2
0
Thursday 6 Oct 2016 05:22

یمن کے دارالحکومت میں نئی حکومت کا قیام

یمن کے دارالحکومت میں نئی حکومت کا قیام
تحریر: عرفان علی

بالآخر یمن کے دارالحکومت صنعا میں قومی مفاہمت کی بنیاد پر ایک اتحادی عبوری حکومت کا قیام عمل میں آگیا۔ 28 جولائی 2016ء کو انقلابیوں کی سپریم پولیٹیکل کاؤنسل (ال مجلس السیاسی ال اعلیٰ) قائم کی گئی تھی، جس کے سربراہ صالح ال صماد ہیں اور وہ تاحال اپنے فرائض انجام دے رہی ہے۔ انہوں نے ہی ڈاکٹر عبدالعزیز ال حبتور کو حکومت بنانے کی دعوت دی۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق ان کی سربراہی میں 27 رکنی کابینہ تشکیل پا رہی ہے۔ اس نئی حکومت کے سربراہ یعنی ڈاکٹر حبتور کا تعلق جنوبی یمن سے ہے۔ یاد رہے کہ حوثی زیدی تحریک کا اصل مرکز شمالی یمن ہے۔ حبتور ماضی کے سعودی اتحادی حکمران علی عبداللہ صالح کی جماعت کے سینیئر رکن ہیں اور عدن کے گورنر بھی رہ چکے ہیں۔ ان کی کابینہ میں خارجہ امور کے لئے ابوبکر ال قربی کو منتخب کیا گیا ہے، جو علی عبداللہ صالح کی حکومت میں بھی خدمات انجام دیتے رہے ہیں۔ دفاع کا محکمہ جنرل حسین خیران کے پاس ہے جو انقلابیوں کی سپریم کاؤنسل میں بھی اسی شعبہ کی مسئولیت رکھتے تھے۔ کابینہ میں پانچ خواتین بھی شامل ہوں گی اور شاید یمن کی تاریخ میں ایسا پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ کابینہ میں خواتین کو اتنی زیادہ نمایندگی دی گئی ہے۔ بہت سے وزراء آزاد ہیں۔ یمن کا دارالحکومت صنعا ہے اور اس کا کنٹرول تاحال حوثی زیدی تحریک اور ان کے اتحادیوں کے ہاتھ میں ہے۔

یمن کی حرکت انصار اللہ سید عبدالملک ال حوثی کی زیر قیادت یمن کے دفاع کی جنگ میں مصروف ہے۔ اس تنظیم نے انتہائی سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے جنوبی یمن کے افراد کو شراکت اقتدار میں ایڈجسٹ کیا ہے۔ گو کہ علی عبداللہ صالح ماضی میں سعودی بادشاہت کے اتحادی تھے، لیکن اب وہ بھی تائب ہوکر حوثی تحریک یا حرکت انصار اللہ سے ہاتھ ملا چکے ہیں۔ حوثی زیدی تحریک کی اس قیادت نے یمن کے اتحاد اور خود مختاری کی حفاظت کے لئے کسی پر بھی دروازے بند نہیں کئے۔ تازہ ترین سیاسی ڈیویلپمنٹس میں ایک اہم خبر یہ بھی ہے کہ حاشد قبیلے کے شیوخ سے صالح ال صماد کی ملاقات ہوئی ہے اور انہوں نے اخوت و بھائی چارے کے لئے یمن کے سارے قبائل کے بزرگان کو امن و محبت کا پیغام دیا ہے۔ یکم محرم کو اس تحریک کے قائد سید عبدالملک ال حوثی نے جنوبی یمن کے خواص کو یاد دلایا ہے کہ جو رقوم یمن پر حملہ آور ممالک نے انہیں دی ہے، وہ اس سے کئی گنا کم ہے جو یمن کے قومی وسائل کے مالک ہونے کی حیثیت سے انہیں حاصل ہے۔ انہوں نے یہ نشاندہی بھی کی کہ اماراتی (یعنی متحدہ عرب امارات) نے جنوبی یمن کی اہم تنصیبات پر قبضہ کر رکھا ہے اور جنوبی یمن کے عوام کو سارے اختیارت سے محروم کر دیا ہے۔

صالح ال صماد اور دیگر اہم رہنماؤں سے اقوام متحدہ کے انڈر سیکرٹری برائے امداد انسانی جنرل اسٹیفن برائن کی بھی ملاقات ہوئی ہے، جو یمن میں صنعا و حدیدہ کے دورے پر آئے تھے۔ انہوں نے سعودی عرب کی جانب سے یمن کی سویلین آبادی پر بمباری اور تباہی کی مذمت کی۔ گو کہ اقوام متحدہ کے ایک اور نمائندہ کے ترجمان نے صنعا میں قائم ہونے والی نجات ملی یا وحدت ملی پر مبنی حکومت کو قبول کرنے سے انکار کیا ہے، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ اقوام متحدہ کو انسانی امداد کے سارے کام اسی حکومت کے ساتھ مل کر ہی کرنے ہیں، چاہے اقوام متحدہ ان کی حیثیت تسلیم کرے یا نہ کرے۔ بہرحال یہ ایک عبوری سیٹ اپ ہے۔ ماضی کی معزول حکومت، مستعفی صدر وغیرہ تو یمن سے ویسے ہی فرار کرچکے ہیں اور ان کی مستعفی حکومت کے اراکین بھی دیگر ممالک میں پناہ گزین بن چکے ہیں۔ کسی نہ کسی نے تو یمن کا انتظام سنبھالنا ہی ہے اور دارالحکومت صنعا کی ڈی فیکٹو de facto حکمران تو ویسے بھی حرکت انصار اللہ کی سپریم پولیٹیکل کاؤنسل ہی تھی۔ جب کویت میں مذاکرات کے سارے راؤنڈز بے نتیجہ ختم ہو رہے ہیں تو عبوری حکومت سازی کے علاوہ اس مسئلے کا کوئی اور حل کیا تھا۔؟

سعودی عرب کی روزانہ بمباری اور سویلین آبادیوں کو نشانہ بنانے کے باوجود زمینی حقیقت یہ ہے کہ یمن کی فوج اور پاپولر کمیٹی نہ صرف یہ کہ صنعا پر حکمران ہے بلکہ حیفان، تعز، ال حزم اور ال جوف میں سعودی نواز حملہ آور گروہوں کو کئی محاذوں پر شکست سے دوچار کرچکی ہیں۔ یہ تازہ ترین خبریں ہیں۔ جیزان، نجران اور العسیر جو سعودی علاقے ہیں، وہاں بھی حملہ آور افواج کے ٹھکانوں پر حملہ آور ہیں اور انہیں بھاری نقصانات پہنچا چکے ہیں۔ سعودی بادشاہت کی یہ حالت ہے کہ اب وہ امریکہ سے ڈیڑھ بلین ڈالر کے اسلحے کی خریداری کی درخواست جمع کروا چکے ہیں، جس میں سینکڑوں ٹینک، بکتر بند گاڑیاں اور مشین گنیں بھی شامل ہیں۔ ایسا اس لئے ہے کہ یمن پر سعودی عرب کی مسلط کردہ جنگ کے جواب میں یمن کی فوج اور اس کے اتحادی حوثیوں کی طرف سے جو جوابی کارروائیاں کی گئی ہیں، اس میں بڑی تعداد میں یاد تو امریکی سعودی ٹینک تباہ ہوگئے یا ان کے قبضے میں آگئے۔ سعودی عرب کی حالت یہ ہے کہ وہ شدید ترین مالی خسارے اور اقتصادی بحران کے باوجود یمن پر مسلط کردہ جنگ کو طول دینا چاہتا ہے۔ اس کے خفیہ منصوبوں میں ایک یہ بھی ہے کہ یمن دوبارہ شمالی و جنوبی میں تقسیم ہوجائے اور وہ جنوبی یمن میں اپنی من پسند کٹھ پتلی حکومت قائم کرکے اسے خلیجی تعاون کاؤنسل کا رکن بنوا دے اور امریکہ و برطانیہ کی سفارتی مدد سے اسے دنیا سے تسلیم کروالے اور صنعا کی حکومت کو باغیوں کی حکومت قرار دلوا کر اسے بین الاقوامی فورم پر نمائندگی سے محروم کروا دے۔

مغربی ممالک کی رائے عامہ کو گمراہ کرنے کے لئے سعودی بادشاہت نے یہ طے کر رکھا ہے کہ یمن میں ایرانی مداخلت کا بے بنیاد الزام لگا کر امریکہ و برطانیہ کی حکومتوں کو اپنی حمایت جاری رکھنے پر راضی رکھے۔ یمن جنگ میں دس ہزار عرب مسلمان شہید ہوچکے ہیں۔ اربوں ڈالر کا مالی نقصان بشمول انفراسٹرکچر کا نقصان، لیکن عالم اسلام کے بزرگان اور خواص کی اکثریت خاموش تماشائی ہیں۔ او آئی سی سعودی بادشاہت کی جنگجوئی کو روکنے میں ناکام ہوچکی۔ عرب لیگ بھی او آئی سی کی طرح سعودی عرب کے کنٹرول میں آچکی ہے۔ لیکن یہ یمن ہے۔ یہ سرزمین مقدس اویس قرنی ؓ ہے۔ یعنی اس مناسبت سے یہ مقاومت اسلامی کی مظہر ہے۔ یہ قبل از اسلام عربوں کا مرکز تھی، یعنی یہ عربوں کے تمدن کی علامت ہے۔ نجد کے صحرائی قزاقوں کو کیا معلوم کہ یمن کیا ہے؟ یمن اپنی سرنوشت خود لکھ رہا ہے۔ حضرت زید شہید ؒ کے انقلابی پیروکار یہ تاریخ اپنے خون سے لکھ رہے ہیں۔ اس سرزمین کو خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفٰیﷺ نے اچھے الفاظ میں یاد کیا، اس کے لیے دعا کی۔ اس کو کیسے کوئی برباد کر پائے گا، یہ دھرتی شاد آباد ہی رہے گی۔ یہ مشکل وقت کسی طور گذر ہی جائے گا۔ آل سعود کے ہاتھ اب تک سوائے رسوائی اور ذلت کے آیا کیا ہے، جو آئندہ وہ کامیابی کی امید رکھے بیٹھے ہیں۔

اب تک کی صورتحال یہ حقیقت سمجھنے کے لئے کافی ہے کہ مستضعف ملتیں قیام کریں تو دنیا کی کوئی طاقت انہیں پسپا نہیں کرسکتی۔ یمن کے عوام نے اپنے قائد و رہبر کے حکم پر لبیک کہا ہے۔ وہ اپنے حصے کی قربانی دے چکے۔ مسئلہ بہت چھوٹا سا تھا، شہری حقوق، اقتصادی حقوق، یمن کے قومی وسائل سے حاصل آمدنی کو یمن پر خرچ کرنا، مہنگائی نہ کرنا، بے روزگاری کا خاتمہ، وہی مسائل جو دنیا بھر میں ہوتے ہیں اور دنیا بھر میں حکومتوں سے توقع رکھی جاتی ہے کہ وہ یہ مسائل حل کرے، لیکن یمن کے عوام کو ان مطالبات کے جواب میں بمباری ملی۔ جب فیصلہ میدان جنگ میں ہی ہونا ہے تو پھر یہ فیصلہ جنگ کے انجام پر ہی ہوگا۔ شاید یمن کے یہ انقلابی آل سعود کی بادشاہت اور ان کے کاسہ لیسوں کو یہ پیغام دے رہے ہیں کہ
ہم امن چاہتے ہیں مگر جنگ کے خلاف
گر جنگ لازمی ہے تو پھر جنگ ہی سہی
ظالم کو جو نہ روکے وہ شامل ہے ظلم میں
قاتل کو جو نہ ٹوکے وہ قاتل کے ساتھ ہے
ہم سر بکف اٹھے ہیں کہ حق فتح یاب ہو
کہہ دو اسے جو لشکر باطل کے ساتھ ہے
اس ڈھنگ پہ ہے زور تو یہ ڈھنگ ہی سہی
یہ زر کی جنگ ہے نہ زمینوں کی جنگ ہے
یہ جنگ ہے بقا کے اصولوں کے واسطے
جو خون ہم نے نذر دیا ہے زمین کو
وہ خون ہے گلاب کے پھولوں کے واسطے
پھوٹے گی صبح امن، لہو رنگ ہی سہی
خبر کا کوڈ : 573194
رائے ارسال کرنا
آپ کا نام

آپکا ایمیل ایڈریس
آپکی رائے

عبداللہ
Iran, Islamic Republic of
بہت اچھے عرفان صاحب، اچھا معلوماتی کالم ہے یمن کے حوالے سے، اللہ آپ کی توفیقات میں اضافہ کرے۔ آمین
Pakistan
شکریہ۔ التماس دعا
ہماری پیشکش