0
Thursday 5 May 2016 07:02

طلوع ہدایت

طلوع ہدایت
تحریر: فرقان گوہر

«پڑھو خداوند کے بابرکت نام سے جو خالق ہستی ہے، جس نے انسان کو ایک لوتھڑے سے پیدا کیا، پڑھو کہ خداوند متعال سب سے زیادہ کریم ہے، جس نے قلم کے ذریعے تعلیم دی اور انسان کو وہ سکھایا جسے وہ نہیں جانتا تھا»(سوره علق:1-5) آج ستائیسویں رجب المرجب یعنی وہ بابرکت دن ہے، جب پیامبر اسلام (ص) کی بعثت کے چڑھتے سورج نے اپنی کرنیں افق عالم پر نچھاور کیں اور جہالت و نادانی و کفر و شرک کے اندھیروں کو قرآنی ہدایت کی نورانی جھلک دکھائی دی۔ غار حرا سے تجلی حق کا آغاز، پیغمبر اسلام کے قلب اطہر پر ہوا اور اس تجلی کا نتیجہ وہ پیغام رسالت تھا، جس میں دکھی انسانیت کے لئے شفابخش سرمایہ ہدایت بے پناہ موجود تھا۔ یہ پیغام جس کتاب میں نازل ہوا، وہ سید الکتب کہلائی اور جس ہستی کے ہاتھوں بھجوایا گیا وہ انبیاء کی صف میں خاتم الانبیاء کہلائے اور رسولوں کے درمیان سید المرسلین کا لقب پایا۔

قابل غور بات یہ ہے کہ اس پیغام کا آغاز پڑھنے لکھنے سے ہوا، اس میں انسانی خلقت کے بعد قلم  اور علم الٰہی کا تذکرہ کیا۔ شاید یہ بتانے کے لئے کہ کسی بھی قوم کو شعور دینے کے لئے سب سے پہلے انہیں علم کی روشنی سے نوازنا ضروری ہے۔ آپ جانتے ہیں کہ قلم کا انسانی معاشروں پر کتنا احسان ہے۔ یہی وہ قلم ہے جس نے انسانیت کے تاریخی تجربات، علمی مکشوفات اور دینی و مذہبی تعلیمات کو اگلی نسلوں تک پہنچانے میں بنیادی کردار ادا کیا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ جو علم قلم کی گرفت سے باہر نکل گیا، وہ محفوظ نہ رہ سکا۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ اس سورہ مبارکہ کا آغاز  پڑھنے لکھنے سے اور انجام سجدے پر ہوا، شاید یہ پیغام اس میں نہاں ہو کہ علم تبھی مایہ سعادت بن سکتا ہے، جب خدا کے سامنے جھکانا سکھائے، ورنہ فرعون و قارون بنا دیتا ہے۔

بعثت کا مقصد کیا ہے؟ قرآن کریم بعثت کا مقصد تین چیزیں بتاتا ہے۔ تلاوت آیات الٰہی، تزکیہ نفس اور تعلیم کتاب و حکمت۔ یہاں آیات اور کتاب میں فرق ہے۔ آیات الٰہی فقط قرآن نہیں بلکہ «سَنُريهِمْ آياتِنا فِي الْآفاقِ وَ في‏ أَنْفُسِهِمْ » (فصلت:۵۳) کی رو سے، کائنات کے اندر پائی جانے والی اشیاء آیت الٰہی یعنی خدائی نشانیوں کا درجہ رکھتی ہیں۔ ہر آیت کسی نہ کسی انسان کی سمجھ میں آ جائے تو وہ ہدایت پا جاتا ہے، اسی لئے تو خداوند متعال بھی مختلف قسم کی آیتیں بیان کرتا ہے، ان فی ذلک لایات للعالمین، ان فی ذالک لایات للموقنین، و۔۔۔ لقوم یسمعون، لقوم یتفکرون، وغیرہ۔ اس نظام ہدایت کا بہترین اور اولین نتیجہ انسانی زندگی کے ہر میدان میں اور ہر حرکت و سکون پر خدائی اقدار کے نفاذ کی شکل میں سامنے آیا۔ چنانچہ مال و دولت تو اپنی جگہ، اخوت کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے، انصار مدینہ مہاجرین کی خاطر اپنی بیویوں کو  بھی طلاق دینے کے لئے تیار ہوگئے، تاکہ وہ ان سے شادی کرسکیں۔

آنحضرت (ص) کا ہنر یہ تھا کہ توحید پروردگار کو زبانی کلامی اور عقلی و فلسفی بحثوں سے بچا کر انسانوں کی زندگی میں اسے مجسم کر دکھایا اور ایمان کی صورت ان کے دلوں میں اسے زندہ کر دیا۔ چنانچہ  قرآن کی گواہی کے مطابق، جب اللہ تعالٰی کا ذکر ہوتا تو ان کے دل کانپ اٹھتے اور جب آیات الٰہی کی تلاوت ہوتی تو ان کے ایمان میں مزید اضافہ ہو جاتا۔ اسی توحید کی بدولت ان کے دلوں میں دنیا کی دولت ہیچ ہو کر رہ گئی اور ایثار و قربانی کا جذبہ اپنے عروج کو چھوتا نظر آیا۔ یہاں تک کے خود بھوکے سو گئے اور اپنا کھانا کبھی یتیم، کبھی مسکین تو کبھی اسیر کے حوالے کر دیا۔ آج کی مسلم دنیا، بحث و مباحثے میں بہت آگے لیکن عمل کے میدان میں سب سے پیچھے ہے۔ یہ بغیر اتحاد و اتفاق کے عزت و اقتدار کے خواہاں ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ بغیر عمل صالح کے پاداش کے چکر میں ہے، قرآن گواہ ہے کہ ایسا نہیں ہوسکتا۔ یہ فقط آرزووں کے پل باندھے جا رہے ہے، قرآن کہتا ہے کہ آرزوئیں تو چاہے جس کسی کی بھی ہوں، ان کی کوئی قیمت نہیں، اصل قیمت عمل صالح کی ہے۔

قرآن ہمیں مشورے کی دعوت دیتا ہے، ہمارے معاشرے میں ابھی تک استبدادی نظام پر قائم ہیں۔ قرآن کریم ہمیں شفقت اور محبت کا درس دیتا ہے، جبکہ آج ہم چھوٹے چھوٹے مذہبی اختلافات پر منافرت اور دوریوں کو فروغ دے رہے ہیں۔ قرآن کہتا ہے کہ ایمان لانے والے ایک دوسرے کے بھائی ہیں اور ہم ایک دوسرے کو ذبح کر رہے ہیں۔ قرآن ہمیں متواضع دیکھنا چاہتا ہے، ہمارا تکبر تو فرعون، نمرود اور قارون کو بھی شرمند کر رہا ہے۔ قرآن کہتا ہے کہ نیکی کو تب تک نہیں چھو سکتے، جب تک اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے کچھ خرچ نہ کرو اور آج ہم پھوٹی کوڑی کسی محتاج کو دینے کے لئے تیار نہیں۔ قرآن مومن پر کافر کے تسلط کا مخالف ہے، جبکہ آج ہم اپنے کردار اور اعمال کے نتیجے میں ان کے سامنے گھٹنے ٹیک چکے ہیں۔ قرآن کریم ہمیں مال اور نفوس کے ذریعے جہاد کی دعوت دیتا ہے، جبکہ ہم اپنے نفس کی خواہشات کے سامنے ذلیل و رسوا ہیں۔ میں کہاں تک گنواوں، آپ قرآنی دستوارت کا مطالعہ کرتے جائیں اور اپنی زندگی پر اسے مطابقت دیتے جائیں، پھر معلوم ہوگا کہ ہم خدا کی کتاب، اس کے دین اور اس کی شریعت و قانون سے کس قدر دور ہیں؟ پھر بھی ہم مسلمان ہیں۔ دلیل مسلمانی کیا ہے؟ یہی ناکہ ہم ایک مسلم گھرانے کی پیداوار ہیں۔
خبر کا کوڈ : 536971
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش