0
Monday 28 Feb 2011 15:38

’’ ریمنڈ ڈیوس… ٹپ آف دی آئس برگ‘‘

’’ ریمنڈ ڈیوس… ٹپ آف دی آئس برگ‘‘
تحریر:لیفٹینٹ جنرل (ر) عبدالقیوم 
9/11 کے بعد جب امریکی حکومت نے پاکستانی قیادت کو بے شرمی سے دبوچ کر ڈکٹیٹر کی پیٹھ زمین پر لگا دی تھی تو پھر قارئین کو یاد ہوگا کہ اس وقت واشنگٹن نے سب سے پہلے تو یہ منوایا کہ پاکستانی بندرگاہیں، ہوائی اڈے ایر سپیس Air Space یا ہوائی راستوں کے علاوہ پاکستان کی سڑکیں بھی امریکہ اور اسکے اتحادیوں کے، ہمارے دوست پڑوسی مسلمان ملک افغانستان پر حملے کو کامیاب بنانے کیلئے استعمال ہونگی، پھر بات یہاں ختم نہ ہوئی اسکے بعد تقریباً ایک درجن مزید مطالبات کی فہرست بھی حکومتِ پاکستان کے حوالے کی گئی تھی جو میڈیا کے ہاتھ لگ گئی اور اس طرح پاکستانی عوام کو یہ معلوم ہوا کہ امریکی حکام کی مزید یہ خواہش تھی کہ اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے کو کئی گنا بڑا کر دیا جائے، تاکہ مزید سفارت کار اور اُنکے بھیس میں سیکورٹی کے لوگ اور جاسوس پاکستان میں آسکیں۔ اُن پر ویزے کی پابندی نہیں ہونی چاہئے اُنکے ڈرائیونگ لائسنسز امریکی ہونگے۔ اُن کو بغیر لائسنس اسلحہ رکھنے کی اجازت بھی ہو گی، جس کیلئے پاکستانی حکام سے کسی کلیرنس کی ضرورت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں تعینات کچھ فوجی لوگ باوردی بھی ہونگے اور وہ جہاں بھی چاہیں جا سکیں گے۔ اگر کوئی بھی امریکی پاکستان میں کوئی جرم کریگا تو وہ پاکستانی قانون کی زد میں نہ آ سکے گا اس پر مقدمہ امریکہ میں چلے گا اور اُن پر امریکی قانون لاگو ہوگا۔
 اس طرح کے بہت سے بیہودہ مطالبات پر مبنی فہرستیں اخباروں میں چھپی تھیں تو اس وقت حکومت نے کہا تھا کہ ایسا نہیں ہونے دیا جائیگا۔ لیکن افسوس کہ یہ سب کچھ عوام کو دھوکہ دینے اور اُنکی آنکھوں میں مٹی ڈالنے کے مترادف تھا۔ یونی پولر دنیا میں امریکین امپیریلزم کا مقام ایک ایسے بہت بڑے چوہدری، وڈیرے یا زمیندار کا ہے۔ جو تیسری دنیا کے غریب ممالک کے مال و دولت کی ہوس کے یرکان میں مبتلا کمزور کردار، قابلِ فروخت اور داغدار حاکموں کو اپنے ایسے بے زباں مزارع سمجھتے ہیں جن کی عزتیں بھی بغیر خوف و خطر وہ لوٹ سکتے ہیں۔ بادشاہ سے بھی زیادہ بادشاہ کے وفادار بن کر ہم نے وہ کچھ کر دکھایا جس کی انسانی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔
ہم نے اپنی جواں سالہ بیٹی عافیہ صدیقی کو معصوم بچوں سمیت ان درندوں کے حوالے کر دیا، جن پر عراقی مسلمان عورتوں کیساتھ مشترکہ بدفعلی کرنے کے الزامات بھی تھے، ہم نے سارے بین الاقوامی قوانین، سفارتی آداب اور ویانا کنونشن کو بالائے طاق رکھتے ہوئے افغانستان کے پاکستان میں متعین سفیر ملا ضعیف کو پکڑ کر اور اُنکی اپنی لکھی ہوئی کتاب کیمطابق برہنہ کر کے بیرونی طاقتوں کے حوالے کر دیا۔ 
کیا سلامتی کونسل یا اقوام متحدہ جیسے سفید ہاتھی کے بڑے بڑے ایوانوں میں پوری دنیا سے آئے ہوئے چوٹی کے دانشوروں میں سے کسی ایک کے ضمیر کو کوئی ہلکا سا جھٹکا بھی لگا کہ ایک بے گناہ سفیر کو گوانتا نا موبے جیسی بدنامِ زمانہ جیل میں کیوں ڈالا گیا؟ اور پھر تین سال بعد یہ بھی مان گئے کہ یہ بے قصور ہے۔ ہم نے اپنے بے گناہ اور نہتے شہریوں پر ڈرون حملے کرنے کی اجازت بھی غیرملکی طاقتوں کو دیدی۔ وکی لیکس کے مطابق ہمارے اربابِ اختیار نے یہاں تک کہہ دیا کہ بے گناہ لوگوں کی اموات کی آپ امریکیوں کو فکر ہو گی ہمیں تو نہیں۔ برونائی، مالدیب اور شمالی کوریا جیسے چھوٹے ممالک سے لیکر چین اور روسن جیسے بڑے ممالک تک کسی بھی آزاد ملک نے کسی دوسرے ملک کو بھی یہ حق دیا کہ وہ اُنکے ملک کے اندر گھس کر حملے کرتا رہے۔
 اسکے علاوہ قارئین آپ نے خود دیکھا امریکی سفارت خانہ پہلے سے دس گنا بڑا ہو گیا اور ہو رہا ہے، امریکہ میں پاکستانی سفارت خانے اور ابو ظہبی میں ہمارے مشن نے امریکیوں کو سینکڑوں ویزے بغیر سیکورٹی کلیئرنس کے جاری کر دئیے۔ اس طرح سفارتکاری کا لبادہ اوڑھے سی آئی اے اور موساد کے جاسوسوں کا پاکستان میں ایک جال بچھ گیا۔ لاہور اور اسلام آباد جیسے شہروں کی بڑی بڑی شاہراہوں پر سفارت کاروں کی ایسی گاڑیاں بھی دندناتی پھرتی ہیں جن کی جعلی نمبر پلیٹیں ہی نہیں بلکہ اندر ناجائز اسلحہ بھی ہوتا ہے۔ اس وقت پاکستان بیرونی جاسوسوں کی ایک کمین گاہ بن چکا ہے۔ ان میں غیر ملکی حاضر اور ریٹائرڈ فوجی گوریلے، اسلحہ چلانے کے ماہر سنائپرز، ٹیلی کمیونی کیشن کو جیم JAM کرنے کے ماہر، بڑے بڑے اداروں کے دفاتر اور اہم شخصیات کے فون ٹیپ کرنیوالے ایکسپرٹ، سفیروں کے قابل احترام لبادے میں ہر اہم جگہ پر موجود ہی نہیں بلکہ انہوں نے لوکل پاکستانیوں کو بھاری رقوم ادا کرکے اپنا ایجنٹ بھی بنا لیا ہے۔
 یہی پاکستانی چہرے را، موساد اور سی آئی اے کی مالی معاونت اسلحہ گولہ بارود اور تربیت لیکر پاکستان میں دھماکے کرواتے ہیں۔ اغوا برائے تاوان کے پیچھے بھی ایسے ہی لوگ ہیں جو پاکستان میں بدامنی پھیلا رہے ہیں۔ ان میں جرائم پیشہ افراد کی بہتات ہے، ان بدنصیبوں کو یہ نہیں معلوم کہ جو ڈالرز ان کو ادا ہوتے ہیں وہ اسلام دشمن طاقتیں ہی دے رہی ہیں، اس پسِ منظر میں لاہور میں 27جنوری کو ریمنڈ ڈیوس کے جعلی نام کے ساتھ جس سابق فوجی اور ٹرینڈ گوریلے نے اپنے بغیر لائسنس کے ہتھیار لیے دو آدمی قتل کیے اور تیسرے کو گاڑی کے نیچے روندا وہ اُن سینکڑوں بلکہ ہزاروں گوریلوں اور جاسوسوں میں سے ایک ہے جو طورخم سے گوادر تک پھیلے ہوئے ہیں، اس لئے یہ واقعہ تو ایک بڑے برفانی تودے کا چھوٹا سا سرا ہے۔ آگے آگے دیکھیے اب ہوتا ہے کیا یہ اپنے آپ کو قونصلر کہتا ہے تو پھر بھی اس پر ویانا قونصلر کنونشن 1963 کا آرٹیکل 41 لاگو ہوتا ہے جس میں لکھا ہے:
"Consular officers shall not be liable to arrest or detention pending trial, except in the case of a grave crime and pursuant to a decision by the competent judicial authority"
دُہرے قتل سے بڑا گھنائونا جرم کیا ہو سکتا ہے، ریمنڈ ڈیوس نے یہ جرم ڈنکے کی چوٹ پر کیا اور عدالت نے حکم دیا کہ اسکو رہا نہ کیا جائے۔ ریمنڈ ڈیوس ایک قاتل ہے، اس بھیڑ کی کھال میں بھیڑئیے نے ایک سفارت کار کے لباس میں ایک غلط نمبر پلیٹ والی غیر سفارتی گاڑی استعمال کرتے ہوئے ایک بغیر لائسنس کے غیر قانونی ہتھیار سے ایک گھنائونا جرم کیا اور دو پاکستانیوں کی جان لے لی، اس پر اینٹی ٹیریرسٹ کورٹ میں مقدمہ چلا کر اس کو فوراً کیفر کردار تک پہنچانا چاہئے۔ 
کوئی آسمان گرے گا نہ کوئی پابندیاں لگیں گی۔ اگر امریکہ کی دوستی ہمارے لئے مفید ہے تو پاکستان بھی امریکہ کیلئے اہم ہے، اس لئے اُن بے سہارا یتیم بچوں اور اُن کی مائوں کو بھی جن کو انہوں نے رعونت میں بیوہ کر دیا، انصاف ضرور ملنا چاہئے۔ 1997ء میں جارجیا کے ڈپٹی سفیر (Makhardze) کی کار کے نیچے ایک امریکی نوجوان آ کر اتفاقاً ہلاک ہو گیا تھا۔ امریکوں نے اس نائب سفیر جسکے پاس خالص سفارتی ویزہ کی وجہ سے استثنیٰ بھی تھا کو اپنی عدالتوں میں مقدمہ چلا کر 21سال قید دیدی تھی۔ 
ویانا کنونشن کیمطابق اگر کسی ملک کا کوئی سفارت کار دوسرے ملک میں کسی جرم کا ارتکاب کرتا ہے تو بیرونی حکومتیں آرٹیکل 32 کے تحت سفارتی استثنیٰ واپس لیکر میزبان حکومت کو اجازت بھی دے سکتی ہے کہ آپ ہمارے اس سفارت کار کو سزا دے لیں۔ یہی اجازت امریکہ نے جارجیا کی حکومت کی گردن پر لات رکھ کر حاصل کی، ہوسٹ ملک ویانا کنونشن کے آرٹیکل 9 کے تحت کسی بھی سفارت کار کو غیرمعمولی حرکات و سکنات یا کسی بڑے جرم کی وجہ سے ناپسندیدہ شخصیت بھی قرار دے سکتے ہیں، اسکے بعد اس سفارت کار کے ملک کو آرٹیکل 43(b) کے تحت بتا دیا جاتا ہے کہ اب یہ سفارتکار نہیں رہا، اسکے بعد اسکو ملک کے قانون کے تحت عام عدالت میں ٹرائل کیا جا سکتا ہے، اگر عافیہ صدیقی کو امریکی عدالت میں 86 سال کی قید دی جا سکتی ہے تو ریمنڈ ڈیوس کو جعلی نام کے پیچھے چھپے ہوئے اس دھوکہ باز قاتل کو جو سفارت کار بھی نہیں پاکستانی عدالتیں کیوں تختہ دار تک نہیں لے جا سکتیں؟ یہ واقعہ "Tip of the ice berg" ہے۔ 16 جنوری کے بین الاقوامی اخبار کاونٹر پنچ نے لکھا: "International law is clear that diplomatic imunity is not absolute" یعنی مکمل استثنیٰ کسی کو حاصل نہیں۔
خبر کا کوڈ : 56792
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش