2
0
Monday 19 Sep 2016 04:03

حج 2016ء، عالم اسلام کا آل سعود پر عدم اعتماد کا اظہار

حج 2016ء، عالم اسلام کا آل سعود پر عدم اعتماد کا اظہار
تحریر: عرفان علی

عالم اسلام نے اس سال بہت ہی احسن انداز میں آل سعود کی بادشاہت پر عدم اعتماد کا اظہار کر دیا ہے۔ یہ اظہار حج کے موقع پر کیا گیا۔ وہ اس طرح کہ سال 2016ء میں حج کرنے والے مسلمانوں کی کل تعداد لگ بھگ اٹھارہ لاکھ ساٹھ ہزار تھی، یہ تعداد سعودی حکومت کی جاری کردہ ہے جو خبر رساں اداروں نے اپنی خبر میں بیان کی ہے۔ کیا ہمیں یاد ہے کہ پچھلے دو برسوں میں یہ تعداد کیا تھی۔ جیو نیوز ٹی وی کی انگریزی ویب سائٹ پر فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کی مورخہ 3 اکتوبر 2014ء کی خبر کے مطابق تیس لاکھ حجاج تھے اور دنیا نیوز ٹی وی چینل کی 21 ستمبر 2015ء کی خبر کے مطابق اس سال حجاج کی تعداد تیس لاکھ سے بھی زیادہ تھی۔ تو ایسا کیا ہوگیا کہ مسلمانان عالم کی اتنی بڑی تعداد نے حج کی ادائیگی سے گریز کیا؟ یاد رہے کہ اس سال حجاج میں لگ بھگ 13 لاکھ غیر ملکی تھے یعنی سعودی عرب کے شہری نہیں تھے۔ ہر سال حجاج کی تعداد میں اضافہ ہوتا ہے لیکن اس سال بہت ہی معنی خیز کمی ہوئی ہے۔ اسی لئے ہم نے شروع میں عرض کیا تھا کہ درحقیقت یہ عالم اسلام کا آل سعود کی نااہل و نالائق حکومت پر عدم اعتماد کا اظہار ہے۔ بظاہر یہ ایک چھوٹی سی خبر ہے لیکن اس کے سیاسی، اقتصادی و سفارتی پہلوؤں کو مدنظر رکھا جائے تو یہ چھوٹی سی خبر دراصل باطل کے ایوانوں میں ایک بہت بڑے دھماکے سے کم نہیں۔

سیاسی و سفارتی لحاظ سے جائزہ لیں تو یہ آل سعود کی خارجہ پالیسی کی ناکامی ہے۔ سعودی حکومت نے یمن پر جارحیت کے لئے فوجی اتحاد بنایا اور یمن پر چڑھائی کر دی۔ یہ پچھلے سال مارچ کے مہینے کے آخری ہفتے کی بات ہے اور اس برس سعودی عرب نے ایران کے ساتھ تعلقات ختم کر لئے اور حزب اللہ لبنان پر بھی پابندیاں عائد کر دیں۔ ایران سے کوئی بھی اس سال حج کے لئے نہیں گیا۔ آل سعود کی حکومت خوش ہو رہی تھی کہ اس برس کوئی حج کے مراسم کے دوران مردہ باد امریکہ، مردہ باد اسرائیل کے نعرے نہیں لگا سکے گا اور یوں وہ امریکہ اور جعلی ریاست اسرائیل کی دہشت گرد صہیونی حکومت کے سامنے سرخرو ہو جائے گا۔ لیکن حج 2016ء میں حجاج کی تعداد میں اتنی زیادہ کمی کا مطلب یہ ہوا کہ عالم اسلام کے مستطیع افراد کی اکثریت ایران و حزب اللہ لبنان کی ہمنوا ہے۔ سانحہ منٰی 2015ء اور اس کے بعد آل سعود کی بادشاہت نے جو غیر اسلامی رویہ اختیار کیا اور جس کی مذمت ایرانی حکومت نے کھل کر کی، حجاج کی تعداد میں کمی اس کا خاموش ردعمل ہے اور یہ دراصل ایران کے حق میں ایک ریفرنڈم کی مانند ہے۔ یہ کمی سعودی سیاسی روش اور سفارتکاری کی کھلی ناکامی ہے۔

سعودی قومی کمیٹی برائے حج و عمرہ کے سربراہ مروان عباس شعبان نے حجاج میں کمی کی ایک وجہ ایرانی حجاج کا نہ آنا بتائی، ان کے مطابق غیر ملکی حجاج کا سات فیصد ایرانیوں پر مشتمل ہوتا ہے، لیکن یہ تو محض سات فیصد تعداد کی کمی ہوئی۔ انہوں نے ایک اور بہانہ یہ تراشا کہ توسیعی ترقیاتی کاموں کی وجہ سے جگہ چھوٹی پڑ رہی ہے، اس لئے حجاج کی تعداد کم ہوئی، لیکن یہ توسیعی کام تو ہر سال ہوتے رہتے ہیں، پچھلے دو سال کے حج کے دوران بھی ایسا ہی تھا، لیکن حجاج کی تعداد تیس لاکھ سے زائد تھی۔ لیکن رائٹر کی خبر جو پاکستانی اخبارات میں 13 ستمبر 2016ء کو شایع ہوئی، اس میں یہ وجہ بھی بیان کی گئی کہ شام، عراق، یمن اور لیبیا جنگ زدہ ہیں۔ یمن اور شام کے عوام کی بڑی تعداد مہاجر بن چکی ہے۔ جیولری دکان کے مالک الی ال حیرابی کا کہنا تھا کہ جو حجاج آرہے ہیں، ان کی قوت خرید کم ہوچکی ہے کیونکہ ان کے ممالک میں امن نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ عرب ممالک خود ہی مسئلہ بن چکے ہیں۔ یہاں بھی آل سعود کی بادشاہت سے کہا جاسکتا ہے کہ ان چاروں ممالک کی صورتحال خراب کرنے میں بھی تو سعودی عرب کی حکومت کا ہی ہاتھ ہے۔

ایک سعودی عالم نے ال عکاظ اخبار سے بات چیت کرتے ہوئے کاروباری افراد کو متنبہ کیا کہ وہ گاہکوں کو نہ لوٹیں اور حج کو ناجائز کاروباری منافع خوری کی جگہ نہ بنا دیں۔ انہوں نے جگہ جگہ بل بورڈز لگانے پر بھی تنقید کی۔ دوسری جانب حجاج نے مہنگائی میں بے تحاشا اضافے کی شکایت بھی کی۔ مراکش کی فاطمہ ال مرابط اپنے شوہر کے ساتھ دوسری مرتبہ حج پر آئی تھی، اس نے کہا کہ کھجور بھی مہنگی کر دی گئی ہیں اور دکاندار اور ملازمین حجاج و زائرین سے بدتمیزیاں بھی کرتے ہیں۔ یہاں مجھے اپنے پاکستانی سنی دوست کی بات یاد آرہی ہے کہ ایئرپورٹ سے بدتمیزیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ سعودی عملہ نوجوان ملازمین پر مشتمل ہوتا ہے اور مسافروں کی قطار انتظار کرتی رہتی ہے اور عملہ خوش گپیوں میں مصروف رہتا ہے۔ اگر کوئی ایک مخصوص مقررہ حد سے تھوڑا سے آگے کھڑا ہوجائے تو فوراً ڈنڈے سے اس کی پٹائی کر دی جاتی ہے۔ اس برس کم از کم 29 پاکستانی حجاج کے مرنے کی اطلاع آئی۔ پاکستانی حجاج کا کہنا ہے کہ انہیں نامناسب کھانا اور رہنے کے لئے بہت دور جگہ فراہم کی گئی اور ان کی شکایت پر عملہ بد تمیزی کرنے لگا۔ پاکستانی حجاج کی اموات کی وجہ بھی بروقت طبی امداد کا نہ ہونا تھا کیونکہ بہت سے لوگوں کی موت کا سبب ہیٹ اسٹروک (گرمی کی شدت) تھا۔ یہ بھی سعودی بادشاہت کی ایک ناکامی تھی۔ یہ پاکستانی حجاج خود ہی پاکستان میں آل سعود کی بد انتظامی و نااہلی کا پردہ چاک کریں گے۔

سعودی گزٹ اخبار کی خبر مورخہ 24 مارچ 2016ء کے مطابق ہر سال 20 لاکھ غیر ملکی حاجی سعودی عرب آتے ہیں اور تیل کے بعد یہ حج و عمرہ وغیرہ سعودی حکومت کا دوسرا بڑا ذریعہ آمدنی ہے۔ سیاحت کے شعبہ سے سعودی حکومت کو 22.6 بلین ڈالر آمدنی ہوتی ہے اور اس میں حج و عمرہ سے حاصل ہونے والی آمدنی 12 بلین ڈالر ہے۔ ماہر اقتصادیات عبداللہ کاتب کے مطابق حج کے موقع پر سالانہ 5 بلین ڈالر تا 6.1 بلین ڈالر آمدنی ہوتی ہے۔ اس آمدنی کا چالیس فیصد رہائش سے، 15 فیصد تحائف سے، 10 فیصد کھانے کی مد میں اور 35 فیصد دیگر شعبوں سے حاصل ہوتا ہے۔ یمن پر سعودی جارحیت کی وجہ سے سعودی بجٹ خسارہ 87 بلین ڈالر تک جا پہنچا ہے اور مزید اضافے کا امکان ہے جبکہ زر مبادلہ کے ذخائر بھی 2014ء میں 737 بلین ڈالر تھے جو اب کم ہوکر 640 بلین ڈالر رہ گئے ہیں اور مزید کمی کا امکان ہے۔ یہاں یہ نکتہ بھی بیان ہوجائے کہ سعودی حجاج کی تعداد میں اس سال پچاس فیصد کمی ہوئی ہے۔ یعنی آل سعود کے خلاف عدم اعتماد کا اظہار غیر سعودی مسلمانوں کے ساتھ ساتھ عربستان نبوی (ص) کے باشندوں نے زیادہ بڑھ چڑھ کر کیا ہے۔ کیا سعودی شہریوں کی قوت خرید میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ دیگر ممالک جنگ زدہ ہیں، وہاں دہشت گردی بھی عروج پر ہے، لیکن سعودی عرب میں تو امن ہی امن ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ پچھلے سال کی نسبت اس برس سعودی عازمین حج کی تعداد میں 50% کمی واقع ہوئی ہے۔ کیا سعودی شہری بھی سعودی مفتیوں کے تکفیری فتویٰ سے نالاں ہیں؟ کیا سعودی شہری بھی امام خامنہ ای کے پیغام حج سے متفق ہیں؟ کیا امریکہ کی اتحادی آل سعود کی بادشاہت کے پاس ان سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب ہے۔؟ حج 2016ء سے متعلق چشم کشا حقائق آل سعود کی بادشاہت کے خلاف عالم اسلام کے ریفرنڈم سے کم نہیں۔ ایسا لگ رہا ہے کہ سعودی عرب کے خلاف ایران کے موقف کی جیت ہوئی ہے۔
خبر کا کوڈ : 568348
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

توقیر ساجد
Pakistan
ماشاء اللہ آپ نے بہترین معلومات سے آگاہ کیا، یہ سلسلہ جاری رکھئے۔
Pakistan
شکریہ
ہماری پیشکش