3
Wednesday 19 Aug 2015 08:30

طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کیوں؟(2)

طالبان سے مذاکرات کی مخالفت کیوں؟(2)
تحریر: عرفان علی

سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا طالبان سے امن کی توقع رکھی جاسکتی ہے؟ اس کے لئے پاکستان کو ایک ٹیسٹ کیس کے طور پر پیش کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر پچھلے سال پاکستان کی مسلح افواج کو آپریشن ضرب عضب کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ صرف اس لئے کہ ماضی میں کئے جانے والے امن معاہدوں کی طرح آخری امن معاہدہ بھی ناکام ہوگیا تھا۔ مارچ 2014ء میں جب نواز لیگی حکومت طالبان سے ایک اور معاہدے کی تگ و دو کر رہی تھی، تب میں نے ایک تجزیہ و تحلیل پیش کیا تھا کہ: ’’گذشتہ دس سالوں میں دہشت گرد گروہوں سے کئے گئے آٹھ امن معاہدے بالکل ناکام ثابت ہوئے جبکہ دیگر دو امن معاہدوں کے تاحال نافذالعمل ہونے کے باوجود ان علاقوں میں دہشت گردی ختم نہیں ہوئی، اس لئے مذکورہ دو معاہدوں کو بھی عملاً ناکام ہی کہا جائے گا۔ پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان کے حامی مسلح گروہوں سے باقاعدہ امن معاہدوں کا سلسلہ 2004ء سے شروع ہوا اور آپریشن ضرب عضب کے باوجود طالبان اور اس کے ہم فکر دہشت گردوں نے واہگہ، شکار پور، حیات آباد، پشاور، راولپنڈی سمیت ملک بھر میں دہشت گردی کی بڑی بڑی کارروائیاں کیں اور اب صوبہ پنجاب کے وزیر داخلہ کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے، تاکہ طالبان کے سہولت کار دہشت گردوں کے خلاف آپریشن روکنے پر مجبور کیا جاسکے۔ مری امن عمل کے بارے میں بات کرتے وقت یہ حقیقت یاد رکھی جانی چاہئے کہ اس میں ایک امریکی سفارتکار بھی شریک ہوا تھا۔ چین کی بھی سرکاری نمائندگی تھی۔ طالبان کو ان کی موجودگی پر کوئی اعتراض کیوں نہیں تھا؟ افغانستان کے داخلی امن میں امریکا کب سے قابل اعتماد ہوگیا؟ ہم ماضی میں بھی طالبان اور امریکی تعلقات کے بارے میں لکھتے رہے تھے اور قطر اور پاکستان میں ہونے والے مذاکرات میں یہ بات پایہ ثبوت کو پہنچی کہ دونوں کے درمیان روابط تھے لیکن عوام الناس سے اس حقیقت کو خفیہ رکھا جارہا تھا اور اب چونکہ بہت سے طالبان کمانڈرز کو داعش میں شامل کروایا جاچکا ہے اور بہت سے آزادانہ کارروائیوں کے لئے آزاد کر دیئے گئے ہیں، اس لئے اب امریکا اور طالبان کو ان تعلقات کو آشکارا کرنے میں اپنے اپنے حلقوں میں بدنامی کا خوف نہیں ہے۔

بجائے اس کے کہ مری امن عمل کے بارے میں بندہ اپنی رائے پیش کرے، بہتر ہوگا کہ پاکستان کے جواں سال اسکالر معید یوسف کی اس رائے سے آگاہی حاصل کی جائے جو قطر میں قائم الجزیرہ چینل کی انگریزی ویب سائٹ پر موجود ہے۔ امریکا کے دارالحکومت واشنگٹن میں مقیم امریکی تھنک ٹینک سے وابستہ معید یوسف لکھتے ہیں کہ مسئلہ صرف یہ نہیں ہے (کہ پاکستانی ریاست کیا کردار ادا کرے گی بلکہ) اب اصل مسئلہ یہ ہے کہ طالبان کئی گروہوں میں تقسیم ہوچکے ہیں۔ ان کے کئی فیلڈ کمانڈرز پر پاکستان میں مقیم طالبان قیادت کا کوئی کنٹرول نہیں۔ انہوں نے لکھا کہ اب اصل امتحان یہ ہے کہ جو طالبان مذاکرات میں شریک ہوئے، کیا یہ ان طالبان کو مفاہمت پر آمادہ کرسکتے ہیں جو افغانستان میں کارروائیاں کر رہے ہیں یا نہیں؟ اس تجزیہ نگار کے مطابق افغان حکومت کو یہ باور کرانا ہوگا کہ طالبان کے لئے فوجی کامیابی قابل عمل چیز نہیں، اور یہ احساس پیدا کرنے کے لئے پاکستان کو بھی مذاکرات کے مخالف طالبان کے خلاف سخت ترین اقدامات کرنے ہوں گے۔

اس ناچیز کی نظر میں ملا عمر کے ہونے اور نہ ہونے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کیونکہ اسامہ بن لادن کی موت کے اعلان کے بعد بھی تکفیری دہشت گردی ختم نہیں ہوئی اور ملا عمر کی طالبان نے مذاکرات کا سلسلہ ان کی زندگی میں ہی شروع کیا اور جاری رکھا ہوا تھا۔ بندہ ان گروہوں کے علیحدہ ہونے اور اختلافات کی خبروں کو بھی اہمیت نہیں دیتا کیونکہ یہ خبریں دانستہ طور پر ذرائع ابلاغ کے توسط سے رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے دنیا کے سامنے پیش کی جاتی ہیں۔ اصل میں یہ گروہ اور شخصیات امریکا اور اس کے اتحادیوں کے پے رول پر ہیں۔ ان کا کردار یہ خود متعین نہیں کرتے بلکہ اس کا اسکرپٹ عالمی سامراج نے لکھا ہے۔ نائن الیون کے بعد امریکیوں کی پالیسی واضح طور پر بیان کی گئی تھی کہ اس لانگ وار یعنی طویل جنگ میں میں چھوٹی چھوٹی battles ہوں گی اور شارٹ ٹرم گولز اور شارٹ ٹرم الائیز ہوں گے۔ یعنی قلیل المدت مقاصد کے لئے قلیل مدت کے لئے اتحادی۔ یہی وجہ ہے کہ جب کام نکل جاتا ہے تو وہ کردار ختم کر دیا جاتا ہے۔ پہلے بھی درخواست کرچکا ہوں کہ ناموں کی تبدیلی اور شخصیات کی تبدیلی سے دھوکا نہ کھائیں۔ داعش وہی القاعدہ ہے جسے افغانستان میں طالبان نے استحکام بخشا، ان لوگوں کا ادھر سے ادھر تبادلہ کر دیا جاتا ہے۔ سپاہ صحابہ کے بطن سے لشکر جھنگوی نے طالبان کے دور میں افغانستان میں جنم لیا تھا۔ عالم اسلام میں جہاں جہاں مسلمان ان تکفیری دہشت گردوں کے ہاتھوں جام شہادت نوش کر رہے ہیں، ان سبھی کی پہلی تربیت افغانستان میں ہی ہوئی تھی اور امریکی سی آئی اے اور سعودی انٹیلی جنس نے ہی انہیں پروان چڑھایا تھا۔

افغانستان میں امن کے لئے مذاکرات کے بارے میں میرا سوال یہ ہے کہ طالبان نے افغانستان کی داخلی سیاست میں امریکی کردار کو کیوں تسلیم کر لیا ہے؟ طالبان نے ترکی اور قطر کی سرپرستی کیوں قبول کی، جبکہ وہ دونوں نائن الیون کے بعد امریکی جنگ میں اتحادی تھے اور انہوں نے بھی افغانستان میں جنگ میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا۔ دونوں ممالک میں امریکا کی اتحادی حکومتیں تاحال موجود ہیں۔ انہوں نے سعودی عرب کی ثالثی کیوں قبول کی، جبکہ سعودی آج تک امریکا کے اتحادی ہیں اور آج یمن میں وہی کام کر رہے ہیں جو امریکی و اتحادی حکومتوں نے افغانستان میں کیا، یعنی نہتے شہریوں اور آبادیوں پر بمباری اور اگر یہی کچھ کرنا تھا تو افغانستان کو جنگ کی آگ میں کیوں جھونکا اور جب جنگ مسلط کروا ہی دی تھی تو پھر قندھار سے فرار کیوں ہوئے۔ حامد کرزئی کو تحریری طور پر سرنگوں نامہ کیوں پیش کیا؟ یہی سوال امریکا، ترکی، قطر اور سعودی عرب سے بھی کیا جاسکتا ہے کہ اگر طالبان کا افغانستان میں کوئی کردار بنتا تھا تو پھر جنگ کیوں کی؟ اور جب القاعدہ کی مدد کرنا جرم تھا تو پھر طالبان کے لئے معافی کیوں؟ طالبان کے بہانے ہزاروں بے قصور افغانیوں کا قتل عام کیوں کیا گیا؟

افغان امور میں غیر ملکی عدم مداخلت سے ہی دہشت گردی ختم ہوسکے گی۔ غیر پختون آبادی کی نمائندہ اور منتخب سیاسی قیادت کو خود طالبان مخالف پختونوں نے تسلیم کر رکھا ہے۔ افغانستان کی داخلی سیاست میں پاکستان سمیت کسی بھی دوسرے ملک کا کوئی کردار نہیں بنتا اور اس شمالی اتحاد کو انڈیا کا ایجنٹ کہہ کر مسترد کر دینا کہ جس میں برہان الدین ربانی اور احمد شاہ مسعود کی جماعتیں بھی شامل ہیں، یہ کونسی عقلمندی ہے؟ حامد کرزئی کوئٹہ میں ہی رہا کرتا تھا، لیکن طالبان کی محبت میں اسے بھی انڈیا کا ایجنٹ کہہ کر رد کر دیا گیا تھا۔ اگر آپ کو افغانستان کی پختون آبادی پر اپنا کوئی حق نظر آتا ہے تو پھر دوسرے ملک بھی لسانی یا فرقے کی بنیاد پر افغانستان پر اپنا اپنا حق جتا سکتے ہیں۔ افغانیوں کو شوریٰ عالی صلح کے ذریعے محبت اور رواداری قائم کرنا چاہئے، افغانستان افغانیوں کا ہے اور افغان یہ اچھی طرح سمجھ لیں کہ ماضی میں ایک دوسرے کے لئے عدم برداشت کی جو پالیسی انہوں نے اپنائی تھی، سارے مسائل کی جڑ یہی تھی، اگر وہ امریکی ایجنڈا پر عمل کرنے والوں کو ابتداء ہی میں کچل کر رکھ دیتے تو طالبان، القاعدہ کا ڈرامہ کم از کم ان کی سرزمین پر تیار نہ ہوتا۔ ان کی اپنی غلطیوں اور انحصار طلبی نے غیر ملکی قوتوں کو ان کے داخلی معاملات میں دخیل کیا۔ تکفیری دہشت گردی طالبان کی نقاب اوڑھے یا داعش کی، اسے کچل کر رکھ دینا چاہئے۔ امریکا اور اس کے اتحادی نام نہاد مسلمان ممالک سے خیر کی توقع رکھنے والے خود ہی اپنی قبر کھود رہے ہیں اور انہیں بھی اسامہ بن لادن اور ملا عمر جیسی موت نصیب ہوگی۔

افغان پختون، تاجک، ازبک، ہزارہ سمیت سبھی افغانی ہیں۔ افغانستان میں عراق جیسا سیاسی نظام کیوں نہیں متعارف کروایا گیا۔ یعنی صدر، وزیراعظم، اسپیکر کے عہدے ان آبادیوں کی نمائندہ جماعتوں اور منتخب شخصیات میں تقسیم ہونی چاہئیں۔ اگر عراق میں کرد صدر، نائب وزیراعظم اور وزراء ہوسکتے ہیں، اگر عراق میں سنی عرب نائب صدر، نائب وزیراعظم اور اسپیکر اسمبلی اور اہم وزراء ہوسکتے ہیں تو پھر افغانستان میں سنی تاجکوں اور شیعہ ہزارہ کے لئے بھی آئینی طور پر عہدہ مختص کیا جانا چاہئے۔ طالبان تو پہلے بھی بلا شرکت غیرے حکومت کرچکے، ان کے دور میں کھنڈر نما پسماندہ افغانستان کون سا ایسا ماڈل ہے کہ جس پر فخر کیا جاسکے؟ انہوں نے رواداری کی کونسی مثال قائم کی؟ لہٰذا امن عمل کے ڈرامے کے بجائے اصل مسائل پر توجہ دی جائے۔ مانا کہ افغان حکومت کا مقصد بہت ہی نیک ہے کہ طالبان کو قتل عام اور بے قصور عوام کے خون بہانے کے سلسلے کو ختم کرنے کے لئے میکنزم طے کرنے پر آمادہ کرلیں، لیکن اسلامی ریاست باغیوں سے مذاکرات نہیں کرتی، انہیں حق قبول کرنے کی دعوت دیتی ہے، اگر باطل سرنگوں نہیں ہوتا تو پھر ان کا فتنہ کچل کر رکھ دیتی ہے۔ طالبان نے خود بھی اپنے دور میں یہی کچھ کیا اور اب ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہونا چاہئے۔

آخر میں عرض کر دوں کہ طالبان کے دورہ ایران کی خبر میں نے بھی پڑھی اور وہاں کی حکومت کی تردید بھی۔ اگر طالبان کے دورہ ایران کی خبروں میں صداقت ہوتی تب بھی میری رائے یہی ہوتی جو میں نے پیش کی۔ 2013ء میں بھی یہی خبر آئی تھی لیکن تحقیق کرنے پر معلوم ہوا کہ خبر غلط تھی۔ پچھلے مہینے پھر یہی خبر آئی کہ طیب آغا کی قیادت میں کسی وفد نے دورہ کیا، لیکن ایران کی وزارت خارجہ نے اس سے لاعلمی کا اظہار کیا۔ میں اس معاملے میں بہت زیادہ واضح ہوں اور میری رائے میں کوئی ابہام نہیں کہ طالبان دور حکومت میں اسلام کا جو تمسخر اڑایا گیا اور ضد اسلام پالیسی کو اسلام کے نام پر پیش کرکے جو خیانت کی گئی، بے قصور مسلمانوں کا جو قتل عام کیا گیا، یہ قابل معافی نہیں ہے۔ دیگر کی نظر میں شاید پاکستان اور افغانستان کی طالبان میں فرق پایا جاتا ہو، لیکن سبھی کو حقیقت معلوم ہے کہ لشکر جھنگوی اور جماعت الاحرار سمیت کون کون طالبان ہی کا اٹوٹ انگ ہیں۔
(ختم شد)
خبر کا کوڈ : 480419
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش