0
Thursday 22 Sep 2016 02:42

پاکستان کو درپیش عالمی و علاقائی چیلنجز

پاکستان کو درپیش عالمی و علاقائی چیلنجز
تحریر: عرفان علی

ماہ ستمبر 2016ء میں تازہ ترین عالمی و علاقائی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جاسکتا ہے کہ مستقبل قریب میں ریاست پاکستان کو تین بڑے چیلنجز سے نمٹنا ہے۔ عالمی سطح پر امریکہ میں موجود اینٹی پاکستان لابی ایک بہت بڑا چیلنج ہے۔ 20 ستمبر 2016ء کو امریکی ایوان نمائندگان (کانگریس) میں پاکستان کے خلاف ایک مجوزہ قانونی بل متعارف کروایا گیا ہے، جس کے تحت پاکستان کو دہشت گردی کو اسپانسر کرنے والی ریاست قرار دیا جاسکتا ہے۔ اس کے علاوہ دو دیگر چیلنجز علاقائی نوعیت کے ہیں، جن کا تعلق بھارت اور افغانستان سے ہے۔ بھارت کی مودی سرکار اور افغانستان کی موجودہ حکومت کے درمیان بہت ہی مستحکم تعلق قائم ہوچکا ہے۔ افغان صدر اشرف غنی نے دورہ بھارت کے دوران بھی پاکستان پرتنقید کی اور جب برطانوی نمائندہ خصوصی برائے افغانستان و پاکستان اوون جینکنز نے اشرف غنی سے کابل میں ملاقات کی تو افغان صدر نے تنبیہ کی کہ اگر پاکستان نے افغان تاجروں کو امپورٹ ایکسپورٹ کے لئے واہگہ تک ٹرانزٹ کی سہولت سے انکار کیا تو پھر افغانستان بھی پاکستان کو وسطی ایشیائی ممالک تک ٹرانزٹ روٹ کی سہولت نہیں دے گا۔

یعنی یہ کہ پاکستان براستہ افغانستان تاجکستان، ازبکستان اور ترکمانستان نہیں پہنچ سکے گا۔ ان تینوں ممالک کی زمینی سرحدیں افغانستان سے ملتی ہیں، یہ معمولی دھمکی نہیں ہے۔ پاکستان نے ترکمانستان سے گیس پائپ لائن کا چار ملکی معاہدہ کررکھا ہے اور یہ پائپ لائن بھی افغانستان کے راستے بچھے گی۔ پاکستان ازبکستان اور تاجکستان سے بھی تعلقات کا خواہاں ہے۔ تاجکستان تک پہنچنے کا دوسرا آپشن چین بھی ہوسکتا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ کرغیزستان اور تاجکستان سے بجلی خریدنے کا معاہدہ CASA-1000 طے ہوچکا ہے اور پھر یہ بجلی کس طرح پاکستان پہنچائی جاسکے گی کیونکہ اس کا روٹ بھی براستہ افغانستان طے پایا ہے۔ افغانستان بھی اس معاہدے کا حصہ تھا لیکن اب اس نے یہ بجلی خریدنے سے معذرت کرلی ہے تو اس طرح پاکستان ایک ہزار میگاواٹ کی جگہ 1300 میگاواٹ بجلی خریدنا چاہتا ہے۔ افغانستان سے خراب تعلقات کا یہ تاوان کون ادا کرے گا۔؟

افغانستان کے پڑھے لکھے افراد کی اکثریت پاکستان کے بارے میں منفی جذبات رکھتی ہے۔ پاکستان کے تین سابق سیکرٹری خارجہ انعام الحق، ریاض حسین کھوکھر، ریاض احمد خان اور قومی سلامتی کے سابق مشیر ریٹائرڈ جنرل محمود درانی نے ایک مشترکہ تحریر (روزنامہ ڈان 20 ستمبر 2016ء) میں بہت اچھے طریقے سے پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ کو موجودہ صورتحال سے نمٹنے کی راہیں تجویز کی ہیں۔ خاص طور پر پاکستان کی طالبان پالیسی اور افغان طالبان کو اثاثہ سمجھنے کی غلطی کی درستگی پر تاکید کی ہے۔ ہم جیسے پاکستانی کئی برسوں سے لکھتے اور بولتے آئے ہیں کہ کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں ٹانگ اڑانا اور اندرونی تنازعات میں فریق بن جانا یا کسی ایک فریق کی بے جا طرفداری کرنا، پاکستان کے مفاد میں نہیں، لیکن پاکستان کی ہمہ وقت مقتدر اسٹیبلشمنٹ نے کبھی یہ مدلل نیریٹیو قبول نہیں کیا اور نتیجہ یہ نکلا کہ ملا عمر کا جانشین ملا منصور بھی پاکستان میں مارا گیا اور اس کے پاس پاکستان کا پاسپورٹ پوری دنیا میں پاکستانی ریاست کو ایک غیر ذمے دار ریاست ثابت کرگیا۔ کب تک ہیئت مقتدرہ کے یہ تنگ نظر strategist پاکستان کی جگ ہنسائی کا سبب بنتے رہیں گے۔؟

آج امریکہ، افغانستان میں موجود ہے اور افغان حکومت اس کے زیر اثر ہے۔ امریکہ نے افغانستان میں بھارت کو کام کرنے کا موقع دے رکھا ہے اور بھارت افغانستان میں نہ ہو تب بھی پاکستان کے لئے ایک چیلنج تھا۔ افغانستان سے اس کے قریبی تعلق کے بعد تو یہ اور زیادہ خطرناک رقیب بن چکا ہے۔ بھارت نے صوبہ بلوچستان کی علیحدگی پسند بلوچ ری پبلکن پارٹی کے سربراہ براہمداغ بگٹی کو بھارتی پاسپورٹ جاری کرنے کا اشارہ بھی دیا ہے۔ براہمداغ بگٹی کی جماعت نے منظوری دے دی ہے کہ وہ بھارت سے پناہ اور پاسپورٹ کی درخواست کریں، یعنی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی تحریک کے جواب میں پاکستانی صوبہ بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کی کھلی اور اعلانیہ مدد کرنے کا موڈ بنالیا ہے۔ فی الحال امریکہ نے اس معاملے پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے، لیکن امریکی کانگریس میں بلوچستان کے علیحدگی پسندوں کے حامی اراکین بھی موجود ہیں، جو وقت پڑنے پر اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں۔ بلوچ یورپی ممالک میں بھی شہریت یا سیاسی پناہ لے رہے ہیں اور بلوچ کاز کے لئے لابنگ کر رہے ہیں۔ بھارتی حکومت نے بھی بلوچستان کو بین الاقوامی فورم پر اٹھانے کی دھمکی دی ہے۔ جہاں تک بلوچستان کی بات ہے تو اس مسئلے سمیت پاکستان کے تمام اندرونی مسائل کے حل کے لئے پارلیمنٹ بہترین فورم ہے۔ بلوچستان کے لئے خصوصی اور آئینی پیکیج کی تجویز سینیٹ کے چیئرمین رضا ربانی ماضی میں دے چکے ہیں، اس پر غور کیا جانا چاہئے۔

وزیراعظم نواز شریف بھارت کے ساتھ مکالمہ و سفارتکاری کے ذریعے تنازعات حل کرنے کے قائل ہیں اور یہی بات انہوں نے اقوام متحدہ کے 71ویں سالانہ اجلاس میں خطاب کے دوران بھی کہی ہے۔ کیا ریاست پاکستان میں طاقت کے مرکز فیصلہ ساز ادارے اور شخصیات کے پاس ان تین چیلنجز سے نمٹنے کے لئے کوئی حکمت عملی ہے، سوائے لابنگ اور سفارتکاری کے؟ کیا طاقت کے استعمال سے یا جنگوں سے ان تین چیلنجز سے نمٹا جاسکتا ہے۔؟ پاکستان کی جانب سے طاقت کے استعمال کے امکانات بہت کم نظر آتے ہیں، لیکن بھارتی ذرایع ابلاغ میں بھارتی حکومت کو انتہائی اقدام کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ بھارت نے اگر کوئی ایڈونچر کیا تو پاکستان بھارت تعلقات میں جو نرمی آچکی تھی، نہ صرف یہ کہ ختم ہوجائے گی بلکہ دونوں ممالک کو اس کے نقصانات بھی برداشت کرنے ہوں گے۔ امریکہ میں پاکستان کو اچھے لابسٹ کی ضرورت ہے، جو امریکی کانگریس میں پاکستان کی مخالفت کو حمایت میں تبدیل کروا سکیں۔

پاکستان کو بھارت سے تنازعات طے کرنے کے لئے کسی تیسرے ایسے فریق کو درمیان میں لانا ہوگا، جس پر دونوں ممالک کو اعتماد ہو۔ انٹرنیشنل ڈپلومیسی میں ایسا ہوتا آیا ہے اور اس کے لئے ایران یا سعودی عرب میں سے کسی ایک کو شٹل ڈپلومیسی کے لئے دونوں ممالک کو تسلیم کرنا ہوگا۔ افغانستان سے تعلقات میں بہتری کے لئے بھی امریکہ یا ایران میں سے کسی ایک کو ثالثی کے لئے تسلیم کرنا ہوگا، کیونکہ بھارت کے سعودی عرب اور ایران دونوں سے تعلقات ہیں۔ افغانستان سے بھی ایران کے اچھے تعلقات ہیں اور اس سے کہیں زیادہ اشرف غنی حکومت کے امریکہ کے ساتھ اچھے تعلقات ہیں۔ اگر، ایران، سعودی عرب اور امریکہ نہیں تو بعض یورپی ممالک سے بھی رجوع کیا جاسکتا ہے۔ غیر وابستہ ممالک کی تنظیم NAM، روس، یورپی یونین، کسی سے بھی ثالثی کا کہا جاسکتا ہے۔ اس کشیدگی کو کم کرنے کے لئے سنجیدہ اقدامات کی ضرورت ہے، جو تینوں ممالک کو بیک وقت کرنے چاہئیں۔ لیکن یہ یاد رکھنا چاہئے کہ بعض متشدد مذہبی انتہا پسند گروہوں کے بارے میں نرمی یا انہیں قبول کر لینا یا اثاثہ سمجھ لینا، پاکستانی ریاست کے شہریوں کو بھی قبول نہیں چہ جائیکہ غیر ملکی حکومتیں! جنگ ایک مہنگا آپشن ہے۔ آج کا دور سفارتکاری اور مذاکرات کا دور ہے۔ آج کا دور تنازعات کے پرامن سیاسی حل کا دور ہے۔ ماضی کے بدترین دشمن امریکہ اور روس مذاکرات میں مصروف رہتے ہیں۔ ایران کے ساتھ نیوکلیئر ایشو پر بھی مذاکرات کے ذریعے پرامن حل ڈھونڈا گیا۔ یمن، شام، لیبیا کو دیکھ لیں، وہاں بھی طاقت کا استعمال ناکام ہوچکا ہے اور وہاں بھی پرامن سیاسی حل پر تاکید کی جا رہی ہے، سفارتکاری کی جا رہی ہے۔

پاکستان کی اسٹیبلشمنٹ نے سب سے پہلے افغان مجاہدین کی میزبانی کی۔ پھر طالبان کی مدد کی۔ حامد کرزئی کو کوئٹہ میں ٹھہرایا۔ نائن الیون کے بعد اس کی مدد بھی پاکستان ہی کے ذریعے کی گئی اور وہ پاکستان سے ہی افغانستان میں داخل ہوا، لیکن ان میں سے کوئی بھی پاکستان کا مخلص دوست یا اتحادی ثابت نہیں ہوا۔ پاکستان کی میزبانی کا جواب مثبت انداز میں کسی نے نہیں دیا۔ پاکستانی طالبان بھی تو افغان طالبان کے تربیت یافتہ ہیں۔ اصل مسئلہ پاکستان کے پالیسی سازوں میں موجود بعض نااہل و نالائق لوگوں کا ہے کہ جو دوسرے ممالک کو اپنا صوبہ یا اسٹرٹیجک گہرائی سمجھ لیتے ہیں۔ افغانستان کے تاجک، ازبک، ہزارہ برادری کے افغانوں کو ہمارے طاقتور اداروں نے خود اپنی غلط پالیسیوں سے پاکستان کا مخالف بنایا۔ یہ سب کچھ طالبان کی محبت میں کئے گئے غلط اقدامات کی وجہ سے ہوا ہے۔ پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی اداروں کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے پھیلی ہے۔ اگر اب بھی power that be کسی خوش فہمی کا شکار ہیں تو وہ خود دیکھ لیں گے کہ امریکہ، افغانستان اور بھارت کی یہ مثلث مزید کون کون سے کارڈ کھیل کر اور زیادہ سنگین خطرات پاکستان کے لئے پیدا کرے گی۔ وقت آگیا ہے کہ پڑوسی ممالک سے اچھے تعلقات کے لئے کام کیا جائے۔ مذکورہ سفارتکاروں کی مشترکہ تحریر میں کوئی نئی بات نہیں بلکہ گلی محلوں میں بیٹھا عام آدمی تو ایک طویل عرصے سے یہی رونا روتا رہا ہے۔ کیا خلق خدا کی اس آواز کا احترام کیا جائے گا؟ ملک کا عام شہری تو ملک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ سے یہی سوال کر رہا ہے، افغانستان سے دہشت گرد پاکستان میں کیسے داخل ہو جاتے ہیں؟ انہیں نہ روکنا کس کی ناکامی ہے۔؟ سرحدوں کی چوکیداری کیا سویلین حکومت کے تحت ہے؟ خودکش بمبار افغانستان سے تربیت لے کر سندھ کے ضلع شکار پور تک کیسے پہنچ جاتا ہے؟ یہ کس کی ناکامی ہے؟ یہ ایسا داخلی چیلنج ہے جس سے نمٹے بغیر علاقائی چیلنجز سے نمٹا نہیں جاسکے گا!
خبر کا کوڈ : 569197
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

ہماری پیشکش