1
0
Sunday 2 Oct 2016 01:07

دہشتگردی کے مددگاروں کیخلاف انصاف کا بل

دہشتگردی کے مددگاروں کیخلاف انصاف کا بل
تحریر: سید اسد عباس

(JASTA) اس ایکٹ کا نام ہے جو امریکی کانگریس اور سینیٹ نے صدر اوباما کی ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے حال ہی میں منظور کیا ہے۔ صدر اوباما نے اپنے دور صدارت میں گیارہ بلوں کو ویٹو کیا، مگر یہ واحد ایکٹ ہے جسے امریکی سینیٹ اور کانگریس نے ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے منظور کر لیا۔ یہ بل امریکہ میں ہونے والے دہشت گردی کے معروف واقعہ 9/11 کے متاثرین کے پسماندگان کی جانب سے سامنے لایا گیا۔ تجزیہ نگار صدر اوباما کے دور صدارت کے آخری چند ماہ میں اس بل کی منظوری کو اوباما اور سعودی حکومت کے لئے ایک بڑا دھچکا قرار دے رہے ہیں۔ امریکہ کے پالیسی ساز ادارے بالخصوص پینٹاگون اور وائٹ ہاوس اس بل کے شدید مخالف تھے۔ ان کی نظر میں یہ بل پوری دنیا میں امریکی مفادات کے لئے انتہائی نقصان دہ ہو سکتا ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس بل کے نتیجے میں پوری دنیا میں پھیلے امریکی اڈوں، کاروبار کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے، اسی طرح امریکیوں کو بعض ممالک میں حاصل چھوٹ پر بھی زک پہنچ سکتی ہے۔ یہ بل 2015ء میں سینیٹ میں پیش کیا گیا، 17 مئی 2016ء کو یہ بل سینیٹ میں پاس ہوا، 9 ستمبر کو امریکی کانگریس نے اس بل کو پاس کیا، 23 ستمبر کو صدر باراک اوباما نے اس بل کو ویٹو کیا، 28 ستمبر 2016ء کو امریکی سینیٹ نے صدر اوباما کی ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے اس بل کو 97-1 سے منظور کیا، جبکہ امریکی کانگریس نے صدر اوباما کی ویٹو کو مسترد کرتے ہوئے 384-77 کے تناسب سے قانون کا درجہ دے دیا۔

اس بل کے تحت اب امریکی شہری دہشتگردی کے کسی بھی واقعہ بالخصوص 9/11 کے واقعہ میں ملوث کسی بھی ریاست، فرد اور وجود کے خلاف ہرجانے کا دعویٰ کر سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس واقعہ میں ملوث 18 افراد میں سے 15 افراد کا تعلق سعودیہ سے تھا۔ لہذا سعودی حکومت اس بل کے حوالے سے سب سے زیادہ تشویش کا شکار ہے۔ سعودیہ کے لئے اس سے زیادہ باعث تشویش بات یہ ہونی چاہیے کہ اسے دہشتگردی کے سپانسر ملکوں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے۔ امریکہ کی دوستی کچھ اسی قسم کے گل کھلاتی ہے، عرب ریاستوں نے امریکہ کے ہمراہ باہم شیر و شکر ہو گر جہاد افغانستان لڑا، انہی ممالک کی باہمی کوششوں سے عرب مجاہدین افغانستان آئے، پھر ان مجاہدین نے القاعدہ کی بنیاد رکھی، آج داعش، طالبان اور اس قسم کے تمام شدت پسند گروہ اسی نرسری میں پروان چڑھے اور آج امریکہ بہادر اپنے دیرینہ ساتھی اور ہمدم کو مورد الزام ٹھہراتے ہوئے ایک طرف کھڑا ہے اور دہشت گردی کا سارا نزلہ سعودیہ کے سر پھینک چکا ہے۔

جب یہ بل پیش کیا گیا تو سعودی حکومت نے دھمکی دی کہ اگر یہ بل پاس ہوا تو سعودیہ امریکی اداروں میں موجود اپنے 750 بلین ڈالر نکلوا لے گا۔ اس بل سے سعودیہ کے علاوہ دیگر ممالک جن کے باشندے امریکہ میں دہشت گردی میں ملوث رہے ہیں، بھی متاثر ہوسکتے ہیں، کیونکہ بل کے الفاظ درج ذیل ہیں:
The United States has a vital interest in providing persons and entities injured as a result of terrorist attacks committed within the United States with full access to the court system in order to pursue civil claims against persons, entities, or countries that have knowingly or recklessly provided material support or resources, directly or indirectly, to the persons or organizations responsible for their injuries.148
ریاست ہائے متحدہ امریکہ اس بات میں خصوصی دلچسپی رکھتی ہیں کہ وہ افراد اور وجود جو ریاست ہائے متحدہ میں کسی دہشت گردانہ حملے کے نتیجے میں متاثر ہوا ہو کو عدالتی نظام کے تحت افراد، وجود اور ممالک جو جانتے بوجھتے ہوئے یا لاپرواہی کے سبب بلواسطہ یا بلاواسطہ نقصانات کے ذمہ دار افراد اور تنظیموں کو درکار تعاون یا وسائل مہیا کرنے کے مرتکب ہوئے ہیں، کے خلاف دیوانی دعویٰ داخل کرنے کا مکمل حق دیا جائے۔

اس سے قبل امریکہ میں موجود ایک قانون جسے FSIA فارن ساورن امیونٹی ایکٹ کہا جاتا ہے، کے تحت کسی دوسری قوم کے خلاف عدالت کوئی مقدمہ نہیں سن سکتی تھی۔ موجودہ قانون پر اگرچہ اندرونی اور بیرونی طور پر شدید تنقید کی جا رہی ہے، تاہم اس کو دہشت گردی سے جوڑ کر اسے قابل قبول بنانے کی کوشش کی گئی ہے۔ سعودیہ کے علاوہ دیگر کئی ایک ممالک نے اس قانون کو اپنی حاکمیت اور اقتدار اعلٰی کے خلاف قرار دیا ہے۔ اس بل کے حامیوں کا کہنا ہے کہ اس بل کو اس انداز سے ترتیب دیا گیا ہے کہ اس سے فقط سعودیہ ہی متاثر ہوگا۔ تاہم قانونی ماہرین، سیاستدان، سفارتکار اس بات پر زور دے رہے ہیں کہ یہ بل جو اب قانون بن چکا ہے، سعودیہ سے زیادہ خود امریکہ پر اثر انداز ہوگا۔ دیگر ممالک اسی طرح کے بل پاس کرکے امریکی شہریوں اور ریاست کے خلاف اپنی عدالتوں میں ہرجانے کے دعوے کرسکتے ہیں۔

پنٹاگون کو جو چیز زیادہ بے چین کر رہی ہے، وہ امریکہ کے مختلف خلیجی ممالک میں موجود اڈے ہیں۔ اگر اس قانون کے تحت امریکہ کے خلیجی ریاستوں سے تعلقات خراب ہوتے ہیں، جس کے امکانات کافی حد تک پائے جاتے ہیں تو انہیں خدشہ ہے کہ یہ حکومتیں خلیجی ریاستوں میں موجود اڈوں کے حوالے سے تعاون ترک کر دیں گی۔ سعودیہ کی موجودہ مخدوش معاشی صورتحال میں اس طرح کا بل اور اس کے تحت چلنے والا کوئی مقدمہ نیز ہرجانے کا دعویٰ اس ملک کی معیشت کے لئے ایک بڑا دھچکا ہوسکتا ہے۔ فی الحال سعودیہ اپنے معاشی مسائل نیز دفاعی ضروریات کے مدنظر شاید اس بل کے خلاف کوئی بڑا اقدام نہ کرسکے، تاہم یہ خطے کی اس اہم ریاست کے لئے ایک مشکل گھڑی ہے۔ تیل کی مسلسل گرتی قیمتیں، بجٹ خسارہ، امریکہ سے دفاعی معاہدے اور ان کی ادائیگیاں، یمن، شام، عراق کی جنگ پر آنے والے اخراجات، وہابی مکتب کی تبلیغ و ترویج پر آنے والے اخراجات، حجاج کی گذشتہ کے مقابلے میں کم تعداد میں سعودیہ آمد، سعودیہ میں موجود بڑی کمپنیوں کا دیوالیہ پن، ملازمین کی تنخواہوں کی عدم فراہمی، شاہی خاندان کے شاہانہ اخراجات۔ اس پر مستزاد یہ قانون جو بظاہر سعودیہ کے بیرون ملک اثاثوں کو ہتھیانے کی ایک کوشش ہے، ان مشکلات میں سے چند ہیں۔

اس صورتحال میں دو امکانات ہیں، پہلا امکان جو کہ مثبت ہے، وہ یہ کہ سعودی حکومت اپنے حالات کو بہتر بنانے کی خود سے کوئی سبیل کرے، جیسا کہ وہ کرنے کی کوشش کر رہی ہے، نیز یہ کہ نسبتاً مستحکم ہمسایہ ممالک سعودیہ کی مدد کریں۔ دوسرا امکان نہایت خطرناک ہے اور وہ یہ کہ سعودی حکومت کو مغربی قوتیں اور دیرینہ اتحادی موجودہ صورتحال سے نکالیں اور اس کے بدلے میں ان سے مزید فوائد اٹھائیں۔ یہ امکان جاسٹا اور نئے دفاعی معاہدے کی صورت میں ظہور کرتا نظر آرہا ہے۔ خداوند کریم تمام مسلمانوں کے حال پر رحم کرے اور انہیں ہر قسم کی بلا سے محفوظ رکھے۔
خبر کا کوڈ : 571977
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

اشرف سراج گلتری
Norway
بہترین تجزیہ ہے۔
ہماری پیشکش