0
Wednesday 3 Feb 2016 10:37

داعش تیزی سے اپنے انجام کیطرف بڑھ رہی ہے؟

داعش تیزی سے اپنے انجام کیطرف بڑھ رہی ہے؟
تحقیق و تنظیم: ایس این حسینی

شام اور عراق میں داعش اور دیگر دہشتگرد تنظیموں کے دن اب گنے جا چکے ہیں اور یوں لگ رہا ہے کہ داعش کو اپنا انجام اب نظر آنا شروع ہوگیا ہے۔ اگرچہ داعش اپنی ابتداء سے لیکر تقریباً چار پانچ سالوں کے دوران پوری دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے میں کامیاب رہی، تاہم شدت پسند، انتہا پسند اور دہشتگرد تنظیموں کی یہی بڑی کمزوری ہوتی ہے کہ وہ ابتداء میں بڑے اقدام اٹھاتے ہیں اور پہلے مرحلے میں پوری دنیا کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ لیکن کچھ ہی عرصہ میں وہ اتنی ہی تیزی سے پسپائی اختیار کر لیتے ہیں، جتنے تندھی سے پیشقدمی کرچکے ہوتے ہیں۔ اس کی مثال آپ کو طالبان کی افغانستان پر چند سالہ حکومت کی شکل میں مل سکتی ہے کہ انہوں نے کس طرح پورے افغانستان کو فتح کیا اور کس تیزی سے افغانستان سے فرار اختیار کرکے غاروں میں چھپ گئے۔ طالبان کے بعد القاعدہ نے بھی ایسی ہی شہرت حاصل کی، لیکن چند سالوں میں ہی گمنامیوں کے پیچھے چلے گئی۔ اسکے بعد عراق اور شام میں دولت اسلامیہ (داعش) کے نام سے موسوم  دہشتگرد تنظیم نے ایک عرصے تک اپنی دھاک بٹھائی اور عراق و شام کے ایک بڑے حصے کو تباہ و برباد کرنے کے علاوہ بڑی تعداد میں یہاں کے مردوں کو قتل، بچوں و خواتین کو غلام اور کنیزوں کی شکل میں فروخت کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی پسند کی خواتین سے محظوظ ہوکر انکی عزت کو تار تار کیا گیا۔ مگر یہ لوگ اس جرم میں تنہا نہیں تھے، بلکہ انکے ساتھ اس جرم میں ترکی، قطر، سعودی عرب اور دیگر عربوں کے علاوہ امریکہ، برطانیہ اور دیگر کئی یورپین ممالک بھی برابر کے شریک تھے۔ پیسہ سعودی عرب، اسلحہ امریکہ اور یورپ جبکہ زمین ترکی کی استعمال ہوتی رہی۔ لیکن یاد رکھیں، اللہ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔

انکے اور انکے سرپرستوں کی شکست اور ذلت کے ایام بہت قریب ہیں۔ آکسفورڈ یونیورسٹی کے مینز فیلڈ کالج میں آر اے آئی فیلو اور امریکن آرمی وار کالج کے اسٹرٹیجک سٹڈی انسٹی ٹیوٹ کے پروفیسر عظیم ابراہیم اس حوالے سے اپنے ایک کالم میں لکھتے ہیں۔ ‘‘عالمی جہاد کا تصور اپنی حالیہ شکل میں نوے کی دہائی سے موجود ہے اور یہ تعریف اسے افغانستان میں 1980ء سے 1990ء کی دہائیوں کے دوران جاری رہنے والی سوویت یونین کی جنگ اور اس کے بعد شروع ہونے والی تباہ کن خانہ جنگیوں کی وجہ سے دی گئی ہے۔ اسلام پرست مجاہدین نے آخرکار یہ جنگ جیت لی تھی۔’’ جبکہ اس حوالے سے صدیق ساگر اپنی کتاب ‘‘افغانستان پر کیا گزری’’ میں لکھتے ہیں کہ روس کی افغانستان سے پسپائی اور انخلاء کے بعد صدر پاکستان جنرل ضیاءالحق نے یوں کہا،  
‘‘چارلی نے یہ جنگ جیت لی’’ یعنی ضیاء کی نظر میں افغان جنگ مجاہدین نے نہیں بلکہ چارلی نے جیت لی تھی۔ خیال رہے چارلی کا تعلق امریکی محکمہ دفاع سے تھا، جو اکثر افغان مجاہدین کے ساتھ محاذ پر رہا کرتا تھا اور انہیں اسٹریٹیجک امداد کے علاوہ ضرورت کے  مطابق جدید اسلحہ کی سپلائی بھی ممکن بنا دیا کرتا تھا۔
کالم نگار اپنا موقف بیان کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے، یہ چیز کسی کے گمان میں بھی نہیں تھی کہ سوویت افواج کے انخلاء کے بعد اگلی دہائی میں مجاہدین کا نظریہ جہاد تیزی سے ابھرے گا اور کمیونزم کے خاتمے کے بعد لبرل مغرب کے سامنے نظریاتی مدمقابل اور جیو سیاسی دشمن کے طور پر سامنے آئے گا۔

سوویت کمیونزم اور مغربی سرمایہ داری نظاموں کے مابین سرد جنگ کے دوران افغانستان ایک اہم میدان جنگ ضرور بنا رہا، جس میں مغربی طاقتوں نے مجاہدین کی مالی اور فوجی امداد کی۔ مگر اس جنگ کے بعد ہونے والی عالمی جیو سیاسی رسہ کشی میں افغانستان کے بے انتہا اہمیت اختیار کرجانے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ وہ آگے لکھتے ہیں کہ کچھ اہم لوگوں پر مشتمل ایک گروپ کے لئے یہ جنگ سوویت یونین کی عملداری کے پھیـلاؤ کے خلاف لڑائی سے کہیں زیادہ اہمیت رکھتی تھی۔ پوری اسلامی دنیا اور اس کے باہر سے نوجوان افغانستان میں جمع ہوئے تھے۔ جس کا نتیجہ ایک مستقل عالمی جہاد کی شکل میں نکلا، جو افغانستان کے بعد پوری دنیا میں پھیل جانا تھا۔ جس میں عرب ممالک، افریقہ، چیچنیا، سابق یوگو سلاویہ، یورپ اور پھر نائن الیون کی شکل میں اپنے عروج پر جاپہنچا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ وہ سارے ممالک جنہوں نے افغان جہاد کے نام پر افرادی قوت فراہم کی تھی۔ وہ اس سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے۔ وہ مجاہدین جب اپنے اپنے ممالک کو لوٹ گئے تو انہوں نے وہ راستہ اختیار کرتے ہوئے اپنے اپنے ملکوں میں اپنی حکومتوں کے خلاف قیام شروع کر دیا۔ سعودی عرب، اردن، مصر، نائجیریا، تیونس، سوڈان، صومالیہ، لیبیا اور دیگر عرب ممالک میں جس جس ملک سے لوگوں نے افغان جہاد میں حصہ لیا تھا، وہ شہد کی مکھیوں کی طرح اپنے ہی میٹھے شہد میں پھنس گئے۔ جس سے نکلنا انکے لئے اب بہت ہی مشکل ہے۔

دہشت کا نظریہ
نوے کی دھائی کے بعد خود امریکہ کی ایما پر بننے والی تنظیم القاعدہ نے جب میدان میں قدم رکھا تو اس نے ابتداء میں انتہائی شہرت حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اکثر اسلامی مملک میں ہمدردیاں بھی حاصل کیں۔ خصوصاً نیویارک کے جڑواں ٹاورز پر حملے کی ذمہ داری قبول کرنے کے بعد تو اسامہ بن لادن نے ایک ہیرو کی شکل اختیار کی۔ القاعدہ کی جڑیں افغانستان میں تھیں جبکہ اسکی شاخیں عرب دنیا تک پھیل چکی تھیں۔ اس حوالے سے عظیم ابراہیم کا کہنا ہے کہ مغرب کو للکارنے والی اس تحریک کا روحانی قائد بننے والی پہلی تنظیم القاعدہ تھی، جس کی حکمت عملی مغرب کو مشرق وسطٰی کی جنگوں میں الجھا کر شکست دینا تھا۔ تاہم ان جنگوں یعنی افغانستان اور عراق سے مغرب اسطرح تو تباہ نہیں ہوا، جس طرح افغانستان کی جنگ میں سوویت یونین ہوا تھا، مگر کمزور ضرور ہوگیا۔ لیکن آہستہ آہستہ امریکہ اور مغرب کے مقابلے میں پسپائی اختیار کر لینے نیز اپنے حملوں کا توپخانہ مسلم دنیا خصوصاً عراق، یمن اور لیبیا وغیرہ کی جانب موڑنے پر انکی شہرت کا گراف نہایت تیزی کے ساتھ گرنا شروع ہوگیا اور اسلامی دنیا میں انکی مقبولیت میں کمی واقع ہوتی گئی۔ لہذا یہاں سے انکی تباہی کے ایام شروع ہوگئے۔

فاضل کالم نگار اپنے کالم میں آگے لکھتا ہے
ادھر کئی ناکام ریاستوں کے ملبے سے ایک نئی تنظیم، ایک نیا طریقہ کار لئے ابھری، جس کا نام دولت اسلامیہ برائے عراق اور شام یعنی داعش ہے۔ ایسے میں جب القاعدہ کی گوریلا حکمت عملی کی ناکامی کا آغاز ہوچکا تھا، داعش نے اسکے بجائے نئی اسلامی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا، تاکہ مغربی عالمی نظام کے متبادل کے طور پر ایک مثالی اسلامی ریاست کے تصور کو عملی شکل دی جاسکے اور یوں وہ پوری دنیا کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب بھی ہوگئی۔ اپنا موقف بیان کرتے ہوئے فاضل لکھاری آگے لکھتے ہیں، داعش نے پچھلے چار پانچ سال سے عالمی سیاسی منظر پر ایک غلبہ سا حاصل کیا ہوا ہے۔ وہ مغرب کو مشرق وسطٰی کی ایک اور جنگ میں کھینچ کر لانے میں تقریباً کامیاب بھی ہوگئی تھی، مگر مغرب نے اپنے بجائے روس کو اس جال میں پھنسا دیا اور جب عراق اور شام اور کسی حد تک لیبیا، دنیا کی توجہ کا مرکز بنے تو بحیرہ روم کا پورا مشرقی علاقہ عالمی جہاد کے تصور کی عملی شکل بن کر رہ گیا۔ داعش کی پروپیگنڈہ مشین نے دیگر تمام مسابقین تنظیموں کو پیچھے چھوڑ دیا اور دنیا بھر سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ "اسلامی خلافت" کا حصہ بننے کی آرزو کرنے لگے۔ نہ ٖصرف گڑ بڑ کا شکار مسلم ممالک کے لوگ بلکہ مغرب میں بھی کئی خود ساختہ دہشت گردی کے سیل داعش کے اطاعت گزار بن گئے۔ داعش نے ان تمام لوگوں کو مربوط کرنے اور ان کی قوت کو خود ساختہ اسلامی ریاست کے استحکام کے لئے استعمال کرنے کی بھرپور کوشش کی۔

قوت میں کمی
ابراہیم آگے لکھتے ہیں، شروع میں تو جہادیوں کے لئے ماحول سازگار رہا، مگر پچھلے کئی ماہ سے حالات بدلنے لگے۔ داعش کا سب سے مؤثر اثاثہ اس کی فوجی قوت تھی، جس کے ذریعے اس نے گمنامی سے نکل کر شام اور عراق کے کئی علاقوں اور شہروں پر اچانک قبضہ کر لیا تھا۔ اب یہ قوت زائل ہوچکی ہے۔ ابتدا میں داعش سنّی اکثریتی علاقوں کے نواح پر قبضہ کرلیتی تھی لیکن اکثر مواقع پر یہ زیادہ دیر برقرار نہیں رہتا تھا، مگر اب داعش میں ایسی کارروائی کرنے کی صلاحیت بھی باقی نہیں رہی ہے۔ سابق سینیٹر علامہ سید عابد الحسینی کے مطابق جسکا اظہار انہوں نے موصل کے سقوط کے فوراً بعد کیا تھا کہ داعش کو اپنی طاقت کا اندازہ تب ہوجائے گا جب یہ شیعہ علاقوں کی جانب بڑھنے کی جسارت کریں گے، کیونکہ انہیں تو ابھی تک کسی مزاحمت کا سامنا کرنا ہی نہیں پڑا ہے۔ جن علاقوں کو انہوں نے فتح کیا ہے، انکے لوگ حتی کہ انکے حکام سب کے سب انکے ہم نوالہ و ہم پیالہ ہیں۔ لہذا اسی طرح ہوا کہ جب شیعہ علاقوں کی طرف انہوں نے پیش قدمی کی اور یہاں تک کہنے کی جسارت کی کہ کربلا و نجف کو مسمار کر دیا جائے گا۔ تو مجتہدین عظام خصوصاً آیت اللہ سید علی سیستانی کے فرمان پر لاکھوں شیعہ اور معتدل سنی رضاکاروں نے جہاد کے لئے آمادگی ظاہر کی اور داعش کو بڑھنے کا موقع دینے سے پہلے ہی ان پر ھلہ بول دیا۔ اور انہیں ایک ایک ضلع سے پسپائی پر مجبور کر دیا۔

امریکی پروفیسر کا خیال کچھ اسطرح  ہے، شمالی علاقوں میں کرد اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں ہیں اور مغربی افواج کی فضائی بمباری ان کی مددگار ہے۔ عراق نے مشرق اور جنوب مشرق میں ایران کی مدد سے اور مغرب میں شامی حکومت کی مدد سے داعش کی پیش قدمی نہ صرف روک دی ہے بلکہ انہیں پسپائی مجبور کیا ہے۔ تاہم ان کامیابیوں کی پسپائی کے خطرات بھی محسوس کئے جا رہے ہیں۔ اس جنگ میں بشار الاسد کی حمایت میں روسی فوجی مداخلت نے پانسہ بالکل پلٹ دیا ہے اور اب یہ قوتیں داعش کے خلاف مستحکم نظر آتی ہیں۔’’ شامی حکومت مجبور ہوگئی کیونکہ شام تنہا پورے عرب، یورپ اور امریکہ کے دھشتگردوں اور انکے اسلحے کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی، چنانچہ روس سے فوجی مداخلت کرنے کے لئے وہ مجبور ہوگئے۔ دوسری جانب عراق کو جسے وہ اپنا اتحادی سمجھ رہے تھے۔ امریکہ اور یورپ نے ایک عرصہ تک دھوکے میں رکھا، عراق کی جانب سے بار بار فضائی معاونت کی درخواست کے باوجود کوئی جواب نہیں ملا بلکہ یہاں تک کہ اگر کہیں کچھ اسلحہ عراقی حکومت کو عنایت کر بھی لیتے تو اس سے دوگنا اسلحہ جہاز سے داعش کے زیر قبضہ علاقوں میں پھینکدیتے اور پھر عذر خواہی کرتے ہوئے کہدیتے کہ غلطی ہوگئی ہے۔ تاہم داعش کی شکست کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ عراق اور شام دونوں میں داعش سے سب سے زیادہ سنی ہی متاثر ہوئے۔ انہی کی عزتیں لٹ گئیں۔ چنانچہ پھر سنی اور شیعہ متفق ہوگئے اور متفقہ طور پر ان پر حملہ کیا۔ انہیں عبرتناک شکست سے دوچار کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔

کالم نگار اپنے موقف کا اظہار کرتے ہوئے آگے لکھتا ہے
اب اس بات کا امکان پیدا ہوچلا ہے کہ ان لڑائیوں کی طوالت کے باعث داعش کی قوت بکھر جائے گی اور نئی افرادی قوت فراہم نہ ہونے کے باعث یہ گروپ اپنے مفتوحہ میدان چھوڑ کر چلا جائے گا۔ اس صورت میں یہ بھی امکان ہے کہ داعش کا وجود ختم ہوجائے گا۔ یہ امکانی صورت آسانی سے حاصل نہیں ہوسکے گی، مگر اٖغلب امکان یہی لگتا ہے۔ اس صورتحال نے جہادیوں میں ایک اور جنگی پینترے کی تبدیلی کو جنم دیا ہے اور وہ یہ ہے کہ اب ان کے پروپیگنڈے کا رخ خلافت کے لئے نئے جنگجووں کو بھرتی کرنے کے بجائے القاعدہ کی پرانی حکمت عملی کی طرف واپس ہوگیا ہے یعنی خودرو دہشتگردی کے سیل قائم کرکے جارح ممالک کو غیر مستحکم کرنا۔ انکے اس موقف سے اتفاق کیا جاسکتا ہے کہ ایسی تنظیمیں اپنی شکست کے بعد یہی راستہ اختیار کرتی ہیں۔ جیسے طالبان، القاعدہ، صدامیوں وغیرہ نے اختیار کیا تھا اور یہ بھی واضح ہے کہ شکست خوردہ عناصر کے آقا بھی آرام سے نہیں بیٹھیں گے بلکہ انہیں ہر قسم کی معاونت فراہم کرکے فاتح فریق کے خلاف استعمال کرتے رہیں گے۔ جس کی مثال مجاہدین خلق، افغان مجاہدین، یمن کے باغی صدر کی شکل میں دنیا کے سامنے موجود ہے۔ امریکی اسکالر کا کہنا ہے کہ جب بھی اس خود ساختہ خلافت کا خاتمہ ہوگا، خطرہ ہے کہ ان جنگجووں کے گروہ پورے خطے میں اور اس سے بھی آگے تک پھیل جائیں گے۔ لیکن اس دوران مقامی طور پر تشکیل پانے والے دہشت گرد سیل نئے حملوں کی تیاری کر رہے ہیں، جیسا کہ انڈونیشیا، پیرس اور امریکہ میں ہوئے۔ وہ اس بات کے قائل لگتے ہیں کہ عالمی سطح پر اپنا اثر و رسوخ باقی رکھنے کا یہ موثر ترین طریقہ ہے۔ لگتا ہے کہ داعش کو اپنا انجام نظر آنا شروع ہوگیا ہے، ہمیں انتظار کرنا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 517774
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش