0
Wednesday 18 May 2016 21:57

وزیراعظم کا دورہ رتہ کلاچی (ڈی آئی خان)

وزیراعظم کا دورہ رتہ کلاچی (ڈی آئی خان)
تحریر: آئی اے خان

دریائے سندھ کے کنارے آباد ڈیرہ اسماعیل خان سرائیکی وسیب کا ایسا شہر ہے کہ جسے کبھی "پھلاں دا سہرا" کہا جاتا تھا، اب کانٹوں کے مسکن میں بدل چکا ہے۔ کبھی اس شہر میں تفریحی سرگرمیاں، محافل یاراں اور ثقافتی کھیل و میلے سجتے تھے تو اب دہشت گردی، ٹارگٹ کلنگ، سرچ اینڈ سٹرائیک آپریشنز اور احتجاج یہاں کا خاصہ ہیں۔ ظلم کی آندھی نے اس شہر کو اپنی لپیٹ میں یوں لیا کہ دہشت کی گرد نے ہر چہرے کو دھندلا کر رکھ دیا اور کوئی بھی آنکھ خشک نہ رہی۔ یہ حقیقت بھی اپنی جگہ کہ صاحبان اقتدار نے کبھی یہاں کے مظلوم شہریوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی کوشش نہیں کی، بلکہ یہاں کے شہریوں کی داد رسی کرنے میں ذاتی، سیاسی و دیگر مفادات ہمیشہ ہی ان کے آڑے آتے رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہاں بے گناہ لہو جابجا گرنے کے باوجود کوئی وفاقی یا صوبائی نمائندہ خالصتاً اس مقصد کیلئے حاضر نہیں ہوا کہ جاری ظلم اور ظالموں کی مذمت کرے یا غمزدہ خانوادوں کی تسلی و تشفی کرے۔ البتہ سیاسی گرگوں نے اپنی اپنی ضرورت کے تحت یہاں عوامی پنڈال ضرور سجائے ہیں، جس میں کبھی پارٹی رہنماؤں نے شہر کی تقدیر بدلنے کے دعوے کئے تو کبھی ضلعی، صوبائی یا ملکی سربراہوں نے زبانی جمع خرچ سے عوام کی آنکھوں میں امید و آس کے دیئے روشن کئے، مگر نصیب و مقدر کی عدم یاوری کہ نہ کوئی وعدہ ایفا ہوا اور نہ کوئی دعویٰ زبان کی لاج رکھ پایا۔

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کے دورہ ڈی آئی خان کے اعلان سے قبل ہی شہر میں ٹارگٹ کلنگ کا بازار گرم تھا۔ جس کے خلاف ہر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی۔ شہر میں داخلی صورت حال کا یہ عالم کہ ایک ہی دن میں چار چار بے گناہ افراد قتل ہوئے اور قاتل تاحال گرفتار نہ ہوسکے۔ باوجود اس کے ان قاتلوں کے چہرے کئی کئی کیمروں نے محفوظ کئے۔ ضلعی انتظامیہ نے وزیراعظم کے دورے سے چند روز قبل یہ دعویٰ بھی کر دیا کہ ٹارگٹ کلرز کے سہولتکاروں کو گرفتار کر لیا ہے، مگر جب سہولتکاروں کے نام سامنے آئے تو معلوم ہوا کہ ان کی گرفتاری تو ٹارگٹ کلنگ کے سانحات سے پہلے ہی عمل میں آچکی تھی، یعنی عوام کو بے وقوف بنانے کی ازلی پالیسی پر عمل کیا گیا۔ ہونا تو یہ چاہیئے تھا کہ وفاق کے زیرانتظام سکیورٹی و نظم و نسق کے ادارے وزیراعظم کے دورہ سے قبل یہاں کے شہریوں کے تحفظات دور کرتے اور ان کے مطالبات پر عملدرآمد یقینی بناتے۔ تاہم ایسا کچھ نہیں ہوا۔ البتہ وزیراعظم کی حفاظت اور دورے کے دوران ناخوشگوار خبروں سے بچنے کیلئے پولیس نے کچھ مخصوص علاقوں کا آپریشن کرکے کئی مشتبہ افراد کو گرفتار کرلیا۔ شائد کہ شہر کے امن و امان کی خاطر پولیس و انتظامیہ اتنی مستعدی کا مظاہرہ کرے تو نہ صرف شہر میں امن برقرار رہے بلکہ مجرم بھی قانون کی گرفت میں ہوں۔

مورخہ 17 مئی 2016ء وزیراعظم نواز شریف نے جب رتہ کلاچی (اتفاق سے جو ڈی آئی خان میں ہے، اور مولانا فضل الرحمن کی رہائشگاہ سے قریب اور شہر سے ذرا ہٹ کے) سٹیڈیم کا دورہ کیا تو عدالتوں میں وکلاء کی ہڑتال کا چوتھا دن تھا اور سائلین دربدر پھر رہے تھے، جبکہ وکلاء کا مطالبہ تھا کہ شہید ہونے والے وکلاء کے قاتلوں کو گرفتار کیا جائے (یاد رہے کہ پانچ مئی کو ٹارگٹ کلنگ میں نشانہ بننے والوں میں دو وکلاء بھی شامل تھے)۔ وکلاء کا ایک مطالبہ یہ بھی تھا کہ ان کے وفد کو وزیراعظم سے ملاقات کا موقع دیا جائے، تاہم وکلاء کے ان جائز مطالبات کو جے یو آئی نے رد کیا اور اس پر عملدرآمد نہیں ہونے دیا۔ یہاں تک کہ وزیراعظم کے سامنے کسی ایک فرد واحد نے بھی شہر کے امن کے حوالے سے بات کرنے کی جرات نہیں کی۔ شائد کہ اس کی اکلوتی وجہ یہی ہو کہ ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ تمام تر لوکل (سرائیکی) بن رہے ہیں، جبکہ وزیراعظم افغان نژاد پٹھانوں کے مہمان تھے۔ جن کی کرم نوازیوں سے آج ڈیرہ اسماعیل خان میں آبادی کا تناسب یکسر بدل چکا ہے، ماضی قریب میں یہاں سرائیکی اسی فیصد سے زائد جبکہ دیگر قومیتیوں کے لوگ بیس فیصد سے بھی کم تھے۔ یہاں کی لوکل آبادی کو اندھی دہشتگردی سے یوں بے دریغ نشانہ بنایا گیا کہ آج یہاں کا لوکل شہری باہر سے آئے لوگوں کو زندہ رہنے کا خراج ادا کرنے پر مجبور ہے۔

مورخہ 6 مئی کو ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کے دوران شیعہ علماء کونسل نے اعلان کیا تھا کہ شہر میں جاری ٹارگٹ کلنگ کے مجرم اگر وزیراعظم کے دورے سے قبل گرفتار نہیں ہوئے تو ایس یو سی وزیراعظم کے دورے کے دوران بھرپور احتجاج کرے گی، وزیراعظم کے راستے میں احتجاجی کیمپ لگائے گی، مگر ٹارگٹ کلرز کی عدم گرفتاری کے باوجود ایس یو سی نے اپنے اس اعلان پر عمل درآمد نہیں کیا اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی وضاحت جاری کی گئی۔ حالانکہ یہ وہی وقت تھا جب وفاقی دارالحکومت میں ایم ڈبلیو ایم کے مرکزی سیکرٹری جنرل علامہ راجہ ناصر عباس جعفری پریس کلب کے سامنے بھوک ہڑتال کئے بیٹھے تھے، اور ان کے دامن میں کوئی مخفی مطالبات کی فہرست نہیں بلکہ یک نکاتی مطالبہ و ایجنڈا کہ اس قوم کو ریاست تحفظ فراہم کرے اور ان کے قاتلوں کو گرفتار کرے۔ اسلام آباد میں بیٹھا شخص ڈی آئی خان میں ہونیوالی ٹارگٹ کلنگ کے خلاف احتجاجاً بھوک ہڑتال کئے بیٹھا ہے، مگر ڈی آئی خان میں موجود رہنماوں کو رسمی طور پر ہی سہی وزیراعظم کی ڈیرہ آمد کے موقع پر علامتی ہی سہی احتجاج کرنے کا موقع نہ ملا۔ حالانکہ اس میں کوئی راکٹ سائنس کارفرما نہیں تھی، تشیع کے مرکز کوٹلی امام کے سامنے ایس یو سی علامتی احتجاجی مظاہرہ کرکے وزیراعظم کے دورے سے بیزاری کا اعلان کرکے اور شیعہ ٹارگٹ کلنگ کے خلاف ہونے والے مظاہروں سے اظہار یک جہتی کرسکتی تھی، تاہم میاں نواز شریف جے یو آئی (ف) کے امیر کے مہمان تھے۔ اعلان کے باوجود شہر میں اہل تشیع کے اکلوتے مرکز سے کسی صدائے احتجاج بلند نہ ہونا قابل تشویش ہے۔

وزیراعظم کی آمد کے موقع پر سڑک کے کنارے پر موجود کیکر کے درختوں کو بیدردی سے کاٹ دیا گیا، اور وجہ سکیورٹی خدشات بیان کئے گئے، جس کا وزیراعلٰی نے نوٹس لیا اور صوبائی وزرات داخلہ کی ہدایت پر بارہ افراد کے خلاف مقدمہ درج کرلیا گیا۔ وزیراعظم میاں نواز شریف ہیلی کاپٹر کے ذریعے جلسہ گاہ میں پہنچے تو رتہ کلاچی سٹیڈیم میں ہزاروں افراد موجود تھے۔ تاہم ان میں سے ایک فیصد مقامی جبکہ 99فیصد افراد لکی، ٹانک، بنوں اور مختلف مدارس کے طالب علم تھے۔ جلسہ گاہ میں صرف جے یو آئی کے بلیک اینڈ وائٹ جھنڈے موجود تھے، جبکہ مسلم لیگ نواز کے سبز پرچم آٹے میں نمک کے برابر دکھائی دیئے۔خیبر پختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر اور ڈی آئی خان میں جے یو آئی کے امیر مولانا لطف الرحمن نے وزیراعظم کے اعزاز میں سپاسنامہ پیش کیا اور سٹیج سیکرٹری کے فرائض انجام دیئے۔ مولانا فضل الرحمن نے خطبہ استقبالیہ پیش کیا اور اپنے خطاب میں کہا کہ پاناما لیکس کے حوالے سے وزیراعظم نواز شریف نے اپنے آپ کو احتساب کیلئے پیش کر دیا ہے، تاہم جو احتساب احتساب اور چور چور کا شور مچا رہے تھے، وہی اب احتساب سے بھاگنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاناما لیکس کے نام سے پوری دنیا سمیت پاکستان میں بھی ایک بھونچال آگیا ہے اور دوسرے ممالک کے حکمرانوں سے پہلے ہمارے ملک کے وزیراعظم نے خلوص نیت کے ساتھ خود کو احتساب کے لئے پیش کیا اور اپوزیشن کو کہا کہ آو کمیشن بناتے ہیں۔ اگر میں واقعی مجرم ہوں، تو گھر جانے کو بھی تیار ہوں اور انہوں نے تحقیقات کیلیے اپوزیشن کی ہر بات مانی، لیکن وزیراعظم کے اعلان کردہ کمیشن کو مسترد کر دیا گیا۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ عمران خان کو کمیشن کے سابق جج قبول نہیں بیوروکریٹ قبول ہیں، کمیشن کا مطالبہ کرکے بھی عمران خان بھاگ گئے۔ سربراہ جے یو آئی (ف) کا کہنا تھا کہ عمران خان کی حالت تو یہ تھی کہ جب 1987ء میں نواز شریف وزیراعلٰی پنجاب تھے تو انہوں نے ان سے درخواست کی کہ میرے پاس گھر تک نہیں، مجھے پلاٹ دیا جائے، جس پر میں اپنا گھر بنا سکوں، لیکن عمران خان کے پاس 1983ء میں اتنا پیسہ کہاں سے آگیا تھا کہ انہوں نے پاناما کمپنی بھی بنالی۔ مولانا فضل الرحمن کے خطاب کے دوران وزیراعظم نواز شریف، گورنر خیبر پختونخوا اقبال ظفر جھگڑا، وفاقی وزیر اکرم درانی، مولانا عطاء الرحمن، مسلم لیگ نواز کے ضلعی صدر ملک محمد ریحان اور پیر فواد زکوڑی سٹیج پر موجود تھے۔

وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے خطاب میں کہا کہ مجھے ڈیرہ اسماعیل خان آنے کا بہت شوق تھا اور میرا دل چاہتا ہے کہ میں اس علاقے کے لئے کچھ کرکے جاوں۔ وزیراعظم نے کہا مخالفین کے نصیب میں دھرنے ہیں، وہ دھرنے دیتے رہیں، ہم اپنا کام کرتے رہیں گے۔ انہوں نے پنڈال میں بیٹھے لوگوں سے پوچھا، بتائیں نیا پاکستان کہیں نزدیک نزدیک بن رہا ہے تو مجھے بھی دکھا دیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جے یو آئی اور مسلم لیگ ملکر نیا پاکستان بنائیں گے۔ خطاب میں انہوں نے ڈیرہ اسماعیل خان کے لئے ایک زرعی یونیورسٹی کے اعلان کے ساتھ ساتھ 50 کروڑ روپے ترقیاتی فنڈ کا بھی اعلان کیا۔ گیس کی فراہمی کے لئے ڈیرہ اسماعیل خان کی تحصیلوں کو 770 ملین روپے کا اعلان کیا گیا۔ چشمہ لفٹ کینال کے منصوبے کا اعلان جس کی تکمیل کے لئے 65 فیصد وفاق اور 35 فیصد صوبائی حکومت دے گی۔ منصوبے سے تین لاکھ ایکڑ رقبہ سیراب ہوگا اور جس کی قیمت 120 ارپ روپے ہے۔ اپنے خطاب میں ان کا کہنا تھا کہ نئے پاکستان کا دعویٰ کرنے والے خیبر پختونخوا کو نیا خیبر پختونخوا نہیں بنا سکے، پاکستان کو نیا پاکستان کیا بنائیں گے۔؟ وزیراعظم نے مزید کہا کہ 2018ء کے انتخابات میں ان کے ہاتھ سے خیبر پختونخوا بھی نکل جائے گا، کیونکہ لوگ جان گئے ہیں کہ یہاں کوئی نیا پاکستان نہیں بن رہا۔

وزیراعظم نے یارک کے مقام پر 258 کلومیٹر طویل موٹروے کا سنگ بنیاد رکھا، جس پر 125 ارب روپے کی لاگت آئیگی۔ علاوہ ازیں ڈیرہ کو سیلاب سے بچانے کیلئے حفاظتی بند بنانے کیلئے فوری فزیبلیٹی رپورٹ تیار کرنے اور آئندہ سال منصوبے پر کام شروع کرنے کا اعلان کیا گیا۔ وزیراعظم جب ترقیاتی منصوبوں کا اعلان کر رہے تھے تو انہوں نے عوام سے پوچھا کہ مزید کچھ چاہیئے تو بتا دیں۔ جس کے جواب میں لوگوں نے بجلی بجلی کے نعرے لگائے۔ جس کے بعد وزیراعظم کا کہنا تھا کہ 2018ء تک لوڈ شیڈنگ کا مکمل خاتمہ کرینگے۔ جلسہ کے بعد مولانا فضل الرحمن کی جانب سے دیئے گئے خصوصی ظہرانے میں ٹانک، پیزو، بنوں اور لکی سے تعلق رکھنے والے جے یو آئی کے رہنماؤں نے اپنی درخواستیں پیش کیں اور ان پر وزیراعظم سے منظوری لی۔ دوسری جانب پی ٹی آئی اور ایم ڈبلیو ایم سے تعلق رکھنے والے ضلعی عہدیداروں نے بھی اس جلسہ میں شرکت کی۔ جلسہ کے بعد پی ٹی وی سے گفتگو کرتے ہوئے ایم ڈبلیو ایم کے ضلعی عہدیدار اور ٹارگٹ کلنگ میں شہید ہونے والے وکلاء کے عزیز تہور عباس نے وزیراعظم کے اس دورے کو سراہا اور اسے شہر کی ترقی میں سنگ میل قرار دیا۔

خیبر پختونخوا کے صوبائی وزیر مال سردار علی امین خان گنڈہ پور نے مولانا فضل الرحمن اور نواز شریف کے اعلانات پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جن منصوبوں کا وزیراعظم نے اعلان کیا ہے، ان میں سے بیشتر منصوبوں پر پہلے سے ہی کام جاری ہے۔ اس کے علاوہ جس چشمہ لفٹ بینک کینال کا وزیراعظم نے اعلان کیا ہے اور سنگ بنیاد رکھا ہے اس کا فنڈ صوبائی حکومت مہیا کر رہی ہے۔ انہوں نے مولانا فضل الرحمن کو آڑے ہاتھوں لیا اور کہا کہ مولانا فضل الرحمن کے والد مولانا مفتی محمود جب ڈیرہ اسماعیل خان آئے تھے تو ان کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ یہاں تک ان کے پاس گھر بھی نہیں تھا۔ جب وہ وزیراعلٰی بنے تو اس وقت اس خاندان کے پاس جو گھر تھا، اس کا دروازہ نہیں تھا۔ آج یہ تمام بھائی کروڑوں کی گاڑیوں میں گھومتے ہیں اور اربوں کی جائیدادیں رکھتے ہیں، یہ کہاں سے آئی ہیں۔

انہوں نے الزام لگایا کہ نواز شریف کی جانب سے جتنے بھی منصوبوں کا اعلان کیا گیا ہے، مولانا فضل الرحمن نے وہ تمام منصوبے اٹھائیس فیصد پر آگے بیچ دیئے ہیں۔ مولانا فضل الرحمن نے ڈیرہ کے عوام کا خون چوس کر خود کو اس مقام تک پہنچایا ہے۔ وزیراعظم کے دورے کے بعد جلسہ گاہ میں بکھرے جے یو آئی کے جھنڈے اور کوڑا کرکٹ، سڑکوں کے کنارے کٹے درخت اور جلی جھاڑیاں، پولیس کی جانب سے جا بجا بنائی گئی عارضی رکاوٹیں، بکھرا ملبہ اس خربوزے کے کھیت کا منظر پیش کر رہے تھے کہ جس میں کوئی جانور رات اندھیرے گھس آئیں اور خوب اودھم مچا کر صبح صادق لوٹ جائیں۔ وزیراعظم نے جس شہر کا دورہ کیا ہے، وہاں کے باسیوں کیلئے یہ مثل بہت اہمیت کی حامل ہے کہ جان ہے تو جہاں ہے، ڈیرہ کے باسیوں کے دیگر مسائل ثانوی ہیں، جبکہ جان و مال کا تحفظ یہاں کے لوگوں کا اہم مسئلہ ہے۔ جان و مال کا تحفظ ریاست کی ذمہ داری ہے، ریاست اس ذمہ داری کو احسن طریقے سے سرانجام نہیں دے رہی، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ریاست کی باگ ڈور کسی اہل، ذمہ دار اور مخلص انسان کے سپرد نہیں ہے۔ شہریوں میں عدم تحفظ حکمرانوں کی نااہلی کو ظاہر کرتا ہے۔
خبر کا کوڈ : 539473
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش