0
Friday 13 Nov 2015 14:03

مصر اور جمہوریت کا سراب

مصر اور جمہوریت کا سراب
تحریر: داود احمد زادہ

جنوری 2011ء میں انقلابی تحریک کے نتیجے میں مصر کے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی سرنگونی اور اخوان المسلمین کی سربراہی میں اسلام پسند گروہوں کے برسراقتدار آجانے کے بعد بعض سیاسی ماہرین کا خیال تھا کہ گویا سرزمین فراعنہ آخرکار بنیادی اور تاریخی سیاسی تبدیلیوں کا شکار ہوچکی ہے اور مصر کے بند سیاسی معاشرے کے آزاد اور جمہوری معاشرے میں تبدیل ہونے کا موقع فراہم ہوچکا ہے۔ لیکن محمد مرسی کے بطور صدر برسراقتدار آنے کے بعد انقلاب کے حقیقی مطالبات سے بے توجہی شروع ہوگئی اور دوسری طرف اسلام پسند حکومت کی جانب سے غیر مدبرانہ رویہ اپنائے جانے کی وجہ سے سیکولر جماعتوں اور حکومت کے درمیان تناو میں دن بدن اضافہ ہوتا چلا گیا، جس کے باعث ملک سیاسی بحران کا شکار ہونے لگا۔ مصری فوج نے اس صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہوئے 2013ء میں صدر محمد مرسی کا تختہ الٹ دیا اور ملک ایک بار پھر فوجی آمریت کی بھینٹ چڑھ گیا۔ مصر کی مسلح افواج کے سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے اقتدار سنبھال لیا اور اپنے مضبوط سیاسی حریف کو میدان سے نکال باہر کرنے کی ٹھان لی۔ جنرل السیسی نے اپنے مخالفین کے مقابلے میں طاقت کا استعمال کرتے ہوئے اخوان المسلمین کے اعلٰی سطحی عہدیداروں کو گرفتار کرکے جیل میں ڈال دیا اور سابق صدر محمد مرسی کے حق میں انجام پانے والے مظاہروں کو فوجی طاقت کے بل بوتے پر کچلنا شروع کر دیا۔ دوسری طرف جنرل السیسی کے زیر اثر عدلیہ نے بھی اخوان المسلمین کے سیاسی شعبے یعنی عدالت آزادی پارٹی کو غیر قانونی قرار دے کر اس پر پابندی لگا دی اور اس طرح سیاسی مخالفین کے ساتھ مذاکرات کے تمام دروازے بند کر دیئے گئے۔ جنرل السیسی کی اس پالیسی کے نتیجے میں ملک میں سیکولر اور مذہبی طبقے کے درمیان تناو میں شدت آگئی اور سیاسی بحران اپنے عروج پر جا پہنچا۔

مصر کے ڈکٹیٹر جنرل السیسی نے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کے نقش پر چلتے ہوئے نام نہاد انتخابات کے ذریعے ملکی آئین میں من مانی تبدیلیاں انجام دیں اور اخوان المسلمین کو ختم کرنے کیلئے پورا زور لگا دیا۔ انہوں نے اپنے اقدامات کے ذریعے فوج کو ملک کا طاقتور ترین ادارہ بنا دیا اور بناوٹی صدارتی انتخابات کا انعقاد کروایا، جس میں نہ تو اسلام پسند گروہوں نے شرکت کی اور نہ ہی سیکولر رفرمسٹ حلقوں نے اس میں حصہ لیا اور عوام کی شرکت بھی بہت کم رہی۔ ان انتخابات کے نتیجے میں عبدالفتاح السیسی ملک کے نئے صدر منتخب ہوگئے۔ یہ صدارتی انتخابات انتہائی شدید سکیورٹی میں منعقد کروائے گئے اور اس میں تمام جمہوری اقدار کو پامال کر دیا گیا۔ اخوان المسلمین مصر کی قدیمی ترین اور موثر ترین سیاسی جماعتوں میں شمار کی جاتی ہے، جبکہ مصر کے مذہبی عوام میں اس کی جڑیں بھی بہت مضبوط ہیں۔ اس کے باوجود صدر محمد مرسی کی سربراہی میں اخوان المسلمین مصر کی حکومت اقتدار کو اپنے ہاتھ میں رکھنے میں ناکام رہی۔ اس ناکامی کی مختلف وجوہات بیان کی جاسکتی ہیں جیسے لیڈرشپ کی کمزوری، مصر کے سیاسی حالات سے عدم واقفیت، شدت پسند سلفی تکفیری گروہوں کے ساتھ سیاسی اتحاد قائم کرنا اور انہیں اہم حکومتی عہدوں میں اپنے ساتھ شریک کرنا۔ یہ اسباب اخوان حکومت کے زوال کا سبب بن گئے، جس کے نتیجے میں فوج دوبارہ برسراقتدار آ گئی۔ یوں اگر مصری معاشرے کی موجودہ صورتحال کو سامنے رکھا جائے اور مصر میں سرگرم مختلف سیاسی گروہوں کی کارکردگی کو پرکھا جائے تو یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ اخوان المسلمین سیاسی کھیل میں اپنے روایتی حریف کے مقابلے میں ناکام رہی اور اب پرامن طریقہ کار کے ذریعے اور حتی حکومت میں شراکت داری کی صورت میں بھی اس کیلئے اقتدار میں واپس آنا تقریباً ناممکن دکھائی دیتا ہے۔

اخوان المسلمین کے سربراہان نے جنوری 2011ء میں انقلاب کی کامیابی کے بعد اقتدار ایسے شخص کے حوالے کیا جو نہ تو کاریزما والی شخصیت کا مالک تھا اور نہ ہی انقلابی اہداف کو آگے بڑھانے کیلئے منطقی راستوں سے آشنا تھا، لہذا اس غلطی کے نتیجے میں انہوں نے مصر کو ایک جمہوری ملک بنانے کا سنہری موقع ہاتھ سے کھو دیا۔ درحقیقت اخوان المسلمین کے اس فیصلے کے باعث مصر کے انقلابی عوام کے مطالبات پورے نہ ہوسکے اور ملک دوبارہ سیاسی جمود کی طرف واپس پلٹ گیا۔ مزید برآں، اخوان المسلمین کے لیڈران فوج کے بارے میں واحد موقف بھی نہ اپنا سکے اور کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ تحریک کے بعض قدیم اور روایتی رہنماوں نے اخوان المسلمین کے سابق رہنما احمد عاکف کی حکمت عملی پر زور دیتے ہوئے بلا سوچے سمجھے سیاسی کے میدان میں کود پڑنے کو اسٹریٹجک غلطی قرار دیا اور عوام کے اندر دینی اور تعلیمی سرگرمیوں پر تاکید کی۔ لیکن اخوان المسلمین کا متحرک دھڑا جو زیادہ تر جوانوں پر مشتمل ہے، اس نقطہ نظر کا مخالف ہے اور مسلح گروہوں حتٰی داعش سے وابستہ تکفیری گروہوں جیسے "ولایت سینا" کے ساتھ اتحاد قائم کرنے پر زور دیتا ہے۔ لہذا موجودہ صورتحال یہ ہے کہ اخوان المسلمین چاہتے یا نہ چاہتے ہوئے مصر میں سیاسی میدان پر اثرانداز ہونے کی صلاحیت کھو چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حالیہ پارلیمانی انتخابات میں اخوان المسلمین نے الیکشن کا بائیکاٹ کر دیا اور اس کے رہنماوں نے الیکشن میں حصہ لینے کو حرام قرار دیتے ہوئے النور پارٹی کو اسلام پسند گروہوں کے اتحاد سے لاتعلق قرار دیا۔ اسلام پسند گروہوں کی غیر موجودگی میں آزادی پسند اور انقلابی دھڑے خاص طور پر "جوانان 6 اپریل" جنہیں ملک پر فوجی آمریت کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان اٹھانا پڑا ہے، مایوسی کا شکار ہونے لگے ہیں۔ یہ گروہ ملک پر حکمفرما فضا کو غیر جمہوری اور ناعادلانہ سمجھتے ہیں، لہذا ملکی سطح پر منعقد ہونے والے انتخابات میں شرکت کرنے کو بھی غیر منطقی اور بیہودہ قرار دیتے ہیں۔

چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ "الوفد پارٹی" جو ملک کی مضبوط ترین سیکولر جماعت تصور کی جاتی ہے، نے بھی حالیہ انتخابات میں حصہ نہیں لیا۔ ایسے ماحول میں پارلیمانی انتخابات کا انعقاد اپنا اصلی کردار یعنی منتخب اراکین کو جواز اور مینڈیٹ فراہم کرنا ادا نہیں کرسکتا۔ اسی طرح ان انتخابات کے ذریعے قومی یکجہتی کا حصول بھی ممکن نہیں۔ مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات میں عوام کی شرکت بہت کم رہی اور صرف جنرل السیسی کے حامیوں نے ہی ووٹ ڈالے۔ لہذا ایسے انتخابات ملک میں موجود سیاسی بحران پر قابو پانے میں مفید ثابت نہیں ہوسکتے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جنرل السیسی کی حکومت دہشت گردی میں پھیلاو کا بہانہ بنا کر اور اخوان المسلمین پر دہشت گردی کا الزام لگا کر فوج کی طاقت میں اضافہ کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ نئے ملکی آئین میں سکیورٹی فورسز اور فوج کو حد سے زیادہ اختیارات دے دیئے گئے ہیں، جن پر ملک کے آزادی پسند حلقوں کی طرف سے اعتراض بھی کیا گیا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ جنرل السیسی حالیہ انتخابات کے انعقاد کے ذریعے عوام کے حقیقی مطالبات پر توجہ دینے اور جمہوری حکومت کی تشکیل کیلئے ضروری اور بنیادی اقدامات انجام دینے کی بجائے سابق ڈکٹیٹر حسنی مبارک کی طرز کے سیاسی نظام کے نفاذ کی کوشش میں ہیں۔ حسنی مبارک اور ان کے بیٹوں کا کرپشن کے کیسز میں باعزت بری ہو جانا اور متنازعہ الیکشن میں قومی ڈیموکریٹک پارٹی سے وابستہ افراد کی شرکت نے السیسی حکومت کے اقدامات کو مزید مشکوک بنا دیا ہے۔ لہذا فوج کی جانب سے بندوق کے زور پر عوام کو الیکشن میں شرکت پر مجبور کرنے کے باوجود مصر کے 14 صوبوں میں انتخابات میں شرکت کی شرح بہت کم رہی ہے۔ لہذا سیاسی ماہرین کی نظر میں مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کے نتائج کو معتبر قرار نہیں دیا جاسکتا، خاص طور پر اس لئے کہ ان انتخابات میں غیر جانبدار بین الاقوامی مبصرین کو بھی نظارت کی اجازت نہیں دی گئی۔

اہم اور قابل توجہ نکتہ یہ ہے کہ اگلے دو ماہ میں مصر کے بقیہ 13 صوبوں میں انتخابات کی تکمیل کے بعد بھی ملک میں موجود سیاسی بحران کے حل کی امید دکھائی نہیں دے رہی، کیونکہ حکومت کی طرف سے اخوان المسلمین کو دبانے اور ختم کرنے کی تمام تر کوششوں کے باوجود یہ سیاسی جماعت اب بھی ایک مضبوط اور موثر اپوزیشن کا کردار ادا کرنے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہے۔ مصر کی فوجی حکومت جس قدر اخوان المسلمین کے خلاف اقدامات کی شدت میں اضافہ کرتی چلی جائے گی، اسی قدر مصری معاشرے میں مذہبی اور سیکولر طبقے کے درمیان خلیج اور تناو بھی بڑھتا چلا جائے گا۔ دوسری طرف تکفیری دہشت گرد عناصر نے صحرای سینا میں اپنی سرگرمیاں بڑھا دی ہیں اور وہ ملک میں موجود سیاسی خلفشار اور بحران سے سوء استفادہ کرتے ہوئے اخوان المسلمین کے سرگرم اراکین کو اپنے ساتھ ملانے کا ارادہ کرچکے ہیں۔ اگرچہ جنرل السیسی کی حکومت نے مصری معاشرے کی تمام تر مشکلات کی ذمہ داری اخوان المسلمین کی گردن پر ڈال کر اس کے خلاف بھرپور کارروائی شروع کر رکھی ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ملک میں سیاسی تناو اور بحران کی شدت میں اضافے کے باعث اقتصادی مسائل اور مشکلات بھی جنم لے رہی ہیں۔

مصر کی بدحال معیشت نہ صرف بہبود نہیں پا رہی بلکہ فوجی حکومت کی بے جا سختیوں اور طاقت کے استعمال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کار بھی مصر سے فرار اختیار کرچکے ہیں اور ملکی معیشت بد سے بدتر ہوتی چلی جا رہی ہے۔ عالمی تحقیقاتی اداروں کی پیش کردہ رپورٹس کے مطابق مصر کی آبادی کا نصف سے زیادہ حصہ غربت اور افلاس کا شکار ہے۔ بین الاقوامی اداروں نے مصر حکومت پر تاکید کی ہے کہ ملک کی اقتصادی صورتحال بہتر بنانے کیلئے سیاسی اصلاحات پر عملدرآمد ضروری ہے۔ ملک سے غربت کے خاتمے کا واحد راستہ جمہوری اداروں کا فروغ اور عوام کے جائز مطالبات پر توجہ دینا ہے۔ مصر کا موجودہ معاشرہ مستحکم ترقی کے معیاروں سے عاری ہے۔ صدر السیسی حسنی مبارک دور کے ایک فوجی جنرل ہونے کے ناطے صرف اور صرف اقتدار کو اپنا ہدف بنائے ہوئے ہیں۔ اگر وہ اپنے بعض ہمنوا سیاسی گروہوں کو کچھ حد تک اہمیت بھی دیتے ہیں تو اس کا مقصد خود کو جمہوری اقدار کا طرفدار ظاہر کرنے کے علاوہ کچھ نہیں، جبکہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال کیا جا رہا ہے۔ ایسی صورتحال میں مصر کے حالیہ پارلیمانی انتخابات کی کوئی حیثیت نہیں رہ جاتی اور انہیں صرف اور صرف فوجی حکومت کی جانب سے جمہوریت کا ڈرامہ رچائے جانے سے تعبیر کیا جاسکتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 497509
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش