوام کے حقوق میں برابری، ولادت کی ابتدا سے ہی انسان کی تربیت کیلئے موجود اسلام کے جامع قوانین، حکومت اور عوام کے درمیان دوطرفہ تعلقات، عوام کے ایکدوسرے سے تعلقات اور اقلیتی برادری سے تعلقات اور اسلام میں عالمی تعلقات عامہ کو واضح کیا۔ [9]
 
اگر ہم اس پہلو سے امام خمینی رحمہ اللہ کے نقطہ نظر کا مشاہدہ کریں تو دیکھیں گے کہ اگرچہ "جمہوری" طرز حکومت اور "مشروطہ" طرز حکومت یکسان نہیں کیونکہ "جمہوری حکومت میں کم از کم حکمرانوں کو برسراقتدار لانے اور معزول کرنے میں عوام کا کردار ہوتا ہے" [10]، لیکن اس کے باوجود جو چیز عوامی حقوق کے تحفظ کو یقینی بناتی ہے وہ:
اولا: حکمرانوں کی جانب سے اسلام میں بیان شدہ شرائط اور قوانین کی پابندی کرنا، اور
ثانیا: انسان کے انفرادی اور اجتماعی امور سے متعلق تمام اسلامی قوانین و مقررات کو معاشرے میں لاگو کرنا ہے۔ 
پہلے رکن کیلئے امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کے ان فرامین کو پیش کیا جا سکتا ہے جس میں آپ نے فرمایا: "اسلام نے انسانی معاشرے کے حکمران کیلئے بعض شرائط مقرر کی ہیں اور اگر اس میں ان میں سے کوئی بھی شرط نہ پائی جاتی ہو تو وہ خود بخود معزول ہو جاتا ہے۔ ایسی صورت میں عوامی حمایت کا بھی کوئی فائدہ نہیں۔ وہ حکمران بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔ ہم ایسا حکمران چاہتے ہیں"۔ [11] امام خمینی رح کی نظر میں اگر کوئی حکمران ظلم کرے تو وہ خود بخود معزول ہو جاتا ہے اور اسے حکومت کرنے کا قانونی و شرعی جواز نہیں رہتا۔ آپ فرماتے ہیں کہ ایک خالصتاً جمہوری معاشرے میں جب عوام کسی حکمران کو ایک خاص مدت کیلئے چن لیتے ہیں تو وہ مجبور ہیں اسے آخر تک برداشت کریں، چاہے اس مدت میں وہ مطلوبہ شرائط سے عاری ہو چکا ہو۔ لیکن اسلامی جمہوری نظام میں جیسے ہی کوئی حکمران اسلام میں بیان شدہ مطلوبہ شرائط میں سے کوئی شرط کھو بیٹھتا ہے تو وہ خودبخود معزول ہو جاتا ہے اور اس کے بعد اسے حکومت کا حق حاصل نہیں رہتا۔ لہذا اسلامی جمہوری نظام میں مغربی جمہوری نظاموں کے برعکس، عوام کے حقوق کا زیادہ خیال رکھا گیا ہے اور ان کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے۔ لہذا امام خمینی رحمہ اللہ علیہ کی نظر میں علم فقہ درحقیقت "گہوارے سے لے کر قبر تک انسانی زندگی کی منیجمنٹ" پر مشتمل مکمل ضابطہ حیات ہے۔ 

حوالہ جات:
1۔ صحیفہ امام خمینی رح، جلد 4، صفحہ 479؛ جلد 5، صفحہ 311۔
2۔ صحیفہ امام خمینی رح، جلد 5، صفحہ 240۔
3۔ شہید مرتضی مطہری، پیرامون انقلاب اسلامی، صفحہ 80۔
4۔ صحیفہ امام خمینی رح، جلد 5، صفحہ 426۔ 
5۔ ایضاً، جلد 6، صفحہ 20۔ 
6۔ ایضاً، جلد 19، صفحہ 459۔ 
7۔ ایضاً، جلد 21، صفحہ 371۔ 
8۔ ایضاً، جلد 5، صفحہ 344۔ 
9۔ ایضاً، جلد 4، صفحہ 418۔ 
10۔ ایضاً، صفحہ 492۔ 
11۔ ایضاً، صفحہ 493۔ 
 
 
خبر کا کوڈ : 464781
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش