0
Saturday 12 Mar 2016 18:35
3 جمادی الثانی، روز شہادت حضرت فاطمہ (س) کی مناسبت سے

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، قرآن کے آئینے میں

حضرت فاطمہ سلام اللہ علیھا، قرآن کے آئینے میں
تحریر: حبیب چاپچیان

حضرت فاطمہ زہرا سلام اللہ علیہا کا شمار چودہ معصومین اور اولیاء الہی میں ہوتا ہے۔ قرآن کریم میں خداوند متعال نے اہلبیت اطہار علیھم السلام کی شان میں بہت سی آیات نازل فرمائی ہیں جن میں سے بعض درج ذیل ہیں:

1)۔ آیت تطہیر:
إِنَّمٰا يُرِيدُ اَللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ اَلرِّجْسَ أَهْلَ اَلْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً [سورہ احزاب، آیت 33]۔
ترجمہ: "اے (پیغمبر (ص) کے) اہل بیت، خدا چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دور کر دے اور تمہیں بالکل پاک صاف کر دے"۔


اس آیہ شریفہ کے شان نزول میں کئی متواتر احادیث موجود ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ آیت حضرت ام سلمہ کے گھر میں نازل ہوئی۔ جب یہ آیت نازل ہوئی اس وقت پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم، حضرت فاطمہ سلام اللہ علیہا اور حضرت حسن اور حسین علیھما السلام ایک جگہ جمع تھے۔ حضرت ام سلمہ نبی اکرم (ص) سے درخواست کرتی ہیں کہ مجھے بھی اپنے درمیان آنے اور چادر کی نیچے جمع ہونے کی اجازت فرمائیں جس پر آپ (ص) انہیں منع کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "آپ داخل نہ ہوں، اگرچہ آپ بھی اچھائی پر گامزن ہیں لیکن یہ آیت ہم پنجتن سے مخصوص ہے"۔ جن اصحاب نے اس آیت کے شان نزول اور اس کا پنجتن سے مخصوص ہونے کو بیان کیا ہے اور ان کی احادیث متواتر ہیں ان کے نام یہ ہیں: سعد بن ابی وقاص، ابو حمراء ہلال، ام سلمہ، حضرت عائشہ، ابوہریرہ، معقل بن یسار، ابو الطفیل، جابر بن عبداللہ، ابو برزہ اسلمی اور مقداد بن اسود۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حضرت فاطمہ (س) بھی "اہلبیت" میں شامل ہونے کے ناطے آیت تطہیر کی مخاطب قرار پائی ہیں، پیغمبر اکرم (ص) نے اپنی زندگی میں اہلبیت کا مصداق واضح کیا ہے۔ 9 اصحاب نے نقل کیا ہے کہ اس آیہ شریفہ کے نازل ہونے کے بعد رسول اکرم (ص) ہر روز نماز فجر کیلئے بیدار ہونے کے بعد جب مسجد کی جانب تشریف لے جاتے تو راستے میں حضرت فاطمہ (س) کے خانہ مبارک پر رکتے اور اونچی آواز میں فرماتے: "السلام علیک یا اھل البیت، إِنَّمٰا يُرِيدُ اَللّٰهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ اَلرِّجْسَ أَهْلَ اَلْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيراً"۔

مسند احمد، جلد 2، صفحہ 259 – 285 اور شواہد التنزیل، جلد 2، حدیث 637، 638، 639، 644 اور 773 میں راوی کہتا ہے: "میں 6 ماہ تک مدینہ میں تھا اور میں نے دیکھا کہ نبی اکرم (ص) ہر روز یہ کام انجام دیتے تھے"۔

2) آیت مباہلہ:
فَمَنْ حَاجَّكَ فِيهِ مِنْ بَعْدِ مٰا جٰاءَكَ مِنَ اَلْعِلْمِ فَقُلْ تَعٰالَوْا نَدْعُ أَبْنٰاءَنٰا وَ أَبْنٰاءَكُمْ وَ نِسٰاءَنٰا وَ نِسٰاءَكُمْ وَ أَنْفُسَنٰا وَ أَنْفُسَكُمْ ثُمَّ نَبْتَهِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اَللّٰهِ عَلَى اَلْكٰاذِبِينَ [سورہ آل عمران، آیت 61]۔
ترجمہ: "پھر اگر یہ لوگ عیسیٰ کے بارے میں تم سے جھگڑا کریں اور تم کو حقیقت الحال تو معلوم ہو ہی چلی ہے تو ان سے کہنا کہ آؤ ہم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلائیں تم اپنے بیٹوں اور عورتوں کو بلاؤ اور ہم خود بھی آئیں اور تم خود بھی آؤ پھر دونوں فریق (خدا سے) دعا و التجا کریں اور جھوٹوں پر خدا کی لعنت بھیجیں"۔

یہ آیہ شریفہ واضح طور پر اس بات کی جانب اشارہ کر رہی ہے کہ جب پیغمبر اکرم (ص) نے نجران کے مسیحی علماء سے مباہلہ کیا تو حضرت فاطمہ (س) بھی آپ (ص) کے ہمراہ موجود تھیں۔ حضرت فاطمہ (س) کے مقدس وجود کا ذکر دیگر چار معصومین کے ساتھ اس آیت میں آیا ہے۔ اس بات کے پیش نظر کہ مباہلہ (ایکدوسرے پر نفرین بھیجنا) کوئی معمولی امر نہیں اور معمولی انسان مباہلہ میں شریک نہیں ہو سکتے لہذا صرف پاک اور مقدس ہستیاں ہی مدمقابل کو جھوٹا ثابت کرنے کیلئے اس پر لعنت اور نفرین کر سکتی ہیں۔ چونکہ جب تک ایک انسان بارگاہ خداوند میں مقرب اور چنا ہوا نہیں ہوتا اس کی نفرین موثر ثابت نہیں ہو سکتی۔ حضرت فاطمہ (س) کی شخصیت بھی ایسی ہی تھی لہذا وہ بھی اس آیہ شریفہ کا مصداق قرار پائیں۔

3)۔ سورہ بقرہ، آیت 37۔
فَتَلَقّٰى آدَمُ مِنْ رَبِّهِ كَلِمٰاتٍ فَتٰابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ اَلتَّوّٰابُ اَلرَّحِيمُ
ترجمہ: "پھر آدم (ع) نے اپنے پروردگار سے کچھ کلمات سیکھے (اور معافی مانگی) تو اس نے ان کا قصور معاف کر دیا، بے شک وہ معاف کرنے والا (اور) صاحبِ رحم ہے"۔


اس آیہ شریفہ کی تفسیر میں بعض ایسی احادیث موجود ہیں جن میں انتہائی گہرے حقائق سے پردہ اٹھایا گیا ہے اور ان سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت فاطمہ (س) کا مقدس وجود اس کائنات کی خلقت کا باعث بنا ہے۔ جس طرح پیغمبر اکرم حضرت محمد مصطفی (ص)، حضرت امام علی (ع)، حضرت امام حسن (ع) اور حضرت امام حسین (ع) خلقت کائنات کا باعث اور سبب ہیں اسی طرح حضرت فاطمہ (س) بھی کائنات کی خلقت کا سبب ہیں۔ ابن عباس پیغمبر اکرم (ص) سے روایت نقل کرتے ہیں جس کا خلاصہ یہ ہے: "خداوند متعال کی جانب سے حضرت آدم (ع) کو خلق کئے جانے اور فرشتوں کا آپ کو سجدہ کرنے کے بعد آپ اپنے اوپر فخر محسوس کرنے لگے اور خدا سے کہنے لگے: خدایا، کیا تو نے ایسی مخلوق پیدا کی ہے جو تیرے نزدیک مجھ سے زیادہ محبوب ہو؟ خداوند متعال نے حضرت آدم (ع) کو جواب دیا: ہاں۔ اس کے بعد امر خداوندی سے پردے ہٹے اور پانچ نور ظاہر ہوئے جو خداوند متعال کے حضور عرش پر کھڑے تھے۔ حضرت آدم (ع) نے پوچھا: یہ کون ہیں؟ خداوند متعال نے جواب دیا: یہ میرا نبی، یہ علی امیرالمومنین نبی کا چچازاد، یہ فاطمہ نبی کی بیٹی اور یہ دو حسن اور حسین علی کے بیٹے اور پیغمبر کی اولاد ہیں۔ انہیں پہلا مقام حاصل ہے، ان کے درجات بہت بلند ہیں اور تیرا درجہ ان سے نیچے ہے۔ بعد میں جب حضرت آدم (ع) ترک اولی کے مرتکب ہوئے تو انہوں نے خداوند متعال سے عرض کی: خدایا، میں تجھ سے بحق محمد و علی و فاطمہ و حسن و حسین دعا کرتا ہوں کہ میری خطا معاف فرما۔ حضرت آدم (ع) کی دعا مستجاب ہوئی اور وہ غفران و عفو پروردگار کے حقدار پائے۔ یہ اسی آیت کا معنی ہے جس میں خدا فرماتا ہے: پس آدم (ع) نے خدا سے کلمات سیکھے اور ان کلمات کے ذریعے اس کی توبہ قبول ہوئی"۔ [الخصائص العلویہ، ابو الفتح محمد بن علی نطنزی؛ الغدیر، جلد 7، صفحہ 301]۔

4)۔ آیت مودت:
قُلْ لاٰ أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ اَلْمَوَدَّةَ فِي اَلْقُرْبىٰ [سورہ شوری، آیت ۲۳]۔
ترجمہ: "(اے پیغمبر ص) کہہ دو کہ میں اس کا تم سے صلہ نہیں مانگتا مگر اپنے عزیزوں سے محبت"۔


پیغمبر اکرم (ص) نے خداوند متعال کی جانب سے اپنی رسالت کا اجر اپنے عزیز و اقارب سے محبت کی صورت میں بیان کیا ہے۔ یعنی صرف اہلبیت رسول اللہ (ص) کی محبت ہی آپ (ص) کی عظیم رسالت کا اجر قرار پا سکتی ہے۔ یہ قیمتی محبت پیغبر اکرم (ص) کی رسالت کی ہم پلہ ہے اور تمام شیعہ اور سنی علماء دین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ آیت اہلبیت عصمت و طہارت یعنی علی، فاطمہ، حسن و حسین علیھم السلام کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ احمد ابن حنبل مناقب میں، حافظ ابن منذر، حافظ ابن ابی حاتم، حافظ طبرانی، حافظ ابن مردویہ، واحدی مفسر، ثعلبی مفسر، حافظ ابو نعیم، بغوی مفسر اور ابن مغازلی فقیہ ابن عباس سے روایت کرتے ہیں: "یہ آیہ نازل ہونے کے بعد ہم نے پیغمبر اکرم (ص) سے سوال کیا: یا رسول اللہ (ص)، آپ کے عزیز و اقارب جن سے محبت ہم پر واجب قرار پائی ہے کون ہیں؟ آپ (ص) نے جواب میں فرمایا: علی، فاطمہ، ان کے دو فرزند (حسن و حسین)"۔

محب الدین طبری ذخائر میں، زمخشری کشاف میں، حموینی فرائد میں، نیشاپوری اپنی تفسیر میں، ابن طلحہ شافعی مطالب السوول میں، رازی اپنی تفسیر میں، ابو السعود اپنی تفسیر میں، ابو حیان اپنی تفسیر میں، نسفی اپنی تفسیر میں، حافظ ھیثمی مجمع میں، ابن صباغ مالکی وغیرہ نے مذکورہ بالا روایت کو نقل کیا ہے۔ قسطلانی المواھب اللدنیہ میں کہتا ہے: "خداوند متعال نے پیغمبر اکرم (ص) کے عزیز و اقارب کی محبت کو واجب قرار دیا ہے اور آیہ شریفہ قُلْ لاٰ أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ اَلْمَوَدَّةَ فِي اَلْقُرْبىٰ اہلبیت اطہار علیھم السلام کی محبت واجب کرنے کیلئے نازل ہوئی ہے۔




خبر کا کوڈ : 523807
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش